طلبا تنظیموں پر پابندی کیوں
طلبا تنظیموں کے حامی عناصر کے نزدیک پاکستان ایک روایت پسند معاشرہ ہے
طلبا تنظیموں پر پابندی ہونی چاہیے یا نہیں، یہ سوال ماضی میں بھی اٹھایا جاتا رہا ہے اور آج بھی یہ معاملہ زیر بحث ہے۔ طلبا تنظیموں کے حامی عناصر کے نزدیک پاکستان ایک روایت پسند معاشرہ ہے۔ ایسے معاشرے میں قدامت پسند عناصر قدآور ہوتے ہیں۔ روایتی معاشرے میں قیادت موروثی یا خاندانی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظام پر چند سو خاندانوں کا قبضہ ہے جن کا تعلق عمومی طور پر جاگیردار، سرمایہ دار، وڈیرے اور گدی نشینوں سے ہے۔
ایسے معاشرے میں متوسط طبقہ جو معاشرے میں انقلابی تبدیلیوں کو لانے کا خواہش مند ہوتا ہے، اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایسے معاشرے میں متوسط طبقے کی قیادت کا وجود میں آنا ناممکن ہوتا ہے، ایسے معاشرے میں تعلیمی اداروں میں جنم لینے والی لیڈر شپ بھی قیادت کا واحد ذریعہ ہے اور متوسط طبقے کی آواز بھی۔ اگر پاکستان میں طلبا تنظیموں پر پابندی عاید کردی گئی تو اس صورت حال میں قیادت کی فراہمی کا واحد ذریعہ ختم ہوجائے گا۔ معاشرہ متوسط طبقے کی قیادت کے حوالے سے بانجھ ہوجائے گا۔ جس کے ملکی سیاست پر برے اثرات مرتب ہوںگے۔
طلبا تنظیموں کے مخالف عناصر اس نکتہ نظر کو تسلیم نہیں کرتے ان کے نزدیک ماضی میں جب تعلیمی اداروں میں طلبا تنظیموں کا وجود نہ تھا۔ تعلیمی ادارے پر امن ماحول میں معاشرے کو اپنے تدریسی عمل کے ذریعے عمل و شعور کی روشنی سے آراستہ کررہے تھے۔ بدقسمتی سے اس کے بعد حالات تبدیل ہوئے۔
طلبا کی ذہن سازی اور اپنے اپنے نظریات کے پرچار کے نام پر ہماری سیاسی، لسانی اور مذہبی جماعتوں نے اپنے اپنے سیاسی مقاصد اور ایجنڈے کی تکمیل کے لیے قوم کے ان معماروں کو اپنی سیاست کا ایندھن بنانے کا فیصلہ کیا اس طرح تعلیمی اداروں میں طلبا ونگ وجود میں آگئے جو بنیادی طور پر ان جماعتوں کے آلہ کار تھے۔ ان طلبا تنظیموں پر سیاسی جماعتوں کی گرفت تھی۔ سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی کے باعث ان طلبا تنظیموں نے پورے تعلیمی اداروں کو اپنی گرفت میں لے۔
اس کے بعد تعلیمی اداروں میں سوائے تعلیم کے سب کچھ تھا، یعنی معاشرے میں سیاسی جماعتوں کے موجود اختلافات، تضادات، تعصب اور نفرت اور باہمی تصادم کا جو آسیب موجود تھا وہ ان طلبا تنظیموں کی صورت میں تعلیمی اداروں میں داخل ہوگیا جس نے نہ صرف تعلیمی اداروں بلکہ تعلیم کو ہی تباہ کرکے رکھ دیا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ طلبا تنظیموں نے بے شمار رہنما معاشرے کو دیے ہیں اور یہ تنظیمیں پاکستان میں متوسط طبقے کی قیادت کا واحد ذریعہ ہیں۔ یہ بات جزوی طور پر درست ہے، کلی طور پر درست بات نہیں ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ طلبا زمانہ طالب علمی میں اپنی عمر کے جس دور میں سیاست میں داخل ہوتے ہیں، اس وقت ان کا ذہن شعور کی اس منزل پر نہیں ہوتا کہ وہ تجزیہ کرکے اپنی سیاسی فکر کا درست تعین کرسکیں۔ وہ عمومی طور پر جذبات کی رو میں بہہ کر ان طلبا تنظیموں کا حصہ بنتے ہیں، کیونکہ ان کا ذہن مسائل کی اصل وجوہات کی تہہ تک پہنچنے اور ان کا حل تلاش کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔ لہٰذا جب انھیں چیلنج پیش آتے ہیں تو ان کی سیاست میں شکایت اور احتجاج کا عنصر غالب آجاتا ہے، جب یہ عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو یہ طرز عمل ان کی نفسیات کا حصہ بن جاتا ہے جو زندگی بھر ان کے ساتھ رہتا ہے۔
آپ پاکستان کے ان سیاسی رہنماؤں کا نام لیں جن کا ماضی طلبا سیاست سے وابستہ رہا ہے یعنی وہ طلبا تنظیموں کے بطن سے پیدا ہوئے ہیں، ان کی سیاست کا تجزیہ کرلیں، آپ کو ان کی سیاست پرامن جدوجہد، حقیقت پسندانہ اور سائنسی انداز فکر کے بجائے احتجاج، ردعمل اور شکایت کا عنصر غالب نظر آئے گا۔ ایسی لیڈر شپ قوم کو ایک ایسے رخ پر ڈھال دیتی ہے جہاں قومیں اپنی قوت کو بے فائدہ ہنگاموں اور خیالی تصورات میں ضایع کردیتی ہیں۔
ان طلبا تنظیموں سے وابستہ نوجوان کیونکہ متوسط طبقے اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جب یہ عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو اعلیٰ طبقات بالخصوص ولایتی پوز رکھنے والوں کی دہشت اور خوف میں آکر اپنی خود اعتمادی کھودیتے ہیں۔ نتیجے میں اعلیٰ قیادت کی خوشآمدی اور چاپلوسی کرکے خود غلط نظام کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان میں بیشتر نوجوان کی اولین ترجیح سرکاری ملازمت کا حصول ہوتا ہے، بقول ایک دانشور ''جو لوگ ہر ماہ کی پہلی تاریخ پر نظر رکھتے ہیں ان کا تاریخ میں کوئی کردار نہیں ہوتا''۔ متوسط طبقہ اپنی ان کمزوریوں کی وجہ سے کوئی انقلابی تبدیلیاں لانے سے قاصر رہتا ہے۔
یہ ہے دونوں جانب کا نکتہ نظر کون درست ہے اور کون غلط، اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کرسکتے ہیں۔ میرے نزدیک متوسط طبقہ پاکستان کا وہ طبقہ ہے، جس میں سماجی اور اجتمالی کا شعور سب سے زیادہ ہے کیونکہ یہ طبقہ مسائل کا شکار ہے۔ اس لیے اس طبقے کو ہی مسائل کا ادراک بھی ہے۔ اور اس کے حل کی تڑپ بھی۔
دنیا میں جو بھی انقلاب آئے ہیں اس میں متوسط طبقے ہی نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ اپنے پاکستان میں ہم انقلابی تبدیلیوں کے خواہاں ہیں تو ہمیں پاکستان میں متوسط طبقے اور اس سے جنم لینے والی قیادت چاہے وہ کسی بھی سطح پر ہو اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ جہاں تک طلبا تنظیموں پر پابندی کا تعلق ہے میری رائے میں طلبا تنظیموں یا یونین طلبا کے مسائل کے حل اور ان کے حقوق کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہیں اس لیے ان پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ البتہ انھیں سیاست سے پاک ہونا چاہیے۔ کیونکہ سیاسی جماعتیں جو ماضی میں نظریات کی بنیاد پر سیاست کرتی تھیں اب نظریات پس پشت چلے گئے ہیں اس کی جگہ ذاتی مفادات نے لے لی ہے۔
یہ صورت حال اب طلبا تنظیموں میں بھی دکھائی دیتی ہے جس بنیادوں پر طلبا تنظیمیں قائم ہوتی تھیں اب اس کا جواز ہی ختم ہوگیا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ طلبا تنظیموں کو سیاست سے پاک کیا جائے اب سوال متوسط طبقے کی قیادت کی فراہمی کا ہے تو یاد رکھیے سیاسی رہنما فطری مطالبہ کے تحت پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی حالات اور واقعات رہنما کا روپ دھارلیتے ہیں انھیں تعلیمی اداروں یا کسی اکیڈمی میں پیدا نہیں کیا جا سکتا۔
ایسے معاشرے میں متوسط طبقہ جو معاشرے میں انقلابی تبدیلیوں کو لانے کا خواہش مند ہوتا ہے، اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایسے معاشرے میں متوسط طبقے کی قیادت کا وجود میں آنا ناممکن ہوتا ہے، ایسے معاشرے میں تعلیمی اداروں میں جنم لینے والی لیڈر شپ بھی قیادت کا واحد ذریعہ ہے اور متوسط طبقے کی آواز بھی۔ اگر پاکستان میں طلبا تنظیموں پر پابندی عاید کردی گئی تو اس صورت حال میں قیادت کی فراہمی کا واحد ذریعہ ختم ہوجائے گا۔ معاشرہ متوسط طبقے کی قیادت کے حوالے سے بانجھ ہوجائے گا۔ جس کے ملکی سیاست پر برے اثرات مرتب ہوںگے۔
طلبا تنظیموں کے مخالف عناصر اس نکتہ نظر کو تسلیم نہیں کرتے ان کے نزدیک ماضی میں جب تعلیمی اداروں میں طلبا تنظیموں کا وجود نہ تھا۔ تعلیمی ادارے پر امن ماحول میں معاشرے کو اپنے تدریسی عمل کے ذریعے عمل و شعور کی روشنی سے آراستہ کررہے تھے۔ بدقسمتی سے اس کے بعد حالات تبدیل ہوئے۔
طلبا کی ذہن سازی اور اپنے اپنے نظریات کے پرچار کے نام پر ہماری سیاسی، لسانی اور مذہبی جماعتوں نے اپنے اپنے سیاسی مقاصد اور ایجنڈے کی تکمیل کے لیے قوم کے ان معماروں کو اپنی سیاست کا ایندھن بنانے کا فیصلہ کیا اس طرح تعلیمی اداروں میں طلبا ونگ وجود میں آگئے جو بنیادی طور پر ان جماعتوں کے آلہ کار تھے۔ ان طلبا تنظیموں پر سیاسی جماعتوں کی گرفت تھی۔ سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی کے باعث ان طلبا تنظیموں نے پورے تعلیمی اداروں کو اپنی گرفت میں لے۔
اس کے بعد تعلیمی اداروں میں سوائے تعلیم کے سب کچھ تھا، یعنی معاشرے میں سیاسی جماعتوں کے موجود اختلافات، تضادات، تعصب اور نفرت اور باہمی تصادم کا جو آسیب موجود تھا وہ ان طلبا تنظیموں کی صورت میں تعلیمی اداروں میں داخل ہوگیا جس نے نہ صرف تعلیمی اداروں بلکہ تعلیم کو ہی تباہ کرکے رکھ دیا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ طلبا تنظیموں نے بے شمار رہنما معاشرے کو دیے ہیں اور یہ تنظیمیں پاکستان میں متوسط طبقے کی قیادت کا واحد ذریعہ ہیں۔ یہ بات جزوی طور پر درست ہے، کلی طور پر درست بات نہیں ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ طلبا زمانہ طالب علمی میں اپنی عمر کے جس دور میں سیاست میں داخل ہوتے ہیں، اس وقت ان کا ذہن شعور کی اس منزل پر نہیں ہوتا کہ وہ تجزیہ کرکے اپنی سیاسی فکر کا درست تعین کرسکیں۔ وہ عمومی طور پر جذبات کی رو میں بہہ کر ان طلبا تنظیموں کا حصہ بنتے ہیں، کیونکہ ان کا ذہن مسائل کی اصل وجوہات کی تہہ تک پہنچنے اور ان کا حل تلاش کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔ لہٰذا جب انھیں چیلنج پیش آتے ہیں تو ان کی سیاست میں شکایت اور احتجاج کا عنصر غالب آجاتا ہے، جب یہ عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو یہ طرز عمل ان کی نفسیات کا حصہ بن جاتا ہے جو زندگی بھر ان کے ساتھ رہتا ہے۔
آپ پاکستان کے ان سیاسی رہنماؤں کا نام لیں جن کا ماضی طلبا سیاست سے وابستہ رہا ہے یعنی وہ طلبا تنظیموں کے بطن سے پیدا ہوئے ہیں، ان کی سیاست کا تجزیہ کرلیں، آپ کو ان کی سیاست پرامن جدوجہد، حقیقت پسندانہ اور سائنسی انداز فکر کے بجائے احتجاج، ردعمل اور شکایت کا عنصر غالب نظر آئے گا۔ ایسی لیڈر شپ قوم کو ایک ایسے رخ پر ڈھال دیتی ہے جہاں قومیں اپنی قوت کو بے فائدہ ہنگاموں اور خیالی تصورات میں ضایع کردیتی ہیں۔
ان طلبا تنظیموں سے وابستہ نوجوان کیونکہ متوسط طبقے اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جب یہ عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو اعلیٰ طبقات بالخصوص ولایتی پوز رکھنے والوں کی دہشت اور خوف میں آکر اپنی خود اعتمادی کھودیتے ہیں۔ نتیجے میں اعلیٰ قیادت کی خوشآمدی اور چاپلوسی کرکے خود غلط نظام کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان میں بیشتر نوجوان کی اولین ترجیح سرکاری ملازمت کا حصول ہوتا ہے، بقول ایک دانشور ''جو لوگ ہر ماہ کی پہلی تاریخ پر نظر رکھتے ہیں ان کا تاریخ میں کوئی کردار نہیں ہوتا''۔ متوسط طبقہ اپنی ان کمزوریوں کی وجہ سے کوئی انقلابی تبدیلیاں لانے سے قاصر رہتا ہے۔
یہ ہے دونوں جانب کا نکتہ نظر کون درست ہے اور کون غلط، اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کرسکتے ہیں۔ میرے نزدیک متوسط طبقہ پاکستان کا وہ طبقہ ہے، جس میں سماجی اور اجتمالی کا شعور سب سے زیادہ ہے کیونکہ یہ طبقہ مسائل کا شکار ہے۔ اس لیے اس طبقے کو ہی مسائل کا ادراک بھی ہے۔ اور اس کے حل کی تڑپ بھی۔
دنیا میں جو بھی انقلاب آئے ہیں اس میں متوسط طبقے ہی نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ اپنے پاکستان میں ہم انقلابی تبدیلیوں کے خواہاں ہیں تو ہمیں پاکستان میں متوسط طبقے اور اس سے جنم لینے والی قیادت چاہے وہ کسی بھی سطح پر ہو اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ جہاں تک طلبا تنظیموں پر پابندی کا تعلق ہے میری رائے میں طلبا تنظیموں یا یونین طلبا کے مسائل کے حل اور ان کے حقوق کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہیں اس لیے ان پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ البتہ انھیں سیاست سے پاک ہونا چاہیے۔ کیونکہ سیاسی جماعتیں جو ماضی میں نظریات کی بنیاد پر سیاست کرتی تھیں اب نظریات پس پشت چلے گئے ہیں اس کی جگہ ذاتی مفادات نے لے لی ہے۔
یہ صورت حال اب طلبا تنظیموں میں بھی دکھائی دیتی ہے جس بنیادوں پر طلبا تنظیمیں قائم ہوتی تھیں اب اس کا جواز ہی ختم ہوگیا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ طلبا تنظیموں کو سیاست سے پاک کیا جائے اب سوال متوسط طبقے کی قیادت کی فراہمی کا ہے تو یاد رکھیے سیاسی رہنما فطری مطالبہ کے تحت پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی حالات اور واقعات رہنما کا روپ دھارلیتے ہیں انھیں تعلیمی اداروں یا کسی اکیڈمی میں پیدا نہیں کیا جا سکتا۔