غیرفلمی گائیکی پر توجہ دینا چاہتی ہوں شریا گھوشال

جنوبی ہندوستان کی فلموںمیں گیت گانے میں زیادہ دل چسپی ہے کیونکہ...

۔مجھے جنوبی ہندوستان کی فلموںمیں گیت گانے میں زیادہ دل چسپی ہے کیوں کہ وہاں فلم ساز اور موسیقار گلوکاروں کو بہت عزت ملتی ہے ۔شریا گھوشال۔ فائل فوٹو

LONDON:
بولی وُڈ کے کہنہ مشق ہدایت کار سنجے لیلابھنسالی نوآموز گلوکاروں کے ریئلٹی شو ''سا رے گا ما پا'' میں شریک تھے۔ اس شو میں انھیں ایک نوجوان گلوکارہ کی سُریلی آواز اور فن گائیکی پر اس کی گرفت نے حیران کردیا۔ سنجے اس گلوکارہ کے ٹیلنٹ سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے اسے اپنی فلم ''دیوداس'' کے تمام گیت گانے کی پیش کش کردی۔ '' دیوداس '' کے گیتوں کی ریلیز کے بعد جس نے بھی اس آواز کو سنا، متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اور پھر جلد ہی شریا گھوشال کا نام زبان زدعام ہوگیا۔

قدرت نے اسے سُریلی اور نغمگی سے بھری آواز بخشی ہے جو سننے والے کے دل میں اترجاتی ہے۔ شریا کی شکل میں طویل عرصے کے بعد بھارتی فلمی دنیا کو غیرمعمولی آواز کی حامل گلوکارہ میسّر آئی جو فن موسیقی پر کامل دسترس رکھتی ہے۔ ابتدا میں شریا کی مدھر آواز کو صرف رومانوی اور دھیمے گیتوں کے لیے موزوں سمجھا گیا، مگر پھر اس نے ''ڈرٹی پکچر'' اور '' اگنی پت'' میں آئٹم سونگ گاکر ثابت کردیا کہ وہ ہر نوع کے گیتوں میں یکساں مہارت سے اپنی آواز کا جادو جگاسکتی ہے۔ اس سُریلی گلوکارہ سے کی گئی تازہ بات چیت قارئین کی نذر ہے۔

٭فلموں میں گائیکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک عشرہ گزرچکا ہے۔ آج خود کو کہاں دیکھتی ہیں؟

( مسکراتے ہوئے) پہلے میں ممبئی کے مضافات میں رہتی تھی اور اب اس شہر کے پوش علاقے میں منتقل ہوگئی ہوں، تو دس برسوںمیں ترقی تو بہرحال میں نے کی ہے! پیشہ ورانہ نقطۂ نظر سے بھی میں نے کئی منزلیں طے کی ہیں۔ مجھے بہترین گیتوں کی پیش کش ہورہی ہے۔ اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں اپنے کیریر کے عروج پر ہوں۔ ان دنوں میں بنگالی زبان میں گیت گانے پر زیادہ توجہ دے رہی ہوں۔ اس کے علاوہ غزلوں کے ایک البم پر بھی کام چل رہا ہے۔ مجھے جنوبی ہندوستان کی فلموںمیں گیت گانے میں زیادہ دل چسپی ہے کیوں کہ وہاں فلم ساز اور موسیقار گلوکاروں کو بہت عزت دیتے ہیں۔

٭ آپ کی اس بات سے تو یہ مطلب نکلتا ہے کہ بولی وڈ میں گلوکاروں سے مناسب رویہ اختیار نہیں کیا جاتا۔

یہ بات نہیں، وہاں بھی ہمیں جائز مقام دیا جاتا ہے لیکن جنوب والے اس معاملے میں سب سے آگے ہیں۔

٭ان دنوں فلم انڈسٹری میں ایسے گیتوں کی بھرمار ہے جن کے بول ذومعنی یا غیرمہذب ہوتے ہیں۔ آپ نے اب تک ایسا کوئی گیت ریکارڈ نہیں کروایا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟


مجھے ایسے گیت بالکل پسند نہیں۔ یہ بات نہیں کہ مجھے اس طرح کے گیت گانے کی پیش کش نہیں ہوئی۔ پیش کشیں بہت ہوئیں لیکن میں نے ہر بار انکارکردیا یا پھر ان گیتوں کے قابل اعتراض بول تبدیل کروائے۔ ''چکنی چمیلی'' ( اگنی پت ) کے سلسلے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ اس گیت کے ایک دو بول میرے خیال میں قابل اعتراض تھے۔ جب میں نے اجے۔اتل ( موسیقار جوڑی ) سے اس بارے میں بات کی تو انھوں نے کچھ پس و پیش کے بعد یہ بول تبدیل کردیے تھے۔

٭حالیہ عرصے میںکچھ نئے گلوکار یہ شکایت کرتے نظر آئے کہ ان کی آواز میں گیت ریکارڈ کرنے کے بعد وہی گیت فلم میں کسی اور کی آواز میں شامل کردیے گئے۔ کیا آپ کو بھی کبھی یہ تجربہ ہوا؟

بدقسمتی سے میرے ساتھ بھی ایسا ہوچکا ہے۔ کچھ موسیقاروں نے یہ وتیرہ اپنا لیا ہے کہ وہ ایک گیت کئی گلوکاروں کی آواز میں ریکارڈ کرتے ہیں۔ آپ سخت محنت کے بعد اپنی بہترین پرفارمینس دیتے ہیں لیکن جب فلم کا میوزک ریلیز کیا جاتا ہے تو یہ جان کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ آپ کی محنت اکارت چلی گئی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ موسیقار بعض اوقات ایک سینیئر اور اچھے گلوکار پرنوآموز گلوکار کو ترجیح دے دیتے ہیں۔ مجھے اس رجحان سے نفرت ہے اور میں نے کئی بار اس کی کھلے عام مخالفت کی ہے۔

٭آپ نے ساجد۔واجد اور بالخصوص ہمیش ریشمیا کی موسیقی میں کئی خوب صورت گیت ریکارڈ کروائے ہیں۔ ان موسیقاروں کے بارے میں آپ کیا کہیں گی؟

بہ طور موسیقار ہمیش ایک جینیئس ہے۔ موجودہ موسیقاروں میں چند ایک ہی اس کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ جہاں تک ساجد۔واجد کا تعلق ہے تو ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کی موسیقی بہت سُریلی ہوتی ہے۔ میرا مطلب ہے کہ ان کی موسیقی میں ریکارڈ کیے گئے گیت پرانے زمانے کے سدابہار گیتوں کی طرح کانوں کو بہت بھلے معلوم ہوتے ہیں۔

٭ حال ہی میں آپ نے کہا تھا کہ آپ غیرفلمی گائیکی پر توجہ دینا چاہتی ہیں۔۔۔

جی ہاں ، یہ بات صحیح ہے۔ غیرفلمی موسیقی میں غزل میری توجہ کا خاص مرکز ہے۔ میں ان دنوں غزلوں کے ایک البم پر کام کررہی ہوں۔ اس البم کی موسیقی دیپک پنڈت نے دی ہے۔ گائیکی کی اصناف میں مجھے غزل اور ٹھمری بہت پسند ہیں۔ میں بنگالی زبان میں گائیکی پر بھی زیادہ توجہ دینا چاہتی ہوں۔ بنگالی میری مادری زبان ہے اور پھر شانتانو موئترا جیسے موسیقاروں کی وجہ سے بنگالی سنیما پر بھی موسیقی کا سنہرا دور واپس آنا شروع ہوگیا ہے۔
٭کون سے گیتوں کو اپنے بہترین فلمی گیت خیال کرتی ہیں؟

(مسکراہٹ ) اس سوال کا جواب بہت مشکل ہے۔ ایسے کئی گیت ہیں لیکن میں ان چندگیتوں کا ذکر کرنا چاہوں گی جن سے مجھے پہچان ملی اور میرا کیریر مستحکم ہوا۔ فلمی دنیا میں گائیکی کا آغاز میں نے '' دیو داس'' سے کیا تھا۔ اس میں روایتی قسم کے گیت تھے۔ '' دیوداس'' کے بعد '' جسم'' کے گیتوں ' جادو ہے نشہ ہے' اور ' چلو تم کو لے کر چلیں' اور پھر اس کے بعد ''سایہ'' اور '' میں ہوں نا '' کے گیتوں نے مجھے نئی نسل کی ورسٹائل گلوکارہ کا امیج دیا۔ تاہم پچھلے تین برسوں سے کہا جارہا تھا کہ میری آواز صرف سُریلے رومانوی گیتوں ہی میں اچھی لگتی ہے لیکن 'اوہ لالا '( دی ڈرٹی پکچر)اور' چکنی چمیلی '( اگنی پت) کے بعد مجھ پر سے یہ چھاپ ہٹ گئی ہے جس پر میں بہت خوش ہوں۔
Load Next Story