پی ایس ایل فائنل قوم کے آہنی عزم کا معرکہ

مشکل فیصلے کو درست ثابت کرنے کا وقت آگیا

دہشت گردی کی وجہ سے کرکٹ کے متاثر ہونے کے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے۔ فوٹو؛ فائل

پاکستان کرکٹ کو فکسنگ اور انتظامی خرابیوں کی وجہ سے پہنچنے والے نقصان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن سب سے کاری ضرب دہشت گردی نے لگائی ہے۔

مئی 2002 میں نیوزی لینڈ کی ٹیم 3 ٹیسٹ میچ کھیلنے کے لیے پاکستان آئی تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ دہشت گردی کا عفریت ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کو نگلنے کے درپے ہے، لاہور کی کڑکڑاتی دھوپ میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میں ٹھنڈے کیوی دیس کی ٹیم کے ساتھ جو سلوک ہونا چاہئے تھا وہی ہوا، انضمام الحق نے ٹرپل سنچری بنائی اور پاکستان یہ میچ باآسانی اننگز اور 324 رنز سے جیت گیا.

دوسرے ٹیسٹ کے لیے دونوں ٹیمیں کراچی پہنچ چکی تھیں کہ میچ سے ایک دن پہلے 8 مئی کی صبح کو ہوٹل کے باہر ایک دھماکے میں 11 فرانسیسی انجینئرز ہلاک ہو گئے، نیوزی لینڈ کی ٹیم خوف و ہراس میں مبتلا ہو کر دورہ ختم کر کے واپس چلی گئی، اگلے سیزن میں آسڑیلیا نے پاکستان کا دورہ کرنے سے انکار کر دیا.

پی سی بی نے ہنگامی طور پرآسٹریلوی بورڈ کو راضی کر لیا کہ سری لنکا اور شارجہ میں کھیل لے،یوں کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار کسی ملک نے اپنی ہوم سیریز ملک سے باہر کھیلی۔ پاکستان کو تینوں ٹیسٹ میچز میں شکست ہوئی، ایک تو کینگروز کی ٹیم بہت مضبوط تھی، دوسرے گرین کیپس ملک سے باہر کھیلنے پر بہت پریشان اور پلان سے عاری تھے، یہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ ختم ہونے کا پہلا مرحلہ تھا، نیوٹرل وینیوز کو ہوم گراؤنڈ تصور کر لیا گیا تاکہ آئی سی سی کے فیوچر ٹور پروگرام میں پاکستان اپنے میچز کی میزبانی اور پی سی بی ریونیو سے مکمل طور پر محروم نہ ہو جائے.

3سال بعد پی سی بی نے آئی سی سی اور دوسرے بورڈز کو پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لیے قائل کر لیا، اس کے بعد انگلینڈ، بھارت اور جنوبی افریقہ کیخلاف ہوم سیریز کا موقع ملا لیکن ورلڈ کپ 1987 اور 1996کی میزبانی کا اعزاز رکھنے والے ملک نے3 مارچ 2009 کا منحوس دن دیکھ لیا،سری لنکن ٹیم پر لاہور کی لبرٹی مارکیٹ پر دہشت گردوں کا حملہ ہوگیا، 6مہمان کرکٹرز، ایک پاکستانی امپائر اور انگلش میچ ریفری زخمی ہوگئے۔

اس حملے نے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ پر کاری ضرب لگا دی، نامکمل لاہور ٹیسٹ کے بعد سے پی سی بی نے اپنی تمام ہوم سیریزیں متحدہ عرب امارات میں کروائیں، تاہم 2010 میں آسٹریلیا کے خلاف ایک سیریز انگلینڈ میں بھی ہوئی۔

گزشتہ 10سال میں ٹوئنٹی کرکٹ کی مقبولیت کے پیش نظر کئی ملکوں نے اپنی لیگز شروع کیں تو پاکستان نے بھی سپر لیگ کا پلان بنالیا،غیرملکی کرکٹرز، میچ آفیشلز، انٹرنیشنل میڈیا ، سپانسرزاور شائقین کے انکار کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس ایونٹ کی میزبانی بھی یواے ای میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اولین ایڈیشن کی طرح دوسری بار بھی مقابلے امارات میں ہوئے لیکن پھر اچانک فیصلہ کیا گیا کہ فائنل لاہور میں ہو گا، یہ فیصلہ کتنا درست یا کتنا غلط ہے اس کا اندازہ میگا ایونٹ کے بخیر و خوبی ہو جانے سے ہوگا۔


پاکستان کی رائے عامہ اس اقدام کے بارے میں منقسم ہے۔ جو اس کے حق میں ہیں وہ دو اہم دلیلیں دیتے ہیں، ایک یہ کہ اس سے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے دروازے کھلیں گے، دوسری کہ دہشت گردوں اور ان کی سرپرستی کرنے والوں کو یہ پیغام جائے گا کہ وہ پاکستانی قوم کی آہنی عزم کو شکست نہیں دے سکتے۔ دوسری جانب ایک موقف ہے کہ اتنی سیکورٹی میں تو عراق اور شام میں بھی میچ کرایا جا سکتا ہے،ہزاروں بندوقوں کے سائے میں فائنل کرانے سے دنیا کو امن کا نہیں بلکہ یہ پیغام جائے گا کہ یہ اتنا غیر محفوظ ملک ہے کہ ایک میچ کے لیے پورے شہر کو قلعہ میں تبدیل کرنا پڑتا ہے۔

دونوں فریقین کے دلائل اپنی اپنی جگہ با وزن ہیں اور انہیں یکسر مسترد کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی قبول کر سکتے ہیں بلکہ لاہور میں میچ کرانے کو بھی ایک سکہ کی طرح ہی دیکھنا چاہیے جس کے دو رخ ہوتے ہیں۔ اس سارے قضیہ میں اہلیانِ لاہور بری طرح متاثر ہوئے ہیں، لوگوں کے کاروبارِ زندگی معطل، روزانہ اجرت پر کام کرنے والے محنت کش، سکول کالج کے طالب علم اور دفاتر میں کام کرنے والے لوگ پریشان ہوئے ہیں، ان میں سے کئی قربانی کا جذبہ لیے سب ملک و قوم کے لیے سب کچھ برداشت کرنے کی بات کرتے بھی نظر آتے ہیں۔

دہشت گردی کی وجہ سے کرکٹ کے متاثر ہونے کے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے، آئرش ری پبلکن آرمی والے انگلینڈ میں بم دھماکے کرتے تھے، 1973 میں ویسٹ انڈیز اور 1974 میں پاکستان کے خلاف لارڈز ٹیسٹ میں بم کی اطلاع پر سٹیڈیم خالی کرایا گیا، سری لنکا میں خانہ جنگی کے دوران 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں کئی غیر ملکی ٹیموں نے کھیلنے سے انکار کیا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز نہیں گئے لیکن پاکستان، بھارت، انگلینڈ اور زمبابوے کے ٹورز کی وجہ سے سری لنکا مکمل تنہائی سے بچا رہا۔

1996 ورلڈ کپ کی میزبانی پاکستان، بھارت اور سری لنکا نے مشرکہ طور پر کی تھی، آسڑیلیا اور ویسٹ انڈیز نے سری لنکا نہ جا کر اپنے پوائنٹس قربان کئے، اس میگا ایونٹ کا فائنل قذافی سٹیڈیم میں ہوا، ٹائٹل آئی لینڈرز کے نام رہا، بھارت کے شہر ممبئی میں 26 نومبر 2008 کو دہشت گردوں کا حملہ ہوا تو اس وقت آئی سی ایل چیمپئن شپ ہو رہی تھی، نہ صرف یہ ایونٹ منسوخ ہوا بلکہ چند ماہ بعد ہونے والا آئی پی ایل کا دوسرا ایڈیشن بھی جنوبی افریقہ منتقل کر دیا گیا تھا۔

ممبئی حملوں کی وجہ سے جنوری 2009 میں بھارت نے اپنا دورہِ پاکستان منسوخ کیا تو پی سی بی نے متبادل کے طور پر سری لنکا کو ٹیسٹ سیریز کھیلنے کے لیے راضی کیا تھا کہ سانحہ لبرٹی پیش آ گیا،اسی برس پاکستان میں شیڈول کی گئی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی بھی پاکستان کے ہاتھ سے گئی، اگلے سیزن کے اوائل میں جنوبی افریقہ نے انکار کیا جبکہ اواخر میں آسٹریلیا کیخلاف سیریز انگلینڈ منتقل ہوئی، اس کے بعد سے پاکستان نے اپنی تمام ہوم سیریز امارات میں ہی کھیلی ہیں،اس کا جواب فی الحال کوئی نہیں دے سکتا کہ پاکستان کی سرزمین پر انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کے لیے مزید کتنا عرصہ درکار ہوگا۔

میونخ اولمپکس 1972 کے دوران 7 اسرائیلی اتھلیٹس کو قتل کر دیا گیا لیکن گیمز مکمل ہوئے، برطانیہ میں آئرش ری پبلکن آرمی نے سینکڑوں دھماکے کئے اور پھرلندن میں 2005 میں 7/7 ہوا لیکن وہاں کرکٹ جاری رہی حالانکہ اس روز آسٹریلوی ٹیم لندن میں ہی تھی، امریکا میں 9/11 کے بعد گالف کا رائڈر کپ بھی مختصر عرصہ کے لیے ملتوی ہوا، ممبئی دھماکوں کے بعد بھارت میں بھی انٹرنیشنل کرکٹ کا تعطل بہت عارضی رہا اور سری لنکا کی خانہ جنگی کے دوران بھی عالمی کرکٹ جزوی طور پر برقرار رہی لیکن پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں مسائل کے سبب بحالی کا سفر بہت سست رو رہا۔

پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں کرانے کا فیصلہ تو کر لیا گیا ہے لیکن جس طرح لاہور کو ایک قلعہ میں تبدیل کیا گیا ہے اس کو دیکھ کر بی بی سی کے کمنٹیٹر جوناتھن ایگنیو لے کا ایک جملہ یاد آتا ہے، 2008 میں ممبئی حملہ کے بعد انگلینڈ کے دورہ بھارت کے موقع پر ممبئی اور چنائی ٹیسٹ میچوں کے موقع پر کئے جانے والے سیکورٹی انتظامات پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق انگلش ٹیسٹ کرکٹر نے کہا تھا کہ کرکٹ میچ کرانے کے لیے جس طرح گراؤنڈ اور ہوٹل کو قلعہ میں تبدیل کیا گیا اس سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ کرکٹ ہار گئی اور دہشت گردی جیت گئی ہے۔

اللہ کرے! پاکستان سے دہشت گردی کو ہمیشہ کے لیے شکست فاش ہو اور یہاں کے گراؤنڈز کو قلعہ میں تبدیل کرنے کی نوبت پھر کبھی نہ آئے، انشااللہ آخری جیت پاکستانی قوم اور کرکٹ کی ہی ہوگی۔
Load Next Story