مردم شماری سندھ کا موقف
مردم شماری ایک انتظامی قومی ضرورت ہوتی ہے
مردم شماری ایک انتظامی قومی ضرورت ہوتی ہے، جو ریاست کے مختلف انتظامی اور معاشی امور کی منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دنیا کے ہر چھوٹے بڑے ملک میں مردم شماری کو ایک انتظامی ضرورت کے طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔
کچھ ممالک میں ہر پانچ برس بعد جب کہ بیشتر ممالک میں ہر دس برس بعد مردم شماری کرائی جاتی ہے۔ مگر وطن عزیز کا باوا آدم ہی نرالاہے۔ ہمارے یہاں سیاسی معاملات کو غیر سیاسی انداز میں پرکھا جاتا ہے، جب کہ غیر سیاسی انتظامی امور کا سیاست کی عینک چڑھا کر مشاہدہ کیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں ہو پاتا۔
جہاں تک پاکستان میں ہونے والی مردم شماریوں کا تعلق ہے، تو یہ عمل اگر تواتر کے ساتھ چلتا رہتا، یوں اب تک 7 مردم شماریاں ہو چکی ہوتیں اور 8 ویں کی تیاریاں ہو رہی ہوتیں، مگر سیاسی مصلحتوں کے سبب 1981ء کے 17 برس بعد پانچویں مردم شماری 1998ء میں ہوئی۔ اب 19 برس بعد چھٹی مردم شماری ہونے جا رہی ہے، لیکن جس طرح کی سیاسی صورت حال درپیش ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ اس مشق کے نتائج ایک نیا آتش فشاں کھولنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
بلوچستان میں اس مسئلے پر بلوچوں اور پختونوں کے درمیاں نزاعی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی سمیت کئی سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں، کیونکہ افغان باشندے گزشتہ 37 برس سے وہاں آباد ہیں، جس کی وجہ سے آبادیاتی تناسب تبدیل ہو چکا ہے۔ سندھ میں بھی اس حوالے سے خاصے اہم تحفظات پائے جاتے ہیں۔
سندھ کا معاملہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے خاصا مختلف اور پیچیدہ ہے۔ اس کے باوجود سندھ کے تقریباً سبھی شراکت دار (Stakeholders) مردم شماری کرائے جانے کے حق میں ہیں۔ مگر اس سلسلے میں ان کے بعض تحفظات ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ شفاف مردم شماری کے لیے ضروری ہے کہ ان تحفظات کو دور کیا جائے۔
سیو سندھ کمیٹی (Save Sindh Committee) سندھ کو درپیش مسائل پر تحقیق اور سندھی عوام کے جذبات و احساسات اور نکتہ نظر کو اجاگر کرنے والا تھنک ٹینک ہے، جو اہل دانش، سرگرم سیاسی کارکنوں اور متوشش شہریوں پر مشتمل ہے۔ گزشتہ دنوں اس کمیٹی کا ایک مشاورتی اجلاس کراچی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں سندھ کے نمایندہ دانشوروں اور سرگرم سیاسی شخصیات نے شرکت کی۔
اس نشست میں متفقہ طور پر کہا گیا کہ مردم شماری کے عمل کو جاری رہنا چاہیے، کیونکہ اس طرح قومی مالیاتی کمیشن (NFC) ایوارڈ میں وفاقی یونٹوں کے حصے کا تعین ہوتا ہے اور نئی حلقہ بندیوں میں مدد ملتی ہے، لیکن سندھ پر قیام پاکستان کے وقت سے چونکہ آبادی کا بہت زیادہ دباؤ ہے، خاص طور پر ملک کے دیگر صوبوں سے آنے والوں کا مسلسل تانتا بندھا ہوا ہے، جس کی وجہ سے سندھ میں آبادیاتی تناسب (Demography) بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔ اس لیے سندھی عوام یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ فارم میں پائے جانے والے چند انتہائی فاش نقائص کو دور کیے بغیر مردم شماری کا عمل سندھی عوام کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا۔
سندھی عوام کی جانب سے موجودہ فارم پر درج ذیل خدشات کا اظہار کیا جارہاہے: (i غیر ممالک کے غیر قانونی طور پر آنے والے افراد کی شناخت نہیں ہو سکے گی۔ (ii دوسرے صوبوں سے روزگار کے حصول کے لیے آنے والوں کی تصدیق ممکن نہیں ہو گی۔ (iii NFC ایورڈ جیسے اہم معاملات کے منصفانہ ہونے کا امکان کم سے کم ہو جائے گا۔ (iv یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 1981ء اور 1998ء کی مردم شماری میں شہری House Hold Strength دیہی کے مقابلے میں زیادہ دکھائی گئی تھی، جس کی وجہ سے آبادیاتی تناسب خاصی حد تک تبدیل ہو گیا تھا۔ اس مرتبہ بھی عوام کے ذہنوں میں تقریباً ویسے ہی خدشات ہیں۔
اس کے علاوہ فارم میں دیگر تکنیکی نقائص بھی پائے جاتے ہیں۔ ان میں پہلا نقص یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی رولنگ کے باوجود فارم میں خواجہ سراؤں (Transgender) کے لیے علیحدہ کالم نہیں ہے۔ اسی طرح سندھ میں پارسی مذہب کے ماننے والے بڑی تعداد میں آباد ہیں، ان کا عقیدہ بھی مذہب کے حصے میں شامل نہیں ہے۔ مادری زبانوں کے کالم میں گجراتی زبان شامل نہیں ہے، حالانکہ گجراتی بولنے والے قیام پاکستان سے بہت پہلے کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں آباد چلے آ رہے ہیں۔ سندھ کے عوام کو مردم شماری کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں جنھیں دور کیا جانا چاہیے۔
اس اجلاس کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ: 1، فارم میں موجود نقائص اور خامیوں کو مردم شماری شروع ہونے سے قبل دور کیا جائے۔ 2، سندھ میں آباد مستقل باشندوں کے لیے الگ، جب کہ دوسرے ممالک سے آنے والوں کے لیے الگ کالم ہو۔ ایک تیسرا کالم ملک کے دوسرے صوبوں سے روزگار کی خاطر آنے والوں کے لیے ہونا چاہیے، تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ ان کے سیاسی حقوق سندھ کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں۔ 3، ہر بلاک کی مردم شماری کے بعد اس کا نتیجہ بالکل اسی طرح عوام کے سامنے پیش کیا جائے جس طرح عام انتخابات میں ہر پولنگ اسٹیشن کے نتائج دیے جاتے ہیں، تا کہ عوام کو یہ موقع مل سکے کہ وہ اپنے شہر اور صوبے کی آبادی کا خود بھی تخمینہ لگا سکیں۔ 4، مردم شماری کی شفافیت برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ذرایع ابلاغ کو ہر سطح پر جائزہ لینے کی مکمل آزادی ہو۔
پاکستان میں حکمران اشرافیہ کا رویہ روز اول ہی سے مختلف قومیتوں کے بارے میں معاندانہ رہا ہے، جس کی وجہ سے بیشتر چھوٹے موٹے مسائل گمبھیر بحرانوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں، جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ یہ ملک ایک وفاق کے طور پر وجود میں آیا تھا، مگر اسٹیبلشمنٹ نے اپنی گرفت مضبوط کرنے کی خاطر ون یونٹ جیسے غیر جمہوری اقدامات کے ذریعے ملک کو وحدانی ریاست میں بدل دیا۔ وہ ملک جسے اپنے بانی کے تصورات کی روشنی میں ایک وسیع البنیاد پارلیمانی جمہوری ریاست بننا تھا، اسے فروری 1949ء سے مسلسل تھیوکریٹک ریاست بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
یہ بھی انسانوں اور ریاستوں کی معلوم تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہے کہ کسی ملک کی اکثریت، اقلیت کی متعصبانہ روش سے پریشان ہو کر علیحدہ ہونے پر مجبور ہو جائے۔ جب کہ اس اکثریت کا ہی ملک کے قیام میں کلیدی کردار ہو۔
تاریخ، سیاسیات اور عمرانیات کا ہر طالب علم بخوبی جانتا ہے کہ ملک میں سرگرم انتہاپسند مذہبی جماعتوں، متشدد فرقہ وارانہ تنظیموں اور کالعدم گروپوں کے مراکز اور محفوظ ٹھکانے پنجاب سمیت پورے پاکستان میں ہیں، مگر چھوٹے صوبوں کے باشندوں پر زیادہ شک کیا جاتا ہے' سندھ اور بلوچستان میں سرگرم عمل بعض گروپوں پرملک گریز قوتوں کا آلہ کار ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
اربن سندھ میں اپنی پسند کا سیاسی سیٹ اپ لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جو نوآبادیاتی سوچ کا مظہر اور وفاقیت کے تصور سے کھلا انحراف ہے۔ اس لیے خدشہ ہے کہ مردم شماری میں بھی بڑے پیمانے پر دھاندلی ہو سکتی ہے۔ اس لیے سندھی عوام یہ سمجھتے ہیں کہ مردم شماری کے ہر مرحلے کو شفاف بنانے کی اشد ضرورت ہے، بصورت دیگر یہ ایک ایسا آتش فشاں ثابت ہوگی، جو بہت کچھ جلا کر بھسم کرسکتی ہے۔
کچھ ممالک میں ہر پانچ برس بعد جب کہ بیشتر ممالک میں ہر دس برس بعد مردم شماری کرائی جاتی ہے۔ مگر وطن عزیز کا باوا آدم ہی نرالاہے۔ ہمارے یہاں سیاسی معاملات کو غیر سیاسی انداز میں پرکھا جاتا ہے، جب کہ غیر سیاسی انتظامی امور کا سیاست کی عینک چڑھا کر مشاہدہ کیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں ہو پاتا۔
جہاں تک پاکستان میں ہونے والی مردم شماریوں کا تعلق ہے، تو یہ عمل اگر تواتر کے ساتھ چلتا رہتا، یوں اب تک 7 مردم شماریاں ہو چکی ہوتیں اور 8 ویں کی تیاریاں ہو رہی ہوتیں، مگر سیاسی مصلحتوں کے سبب 1981ء کے 17 برس بعد پانچویں مردم شماری 1998ء میں ہوئی۔ اب 19 برس بعد چھٹی مردم شماری ہونے جا رہی ہے، لیکن جس طرح کی سیاسی صورت حال درپیش ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ اس مشق کے نتائج ایک نیا آتش فشاں کھولنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
بلوچستان میں اس مسئلے پر بلوچوں اور پختونوں کے درمیاں نزاعی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی سمیت کئی سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں، کیونکہ افغان باشندے گزشتہ 37 برس سے وہاں آباد ہیں، جس کی وجہ سے آبادیاتی تناسب تبدیل ہو چکا ہے۔ سندھ میں بھی اس حوالے سے خاصے اہم تحفظات پائے جاتے ہیں۔
سندھ کا معاملہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے خاصا مختلف اور پیچیدہ ہے۔ اس کے باوجود سندھ کے تقریباً سبھی شراکت دار (Stakeholders) مردم شماری کرائے جانے کے حق میں ہیں۔ مگر اس سلسلے میں ان کے بعض تحفظات ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ شفاف مردم شماری کے لیے ضروری ہے کہ ان تحفظات کو دور کیا جائے۔
سیو سندھ کمیٹی (Save Sindh Committee) سندھ کو درپیش مسائل پر تحقیق اور سندھی عوام کے جذبات و احساسات اور نکتہ نظر کو اجاگر کرنے والا تھنک ٹینک ہے، جو اہل دانش، سرگرم سیاسی کارکنوں اور متوشش شہریوں پر مشتمل ہے۔ گزشتہ دنوں اس کمیٹی کا ایک مشاورتی اجلاس کراچی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں سندھ کے نمایندہ دانشوروں اور سرگرم سیاسی شخصیات نے شرکت کی۔
اس نشست میں متفقہ طور پر کہا گیا کہ مردم شماری کے عمل کو جاری رہنا چاہیے، کیونکہ اس طرح قومی مالیاتی کمیشن (NFC) ایوارڈ میں وفاقی یونٹوں کے حصے کا تعین ہوتا ہے اور نئی حلقہ بندیوں میں مدد ملتی ہے، لیکن سندھ پر قیام پاکستان کے وقت سے چونکہ آبادی کا بہت زیادہ دباؤ ہے، خاص طور پر ملک کے دیگر صوبوں سے آنے والوں کا مسلسل تانتا بندھا ہوا ہے، جس کی وجہ سے سندھ میں آبادیاتی تناسب (Demography) بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔ اس لیے سندھی عوام یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ فارم میں پائے جانے والے چند انتہائی فاش نقائص کو دور کیے بغیر مردم شماری کا عمل سندھی عوام کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا۔
سندھی عوام کی جانب سے موجودہ فارم پر درج ذیل خدشات کا اظہار کیا جارہاہے: (i غیر ممالک کے غیر قانونی طور پر آنے والے افراد کی شناخت نہیں ہو سکے گی۔ (ii دوسرے صوبوں سے روزگار کے حصول کے لیے آنے والوں کی تصدیق ممکن نہیں ہو گی۔ (iii NFC ایورڈ جیسے اہم معاملات کے منصفانہ ہونے کا امکان کم سے کم ہو جائے گا۔ (iv یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 1981ء اور 1998ء کی مردم شماری میں شہری House Hold Strength دیہی کے مقابلے میں زیادہ دکھائی گئی تھی، جس کی وجہ سے آبادیاتی تناسب خاصی حد تک تبدیل ہو گیا تھا۔ اس مرتبہ بھی عوام کے ذہنوں میں تقریباً ویسے ہی خدشات ہیں۔
اس کے علاوہ فارم میں دیگر تکنیکی نقائص بھی پائے جاتے ہیں۔ ان میں پہلا نقص یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی رولنگ کے باوجود فارم میں خواجہ سراؤں (Transgender) کے لیے علیحدہ کالم نہیں ہے۔ اسی طرح سندھ میں پارسی مذہب کے ماننے والے بڑی تعداد میں آباد ہیں، ان کا عقیدہ بھی مذہب کے حصے میں شامل نہیں ہے۔ مادری زبانوں کے کالم میں گجراتی زبان شامل نہیں ہے، حالانکہ گجراتی بولنے والے قیام پاکستان سے بہت پہلے کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں آباد چلے آ رہے ہیں۔ سندھ کے عوام کو مردم شماری کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں جنھیں دور کیا جانا چاہیے۔
اس اجلاس کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ: 1، فارم میں موجود نقائص اور خامیوں کو مردم شماری شروع ہونے سے قبل دور کیا جائے۔ 2، سندھ میں آباد مستقل باشندوں کے لیے الگ، جب کہ دوسرے ممالک سے آنے والوں کے لیے الگ کالم ہو۔ ایک تیسرا کالم ملک کے دوسرے صوبوں سے روزگار کی خاطر آنے والوں کے لیے ہونا چاہیے، تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ ان کے سیاسی حقوق سندھ کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں۔ 3، ہر بلاک کی مردم شماری کے بعد اس کا نتیجہ بالکل اسی طرح عوام کے سامنے پیش کیا جائے جس طرح عام انتخابات میں ہر پولنگ اسٹیشن کے نتائج دیے جاتے ہیں، تا کہ عوام کو یہ موقع مل سکے کہ وہ اپنے شہر اور صوبے کی آبادی کا خود بھی تخمینہ لگا سکیں۔ 4، مردم شماری کی شفافیت برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ذرایع ابلاغ کو ہر سطح پر جائزہ لینے کی مکمل آزادی ہو۔
پاکستان میں حکمران اشرافیہ کا رویہ روز اول ہی سے مختلف قومیتوں کے بارے میں معاندانہ رہا ہے، جس کی وجہ سے بیشتر چھوٹے موٹے مسائل گمبھیر بحرانوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں، جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ یہ ملک ایک وفاق کے طور پر وجود میں آیا تھا، مگر اسٹیبلشمنٹ نے اپنی گرفت مضبوط کرنے کی خاطر ون یونٹ جیسے غیر جمہوری اقدامات کے ذریعے ملک کو وحدانی ریاست میں بدل دیا۔ وہ ملک جسے اپنے بانی کے تصورات کی روشنی میں ایک وسیع البنیاد پارلیمانی جمہوری ریاست بننا تھا، اسے فروری 1949ء سے مسلسل تھیوکریٹک ریاست بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
یہ بھی انسانوں اور ریاستوں کی معلوم تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہے کہ کسی ملک کی اکثریت، اقلیت کی متعصبانہ روش سے پریشان ہو کر علیحدہ ہونے پر مجبور ہو جائے۔ جب کہ اس اکثریت کا ہی ملک کے قیام میں کلیدی کردار ہو۔
تاریخ، سیاسیات اور عمرانیات کا ہر طالب علم بخوبی جانتا ہے کہ ملک میں سرگرم انتہاپسند مذہبی جماعتوں، متشدد فرقہ وارانہ تنظیموں اور کالعدم گروپوں کے مراکز اور محفوظ ٹھکانے پنجاب سمیت پورے پاکستان میں ہیں، مگر چھوٹے صوبوں کے باشندوں پر زیادہ شک کیا جاتا ہے' سندھ اور بلوچستان میں سرگرم عمل بعض گروپوں پرملک گریز قوتوں کا آلہ کار ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
اربن سندھ میں اپنی پسند کا سیاسی سیٹ اپ لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جو نوآبادیاتی سوچ کا مظہر اور وفاقیت کے تصور سے کھلا انحراف ہے۔ اس لیے خدشہ ہے کہ مردم شماری میں بھی بڑے پیمانے پر دھاندلی ہو سکتی ہے۔ اس لیے سندھی عوام یہ سمجھتے ہیں کہ مردم شماری کے ہر مرحلے کو شفاف بنانے کی اشد ضرورت ہے، بصورت دیگر یہ ایک ایسا آتش فشاں ثابت ہوگی، جو بہت کچھ جلا کر بھسم کرسکتی ہے۔