بحرانوں میں گرفتار عوام کہاں جائیں

گندم کی پیداوار میں خودکفیل ملک میں آٹے کا بحران تو سرے سے پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے۔

بہتر حکومتی انتظامات ا ور آٹا کی اسمگلنگ کی روک تھام کر کے صورتحال کو قابو کیا جا سکتا ہے۔ فوٹو : اے ایف پی / فائل

موسم سرما میں جہاں سردی کی شدت کے پچاس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں، وہیں بجلی وگیس، سی این جی اور آٹا بحرانوں کے رونما ہونے سے عوام کے اذیت میں مبتلا ہونے کے تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا بجا ہو گا کہ اس بار سردی کا موسم پاکستانی قوم کے لیے ایک کڑی آزمائش لے کر آیا ہے۔ رہی سہی کسرکراچی میں امن و امان کی ابتر صورتحال نے پوری کر دی ہے۔ ملک کے متعدد شہروں میں آٹے کے بحران نے نیا جنم لیا ہے، اور عوام بنیادی غذائی ضرورت کے حصول کے لیے پریشان نظر آ رہے ہیں اور نان جویں کے لالے پڑ گئے ہیں، پنجاب میں بیس کلو کا تھیلا چالیس روپے مہنگا کر دیا گیا ہے۔

کراچی میں آٹا 45، لاہور40 اور پشاور38 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ بعض مقامات پر تو شہریوں کو آٹا کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔ تندور مالکان نے روٹی کی قیمت میں دو روپے اضافہ کر دیا ہے۔ بحران کا اہم عنصر روزانہ کی بنیاد پر پندرہ سے بیس ٹرک آٹا افغانستان اسمگل کرنا بتایا جاتا ہے۔ گندم کی پیداوار میں خودکفیل ملک میں آٹے کا بحران تو سرے سے پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے، بہتر حکومتی انتظامات ا ور آٹا کی اسمگلنگ کی روک تھام کر کے صورتحال کو قابو کیا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صنعتی شہر میںجاری بدامنی، بھتہ مافیا کی کارروائیوں اور جرائم کی شرح میں بے پناہ اضافے اور حکومتی سطح پر امن و امان کی صورتحال پر قابو نہ پانے کے باعث 30ہزار سے زائد تاجروں نے اپنا صنعتی و تجارتی یونٹوں سمیت سرمایہ لاہور یا بیرون ملک منتقل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یہ سب ایک دن میں نہیںہوا، اس کے پیچھے ساڑھے چار سال سے جاری بدامنی کا تسلسل اور حکومت سندھ کی مجرموں کے سامنے بے بسی و لاچارگی کا عنصر نمایاں ہے۔


صورتحال کی سنگینی کا اندازہ تو اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ تاجروں کو سرِعام اغوا کر لیا جاتا ہے اور بھاری تاوان کی ادائیگی کے بعد ان کی رہائی ممکن ہوتی ہے بھتہ دینے سے انکار پر تاجر مجرموں کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں اور حکومت تجارتی علاقوں میں پولیس چوکیوں کے قیام اور اہلکاروں کے گشت کے دلاسے دے کر تاجر برادری کو احتجاج سے روک لیتی ہے۔ ان ہی منفی باتوں کا شاخسانہ ہے کہ کراچی کے بیشتر اہم تجارتی علاقوں میں جائیدادوںکی قیمتیں تشویشناک حد تک کم ہو گئی ہیں۔ ملک بھر میں سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی سی این جی کے بحران نے عوام کو ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا ہے۔

ملک بھر کی سڑکوں سے 70فیصد ٹرانسپورٹ غائب ہونے کے سبب مزدور طبقے کی صنعتوں، فیکٹریوں، کارخانوں اور دفاتر تک رسائی تقریباً ناممکن ہو گئی ہے۔ صنعتی پہیہ جام ہوتا جا رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سی این جی سیکٹر میں مالکان اور صارفین کی کل 190 ارب روپے کی سرمایہ کاری ڈوبنے کے خدشات سر اٹھا رہے ہیں حالانکہ 38 لاکھ سے زائد گاڑیاں اور پانچ لاکھ سے زائد ملازمین اس سیکٹر سے منسلک ہیں۔ دوسری جانب گیس کی فراہمی میں رکاوٹ کے باعث کنفکشنری کی پیداوار میں 60 فیصد کمی سے یومیہ نقصان 10 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے 48لاکھ خاندانوں کے بے روزگارہونے کا خدشہ ہے۔ امن و امان کی ابتر صورتحال ہو یا توانائی کا بڑھتا ہوا بحران یہ سب عوامل سبب بنتے ہیں عوام کے مصائب و آلام میں اضافے اور معیشت کی تباہی کا۔

جو افراد کچھ اسباب رکھتے ہیں وہ تو پہلے ہی ملک کی مخدوش ہوتی ہوئی صورتحال کے موجب اپنا مال و اسباب سمیٹ کر بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ رہ جاتے ہیں دکھ جھیلنے کو عوام جن کا نہ کوئی پرسان حال ہے نہ غمگسار۔ ہر درد مند اور وطن سے محبت رکھنے والا شخص ملک کے دگرگوں حالات سے پریشان ہے۔ جمہور کے دکھوں کا احساس ان کی منتخب کردہ نمایندہ حکومت کے ارباب اختیار نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا؟ حکومت نے سنجیدگی سے ان معاملات کو درست نہ کیا تو اس کے بڑے سنگین نتائج عوام کی زندگیوں اور ملکی معیشت پر ہوں گے۔ ہم ان سطور کے ذریعے پرامید ہیں کہ جلد ہی مثبت اقدامات کے ذریعے توانائی کے بحران اور امن و امان کی صورتحال پر قابو پا لیا جائے گا۔
Load Next Story