اب تو ظلم انتہا کو پہنچ چکا
آج بدقسمتی سے ہم نظام اسلام کی برکات سے محروم ہیں جس کی وجہ سے پاکستان اس وقت مشکلات اور نازک حالات سے گزر رہا ہے
ہادی برحق، نبی آخر الزماں رحمۃ اللعالمین، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ و مبارک تعلیمات تا قیامت ہمارے لیے رہنما اور مینارہ نور ہیں۔ انھی کا دامن پکڑ کر اور انھی کی تعلیمات پر عمل کر کے ہم کامیاب ہو سکتے ہیں اور اللہ کی رحمت کے مستحق بن سکتے ہیں۔ اس سے روگردانی کر کے دنیا میں بھی ہم خسارہ اٹھائیں گے اور آخرت کی ذلت اور رسوائی تو ہمارا مقدر ٹھہرے ہی گی۔
شہر کراچی کے حالات دن بہ دن بدترین ہو رہے ہیں، معصوم شہریوں، بچوں اور عورتوں کا قتل اور اپنے ہی بھائیوں کو ٹارگٹ کلنگ میں روز مرنا اب شہر قائد میں یہ سلسلہ عام ہو گیا ہے۔ دہشت گرد عناصر کی وجہ سے اسلام اور دعوت اسلام کو شدید نقصان پہنچا ہے، اسلام امن، محبت، سلامتی اور رواداری کا مذہب ہے نہ صرف مسلمانوں بلکہ اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ اسلام میں دہشت گردی، تشدد اور انسانیت کے خلاف جرائم کی گنجائش نہیں ہے۔ آج دہشت گردی کو اسلام سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ اسلام کے نام پر جنگ و جدل، قتل و غارت گری، نفرت و کینہ اور بغض و عداوت کی دعوت دیتے ہیں وہ اسلام کی تعلیمات کی صریحاً خلاف ورزی کر رہے ہیں اسلام کے پاک نام کو بدنام کیا جا رہا ہے۔
آج بدقسمتی سے ہم نظام اسلام کی برکات سے محروم ہیں جس کی وجہ سے پاکستان اس وقت مشکلات اور نازک حالات سے گزر رہا ہے، آج پاکستان میں مسلمان بھائی بھائی کا دشمن ہو گیا ہے عقیدہ اور مذہب کے نام پر ایک بھائی دوسرے بھائی کو قتل کر رہا ہے۔ اس وقت ہمیں قران پاک اور حدیث شریف پر عمل کرنے کی شدید ضرورت ہے، اسی پر عمل کر کے ہمارا پیارا پاکستان امن و سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ اب پاکستان میں ایسی ایسی خبریں سننے کو مل رہی ہیں کہ یقین نہیں ہوتا کہ کوئی مسلمان ایسا بھی کر سکتا ہے۔ یہ مسلمانوں کے خلاف سازش ہو رہی ہے، اب آپ اسی خبر کو لیجیے کہ کراچی اور پشاور میں پولیو ٹیموں پر فائرنگ جس کے نتیجے میں 5 خواتین شہید ہو گئیں، کوئی بھی مسلمان بچوں اور عورتوں کو نہیں مار سکتا، ظالم لوگوں نے ان بے گناہ عورتوں کے سر پر گولی مار کر شہید کیا۔
کیا قصور تھا ان معصوم عورتوں کا؟ وہ بے چاریاں غربت کی ماریاں تو اپنے اور اپنے بچوں کی پیٹ کی بھوک کا انتظام کرنے کے لیے چند روپے کی خاطر یہ نوکری کر رہی تھیں، مارنے والوں کو یہ تو سوچنا چاہیے تھا کہ ان لوگوں کا قصور کیا ہے؟ ان عورتوں نے کیا قصور کیا ہے، ان بچوں کا کیا قصور ہے جن سے ان کی ماں چھین لی گئی، یہ عورتیں اپنے گھروں کی غربت کی وجہ سے اپنے گھروں سے نکلیں اور ظالم لوگوں کے ظلم کا نشانہ بن گئیں۔ ہمارا اسلام ایسا درس ہرگز نہیں دیتا، یہ لوگ ہرگز مسلمان کہلانے کے حقدار نہیں، اگر مسلمان ہیں تو ہمیشہ بے قصور اور معصوم ہی کی پکڑ ہوتی ہے جو ظالم اور اثردار افراد ہوتے ہیں وہ بچ جاتے ہیں دنیا میں یہ لوگ چاہے جتنے ظلم کر لیں مگر آخرت میں خدا کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے ہیں۔
ہمارے پاکستان میں پولیو کا مرض بڑی تعداد میں موجود ہے اور یہ مرض لاعلاج ہے اگر ایک بار ہو جائے تو اپاہج کر کے جاتا ہے۔ آج سے 10 سال پہلے پولیو کی شرح کافی حد تک زیادہ تھی اور پاکستان میں کافی بڑی تعداد میں بچے اپاہج ہوئے کیونکہ اس مرض کے بارے میں زیادہ کسی کو معلومات نہیں تھیں کہ یہ مرض اس قدر خطرناک ہوتا ہے کہ جس کے نتیجے میں ٹانگیں ضایع ہو جاتی ہیں اور ہمارے ننھے منھے بچے اپاہج ہو جاتے ہیں کون سے ایسے ظالم ماں باپ ہوں گے جو چاہیں گے کہ ان کے جان سے بھی پیارے بچے اپاہج ہو جائیں۔
18 ماہ کے بچے سلیمان ولد مولانا عبدالرحمن کا کیس گزشتہ دنوں پیش ہوا، متاثرہ بچے کے والد اور دادا جامع بنوریہ سے فارغ التحصیل عالم ہیں اور بچے کے والد مولانا عبدالرحمن خود ایک مذہبی اسکالر ہیں۔ انھوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے متعدد بار پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کے لیے آنے والی ٹیموں کو انکار کیا گیا جس کی وجہ سے ہمارا بچہ اس وائرس کا شکار ہو گیا۔ اب جب کہ پولیو ٹیم کی جانب سے آگاہی ملی ہے اب ہم نہ صرف اپنے بچوں کو بلکہ دیگر والدین کو بھی پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے آگاہ کریں گے۔
پاکستان میں بہت بڑی تعداد میں لوگ پولیو جیسے خطرناک مرض سے ناواقف ہیں اور جب پولیو ٹیم ایسے کسی فرد کے گھر پولیو کے قطرے پلانے جاتی ہے تو وہ فوراً منع کر دیتے ہیں وہ سمجھتے ہیں ان قطروں کے پلانے سے ہمارا بچے کو کیا معلوم کیا ہو جائے گا، معلوم نہیں یہ لوگ کیسے قطرے بچے کو پلانے آ گئے ہیں۔ اور بعض جگہوں پر تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگ پولیو ٹیم کو دھکے مار کر نکال دیتے ہیں وہ بے چارے تو اپنا فرض پورا کر رہے ہیں اور آپ کے بچوں کو نئی زندگی عطا کر رہے ہیں وہ زندگی کے مسیحا ہیں جن کو آپ کے بچوں کی فکر ہے اور کچھ نہیں۔
ان مسیحاؤں کو روپے پیسوں کا کوئی لالچ نہیں، گورنمنٹ ان لوگوں کو 250 روپے دیتی ہے اور یہ زندگی کے مسیحا سارا دن آپ کے گھروں کے چکر لگاتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں پولیو آپ کے بچوں کا دشمن ہے یہ زندگی کے مسیحا آپ کے بچوں کی زندگی کے محافظ ہیں، آپ کے بچے صحت مند و تندرست ہوں گے تو آپ خوش اور خوشحال پاکستان بن سکتا ہے۔ کیونکہ یہ بچے ہی ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں۔ اگر یہ بچے اپاہج ہوں گے تو پاکستان اپاہج ہو گا اسی لیے پولیو کی ٹیم کے ساتھ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ تعاون کرنا چاہیے۔
اگر کوئی شخص پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرتا ہے تو وہ اپنا اور اپنے بچوں کا اور اپنے خاندانوں کا ہی نقصان کرتا ہے حکومت اور اپنے وطن کو بھی تمام دنیا میں بدنام کرتا ہے، تمام مہذب دنیا اس بات سے ڈرے گی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پولیو کا مرض موجود ہے کیا ہمارے بارے میں عالمی رائے عامہ کا یہ تاثر ملک وقوم کے لیے نیک نامی کا باعث ہو سکتا ہے؟ یہ سوچنا چاہیے کہ پولیو کے مرض کے خاتمے سے دنیا بھر میں ہمارا وقار کتنا بلند ہو گا اور ہماری قوم بھی ایک لا علاج مرض سے محفوظ ہو جائے گی۔ بھارت کچھ عرصے پہلے اس موذی مرض سے پاک ہو چکا ہے اب ہمارا وقت ہے کہ ہم بھی اس موذی مرض سے اپنی جان چھڑائیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہر شہری پولیو ٹیم کے ساتھ تعاون کرے۔ کہنے کو تو ہمیں آزاد ہوئے 65 سال ہو گئے ہیں اور بھارت کو بھی مگر اس وقت بھارت ہر شعبہ زندگی میں ہم سے بہت آگے نکل گیا ہے اور ہم لوگ ابھی تک آپس میں ہی الجھے ہوئے ہیں، اپنے ہی لوگوں کو مار رہے ہیں، اپنا ہی نقصان کر کے خوش ہو رہے ہیں، اسلام کی تعلیمات نے ہمیں ہمیشہ ایک بن کر رہنے کا سبق دیا ہے اسی میں ہماری کامیابی ہے۔
اکثر میں لوگوں کے منہ سے سنتی ہوں قیامت کب آئے گی اور میں ہمیشہ یہی بولتی ہوں میری نظر سے دیکھو قیامت تو کب کی آ گئی ہے، اب کراچی شہر میں روز ہی قیامت آتی ہے، ان لوگوں سے پوچھو جن کے پیارے ان سے جدا ہو گئے، کسی کے بیٹے کو قتل کر دیا گیا، کسی کی ماں کو شہید کر دیا گیا، کوئی یتیم ہوا، تو کوئی مسکین ہوا ان لوگوں سے پوچھو ان کے لیے وہ دن قیامت سے کم نہ ہو گا، جب اپنے پیاروں کو اپنے سے جدا کیا ہو گا ہم لوگ پاکستانی شہری آج کل طرح طرح کے مصائب کا شکار ہو گئے ہیں ہم لوگ بری طرح جال میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔ ہمارے اردگرد جال بنا جا رہا ہے ہمیں یہ جال کاٹ کر پھینکنا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب ہم سب ایک ہو جائیں گے اب تو ہم کو اپنی آنکھیں کھولنی چاہئیں، اگر ہم اب بھی بیدار نہ ہوئے تو آنے والی نسلوں کو ہم آزاد پاکستان ہرگز نہیں دے پائیں گے۔
شہر کراچی کے حالات دن بہ دن بدترین ہو رہے ہیں، معصوم شہریوں، بچوں اور عورتوں کا قتل اور اپنے ہی بھائیوں کو ٹارگٹ کلنگ میں روز مرنا اب شہر قائد میں یہ سلسلہ عام ہو گیا ہے۔ دہشت گرد عناصر کی وجہ سے اسلام اور دعوت اسلام کو شدید نقصان پہنچا ہے، اسلام امن، محبت، سلامتی اور رواداری کا مذہب ہے نہ صرف مسلمانوں بلکہ اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ اسلام میں دہشت گردی، تشدد اور انسانیت کے خلاف جرائم کی گنجائش نہیں ہے۔ آج دہشت گردی کو اسلام سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ اسلام کے نام پر جنگ و جدل، قتل و غارت گری، نفرت و کینہ اور بغض و عداوت کی دعوت دیتے ہیں وہ اسلام کی تعلیمات کی صریحاً خلاف ورزی کر رہے ہیں اسلام کے پاک نام کو بدنام کیا جا رہا ہے۔
آج بدقسمتی سے ہم نظام اسلام کی برکات سے محروم ہیں جس کی وجہ سے پاکستان اس وقت مشکلات اور نازک حالات سے گزر رہا ہے، آج پاکستان میں مسلمان بھائی بھائی کا دشمن ہو گیا ہے عقیدہ اور مذہب کے نام پر ایک بھائی دوسرے بھائی کو قتل کر رہا ہے۔ اس وقت ہمیں قران پاک اور حدیث شریف پر عمل کرنے کی شدید ضرورت ہے، اسی پر عمل کر کے ہمارا پیارا پاکستان امن و سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ اب پاکستان میں ایسی ایسی خبریں سننے کو مل رہی ہیں کہ یقین نہیں ہوتا کہ کوئی مسلمان ایسا بھی کر سکتا ہے۔ یہ مسلمانوں کے خلاف سازش ہو رہی ہے، اب آپ اسی خبر کو لیجیے کہ کراچی اور پشاور میں پولیو ٹیموں پر فائرنگ جس کے نتیجے میں 5 خواتین شہید ہو گئیں، کوئی بھی مسلمان بچوں اور عورتوں کو نہیں مار سکتا، ظالم لوگوں نے ان بے گناہ عورتوں کے سر پر گولی مار کر شہید کیا۔
کیا قصور تھا ان معصوم عورتوں کا؟ وہ بے چاریاں غربت کی ماریاں تو اپنے اور اپنے بچوں کی پیٹ کی بھوک کا انتظام کرنے کے لیے چند روپے کی خاطر یہ نوکری کر رہی تھیں، مارنے والوں کو یہ تو سوچنا چاہیے تھا کہ ان لوگوں کا قصور کیا ہے؟ ان عورتوں نے کیا قصور کیا ہے، ان بچوں کا کیا قصور ہے جن سے ان کی ماں چھین لی گئی، یہ عورتیں اپنے گھروں کی غربت کی وجہ سے اپنے گھروں سے نکلیں اور ظالم لوگوں کے ظلم کا نشانہ بن گئیں۔ ہمارا اسلام ایسا درس ہرگز نہیں دیتا، یہ لوگ ہرگز مسلمان کہلانے کے حقدار نہیں، اگر مسلمان ہیں تو ہمیشہ بے قصور اور معصوم ہی کی پکڑ ہوتی ہے جو ظالم اور اثردار افراد ہوتے ہیں وہ بچ جاتے ہیں دنیا میں یہ لوگ چاہے جتنے ظلم کر لیں مگر آخرت میں خدا کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے ہیں۔
ہمارے پاکستان میں پولیو کا مرض بڑی تعداد میں موجود ہے اور یہ مرض لاعلاج ہے اگر ایک بار ہو جائے تو اپاہج کر کے جاتا ہے۔ آج سے 10 سال پہلے پولیو کی شرح کافی حد تک زیادہ تھی اور پاکستان میں کافی بڑی تعداد میں بچے اپاہج ہوئے کیونکہ اس مرض کے بارے میں زیادہ کسی کو معلومات نہیں تھیں کہ یہ مرض اس قدر خطرناک ہوتا ہے کہ جس کے نتیجے میں ٹانگیں ضایع ہو جاتی ہیں اور ہمارے ننھے منھے بچے اپاہج ہو جاتے ہیں کون سے ایسے ظالم ماں باپ ہوں گے جو چاہیں گے کہ ان کے جان سے بھی پیارے بچے اپاہج ہو جائیں۔
18 ماہ کے بچے سلیمان ولد مولانا عبدالرحمن کا کیس گزشتہ دنوں پیش ہوا، متاثرہ بچے کے والد اور دادا جامع بنوریہ سے فارغ التحصیل عالم ہیں اور بچے کے والد مولانا عبدالرحمن خود ایک مذہبی اسکالر ہیں۔ انھوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے متعدد بار پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کے لیے آنے والی ٹیموں کو انکار کیا گیا جس کی وجہ سے ہمارا بچہ اس وائرس کا شکار ہو گیا۔ اب جب کہ پولیو ٹیم کی جانب سے آگاہی ملی ہے اب ہم نہ صرف اپنے بچوں کو بلکہ دیگر والدین کو بھی پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے آگاہ کریں گے۔
پاکستان میں بہت بڑی تعداد میں لوگ پولیو جیسے خطرناک مرض سے ناواقف ہیں اور جب پولیو ٹیم ایسے کسی فرد کے گھر پولیو کے قطرے پلانے جاتی ہے تو وہ فوراً منع کر دیتے ہیں وہ سمجھتے ہیں ان قطروں کے پلانے سے ہمارا بچے کو کیا معلوم کیا ہو جائے گا، معلوم نہیں یہ لوگ کیسے قطرے بچے کو پلانے آ گئے ہیں۔ اور بعض جگہوں پر تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگ پولیو ٹیم کو دھکے مار کر نکال دیتے ہیں وہ بے چارے تو اپنا فرض پورا کر رہے ہیں اور آپ کے بچوں کو نئی زندگی عطا کر رہے ہیں وہ زندگی کے مسیحا ہیں جن کو آپ کے بچوں کی فکر ہے اور کچھ نہیں۔
ان مسیحاؤں کو روپے پیسوں کا کوئی لالچ نہیں، گورنمنٹ ان لوگوں کو 250 روپے دیتی ہے اور یہ زندگی کے مسیحا سارا دن آپ کے گھروں کے چکر لگاتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں پولیو آپ کے بچوں کا دشمن ہے یہ زندگی کے مسیحا آپ کے بچوں کی زندگی کے محافظ ہیں، آپ کے بچے صحت مند و تندرست ہوں گے تو آپ خوش اور خوشحال پاکستان بن سکتا ہے۔ کیونکہ یہ بچے ہی ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں۔ اگر یہ بچے اپاہج ہوں گے تو پاکستان اپاہج ہو گا اسی لیے پولیو کی ٹیم کے ساتھ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ تعاون کرنا چاہیے۔
اگر کوئی شخص پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرتا ہے تو وہ اپنا اور اپنے بچوں کا اور اپنے خاندانوں کا ہی نقصان کرتا ہے حکومت اور اپنے وطن کو بھی تمام دنیا میں بدنام کرتا ہے، تمام مہذب دنیا اس بات سے ڈرے گی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پولیو کا مرض موجود ہے کیا ہمارے بارے میں عالمی رائے عامہ کا یہ تاثر ملک وقوم کے لیے نیک نامی کا باعث ہو سکتا ہے؟ یہ سوچنا چاہیے کہ پولیو کے مرض کے خاتمے سے دنیا بھر میں ہمارا وقار کتنا بلند ہو گا اور ہماری قوم بھی ایک لا علاج مرض سے محفوظ ہو جائے گی۔ بھارت کچھ عرصے پہلے اس موذی مرض سے پاک ہو چکا ہے اب ہمارا وقت ہے کہ ہم بھی اس موذی مرض سے اپنی جان چھڑائیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہر شہری پولیو ٹیم کے ساتھ تعاون کرے۔ کہنے کو تو ہمیں آزاد ہوئے 65 سال ہو گئے ہیں اور بھارت کو بھی مگر اس وقت بھارت ہر شعبہ زندگی میں ہم سے بہت آگے نکل گیا ہے اور ہم لوگ ابھی تک آپس میں ہی الجھے ہوئے ہیں، اپنے ہی لوگوں کو مار رہے ہیں، اپنا ہی نقصان کر کے خوش ہو رہے ہیں، اسلام کی تعلیمات نے ہمیں ہمیشہ ایک بن کر رہنے کا سبق دیا ہے اسی میں ہماری کامیابی ہے۔
اکثر میں لوگوں کے منہ سے سنتی ہوں قیامت کب آئے گی اور میں ہمیشہ یہی بولتی ہوں میری نظر سے دیکھو قیامت تو کب کی آ گئی ہے، اب کراچی شہر میں روز ہی قیامت آتی ہے، ان لوگوں سے پوچھو جن کے پیارے ان سے جدا ہو گئے، کسی کے بیٹے کو قتل کر دیا گیا، کسی کی ماں کو شہید کر دیا گیا، کوئی یتیم ہوا، تو کوئی مسکین ہوا ان لوگوں سے پوچھو ان کے لیے وہ دن قیامت سے کم نہ ہو گا، جب اپنے پیاروں کو اپنے سے جدا کیا ہو گا ہم لوگ پاکستانی شہری آج کل طرح طرح کے مصائب کا شکار ہو گئے ہیں ہم لوگ بری طرح جال میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔ ہمارے اردگرد جال بنا جا رہا ہے ہمیں یہ جال کاٹ کر پھینکنا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب ہم سب ایک ہو جائیں گے اب تو ہم کو اپنی آنکھیں کھولنی چاہئیں، اگر ہم اب بھی بیدار نہ ہوئے تو آنے والی نسلوں کو ہم آزاد پاکستان ہرگز نہیں دے پائیں گے۔