واہ کیا کمر توڑی ہے
حاضرین و ناظرین … آج کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ دہشت گردی کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔
سامعین و ناظرین ... ہمارے مقبول ترین چینل ''ہیاں سے ہواں تک'' کا مقبول ترین پروگرام ''چونچ بہ چونچ'' پیش خدمت ہے حسب معمول اس میں تجزیہ نگار اور دانشور تو وہی ہیں ... یعنی یہ جو سامنے پھیلے ہوئے ہیں مشہور ماہر جنات و تعویزات و عملیات نیز ازدواجیات حضرت علامہ بریانی کدو سرہ ہیں اور اس دوسرے کو بھی آپ جانتے ہیں، ماہر سیاسیات، سماجیات و خرافات چشم گل چشم عرف قہر خداوندی، آج ہمارے مہمان خصوصی مشہور آرتھو پیڈک یعنی ماہر امراض ہڈی پٹھہ و جوڑ جناب ڈاکٹر چکنا چور ہیں، ہاں تو جناب ڈاکٹر چکنا چور صاحب یہ خبر تو آپ نے سن ہی لی ہو گی کہ دہشت گردی کی کمر توڑ دی گئی ہے۔
ڈاکٹر : جی جناب وزیر داخلہ کو میں مبارک باد دیتا ہوں کہ واہ کیا کمر توڑی ہے کوئی کمر توڑنا ان ہی سے سیکھے، گردن کے پہلے مہرے سے لے کر دم کے آخری مہرے تک دہشت گردی کی کمر کا ہر مہرہ چکنا چور کر دیا گیا ہے۔
چشم : مگر کے پی کے، کے وزیر تو کہتے ہیں بلکہ پانچ سال سے کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردی کی کمر ہم نے توڑی ہے۔
علامہ : دیکھو ناہنجار نابکارچشم گل یہ بہت بری بات ہے کے پی کے، کے وزراء پر الزام تراشی بری بات ہے ۔
چشم : مگر میں تو دہشت گردی کی کمر کی بات کر رہا ہوں جو انھوں نے توڑی ہے وہ خود کہہ رہے ہیں۔
علامہ : وہ تو ویسے ہی ان کو لکھ کر بیان دیا گیا تھا اور وہ پڑھتے رہے ورنہ ان بے چاروں کو تو یہ بھی پتہ نہیں کہ دہشت گردی کی کمر کہاں ہے، ہے بھی یا نہیں۔
اینکر : یہ تو وہ بات ہو گئی کہ
سنا ہے یہ کہ ان کی بھی کمر ہے
کہاں سے کس طرف ہے اور کدھر ہے
علامہ : وہ تو کسی محبوب نامی شخص کی کمر کے بارے میں غالب نے بھی کہا تھا کہ
ہے کیا جو کس کے باندھیے میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری کمر کو میں
اینکر : آپ ذرا چپ رہئے ہم ڈاکٹر صاحب سے کمر کے بارے میں کچھ سننا چاہتے ہیں، آپ بتائیں ڈاکٹر صاحب واقعی دہشت گردی کی کمر تھی اور کیا واقعی وہ توڑ دی گئی ہے اور کس نے توڑی ہے، کے پی کے والوں نے یا رحمن ملک نے ؟
ڈاکٹر : دیکھیے یہ ایک ٹیکنیکل بلکہ میڈیکل بلکہ سرجیکل معاملہ ہے اور اس پر صرف وہی لوگ بات کر سکتے ہیں جو ان معاملات کے ماہر ہیں۔
چشم : جیسے آپ ... کیوں کہ سنا ہے آپ بھی اپنے مریضوں کی کمر اپنی فیس سے توڑتے ہیں۔
علامہ : بدزبان، بد سرمست، بدایمان شخص اپنا منہ بند رکھ ورنہ تمہارے منہ میں بھی بتیس ہڈیاں توڑنے کے لائق ہیں۔
چشم : علامہ میں جانتا ہوں آپ ڈاکٹر کی طرف داری کیوں کر رہے ہیں کیوں کہ آپ بھی اپنی کمر کا علاج ان سے کروا رہے ہیں لیکن میں آپ کو بتا دوں کہ آپ کی کمر بیماری کی وجہ سے نہیں بلکہ بار برداری کی وجہ سے دکھتی ہے۔
اینکر : بار برداری کیا مطلب؟
چشم : ذرا ان کا شکم مبارک دیکھیے پورے چار من کی لاش اور کمر کے مہرے وہی ۔
ڈاکٹر : یہ آپ کیا جاہلانہ بات کر رہے ہیں۔
اینکر : ہاں ڈاکٹر صاحب آپ بتائیں کہ اگر دہشت گردی کی کمر رحمن ملک نے توڑی تھی تو صوبائی حکومت نے کیا توڑا تھا یا وہ کس کی کمر تھی۔
ڈاکٹر : میرے خیال میں دونوں صحیح کہہ رہے ہیں لیکن میں رحمن ملک کے بارے میں کہوں گا کہ واہ کیا کمر توڑی ہے کمر توڑنا کوئی آپ سے سیکھے۔
اینکر : دونوں صحیح کس طرح ہیں۔
ڈاکٹر : اصل میں چوٹی سے دم تک کئی مہرے ہوتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ٹوٹے اسے کمر ٹوٹنا کہتے ہیں۔
چشم : گویا پہلے کچھ مہرے کے پی کے والوں نے توڑے تھے بعد میں ...
علامہ : تم چپ نہیں رہ سکتے؟
چشم : میں یہاں چپ رہنے کے لیے نہیں آیا ہوں۔
علامہ : (اینکر سے) آپ جاہل لوگوں کو کیوں بلاتے ہیں۔
اینکر : نہیں مسٹر ناہنجار جاہل تو نہیں ہیں۔
چشم : کم از کم تم سے تو زیادہ پڑھا لکھا ہوا ہوں پرانا چہارم پاس ہوں ... اور تم تو...
علامہ : میں عالم ہوں بلکہ علامہ ہوں۔
چشم : اپنے منہ میاں مٹھو...
اینکر : دیکھیں آپ ڈاکٹر صاحب کو کمر کے موضوع پر بولنے دیں جی ڈاکٹر صاحب...
ڈاکٹر : میرا خیال ہے کہ صوبائی حکومت والے بھی سچ کہتے ہیں اور جناب رحمن ملک بھی غلط نہیں کہتے۔
اینکر : وہ کیسے؟
ڈاکٹر : میرے خیال میں صوبائی حکومت نے بھی دہشت گردی کی کمر کے کچھ مہرے توڑے ہوں گے
اینکر : تقریباً کتنے؟
ڈاکٹر : ا گر فی وزیر ایک مہرہ فرض کر لیں تو چار پانچ تو توڑے ہوں گے۔
چشم : مگر وزیر تو بہت ہیں۔
علامہ : وہ کچھ اور توڑتے ہوں گے۔
ڈاکٹر : ہاں ضروری نہیں کہ ہر وزیر صرف مہرے ہی توڑے اور بھی توڑنے کو بہت کچھ ہے۔
اینکر : جہاں تک میری معلومات ہیں دہشت گردی کی کمر توڑنے کا پراجیکٹ چار پانچ وزیروں کے پاس تھا۔
ڈاکٹر : میرا بھی یہی خیال ہے بہرحال صوبائی حکومت نے جتنے بھی مہرے توڑے ہوں لیکن اس سے دہشت گردی کی کمر نہیں ٹوٹی یا یوں کہئے کہ جزوی طور پر کمر ٹوٹی تھی۔
اینکر : یقیناً یہی بات ہے ورنہ جناب رحمن ملک کیا توڑتے ہیں۔
ڈاکٹر : واہ کیا کمر توڑی ہے کوئی کمر توڑنا ان سے ہی سیکھے۔
چشم : آپ نے وہ ٹوٹی ہوئی کمر دیکھی ہے۔
علامہ : بغیر فیس کے کیسے دیکھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر : ہاں مریض کو میرے پاس لایا نہیں گیا ہے لیکن پھر بھی میں کہوں گا کہ واہ کیا کمر توڑی ہے کمر توڑنا کوئی ان سے سیکھے۔
اینکر : آپ کا مطلب ہے جناب رحمن ملک کا بیان سچ ہے ۔
ڈاکٹر : یقیناً کیوں کہ وزیر لوگ جھوٹ تو بولتے نہیں صرف سچ بولتے ہیں اور سچ کے سوا کچھ نہیں بولتے۔
علامہ : تو پھر جھوٹ کون بولتا ہے؟
ڈاکٹر : اپوزیشن والے...
اینکر : گویا ہم سمجھ لیں کہ دہشت گردی کی کمر واقعی ٹوٹ گئی ہے اور رحمن ملک صاحب نے توڑی۔
ڈاکٹر : بالکل ... اور واہ کیا کمر توڑی ہے کمر توڑنا تو کوئی ان سے سیکھے...
اینکر : حاضرین و ناظرین ... آج کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ دہشت گردی کی کمر ٹوٹ چکی ہے پہلے صوبائی حکومت ایک ایک مہرہ توڑتی رہی پھر جناب رحمن ملک نے لوہار کی ایک لگائی اور کمر کے سارے مہرے چکنا چور ہو گئے۔
ڈاکٹر : جی جناب وزیر داخلہ کو میں مبارک باد دیتا ہوں کہ واہ کیا کمر توڑی ہے کوئی کمر توڑنا ان ہی سے سیکھے، گردن کے پہلے مہرے سے لے کر دم کے آخری مہرے تک دہشت گردی کی کمر کا ہر مہرہ چکنا چور کر دیا گیا ہے۔
چشم : مگر کے پی کے، کے وزیر تو کہتے ہیں بلکہ پانچ سال سے کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردی کی کمر ہم نے توڑی ہے۔
علامہ : دیکھو ناہنجار نابکارچشم گل یہ بہت بری بات ہے کے پی کے، کے وزراء پر الزام تراشی بری بات ہے ۔
چشم : مگر میں تو دہشت گردی کی کمر کی بات کر رہا ہوں جو انھوں نے توڑی ہے وہ خود کہہ رہے ہیں۔
علامہ : وہ تو ویسے ہی ان کو لکھ کر بیان دیا گیا تھا اور وہ پڑھتے رہے ورنہ ان بے چاروں کو تو یہ بھی پتہ نہیں کہ دہشت گردی کی کمر کہاں ہے، ہے بھی یا نہیں۔
اینکر : یہ تو وہ بات ہو گئی کہ
سنا ہے یہ کہ ان کی بھی کمر ہے
کہاں سے کس طرف ہے اور کدھر ہے
علامہ : وہ تو کسی محبوب نامی شخص کی کمر کے بارے میں غالب نے بھی کہا تھا کہ
ہے کیا جو کس کے باندھیے میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری کمر کو میں
اینکر : آپ ذرا چپ رہئے ہم ڈاکٹر صاحب سے کمر کے بارے میں کچھ سننا چاہتے ہیں، آپ بتائیں ڈاکٹر صاحب واقعی دہشت گردی کی کمر تھی اور کیا واقعی وہ توڑ دی گئی ہے اور کس نے توڑی ہے، کے پی کے والوں نے یا رحمن ملک نے ؟
ڈاکٹر : دیکھیے یہ ایک ٹیکنیکل بلکہ میڈیکل بلکہ سرجیکل معاملہ ہے اور اس پر صرف وہی لوگ بات کر سکتے ہیں جو ان معاملات کے ماہر ہیں۔
چشم : جیسے آپ ... کیوں کہ سنا ہے آپ بھی اپنے مریضوں کی کمر اپنی فیس سے توڑتے ہیں۔
علامہ : بدزبان، بد سرمست، بدایمان شخص اپنا منہ بند رکھ ورنہ تمہارے منہ میں بھی بتیس ہڈیاں توڑنے کے لائق ہیں۔
چشم : علامہ میں جانتا ہوں آپ ڈاکٹر کی طرف داری کیوں کر رہے ہیں کیوں کہ آپ بھی اپنی کمر کا علاج ان سے کروا رہے ہیں لیکن میں آپ کو بتا دوں کہ آپ کی کمر بیماری کی وجہ سے نہیں بلکہ بار برداری کی وجہ سے دکھتی ہے۔
اینکر : بار برداری کیا مطلب؟
چشم : ذرا ان کا شکم مبارک دیکھیے پورے چار من کی لاش اور کمر کے مہرے وہی ۔
ڈاکٹر : یہ آپ کیا جاہلانہ بات کر رہے ہیں۔
اینکر : ہاں ڈاکٹر صاحب آپ بتائیں کہ اگر دہشت گردی کی کمر رحمن ملک نے توڑی تھی تو صوبائی حکومت نے کیا توڑا تھا یا وہ کس کی کمر تھی۔
ڈاکٹر : میرے خیال میں دونوں صحیح کہہ رہے ہیں لیکن میں رحمن ملک کے بارے میں کہوں گا کہ واہ کیا کمر توڑی ہے کمر توڑنا کوئی آپ سے سیکھے۔
اینکر : دونوں صحیح کس طرح ہیں۔
ڈاکٹر : اصل میں چوٹی سے دم تک کئی مہرے ہوتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ٹوٹے اسے کمر ٹوٹنا کہتے ہیں۔
چشم : گویا پہلے کچھ مہرے کے پی کے والوں نے توڑے تھے بعد میں ...
علامہ : تم چپ نہیں رہ سکتے؟
چشم : میں یہاں چپ رہنے کے لیے نہیں آیا ہوں۔
علامہ : (اینکر سے) آپ جاہل لوگوں کو کیوں بلاتے ہیں۔
اینکر : نہیں مسٹر ناہنجار جاہل تو نہیں ہیں۔
چشم : کم از کم تم سے تو زیادہ پڑھا لکھا ہوا ہوں پرانا چہارم پاس ہوں ... اور تم تو...
علامہ : میں عالم ہوں بلکہ علامہ ہوں۔
چشم : اپنے منہ میاں مٹھو...
اینکر : دیکھیں آپ ڈاکٹر صاحب کو کمر کے موضوع پر بولنے دیں جی ڈاکٹر صاحب...
ڈاکٹر : میرا خیال ہے کہ صوبائی حکومت والے بھی سچ کہتے ہیں اور جناب رحمن ملک بھی غلط نہیں کہتے۔
اینکر : وہ کیسے؟
ڈاکٹر : میرے خیال میں صوبائی حکومت نے بھی دہشت گردی کی کمر کے کچھ مہرے توڑے ہوں گے
اینکر : تقریباً کتنے؟
ڈاکٹر : ا گر فی وزیر ایک مہرہ فرض کر لیں تو چار پانچ تو توڑے ہوں گے۔
چشم : مگر وزیر تو بہت ہیں۔
علامہ : وہ کچھ اور توڑتے ہوں گے۔
ڈاکٹر : ہاں ضروری نہیں کہ ہر وزیر صرف مہرے ہی توڑے اور بھی توڑنے کو بہت کچھ ہے۔
اینکر : جہاں تک میری معلومات ہیں دہشت گردی کی کمر توڑنے کا پراجیکٹ چار پانچ وزیروں کے پاس تھا۔
ڈاکٹر : میرا بھی یہی خیال ہے بہرحال صوبائی حکومت نے جتنے بھی مہرے توڑے ہوں لیکن اس سے دہشت گردی کی کمر نہیں ٹوٹی یا یوں کہئے کہ جزوی طور پر کمر ٹوٹی تھی۔
اینکر : یقیناً یہی بات ہے ورنہ جناب رحمن ملک کیا توڑتے ہیں۔
ڈاکٹر : واہ کیا کمر توڑی ہے کوئی کمر توڑنا ان سے ہی سیکھے۔
چشم : آپ نے وہ ٹوٹی ہوئی کمر دیکھی ہے۔
علامہ : بغیر فیس کے کیسے دیکھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر : ہاں مریض کو میرے پاس لایا نہیں گیا ہے لیکن پھر بھی میں کہوں گا کہ واہ کیا کمر توڑی ہے کمر توڑنا کوئی ان سے سیکھے۔
اینکر : آپ کا مطلب ہے جناب رحمن ملک کا بیان سچ ہے ۔
ڈاکٹر : یقیناً کیوں کہ وزیر لوگ جھوٹ تو بولتے نہیں صرف سچ بولتے ہیں اور سچ کے سوا کچھ نہیں بولتے۔
علامہ : تو پھر جھوٹ کون بولتا ہے؟
ڈاکٹر : اپوزیشن والے...
اینکر : گویا ہم سمجھ لیں کہ دہشت گردی کی کمر واقعی ٹوٹ گئی ہے اور رحمن ملک صاحب نے توڑی۔
ڈاکٹر : بالکل ... اور واہ کیا کمر توڑی ہے کمر توڑنا تو کوئی ان سے سیکھے...
اینکر : حاضرین و ناظرین ... آج کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ دہشت گردی کی کمر ٹوٹ چکی ہے پہلے صوبائی حکومت ایک ایک مہرہ توڑتی رہی پھر جناب رحمن ملک نے لوہار کی ایک لگائی اور کمر کے سارے مہرے چکنا چور ہو گئے۔