پاکستان عظمت انسانیت کا بہترین اظہار
عظمت انسانیت کی نشانی کا مرکز تو آج بھی ارض حجاز پر موجود ہے
تاریخ کاکینوس: انسان نے تاریخ کے کینوس کو جن ہولناکیوں و رنگینیوں سے سجایا ہوا ہے، اس سے یہ واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ اس کے تمام تر رنگوں میں خود انسان ہی کارفرما نظر آتا ہے۔ چونکہ انسان مادی قوانین کو مسخر کرکے خود کوکائنات کے تمام تر موجودات کا مرکز ثابت کرتا آیا ہے، اس لیے انسان کی عظمتوں کو جاننے کے لیے ان مختلف مظاہروں کے اختلافات کو اس کے ارتقائی مراحل میں تقسیم کرکے دیکھا جانا ضروری ہے، جس کی روشنی میں موجودہ ارتقائی مرحلے پر انسان کی جدید ترجیحات کے قدیم رنگ کو سمجھا جانا آسان ہوگا۔ تب اس کینوس میں انسان کی عظمتوں و رفعتوں کے آگے مادی قوانین سے مبرا فرشتوں کو سجدہ ریز ہوجانے سے زمین پر خالق کائنات کے نائب کا درجہ حاصل کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
موجودہ ترقی یافتہ ارتقائی مرحلے پر یہ بات تو عیاں ہے کہ گروہوں (قوموں) میں بٹے موجودہ انسان کا صدیوں کے تناظر میں یکسانی اظہار کے باوجود اپنا ایک الگ ہی تشخص وتسلسل قائم ہے۔ دراصل انسان کے اسی تسلسل میں مختلف ارتقائی مراحل کا تشخصی اظہار ہی تاریخ کے کینوس کو ایک دلنشیں اور جاں گداز منظر سے آراستہ کیے ہوئے ہے۔
خوبصورتی و ضمانت: انسان کے ابتدائی ارتقائی مظاہروں میں یہ دیکھا جانا ممکن ہوا ہے کہ انسان ابتدائی ایام میںاپنی بقا کی خاطر دیگر موجودات کو خود سے افضل سمجھتا اور اس کی کورنش بجا لاتا رہا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ ان پر اپنا تصرف قائم کرنے کی کوششوں میں بھی جتا نظر ہوا آتا ہے، اور جن پر یہ تصرف قائم نہ کرسکا تو ان کو اپنے سجدوں کا مرکز بنالیا، جس میں آگ، سورج، چاند، تاروں سمیت سانپ، بیل، بندر و گائے جیسی موجودات (مخلوق) کو گنوایا جاسکتا ہے، جب کہ وحشیانہ انداز پر مبنی ابتدائی مرحلے سے جڑے تسلسل میں دوسرے ارتقائی مرحلے کے انسان کو خود انسان ہی کے آگے سجدہ ریز ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔
جسے ہم معلوم تاریخ کے پہلے بڑے ارتقائی مرحلے پر ''فرعون'' کی شکل میں ملاحظہ کرسکتے ہیں، جو کہ معلوم تاریخ کے ابتدائیہ کے طور پر اس کی خوبصورتی کو عجیب ہی رنگ میں سجائے ہوئے نظر آتے ہیں، بلاشبہ فراعین کے تسلسل میں انسان نے اپنی نسل کی عظمتوں و رفعتوں کے حوالے سے مادی طور پر لامتناہی مواد چھوڑا، جن کی بنیاد پر انھوں نے آج بھی حیرت انگیز طور، کرۂ ارض پر اپنے مدفن کو عالم انسانیت کی توجہ کا مرکز بنایا ہوا ہے۔
شاید اسی لیے جب فرعون من فناح کی ممی میں پیدا ہونے والی خرابی کا علاج کرانے فرانس لے جایا گیا تھا تو اقوام عالم کی تاریخ کا سب سے شاندار استقبال اس ممی کا کیا گیا۔ کیونکہ انسان نے فراعین کے اظہار میں جہاں دیگر موجودات سمیت انسانوں پر انسان کی سبقت وحکومت کو ظاہر کیا ہے، انھوں نے اپنی ذات کو مرکز بناکر انسانوں کی بقا وخوشحالی کے لیے ان کی ذات سے جڑی مرکزی ریاست کے نظریے کو عملی شکل بھی تھی۔ اور یہ تو کھلی حقیقت ہے کہ مستحکم مرکزی ریاستیں ہی انسان کے موجودہ ارتقائی مرحلے پر اس کی بقا وخوشحالی کی سب سے بڑی ضمانت بنی ہوئی ہیں۔
شاید اسی لیے انسان کی ضروریات زندگی کے اساسی نکتے کے طور پر متحرک رہنے والے کرنسی نوٹوں پر ''ریاست کی ضمانت سے منظور شدہ'' کے الفاظ کندہ نظر آتے ہیں، یعنی ماضی کے انسانوں کی عظمتوں کے باوجود ان کی لوازمات حیات کے باہمی لین دین میں جہاں دیگر جاندار وموجودات ضمانت کا کام کرتے تھے، اب وہی ذمے داری ریاست کو سونپی جاچکی ہے، یعنی انسان نے تاریخ کے کینوس پر اپنی علیحدہ علیحدہ گروہی خوبصورتی کو بچانے کے لیے مشترکہ طور پر ریاست کو افضلیت کا درجہ بخشا ہوا ہے، جو ان کی یکسانیت پر مبنی جدیدیت کے باوجود ان کے گروہی رنگوں کو تروتازہ رکھتے آنے میں برش کی طرح کام کرنے میں لگی ہے۔
مرکزی حیثیت کا پہلو: گزشتہ زمانوں میں ریاستوں کا آئین لامحدود اختیارات رکھنے والے ''حکمرانوں'' کی مرضی ومنشا پر منحصر ہوا کرتا تھا۔ اس لیے ریاستوں کے تمدنی معاشروں اور انسان کی گروہی تہذیبوں پر شخصیات کا غلبہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ قدیم مصر میں فراعین، بابل میں نمرود و بخت نصر، فارس پر داراو Xerxes جب کہ قدیم یورپ پر سیزر، جولیس و الیگزینڈر اس کی ناقابل تردید مثالیں ہیں۔ جب کہ اس وقت کے چائنا اور ہندوستانی انسانی گروہوں کی جانب سے اس بلند سطح پر قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے مثبت عملی اور کامیاب کوششیں دیکھنے کو نہیں ملتیں۔
دراصل انسان کی معلوم تاریخ کے کینوس میں 25 صدیوں پر مشتمل یہ حصہ انسانوں کے مابین مرکزی حیثیت لینے کے لیے ان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے رنگوں سے سجا ہوا ہے، جب کہ موجودہ ارتقائی مرحلے کے پیش منظر میں ماضی کے حوالوں کی بنیادوں پر انسان کی تمام تر جدوجہد کا جذبہ محرکہ اسی مرکزی حیثیت لینے کے نکتے پر جدید انداز میں ٹکا ہوا نظر آتا ہے، لیکن مزیدار بات کہ آج کا انسان ماضی کے انسانوں کی تعظیم کرنے کے باوجود خود کو ان سے زیادہ قابل بھی سمجھنے لگا ہے۔
عظمتوں کی تحقیق: معلوم اور قبل از تاریخ کے انسانوں سے موجودہ انسانوں کے نظریاتی تعلق کا تسلسل دیکھنے میں تو ضرور ملتا ہے لیکن موجودہ انسان آج گروہی بنیادوں پر اپنی اپنی مرکزی حیثیت حاصل کرنے کی اس دوڑ کو جیتنے کے لیے ان کے طرز زندگی کو فرسودہ قرار دینے میں بھی مصروف ہیں، جن میں قابل ذکر وہ انسانی گروہ ہے جو موجودہ ارتقائی مرحلے پر لوازمات حیات پر اجارہ داری رکھتا ہے، جو اپنے نسلی تسلسل کو برقرار رکھتے آنے کے باوجود اپنے عظیم المرتبت اسلاف اور ان کے آئین سے منحرف ہیں، جس کے لازمی نتیجے میں عالم انسانیت کے اکثر گروہ صدیوں کا تسلسل رکھنے کے باوجود ان کی تقلید میں مکمل طور پر توہین انسانیت اور تخریب کائنات کا باعث بنے ان کے مرتب شدہ ''جدید موجودات'' یعنی جمہوریت، سیکولرزم، لبرل ازم، نیشنلزم، کمیونزم، ترقی پسندی اور وسیع النظری کو اپنی سجدہ گاہ بنائے ہوئے ہیں۔
حالانکہ انسانوں کے موجودہ ارتقائی مرحلے پر قیادت کا نام نہاد تاج اپنے سر سجانے والے انسانی گروہ کے اسلاف عالم انسانیت کے اتنے کامل مدبر محقق تھے کہ انسان کی عظمتوں پر انؑ کی بیان کردہ تفسیرات سے انکار ممکن نہیں ہے، جنھوںؑ نے معلوم تاریخ کی 25 صدیوں کے تسلسل میں موجودات کو سجدہ کرنے کو توہین انسانیت اور تخریب کائنات قرار دیا۔ انھوںؑ نے آگ کو بے اثر بنانے کی تحقیقات متعارف کروائی، سمندر کے پانی کو تابع فرمان بناکر خدائی دعویداروں کو ان کی مرکزیت سمیت غرق آب کیا اور مادی قوانین سے مبرا تخلیق کے انداز واطوار کو سمجھایا، اور ثابت کیا کہ یہ سب تحقیقات اس قادر وتوانا خالق کائنات کے بتائے گئے آئین پر عمل کرنے سے عملی شکل لیتی ہیں۔
انھوں نے انسان کی سجدہ آوری کی تسکین کے لیے ارض حجاز پر اس قادر وتوانا خالق کا مرکز بنایا، اور اسی مرکز سے انسانوں کے موجودہ ارتقائی مرحلے پر سرمائے پر اجارہ داری رکھنے والے انسانی گروہ سے متعلق اسلاف کے وارث ﷺ نے توہین انسانیت اور تخریب کائنات پر کاربند ''انسانی مراکز'' کو عظمت انسانیت اور تعمیر کائنات کے نکات پر مبنی آئین کو اپنانے کی دعوت دی۔ اور پہلی بار گورے وکالے کی تفریق کے خاتمے کا اعلان کیا۔
عظمت انسانیت کی نشانی کا مرکز تو آج بھی ارض حجاز پر موجود ہے لیکن تعمیر کائنات کے آئین کا مرکز کرہ ارض کے مختلف خطوں سے ہوتا ہوا ساڑھے چودہ سو صدیوں بعد برصغیر کے انسان پاکستان کے نام سے قیام پذیر کرکے دنیا کو پھر وہی دعوت دینے کے کام میں مصروف ہیں، گوکہ فرعونی ذہنیت کے مالک انسانوں کی مرتب شدہ نظریات کی بہت ساری خرابیاں اس مرکز کے نکھار کو گہنائے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی تخلیقی اساس میں کام کرنے والے آئین ابراہیمؑ کی موجودگی اس کی درخشندگی کو نمایاں کیے ہوئے ہے جو کہ عظمت انسانیت کا بہترین اظہار ہے۔
موجودہ ترقی یافتہ ارتقائی مرحلے پر یہ بات تو عیاں ہے کہ گروہوں (قوموں) میں بٹے موجودہ انسان کا صدیوں کے تناظر میں یکسانی اظہار کے باوجود اپنا ایک الگ ہی تشخص وتسلسل قائم ہے۔ دراصل انسان کے اسی تسلسل میں مختلف ارتقائی مراحل کا تشخصی اظہار ہی تاریخ کے کینوس کو ایک دلنشیں اور جاں گداز منظر سے آراستہ کیے ہوئے ہے۔
خوبصورتی و ضمانت: انسان کے ابتدائی ارتقائی مظاہروں میں یہ دیکھا جانا ممکن ہوا ہے کہ انسان ابتدائی ایام میںاپنی بقا کی خاطر دیگر موجودات کو خود سے افضل سمجھتا اور اس کی کورنش بجا لاتا رہا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ ان پر اپنا تصرف قائم کرنے کی کوششوں میں بھی جتا نظر ہوا آتا ہے، اور جن پر یہ تصرف قائم نہ کرسکا تو ان کو اپنے سجدوں کا مرکز بنالیا، جس میں آگ، سورج، چاند، تاروں سمیت سانپ، بیل، بندر و گائے جیسی موجودات (مخلوق) کو گنوایا جاسکتا ہے، جب کہ وحشیانہ انداز پر مبنی ابتدائی مرحلے سے جڑے تسلسل میں دوسرے ارتقائی مرحلے کے انسان کو خود انسان ہی کے آگے سجدہ ریز ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔
جسے ہم معلوم تاریخ کے پہلے بڑے ارتقائی مرحلے پر ''فرعون'' کی شکل میں ملاحظہ کرسکتے ہیں، جو کہ معلوم تاریخ کے ابتدائیہ کے طور پر اس کی خوبصورتی کو عجیب ہی رنگ میں سجائے ہوئے نظر آتے ہیں، بلاشبہ فراعین کے تسلسل میں انسان نے اپنی نسل کی عظمتوں و رفعتوں کے حوالے سے مادی طور پر لامتناہی مواد چھوڑا، جن کی بنیاد پر انھوں نے آج بھی حیرت انگیز طور، کرۂ ارض پر اپنے مدفن کو عالم انسانیت کی توجہ کا مرکز بنایا ہوا ہے۔
شاید اسی لیے جب فرعون من فناح کی ممی میں پیدا ہونے والی خرابی کا علاج کرانے فرانس لے جایا گیا تھا تو اقوام عالم کی تاریخ کا سب سے شاندار استقبال اس ممی کا کیا گیا۔ کیونکہ انسان نے فراعین کے اظہار میں جہاں دیگر موجودات سمیت انسانوں پر انسان کی سبقت وحکومت کو ظاہر کیا ہے، انھوں نے اپنی ذات کو مرکز بناکر انسانوں کی بقا وخوشحالی کے لیے ان کی ذات سے جڑی مرکزی ریاست کے نظریے کو عملی شکل بھی تھی۔ اور یہ تو کھلی حقیقت ہے کہ مستحکم مرکزی ریاستیں ہی انسان کے موجودہ ارتقائی مرحلے پر اس کی بقا وخوشحالی کی سب سے بڑی ضمانت بنی ہوئی ہیں۔
شاید اسی لیے انسان کی ضروریات زندگی کے اساسی نکتے کے طور پر متحرک رہنے والے کرنسی نوٹوں پر ''ریاست کی ضمانت سے منظور شدہ'' کے الفاظ کندہ نظر آتے ہیں، یعنی ماضی کے انسانوں کی عظمتوں کے باوجود ان کی لوازمات حیات کے باہمی لین دین میں جہاں دیگر جاندار وموجودات ضمانت کا کام کرتے تھے، اب وہی ذمے داری ریاست کو سونپی جاچکی ہے، یعنی انسان نے تاریخ کے کینوس پر اپنی علیحدہ علیحدہ گروہی خوبصورتی کو بچانے کے لیے مشترکہ طور پر ریاست کو افضلیت کا درجہ بخشا ہوا ہے، جو ان کی یکسانیت پر مبنی جدیدیت کے باوجود ان کے گروہی رنگوں کو تروتازہ رکھتے آنے میں برش کی طرح کام کرنے میں لگی ہے۔
مرکزی حیثیت کا پہلو: گزشتہ زمانوں میں ریاستوں کا آئین لامحدود اختیارات رکھنے والے ''حکمرانوں'' کی مرضی ومنشا پر منحصر ہوا کرتا تھا۔ اس لیے ریاستوں کے تمدنی معاشروں اور انسان کی گروہی تہذیبوں پر شخصیات کا غلبہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ قدیم مصر میں فراعین، بابل میں نمرود و بخت نصر، فارس پر داراو Xerxes جب کہ قدیم یورپ پر سیزر، جولیس و الیگزینڈر اس کی ناقابل تردید مثالیں ہیں۔ جب کہ اس وقت کے چائنا اور ہندوستانی انسانی گروہوں کی جانب سے اس بلند سطح پر قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے مثبت عملی اور کامیاب کوششیں دیکھنے کو نہیں ملتیں۔
دراصل انسان کی معلوم تاریخ کے کینوس میں 25 صدیوں پر مشتمل یہ حصہ انسانوں کے مابین مرکزی حیثیت لینے کے لیے ان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے رنگوں سے سجا ہوا ہے، جب کہ موجودہ ارتقائی مرحلے کے پیش منظر میں ماضی کے حوالوں کی بنیادوں پر انسان کی تمام تر جدوجہد کا جذبہ محرکہ اسی مرکزی حیثیت لینے کے نکتے پر جدید انداز میں ٹکا ہوا نظر آتا ہے، لیکن مزیدار بات کہ آج کا انسان ماضی کے انسانوں کی تعظیم کرنے کے باوجود خود کو ان سے زیادہ قابل بھی سمجھنے لگا ہے۔
عظمتوں کی تحقیق: معلوم اور قبل از تاریخ کے انسانوں سے موجودہ انسانوں کے نظریاتی تعلق کا تسلسل دیکھنے میں تو ضرور ملتا ہے لیکن موجودہ انسان آج گروہی بنیادوں پر اپنی اپنی مرکزی حیثیت حاصل کرنے کی اس دوڑ کو جیتنے کے لیے ان کے طرز زندگی کو فرسودہ قرار دینے میں بھی مصروف ہیں، جن میں قابل ذکر وہ انسانی گروہ ہے جو موجودہ ارتقائی مرحلے پر لوازمات حیات پر اجارہ داری رکھتا ہے، جو اپنے نسلی تسلسل کو برقرار رکھتے آنے کے باوجود اپنے عظیم المرتبت اسلاف اور ان کے آئین سے منحرف ہیں، جس کے لازمی نتیجے میں عالم انسانیت کے اکثر گروہ صدیوں کا تسلسل رکھنے کے باوجود ان کی تقلید میں مکمل طور پر توہین انسانیت اور تخریب کائنات کا باعث بنے ان کے مرتب شدہ ''جدید موجودات'' یعنی جمہوریت، سیکولرزم، لبرل ازم، نیشنلزم، کمیونزم، ترقی پسندی اور وسیع النظری کو اپنی سجدہ گاہ بنائے ہوئے ہیں۔
حالانکہ انسانوں کے موجودہ ارتقائی مرحلے پر قیادت کا نام نہاد تاج اپنے سر سجانے والے انسانی گروہ کے اسلاف عالم انسانیت کے اتنے کامل مدبر محقق تھے کہ انسان کی عظمتوں پر انؑ کی بیان کردہ تفسیرات سے انکار ممکن نہیں ہے، جنھوںؑ نے معلوم تاریخ کی 25 صدیوں کے تسلسل میں موجودات کو سجدہ کرنے کو توہین انسانیت اور تخریب کائنات قرار دیا۔ انھوںؑ نے آگ کو بے اثر بنانے کی تحقیقات متعارف کروائی، سمندر کے پانی کو تابع فرمان بناکر خدائی دعویداروں کو ان کی مرکزیت سمیت غرق آب کیا اور مادی قوانین سے مبرا تخلیق کے انداز واطوار کو سمجھایا، اور ثابت کیا کہ یہ سب تحقیقات اس قادر وتوانا خالق کائنات کے بتائے گئے آئین پر عمل کرنے سے عملی شکل لیتی ہیں۔
انھوں نے انسان کی سجدہ آوری کی تسکین کے لیے ارض حجاز پر اس قادر وتوانا خالق کا مرکز بنایا، اور اسی مرکز سے انسانوں کے موجودہ ارتقائی مرحلے پر سرمائے پر اجارہ داری رکھنے والے انسانی گروہ سے متعلق اسلاف کے وارث ﷺ نے توہین انسانیت اور تخریب کائنات پر کاربند ''انسانی مراکز'' کو عظمت انسانیت اور تعمیر کائنات کے نکات پر مبنی آئین کو اپنانے کی دعوت دی۔ اور پہلی بار گورے وکالے کی تفریق کے خاتمے کا اعلان کیا۔
عظمت انسانیت کی نشانی کا مرکز تو آج بھی ارض حجاز پر موجود ہے لیکن تعمیر کائنات کے آئین کا مرکز کرہ ارض کے مختلف خطوں سے ہوتا ہوا ساڑھے چودہ سو صدیوں بعد برصغیر کے انسان پاکستان کے نام سے قیام پذیر کرکے دنیا کو پھر وہی دعوت دینے کے کام میں مصروف ہیں، گوکہ فرعونی ذہنیت کے مالک انسانوں کی مرتب شدہ نظریات کی بہت ساری خرابیاں اس مرکز کے نکھار کو گہنائے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی تخلیقی اساس میں کام کرنے والے آئین ابراہیمؑ کی موجودگی اس کی درخشندگی کو نمایاں کیے ہوئے ہے جو کہ عظمت انسانیت کا بہترین اظہار ہے۔