پی ایس ایل فائنل کرکٹ کی نشاۃ ثانیہ
مستقبل میں ویسٹ انڈیز یا سری لنکا کی ٹیم کو پاکستان میں میچ کھیلنے پر رضا مند کیا جا سکتا ہے
پی ایس ایل فائنل بخیروخوبی اختتام پذیر ہوا ۔ جس نے اپنے شاندار سیکیورٹی و انتظامی اقدامات کے باعث نہ صرف لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں اس کے کامیاب انعقاد کو یادگار بنا دیا بلکہ کرکٹ کی دو مضبوط ٹیموں کی مسابقت کے آئینہ میں در حقیقت پاکستان کا کرکٹ امیج جیت گیا ، امن دشمنوں کو ہار ہوئی۔ فائنل کے ذریعے یہ حقیقت بھی سچ ثابت ہوئی کہ یہ محض ایک میچ نہ تھا بلکہ اس نے خوف کے بیریئر کو توڑا، وطن عزیز کو دہشت و وحشت کا یرغمال بنانے والوں کے جھوٹے غرور کا سر نیچا کیا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ہماری تنہائی کے دن گئے اور پاکستان مشکلات سے نکل آیا، دوسری جانب شائقین کرکٹ کا جوش وخروش دیدنی تھا، دنیائے کرکٹ کی ملکی و غیر ملکی شائقین کی بڑی تعداد نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ 27ہزار کے قریب گنجائش والے اسٹیڈیم میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ پی ایس ایل نے پاکستان کے اندر اور عالمی سطح پر یہ پیغام دیا کہ پاکستان میں کرکٹ بحال ہوچکی ہے، ساتھ ہی اس تاثر کی بھرپور نفی ہوئی کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیلی جا سکتی، اس غلط پروپیگنڈہ میں وہی عناصر ملوث تھے جو پاکستان پر دہشتگردی کا سایہ کرنے والی باطل قوتوں کے سرپرست و مددگار تھے اور کرکٹ کی عالمی برادری کوپاکستان کرکٹ سے خائف اور بدگمان کرنے میں لگے رہے مگراسی قذافی سٹیڈیم میں شائقین نے ویسٹ انڈیز کے نامور کھلاڑی ڈیرن سیمی کی پرجوش قیادت میں پشاور زلمی کو فتح کی ٹرافی بلند کرتے دیکھا ،اس کی خوشی دید کے قابل تھی، اور ان لائق تعریف غیر ملکی پلیئرز کے لیے اس فائنل میں عدم شرکت ایک ایسی خلش بنی جو انھیں مدتوں بے چین بنائے رکھے گی کہ وہ کیوں اس فائنل میں شرکت سے محروم رہے۔ منتظمین نے یہ صائب اعلان کرتے ہوئے کرکٹ شائقین کے دل جیت لیے کہ اگلا پی ایس ایل فائنل کراچی میں کھیلا جائے گا ۔
یقیناً اسی جوش وخروش اور جشن کا سماں کراچی میں بھی ہوسکے گا جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز رکھتا ہے، قذافی کرکٹ میلے نے یہ بات بھی اجاگر کردی کہ یہ فائنل صرف لاہور تک محدود نہیں تھا بلکہ اس ایونٹ نے پورے پاکستان کو متحد کیا، قوم کو مسرتوں کا تحفہ ملا، بڑی اسکرینوں پر کراچی ، کوئٹہ، پشاور اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بھی کرکٹ کے شیدائی میچ سے لطف اندوز ہوئے، اس سے منتظمین کو حوصلہ ملا ہے اور وہ آیندہ سیمی فائنل اور فائنل بھی پاکستان میں طے شدہ شیڈول کے مطابق کرانے کا سوچیں گے۔ پی ایس ایل کا اگلا فائنل کراچی میں کرانے کی بات سامنے آ چکی ہے۔
شہر قائد کے نیشنل اسٹیڈیم میں کافی عرصہ سے ویرانی ڈیرے ڈالے ہوئے ہے،21 فروری2009 ء میں آخری ٹیسٹ جب کہ 21 جنوری 2009 ء کو آخری ون ڈے نیشنل سٹیڈیم میں کھیلا گیا، بھارت کے سچن ٹندولکر نے اپنا پہلا میچ نیشنل سٹیدیم میں کھیلا تھا۔بلاشبہ اب اس کی ویرانی کے دن ختم ہوںگے، یاد رہے 8 سال قبل سری لنکن کرکٹ ٹیم پر لاہور میں حملہ کے بعد پاکستان عالمی کرکٹ سے کٹ کر رہ گیا تھا، تاہم پی ایس ایل فائنل سے پاکستان کرکٹ کی نشاۃ ثانیہ ہوئی ہے، یہ بڑی پیش رفت ہے، ایک آدھ تحفظات اور خدشات سے قطع نظر پی ایس ایل کی مینجمنٹ اور اوور ہال سیکیورٹی بے حد مثالی رہی، پاکستان کرکٹ بورڈ سرخرو رہا ۔
جہاں تک کھیل کے معیار اور کھلاڑیوں کے جوش وخروش کا تعلق ہے بلاشبہ بعض اسٹار غیر ملکی کرکٹرز کی عدم شمولیت سے کوئٹہ گلیڈی ایٹرزکو دھچکا لگا مگر مقابلہ اچھا رہا ۔ فائنل میچ میں پشاور زلمی نے بہترین ٹیم اسپرٹ سے اسے یک طرفہ مقابلے کی شکل دے کر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو 58 رنز سے شکست دیدی۔ پشاور زلمی نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں6 کھلاڑیوں کے نقصان پر 148رنز بنائے جب کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی پوری ٹیم 16.3 اوورز میں 90 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ پشاور کی ٹیم کو 148 کے اسکور تک پہنچانے میں کپتان ڈیرن سیمی کی آخری اوورز میں جارحانہ اننگز نے اہم کردار ادا کیا جنہوں نے 11 گیندوں میں تین چھکوں اور ایک چوکے کی مدد سے28 رنز بنائے۔ ڈیرن سیمی 28 اور جارڈن 8 رنز بناکر ناٹ آؤٹ رہے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے پی ایس ایل کے دوسرے سیزن میں بھی فائنل میں ہارنے کا اعزاز برقرار رکھا۔
صدر مملکت ممنون حسین، وزیراعظم نواز شریف، عمران خان، شہباز شریف، پرویز خٹک ، افغان سفیر،اور میئر لندن سمیت سیکڑوں سیاسی ، سماجی اور دیگر تنظیموں نے جیتنے والی ٹیم کو مبارکباد دی، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے پشازور زلمی کے لیے 2 کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا۔ روزنامہ ''خلیج ٹائمز'' نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ دبئی اور شارجہ میں 23 سنسنی خیز مقابلوں کے بعد بالآخر کرکٹ اپنے وطن پاکستان پہنچ گئی جب کہ بھارتی اخبار ''انڈین ایکسپریس'' کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل کا فائنل ایک میچ سے بڑھ کر تھا، اخبار کے مطابق پی سی بی نے اس چیلنج کو قبول کیا ہے کہ اس سے پاکستان میں غیر ملکی ٹیموں کی آمد کی راہ ہموار ہوگی، پاکستان ان کرکٹرز کے تحفظ کو یقینی بنائے گا اور عدم تحفظ سے متعلق شکایتیں دور ہوں گی۔
بہر حال پی ایس ایل فائنل ایک نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوئی ، غیر ملکی کھلاڑیوں نے کمال استقامت سے اپنے پروفیشن کی لاج رکھی، دلچسپی اور جوش وجذبہ سے شائقین کے دل موہ لیے، ڈیرن سیمی اور دیگر اسٹارز کو بے پناہ عزت ملی ، کامران اکمل اور بعض نوجوان کھلاڑیوں نے اپنے کھیل سے بورڈ کی اعلیٰ مینجمنٹ ، کوچزاور سلیکٹرز کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے، حقیقت یہ ہے کہ چاروں صوبوں سے باصلاحیت نوجوان بیٹسمین اور بولرز کی ایک کہکشاں دریافت ہوئی ہے، کھلاڑیوں نے فائٹر بیٹسمین اور جان لڑانے والے بولرز کی حیثیت میں پی ایس ایل کو اعتبار بخشا ہے۔
بہرحال پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کامیابی سے منعقد ہونے کے بعد آئی سی سی کے رکن ممالک تک اچھا پیغام پہنچا ہے' چند برس قبل زمبابوے کی ٹیم لاہور ہی میں میچ کھیل چکی ہے' اب پی ایس ایل فائنل میں بھی انٹرنیشنل کھلاڑی موجود تھے' یوں مستقبل میں ویسٹ انڈیز یا سری لنکا کی ٹیم کو پاکستان میں میچ کھیلنے پر رضا مند کیا جا سکتا ہے لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہو گا جب دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا حتمی خاتمہ ہو جائے گا اور اس مقصد کے حصول کے لیے ملک کی تمام سیاسی و دینی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو متحد ہو کر لڑنا پڑے گا۔
وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ہماری تنہائی کے دن گئے اور پاکستان مشکلات سے نکل آیا، دوسری جانب شائقین کرکٹ کا جوش وخروش دیدنی تھا، دنیائے کرکٹ کی ملکی و غیر ملکی شائقین کی بڑی تعداد نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ 27ہزار کے قریب گنجائش والے اسٹیڈیم میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ پی ایس ایل نے پاکستان کے اندر اور عالمی سطح پر یہ پیغام دیا کہ پاکستان میں کرکٹ بحال ہوچکی ہے، ساتھ ہی اس تاثر کی بھرپور نفی ہوئی کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیلی جا سکتی، اس غلط پروپیگنڈہ میں وہی عناصر ملوث تھے جو پاکستان پر دہشتگردی کا سایہ کرنے والی باطل قوتوں کے سرپرست و مددگار تھے اور کرکٹ کی عالمی برادری کوپاکستان کرکٹ سے خائف اور بدگمان کرنے میں لگے رہے مگراسی قذافی سٹیڈیم میں شائقین نے ویسٹ انڈیز کے نامور کھلاڑی ڈیرن سیمی کی پرجوش قیادت میں پشاور زلمی کو فتح کی ٹرافی بلند کرتے دیکھا ،اس کی خوشی دید کے قابل تھی، اور ان لائق تعریف غیر ملکی پلیئرز کے لیے اس فائنل میں عدم شرکت ایک ایسی خلش بنی جو انھیں مدتوں بے چین بنائے رکھے گی کہ وہ کیوں اس فائنل میں شرکت سے محروم رہے۔ منتظمین نے یہ صائب اعلان کرتے ہوئے کرکٹ شائقین کے دل جیت لیے کہ اگلا پی ایس ایل فائنل کراچی میں کھیلا جائے گا ۔
یقیناً اسی جوش وخروش اور جشن کا سماں کراچی میں بھی ہوسکے گا جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز رکھتا ہے، قذافی کرکٹ میلے نے یہ بات بھی اجاگر کردی کہ یہ فائنل صرف لاہور تک محدود نہیں تھا بلکہ اس ایونٹ نے پورے پاکستان کو متحد کیا، قوم کو مسرتوں کا تحفہ ملا، بڑی اسکرینوں پر کراچی ، کوئٹہ، پشاور اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بھی کرکٹ کے شیدائی میچ سے لطف اندوز ہوئے، اس سے منتظمین کو حوصلہ ملا ہے اور وہ آیندہ سیمی فائنل اور فائنل بھی پاکستان میں طے شدہ شیڈول کے مطابق کرانے کا سوچیں گے۔ پی ایس ایل کا اگلا فائنل کراچی میں کرانے کی بات سامنے آ چکی ہے۔
شہر قائد کے نیشنل اسٹیڈیم میں کافی عرصہ سے ویرانی ڈیرے ڈالے ہوئے ہے،21 فروری2009 ء میں آخری ٹیسٹ جب کہ 21 جنوری 2009 ء کو آخری ون ڈے نیشنل سٹیڈیم میں کھیلا گیا، بھارت کے سچن ٹندولکر نے اپنا پہلا میچ نیشنل سٹیدیم میں کھیلا تھا۔بلاشبہ اب اس کی ویرانی کے دن ختم ہوںگے، یاد رہے 8 سال قبل سری لنکن کرکٹ ٹیم پر لاہور میں حملہ کے بعد پاکستان عالمی کرکٹ سے کٹ کر رہ گیا تھا، تاہم پی ایس ایل فائنل سے پاکستان کرکٹ کی نشاۃ ثانیہ ہوئی ہے، یہ بڑی پیش رفت ہے، ایک آدھ تحفظات اور خدشات سے قطع نظر پی ایس ایل کی مینجمنٹ اور اوور ہال سیکیورٹی بے حد مثالی رہی، پاکستان کرکٹ بورڈ سرخرو رہا ۔
جہاں تک کھیل کے معیار اور کھلاڑیوں کے جوش وخروش کا تعلق ہے بلاشبہ بعض اسٹار غیر ملکی کرکٹرز کی عدم شمولیت سے کوئٹہ گلیڈی ایٹرزکو دھچکا لگا مگر مقابلہ اچھا رہا ۔ فائنل میچ میں پشاور زلمی نے بہترین ٹیم اسپرٹ سے اسے یک طرفہ مقابلے کی شکل دے کر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو 58 رنز سے شکست دیدی۔ پشاور زلمی نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں6 کھلاڑیوں کے نقصان پر 148رنز بنائے جب کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی پوری ٹیم 16.3 اوورز میں 90 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ پشاور کی ٹیم کو 148 کے اسکور تک پہنچانے میں کپتان ڈیرن سیمی کی آخری اوورز میں جارحانہ اننگز نے اہم کردار ادا کیا جنہوں نے 11 گیندوں میں تین چھکوں اور ایک چوکے کی مدد سے28 رنز بنائے۔ ڈیرن سیمی 28 اور جارڈن 8 رنز بناکر ناٹ آؤٹ رہے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے پی ایس ایل کے دوسرے سیزن میں بھی فائنل میں ہارنے کا اعزاز برقرار رکھا۔
صدر مملکت ممنون حسین، وزیراعظم نواز شریف، عمران خان، شہباز شریف، پرویز خٹک ، افغان سفیر،اور میئر لندن سمیت سیکڑوں سیاسی ، سماجی اور دیگر تنظیموں نے جیتنے والی ٹیم کو مبارکباد دی، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے پشازور زلمی کے لیے 2 کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا۔ روزنامہ ''خلیج ٹائمز'' نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ دبئی اور شارجہ میں 23 سنسنی خیز مقابلوں کے بعد بالآخر کرکٹ اپنے وطن پاکستان پہنچ گئی جب کہ بھارتی اخبار ''انڈین ایکسپریس'' کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل کا فائنل ایک میچ سے بڑھ کر تھا، اخبار کے مطابق پی سی بی نے اس چیلنج کو قبول کیا ہے کہ اس سے پاکستان میں غیر ملکی ٹیموں کی آمد کی راہ ہموار ہوگی، پاکستان ان کرکٹرز کے تحفظ کو یقینی بنائے گا اور عدم تحفظ سے متعلق شکایتیں دور ہوں گی۔
بہر حال پی ایس ایل فائنل ایک نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوئی ، غیر ملکی کھلاڑیوں نے کمال استقامت سے اپنے پروفیشن کی لاج رکھی، دلچسپی اور جوش وجذبہ سے شائقین کے دل موہ لیے، ڈیرن سیمی اور دیگر اسٹارز کو بے پناہ عزت ملی ، کامران اکمل اور بعض نوجوان کھلاڑیوں نے اپنے کھیل سے بورڈ کی اعلیٰ مینجمنٹ ، کوچزاور سلیکٹرز کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے، حقیقت یہ ہے کہ چاروں صوبوں سے باصلاحیت نوجوان بیٹسمین اور بولرز کی ایک کہکشاں دریافت ہوئی ہے، کھلاڑیوں نے فائٹر بیٹسمین اور جان لڑانے والے بولرز کی حیثیت میں پی ایس ایل کو اعتبار بخشا ہے۔
بہرحال پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کامیابی سے منعقد ہونے کے بعد آئی سی سی کے رکن ممالک تک اچھا پیغام پہنچا ہے' چند برس قبل زمبابوے کی ٹیم لاہور ہی میں میچ کھیل چکی ہے' اب پی ایس ایل فائنل میں بھی انٹرنیشنل کھلاڑی موجود تھے' یوں مستقبل میں ویسٹ انڈیز یا سری لنکا کی ٹیم کو پاکستان میں میچ کھیلنے پر رضا مند کیا جا سکتا ہے لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہو گا جب دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا حتمی خاتمہ ہو جائے گا اور اس مقصد کے حصول کے لیے ملک کی تمام سیاسی و دینی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو متحد ہو کر لڑنا پڑے گا۔