میرٹ کا نظام
چاہے حکومت جمہوری ہو یا فوجی پٹواری نے رشوت لینی ہی ہے
ہمارے ملک میں غریب عوام کی خدمت کے نام پر لوگوں کو غربت کی دلدل میں دھکیلنے کا ڈراما (کبھی جمہوریت کبھی آمریت) گزشتہ 65 برس سے جاری ہے۔ جب جمہوری حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے تو اس میں ایک لاکھ نقائص سامنے آ جاتے ہیں اسی طرح جب کسی آمریت یا فوجی مارشل لاء کا خاتمہ ہوتا ہے تو اس کو بدنام کیا جاتا ہے اور اس کی ہزاروں خامیاں سامنے آ جاتی ہیں۔ جہاں تک عوام کی حالت زار کا تعلق ہے گزشتہ 65 سال میں عوام کو غربت، بھوک، افلاس، جہالت اور بیروز گاری کے سوا کچھ نہیں مل سکا۔
چاہے حکومت جمہوری ہو یا فوجی پٹواری نے رشوت لینی ہی ہے محکمہ مال کے افسران نے کسانوں کو لوٹنا ہی ہے، ٹیکس کے افسران نے تاجروں سے رشوت لینی ہی ہے، تھانے دار کی بدمعاشی چلنی ہے، غریب کو انصاف کی بجائے دھکے ہی ملنے ہیں اور اداروں کے اہلکاروں نے اپنی لوٹ مار جاری رکھنی ہے۔ کہنے کا مقصد ہے کہ غریب کی حالت میں تبدیلی کہیں نظر نہیں آتی چاہے حکومت کسی کی بھی ہو۔ غریب کی غربت کم کرنے کے لیے ہر حکومت نے دعوے تو بہت کیے لیکن عمل کچھ نہ ہو سکا۔
پاکستان میں لوگوں کی اکثریت آج بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ آدھی سے زائد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، بنیادی صحت کی سہولیات میسر نہیں، خوراک اور انصاف کے لیے لوگوں کو دھکے کھانے پڑتے ہیں، روزگار کے مواقعے میسر نہیں، غربت اور بیروزگاری کے باعث لوگ خودکشیوں پر مجبور ہیں اپنے بچے بیچ رہے ہیں انھیں قتل کر رہے ہیں۔ صنعتوں کی بندش کے باعث دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ ایسے محروم طبقات کو حکومتوں کی تبدیلی سے کیا لینا چاہے حکومت پی پی پی کی ہو یا مسلم لیگ کی، فوجی ہو یا جمہوری انھیں تو دو وقت کی روٹی چاہیے... تعلیم اور صحت کی سہولیات چاہئیں جو کہ ناقص پالسیوں کے باعث ان سے چھین لی گئیں اور الٹا ان پر بھاری ٹیکس مسلط کر دیے گئے ہیں۔
غریب ہر حکومت کے جانے پر خوش ہوتا ہے کہ شاید نئی حکومت اس کے لیے کچھ کرے شاید اس بار کسی کو اس ملک کے 98 فیصد غریب عوام کا خیال آ جائے، شاید یہ پاکستان کی خوشحالی کی ضامن ثابت ہو شاید اس بار ہماری قسمت بدل جائے لیکن ہر بار مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ جب کہ ہر دور میں حکمران اور ان کے اتحادی و حواری کروڑوں، اربوں کھا جاتے ہیں اور ان سے کوئی یہ قومی دولت نہیں نکلواتا؟ آج اس ملک کے سیاستدان اور ان کے عزیز رشتے دار خوشحال ہیں ان کے بچے اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں میں جب کہ غریب کے بچے کے لیے اسکول میں نہ اساتذہ نہ ان کے لیے کرسیاں ہیں نہ بچوں کے لیے ٹاٹ۔ نظام تعلیم ایسا بنایا گیا ہے کہ غریب کا بچہ اچھے اسکول میں معیاری تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہے۔
عوام ملک میں رائج فرسودہ نظام اور اس کے وارث ظالم جاگیر داروں، روایتی سیاستدانوں اور وڈیروں سے تنگ آ چکے ہیں۔ اب وہ صرف اور صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان لٹیروں، غاصبوں، ظالم جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور صنعتکاروں سے حساب لیا جائے کہ انھوں نے کیسے اس ملک کو لوٹا ، کیسے ٹیکس بچایا، کیسے کمیشن کھایا، کیسے ملک کے غریب عوام کا خون نچوڑا، ملکی دولت کہاں کہاں خرچ کی۔ اب بہت ہو چکا اب ان غاصبوں کا احتساب ہونا چاہیے۔ اب ضرور پوچھا جائے کہ کروڑوں، اربوں کے فنڈز کہاں گئے ہزاروں نوکریاں کن کو دیں، یہ کوٹھیاں، مکانات، گاڑیاں، بینک بیلنس اور جائیدادیں کہاں سے بنائیں۔ اب تو حساب ضرور ہو جانا چاہیے اور احتساب بھی کڑا۔
عوام صرف اور صرف احتساب چاہتے ہیں بے رحم احتساب جس کا عمل سب کے لیے برابر ہو، کرپشن کے حمام کے ان ننگوں کو سر بازار لایا جائے تا کہ ان نام نہاد شرفاء اور بے ضمیروں کو یہ احساس ہو کہ 65 سال میں انھوں نے اور ان کے آبائو اجداد نے اس ملک کے ساتھ کیا کیا۔ خدارا اس بار قوم پر یہ رحم فرما دیجیے یہ قوم کی آواز ہے، ملک کو ان چند حکمران خاندانوں سے نجات دلا دیجیے کیونکہ اب ہمیں ایسی جمہوریت نہیں چاہیے جو دو فیصد طبقے کی نمایندہ ہو، جو صرف جاگیر داروں یا سرمایہ داروں کی نمایندہ ہو۔ اب اسمبلیوں میں ایسے لوگ نہیں آنے چاہئیں جنہیں نہ غریب کی حالت کا علم ہے نہ اس کے مسائل کا ادراک، جو صرف اور صرف لوٹ مار کے لیے آتے ہیں اب ایسا نظام نا گزیر ہے جس میں ہر پاکستانی غریب ہو یا امیر اقتدار تک پہنچ سکے۔
روایتی سیاستدانوں کی بجائے اہل و لائق ایماندار افراد اسمبلیوں میں آئیں کیونکہ نظام کی تبدیلی کے بغیر کچھ نہیں بدلے گا ۔ خدارا ان نام نہاد ڈراما پارٹیوں سے اس ملک کی جان چھڑائو اور اقتدار اس ملک کے حقیقی وارثوں کو دلا دو۔ ۔ ہر پاکستان سے محبت رکھنے والے کی دل کی خواہش ہے، ہر پاکستانی چاہتا ہے کہ ان لٹیروں کو کیفرکردارتک پہنچانے کے لیے کوئی تو میدان میں آئے جو ان کا بے رحم احتساب کرے کوئی تو اس 65 برس کے گند کو صاف کرے، کوئی تو آئے جو انصاف کرے۔ کوئی تو بتائے یہ نظام کیا ہے کہ ملک کے دو فیصد ٹیکس چور طبقہ نے گزشتہ 65 سال سے اقتدار کو کیسے اپنے گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے یہ بھائیوں اور خاندانوں کا اقتدار ختم کرنے کا سہرا کوئی تو اپنے سر لے، کوئی تو ان سے پوچھے کیا اقتدار پر صرف تمہارا حق ہے؟ کوئی تو ان اقتدار کے بھوکے شکاریوں سے پوچھے کہ کیا اس ملک پر تمہارے باپ کا راج ہے کیا کہ65 برس سے پورے ملک کی وزارتیں تم نے اپنے گھروں اور رشتے داروں میں بانٹ رکھی ہیں کیا عوام سے تمہیں کوئی بھی اہل نظر نہیں آتا۔
ارکان قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی، ضلع کونسل، تحصیل کونسل کہاں کہاں اور کیسے اقتدار کے بھوکے ان شکاریوں نے اپنے اپنے جال لگائے ہوئے ہیں عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ پاکستان کے اقتدار پر یہ لوگ کیسے قابض ہیں۔ یہیں تک بس نہیں ہوتی بیوروکریسی میں ان اقتداریوں کے چہیتے لوگوں کی کیسی جڑیں مضبوط ہیں اس کا تصور بھی ناممکن ہے کوئی عزیز ڈی سی او ہے تو کوئی ڈی پی او، کوئی ڈی ڈی او آر ہے تو کوئی تحصیلدار کوئی ڈی ایس پی ہے تو کوئی نائب تحصیلدار غرض یہ لوگ اقتدار میں ہوں یا نہیں ان کا اقتدار تو بس چلتا رہتا ہے ان کی کرپشن جاری رہتی ہے۔
غریب عوام کی تقدیر صرف اس وقت بدلے گی جب اس فرسودہ نظام کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ اب ایک موقع ہے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی آواز پر عوام جاگ اٹھے ہیں اور جاگیردارانہ، وڈیرانہ نظام اور روایتی سیاسی وڈیروں کو نیست ونابود کرنے کے لیے میدان عمل میں آنے کو تیار رہیں۔ اور حقیقت یہی ہے کہ عوامی طاقت سے ہی ان ملک اور عوام کے دشمن اقتدار کے پجاریوں کو احتساب کے شکنجہ میں جکڑا جا سکتا ہے، آئینی اصلاحات کر کے میرٹ کا نظام قائم کیا جا سکتا ہے، تباہ شدہ اداروں کی بحالی کی جا سکتی ہے۔
اگر ہم نے اس موقعے سے فائدہ اٹھایا تو یہ ملک ایسے ترقی کرے گا جیسے جاپان اور چین نے کی۔ اگر اس ملک کے اقتدار کے ایوانوں سے گند صاف ہو جائے تو یہ ملک جو معدنی دولت سے مالامال ہے یہاں کا نہری نظام، یہاں کی فصلیں یہاں کے باغات یہاں کی صنعتیں سب لوگوں کی ترقی کا سامان بن جائیں گی اور ترقی کی نئی راہیں کھل جائیں گی۔ عوام کی محرومیاں دور ہو جائیں گی ہر طرف خوشحالی ہو گی غربت اور بیروزگاری کا نام و نشان تک مٹ جائے گا پھر کوئی غریب بھوکا نہ سوئے گا اور اگر خدانخوستہ یہ نظام نہ بدلا تو وہی اقتدار کے بھوکے پھر اسمبلیوں میں پہنچ جائیں گے اور اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کرتے رہیں گے پھر ملک کا اقتدار اور انتظام انھی اقتدار کے بھوکے شکاریوں کے پاس آ جائے گا جنہیں نہ تو پاکستان سے کوئی غرض ہے نہ عوام سے صرف اپنے مفادات عزیز ہیں۔
چاہے حکومت جمہوری ہو یا فوجی پٹواری نے رشوت لینی ہی ہے محکمہ مال کے افسران نے کسانوں کو لوٹنا ہی ہے، ٹیکس کے افسران نے تاجروں سے رشوت لینی ہی ہے، تھانے دار کی بدمعاشی چلنی ہے، غریب کو انصاف کی بجائے دھکے ہی ملنے ہیں اور اداروں کے اہلکاروں نے اپنی لوٹ مار جاری رکھنی ہے۔ کہنے کا مقصد ہے کہ غریب کی حالت میں تبدیلی کہیں نظر نہیں آتی چاہے حکومت کسی کی بھی ہو۔ غریب کی غربت کم کرنے کے لیے ہر حکومت نے دعوے تو بہت کیے لیکن عمل کچھ نہ ہو سکا۔
پاکستان میں لوگوں کی اکثریت آج بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ آدھی سے زائد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، بنیادی صحت کی سہولیات میسر نہیں، خوراک اور انصاف کے لیے لوگوں کو دھکے کھانے پڑتے ہیں، روزگار کے مواقعے میسر نہیں، غربت اور بیروزگاری کے باعث لوگ خودکشیوں پر مجبور ہیں اپنے بچے بیچ رہے ہیں انھیں قتل کر رہے ہیں۔ صنعتوں کی بندش کے باعث دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ ایسے محروم طبقات کو حکومتوں کی تبدیلی سے کیا لینا چاہے حکومت پی پی پی کی ہو یا مسلم لیگ کی، فوجی ہو یا جمہوری انھیں تو دو وقت کی روٹی چاہیے... تعلیم اور صحت کی سہولیات چاہئیں جو کہ ناقص پالسیوں کے باعث ان سے چھین لی گئیں اور الٹا ان پر بھاری ٹیکس مسلط کر دیے گئے ہیں۔
غریب ہر حکومت کے جانے پر خوش ہوتا ہے کہ شاید نئی حکومت اس کے لیے کچھ کرے شاید اس بار کسی کو اس ملک کے 98 فیصد غریب عوام کا خیال آ جائے، شاید یہ پاکستان کی خوشحالی کی ضامن ثابت ہو شاید اس بار ہماری قسمت بدل جائے لیکن ہر بار مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ جب کہ ہر دور میں حکمران اور ان کے اتحادی و حواری کروڑوں، اربوں کھا جاتے ہیں اور ان سے کوئی یہ قومی دولت نہیں نکلواتا؟ آج اس ملک کے سیاستدان اور ان کے عزیز رشتے دار خوشحال ہیں ان کے بچے اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں میں جب کہ غریب کے بچے کے لیے اسکول میں نہ اساتذہ نہ ان کے لیے کرسیاں ہیں نہ بچوں کے لیے ٹاٹ۔ نظام تعلیم ایسا بنایا گیا ہے کہ غریب کا بچہ اچھے اسکول میں معیاری تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہے۔
عوام ملک میں رائج فرسودہ نظام اور اس کے وارث ظالم جاگیر داروں، روایتی سیاستدانوں اور وڈیروں سے تنگ آ چکے ہیں۔ اب وہ صرف اور صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان لٹیروں، غاصبوں، ظالم جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور صنعتکاروں سے حساب لیا جائے کہ انھوں نے کیسے اس ملک کو لوٹا ، کیسے ٹیکس بچایا، کیسے کمیشن کھایا، کیسے ملک کے غریب عوام کا خون نچوڑا، ملکی دولت کہاں کہاں خرچ کی۔ اب بہت ہو چکا اب ان غاصبوں کا احتساب ہونا چاہیے۔ اب ضرور پوچھا جائے کہ کروڑوں، اربوں کے فنڈز کہاں گئے ہزاروں نوکریاں کن کو دیں، یہ کوٹھیاں، مکانات، گاڑیاں، بینک بیلنس اور جائیدادیں کہاں سے بنائیں۔ اب تو حساب ضرور ہو جانا چاہیے اور احتساب بھی کڑا۔
عوام صرف اور صرف احتساب چاہتے ہیں بے رحم احتساب جس کا عمل سب کے لیے برابر ہو، کرپشن کے حمام کے ان ننگوں کو سر بازار لایا جائے تا کہ ان نام نہاد شرفاء اور بے ضمیروں کو یہ احساس ہو کہ 65 سال میں انھوں نے اور ان کے آبائو اجداد نے اس ملک کے ساتھ کیا کیا۔ خدارا اس بار قوم پر یہ رحم فرما دیجیے یہ قوم کی آواز ہے، ملک کو ان چند حکمران خاندانوں سے نجات دلا دیجیے کیونکہ اب ہمیں ایسی جمہوریت نہیں چاہیے جو دو فیصد طبقے کی نمایندہ ہو، جو صرف جاگیر داروں یا سرمایہ داروں کی نمایندہ ہو۔ اب اسمبلیوں میں ایسے لوگ نہیں آنے چاہئیں جنہیں نہ غریب کی حالت کا علم ہے نہ اس کے مسائل کا ادراک، جو صرف اور صرف لوٹ مار کے لیے آتے ہیں اب ایسا نظام نا گزیر ہے جس میں ہر پاکستانی غریب ہو یا امیر اقتدار تک پہنچ سکے۔
روایتی سیاستدانوں کی بجائے اہل و لائق ایماندار افراد اسمبلیوں میں آئیں کیونکہ نظام کی تبدیلی کے بغیر کچھ نہیں بدلے گا ۔ خدارا ان نام نہاد ڈراما پارٹیوں سے اس ملک کی جان چھڑائو اور اقتدار اس ملک کے حقیقی وارثوں کو دلا دو۔ ۔ ہر پاکستان سے محبت رکھنے والے کی دل کی خواہش ہے، ہر پاکستانی چاہتا ہے کہ ان لٹیروں کو کیفرکردارتک پہنچانے کے لیے کوئی تو میدان میں آئے جو ان کا بے رحم احتساب کرے کوئی تو اس 65 برس کے گند کو صاف کرے، کوئی تو آئے جو انصاف کرے۔ کوئی تو بتائے یہ نظام کیا ہے کہ ملک کے دو فیصد ٹیکس چور طبقہ نے گزشتہ 65 سال سے اقتدار کو کیسے اپنے گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے یہ بھائیوں اور خاندانوں کا اقتدار ختم کرنے کا سہرا کوئی تو اپنے سر لے، کوئی تو ان سے پوچھے کیا اقتدار پر صرف تمہارا حق ہے؟ کوئی تو ان اقتدار کے بھوکے شکاریوں سے پوچھے کہ کیا اس ملک پر تمہارے باپ کا راج ہے کیا کہ65 برس سے پورے ملک کی وزارتیں تم نے اپنے گھروں اور رشتے داروں میں بانٹ رکھی ہیں کیا عوام سے تمہیں کوئی بھی اہل نظر نہیں آتا۔
ارکان قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی، ضلع کونسل، تحصیل کونسل کہاں کہاں اور کیسے اقتدار کے بھوکے ان شکاریوں نے اپنے اپنے جال لگائے ہوئے ہیں عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ پاکستان کے اقتدار پر یہ لوگ کیسے قابض ہیں۔ یہیں تک بس نہیں ہوتی بیوروکریسی میں ان اقتداریوں کے چہیتے لوگوں کی کیسی جڑیں مضبوط ہیں اس کا تصور بھی ناممکن ہے کوئی عزیز ڈی سی او ہے تو کوئی ڈی پی او، کوئی ڈی ڈی او آر ہے تو کوئی تحصیلدار کوئی ڈی ایس پی ہے تو کوئی نائب تحصیلدار غرض یہ لوگ اقتدار میں ہوں یا نہیں ان کا اقتدار تو بس چلتا رہتا ہے ان کی کرپشن جاری رہتی ہے۔
غریب عوام کی تقدیر صرف اس وقت بدلے گی جب اس فرسودہ نظام کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ اب ایک موقع ہے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی آواز پر عوام جاگ اٹھے ہیں اور جاگیردارانہ، وڈیرانہ نظام اور روایتی سیاسی وڈیروں کو نیست ونابود کرنے کے لیے میدان عمل میں آنے کو تیار رہیں۔ اور حقیقت یہی ہے کہ عوامی طاقت سے ہی ان ملک اور عوام کے دشمن اقتدار کے پجاریوں کو احتساب کے شکنجہ میں جکڑا جا سکتا ہے، آئینی اصلاحات کر کے میرٹ کا نظام قائم کیا جا سکتا ہے، تباہ شدہ اداروں کی بحالی کی جا سکتی ہے۔
اگر ہم نے اس موقعے سے فائدہ اٹھایا تو یہ ملک ایسے ترقی کرے گا جیسے جاپان اور چین نے کی۔ اگر اس ملک کے اقتدار کے ایوانوں سے گند صاف ہو جائے تو یہ ملک جو معدنی دولت سے مالامال ہے یہاں کا نہری نظام، یہاں کی فصلیں یہاں کے باغات یہاں کی صنعتیں سب لوگوں کی ترقی کا سامان بن جائیں گی اور ترقی کی نئی راہیں کھل جائیں گی۔ عوام کی محرومیاں دور ہو جائیں گی ہر طرف خوشحالی ہو گی غربت اور بیروزگاری کا نام و نشان تک مٹ جائے گا پھر کوئی غریب بھوکا نہ سوئے گا اور اگر خدانخوستہ یہ نظام نہ بدلا تو وہی اقتدار کے بھوکے پھر اسمبلیوں میں پہنچ جائیں گے اور اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کرتے رہیں گے پھر ملک کا اقتدار اور انتظام انھی اقتدار کے بھوکے شکاریوں کے پاس آ جائے گا جنہیں نہ تو پاکستان سے کوئی غرض ہے نہ عوام سے صرف اپنے مفادات عزیز ہیں۔