ارمغان صوفی ایک انمول خزانہ

صوفی عنایت اللہ شروع سے ہی مذہب کی طرف راغب رہے

''ارمغان صوفی'' یعنی صوفی کا تحفہ، صوفی عنایت اللہ کی کتاب کا نام ہے۔ 624 صفحات پر مشتمل کتاب کا سرورق کا رنگ سردار الانبیا حضرت محمدؐ کے سبز گنبد سے لیا گیا ہے۔ صوفی صاحب خادم الفقرا، غلام الاصفیا اور محب الغربا کہلانے پر فخر کیا کرتے تھے۔ پیشے کے حوالے سے جفت ساز تھے۔ پنجابی کھسے اور ان پر طلع کاری کے بڑے ماہر تھے۔ باقاعدہ کسی مدرسے میں تعلیم حاصل نہیں کی۔

گاؤں کی مسجد میں قرآن پاک پڑھا مسجد کے پیش امام صاحب اور گاؤں کے بزرگوں سے اردو ، فارسی کا سبق لیا، داستان امیر حمزہ، گلستان بوستان پڑھیں، مولوی غلام رسول عالم پوری کی داستان یوسف زلیخا (پنجابی منظوم) پڑھی، ان کی چٹھیاں (خطوط) بھی بڑا مقام رکھتی ہیں۔ بس پڑھنے لکھنے کا یہی اسباب انھیں میسر آیا۔ ان کی تحریروں سے ہی پتا چلا کہ 1930 میں انھوں نے پہلی تحریر لکھی اور یہ حمد باری تعالیٰ تھی۔ صوفی صاحب کا اولین تحریری اظہاریہ ملاحظہ ہو، دعائیہ حمد کا پہلا شعر:

کرم کر یا خداوند، کریمی شان ہے تیری
رحم کر مجھ پہ یا اللہ، صفت رحمان ہے تیری

صوفی عنایت اللہ شروع سے ہی مذہب کی طرف راغب رہے اور سن بلوغت کو پہنچتے پہنچتے جو داڑھی کے بال آئے تو پھر زندگی بھر مٹھی بھر داڑھی ان کے چہرے کی زینت رہی۔ نماز پنجگانہ اور فارغ اوقات میں لکھنا پڑھنا، یہی ان کی زندگی رہی۔ نبی آخر الزماں حضرت محمدؐ، انبیا کرام، اولیا کرام، صوفی بزرگ، فقرا عظام یہی سب کچھ پڑھتے تھے اور یہی سب کچھ لکھتے تھے۔ بلا کے خوش خط بھی تھے۔ یہ بات قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگی کہ مشہور افسانہ نگار، ڈرامہ نویس، محترم اشفاق احمد نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا ''خوش خط لکھنا! میں نے صوفی عنایت اللہ صاحب سے سیکھا'' اور یہ بھی کہا ''میں اور حبیب دریائے بیاس پر مچھلیاں پکڑنے جاتے تھے۔''

واقعہ یہ ہے کہ اشفاق احمد کی سگی خالہ حمیدہ بی بی صوفی صاحب کے گاؤں میانی افغاناں، ضلع ہوشیارپور میں رہتی تھیں۔ اشفاق احمد اپنی والدہ کے ساتھ اکثر خالہ کے گاؤں آتے رہتے تھے۔

بٹوارے کے بعد صوفی عنایت اللہ صاحب اپنے بیوی بچوں سمیت کراچی آگئے اور جٹ لائن کے علاقے میں رہائش اختیار کی، جہاں ان کے سب سے بڑے بیٹے کو سرکار کی طرف سے ایک کشادہ کوارٹر الاٹ کردیا گیا۔ قریب ہی پیر ضیا القادری بدایونی (شکیل بدایونی کے چچا) رہتے تھے۔ صوفی صاحب ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے۔ پچاس کی دہائی کے اوائل میں پیر ضیا القادری نے عنایت اللہ صاحب کو صوفی کے منصب پر فائز کیا اور یوں عنایت اللہ، صوفی عنایت اللہ ہوگئے۔

صحت ٹھیک نہیں رہتی تھی تو بیٹوں نے صوفی صاحب کا کام دھندہ بند کروا دیا۔ اب وہ نماز یا گھر میں بیٹھ کر لکھتے پڑھتے رہتے۔ صوفی صاحب کا معمول تھا کہ تہجد کے وقت اٹھتے پھر نماز فجر کے لیے مسجد چلے جاتے۔ واپس گھر آتے اور قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول ہوجاتے، تلاوت کا عمل ایک گھنٹہ جاری رہتا پھر درود تاج پڑھتے وظیفہ قادریہ پڑھتے، جسے انھوں نے خود ترتیب دیا تھا۔ آخر میں اس تمام پڑھنے کا ثواب حضور نبی کریمؐ ، انبیا، اولیا، صوفیا، فقرا اور اپنے خاندان کے مرحومین، دوست احباب سب کی ارواح پاک کو ثواب پہنچاتے۔ پاس پڑے ہوئے پیتل کے گلاس میں بھرے پانی کو پھونک مارتے اور پھر یہ پانی خود بھی پیتے اور گھر والوں کو بھی پلاتے۔ صوفی صاحب کا یہ روز کا معمول تھا۔ دن کا آغاز اسی طرح ہوتا تھا۔

صوفی صاحب صبح کی عبادت سے فارغ ہوکر ظہر کی نماز تک لکھنے پڑھنے میں مشغول رہتے۔ کتاب چھپوانا تو ایک خواب تھا۔ سو وہ خود ہی اپنے ہاتھ کی لکھی تحریروں کو کتابی شکل دینے کے لیے آٹے سے میدہ چھان کر اس کی لئی بناتے اور پھر جلد بندی کرتے۔ کتاب کے صفحات پر صفحہ نمبر لکھتے، مضامین کی فہرست تیار کرتے کہ فلاں مضمون اس صفحہ نمبر پر ہے۔ گتے سے جلد بندی کرتے، اس پر رنگین کاغذ چپکاتے، اوپر کتاب کا نام لکھتے، کتاب تیار ہونے پر اسے دیکھ دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہوتے، ایسے جیسے ان کی کتاب باقاعدہ چھاپہ خانے سے تیار ہوئی ہو۔ صوفی صاحب اپنی تیار کردہ دس کتب چھوڑ کر دنیا سے گئے تھے اور یہ کتابیں صوفی صاحب کے قلمی نسخہ جات ان کے بچوں کے لیے ایک انمول خزانہ تھے۔


1994 میں صوفی صاحب کے چھوڑے ہوئے خزانے کے 125 صفحات ''گھر کی گواہی'' نامی کتاب میں شامل کیے گئے۔ کتاب پڑھ کر شکیل عادل زادہ نے توصیفی کلمات کے ساتھ کتاب کا اشتہار اپنے مشہور زمانہ ''سب رنگ'' ڈائجسٹ میں نمایاں طور پر شایع کیا۔ ''گھر کی گواہی'' ہندوستان پہنچی تو دہلی کے نندکشور وکرم نے اپنے سالانہ کتابی سلسلے ''عالمی اردو ادب'' میں صوفی صاحب کی تحریروں کے اقتباسات ستائش کے ساتھ شایع کیے۔

ارمغان صوفی کے چند موضوعات ملاحظہ فرمائیں انسان، حضرت آدمؑ کو بارگاہ الٰہی سے ملنے والے عطیے، حضور نبی آخر الزماںؐ کا مقام و مرتبہ، انبیا کرام کے معجزات، اسلام کے ارکان، صحابہ کرام، تذکرہ اولیا کرام، اللہ کے تین محبوب(1)۔ محبوب رب العالمین حضرت محمدؐ۔ (2)۔محبوب سبحانی سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی۔(3)۔محبوب الٰہی شیخ نظام الدین اولیا، تمام اولیا کرام کے تذکرے، مقام عورت، ماں، جوانی، عشق، جادو، شراب، ذات پات، اردو اور پنجابی زبان میں حمد، نعت، منقبت۔ اور کتاب کا آخری حصہ صوفی عنایت اللہ صاحب کی آپ بیتی جگ بیتی ہے جو دلچسپ واقعات و معجزات سے پُر ہے۔ زندگی کے سفر میں کیسے کیسے اللہ کے نیک و صالح بندے صوفی صاحب کو ملے۔ صوفی صاحب کہاں کہاں سے گزرے، کیا دیکھا، کیا پایا۔

صوفی صاحب کی زندگی میں ان کی تحریریں کتابی شکل اختیار نہ کرسکیں۔ آپ کا 16 جنوری 1981 کے دن انتقال ہوا اور اپنی چاہت، خواہش کے مطابق ملتان شریف مدینۃالاولیا میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔

آپ کہا کرتے تھے ''میری کتابیں کون چھاپے گا، انھیں کون پڑھے گا'' آخر اگست 2015 میں ان کی کتابوں کا مجموعہ ''ارمغانِ صوفی'' کے نام سے شایع ہوگیا اور اب اسے زمانہ پڑھ رہا ہے۔

آخر میں یہ بھی لکھتا چلوں کہ صوفی صاحب نے تین قلم کار بیٹے زمانے کو دیے ، ممتاز شاعر مشتاق مبارک جن کا قطعہ بہت مشہور ہوا:

دوستوں کی ستم ظریفی کو
ہم فقط اپنی سادگی سمجھے

دوست میرے خلوص کو اکثر
میرا احساس کمتری سمجھے

دوسرے بیٹے شاعر عوام حبیب جالب اور تیسرا بیٹا راقم الحروف سعید پرویز۔ اللہ ہمارے ابا جی کے درجات بلند فرمائے (آمین)
Load Next Story