کراچی کے کچھ تفریحی مقامات کی یادیں دوسرا حصہ

پہلے سمندرکی چمکیلی لہریں دورسے نظر آجاتی تھیں جوآنکھوںسے اترکر دل میں اترجاتی تھیں

shabbirarman@yahoo.com

پہلے سمندرکی چمکیلی لہریں دورسے نظر آجاتی تھیں جوآنکھوںسے اترکر دل میں اترجاتی تھیں،اب سمندر قریب سے بھی نظر نہیں آتا، جب سٹی حکومت نے سمندرکے کنارے طویل پارک تعمیرکیا تو سمندر نظروں سے بالکل دور ہو گیا، پارک کا داخلہ ٹکٹ دس روپے رکھا گیا ۔ پارک میں داخل ہوکر ہی سمندر نظرآجاتا،اس طرح گویا سمندرکو دیکھنے کے لیے سٹی حکومت کو شہریوں کو ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا، سٹی حکومت کے ختم ہو کے بعد سمندرآزاد توہوگیا مگرکنارے کھڑے ہوکر بھی سمندر نظروں سے کوسوں دورکردیا گیا ہے۔

سمندر میں ادھر ادھر سے مٹی ڈال کر اسے ڈھانپ دیا گیا ہے۔اب سمندر تک پہنچنے کے لیے مختلف گڑوں سے گزرنا پڑتا ہے اور پانی چڑھنے سے پہلے سمندر سے واپس آنا ضروری ہوگیا ہے ورنہ دیگر آدمی کھودے گئے گڑھوں کی نذر ہوسکتا ہے ۔ ہمارے بچپن میں سمندرکنارے کھانے پینے کی بہت سارے کیبن نما دکانیں ہواکرتی تھی ان کے بانکڑوں پر بیٹھ کر شہری سمندرکا نظارہ کیاکرتے تھے ، اونٹ اور گھوڑوں پر سوار ہوکر سمندر کنارے دوڑلگالیا کرتے تھے ہر چندکہ اب بھی اونٹ اور گھوڑے والے موجود ہیں مگر ان کی تعداد پہلے سے کم ہوگئی ہے ۔

اب سمندرکنارے منی موٹر والے زیادہ پائے جاتے ہیں جن پر سوار ہوکر موٹر ریس کا لطف لیا جاتا ہے مگر اس میں حادثے کا اندیشہ زیادہ ہے ، جس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ، سمندر کے درمیان دو پہاڑی سلسلے اب بھی موجود ہے جس کے اس پار منوڑہ ہے ، اس پہاڑی سلسلے میں ایک اونچا فوارہ نصب کیا گیا تھا جس کا پانی آسمان کو چھوتا نظر آتا تھا ۔ رات کے وقت اس کی رنگ برنگی روشنیاں ساحل کلفٹن سے دلکش منظر پیش کیا کرتی تھیں مگر کراچی پورٹ ٹرسٹ اخراجات برداشت نہ کرپایا اور تفریح کا یہ سلسلہ بہت جلد ختم ہوگیا۔ آج جہاں ایک بلند عمارت( ڈول میل ) قائم ہے یہاں تک سمندر تھا جہاں ہم پانی میں ڈبکی مارتے تھے اسی مقام پر ایک عمارت تھی جو کیسینوتھا مگر کامیاب نہ ہوسکا تھا اسے بھی مسمار کیا گیا ۔

اس کے اس طرف بلکہ چاروں طرف سمندرکا مٹی کے بگولے ہوا کرتے تھے اور جھاڑیاں ہوا کرتی تھیں ، جب ٹڈی دل کا موسم ہوتا تھا تو ہم اپنے گھرواقع لیاری سے یہاں آکر ٹڈی دل کا شکارکیا کرتے تھے جو زمین پر اترکر چاروں طرف پھیل جاتے تھے۔ ان کو شکار کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ ہم دو لڑکے ایک دوپٹہ یا چادرکے چاروں کونے پکڑکر ان پر ڈال لیتے تھے اس طرح وہ اس میں پھنس جاتے تھے ۔ لیاری میں ٹڈی دل کو شوق سے کھایا جاتا تھا ، لیاری بھر میں کڑائی میں پکا کراسے فروخت کیا جاتا تھا۔ (ٹڈی دل کو بلوچی زبان میں مہ دگ کہتے ہیں) جس کا ذائقہ ہمارے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹرقدیرخان کو آج بھی یاد ہے جس کا ذکر انھوں نے اپنے ایک کالم میں کیا تھا جب وہ لیاری کے قریب علاقے شیر شاہ میں اپنے بھائی کے گھر میں قیام پذیر تھے تو وہ لیاری آجایا کرتے تھے ۔

اب کلفٹن کا یہ پورا علاقہ عمارتوں کا جنگل بنا ہوا ہے، بڑے بڑے شاہراہ یہاں قائم کیے گئے ہیں لگتا نہیں کہ یہ ہوا بندر (کلفٹن) کا علاقہ ہے،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دانستہ طور پرکلفٹن کی سیر و تفریحی کی انفرایت کو مسمارکیا گیا ہے۔ ہوا بندر (کلفٹن ) کے جس مقام پر جھولے ہواکرتے تھے ، جہاں ماہی گھر (خواتین کے لیے مخصوص ایریا) ہوا کرتا تھا سب کو یکسر مسمارکر کے وہاں صوبہ سندھ میں اسلام کی روشنی پھیلانے والے محمد بن قاسم کے نام سے منسوب باغ ابن قاسم بنا یاگیا ہے جو طویل اور وسیع باغ ہے پہلے پہل یہ بہت خوب صورت تھا، شہری یہاں آتے تھے لیکن اب ایک عرصے سے ویران ہے کوئی اس کا پرسان حال نہیں اس لیے شہریوں نے بھی یہاں آنا ترک کردیا ہے ۔


باغ ابن قاسم ایک سو تیس ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا ہے،اس وقت کے صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے 27 فروری 2007ء کو اس کا افتتاح کیا تھا، جس کی تعمیر پر ایک ارب دس کروڑ روپے خرچ کی گئی تھی، یہ تین لاکھ افراد کی گنجائش کا حامل پارک ہے، 2005ء میں اس کو پلان کیا گیا ، بلدیہ عظمیٰ کراچی نے 2006ء میں اس کی تعمیر کا آغازکیا ، ہارٹی کلچر لیاقت علی نے اس کا نقشہ تیارکیا،اس وقت کے گورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے اس پارک کی تعمیرکے دوران 63مرتبہ یہاں کا دورہ کیا، 40ممالک کے سفارتکار اس پارک کی تعمیر دیکھنے کے لیے آئے،اس وقت کے صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف بھی تین مرتبہ اس کے کام کا معائنہ کرنے آئے تھے ۔

ایک سال کی مدت میں یہ پارک مکمل کیا گیا،اس پارک میں بیٹھنے کے لیے تین ہزارنشستیں بنائی گئیں ہیں۔ باغ ابن قاسم میں بیس چھتریاں بھی بنائی گئی ہیں، باغ میں پندرہ سو برقی قمقمے ، 24لائٹ ٹاورزاور ارینہ لائٹس بھی لگا گئی ہیں، باغ میں تین ہزار ڈسٹ بن نصب ہیں، بچوں کے لیے دوایکڑرقبے پرامیوزمنٹ پارک بھی تعمیر ہے، جس میں جھولے بھی ہیں، ہزاروں کی تعداد میں پودے لگا دیے گئے تھے جو اب مرجھا گئے ہیں، یہ پارک سیوریج کے ٹرینڈ واٹر سے سیراب کیا جاتا تھا ،اب ہر طرف خشکی ہی خشکی نظر آتی ہے۔ یہاں 24بیت الخلاء ہیں مگر ویران ہیں، باغ کے چاروں طرف کار پارکنگ کی سہولت بھی ہے ۔علی حسن ساجد کی نگرانی میں باغ کی تعمیرکے ہر دن کی کل بارہ ہزار تصاویر اور ویڈیوزبنائی گئیں ہیں جو محفوظ کیے گئے ہیں ۔ باغ کے افتتاح کے موقعے پر اس سے متعلق دستاویزی فلم بھی بنائی گئی جس کی تحریروآواز علی حسن ساجد کی ہے اور ایک مجلہ بھی شایع کیا گیا تھا۔ باغ کے افتتاح کے موقعے پر ایک لاکھ شخصیات کو دعوت نامے ارسال کیے گئے تھے ۔

حضرت عبداللہ شاہ غازی کا مزار، دو بڑی مساجد اورایک قدیم مندر باغ ابن قاسم میں پڑتے ہیں، مزار شریف کی تعمیر پر 50کروڑ روپے سے زائدکا تخمینہ ہے، قدیم مچھلی گھرکی ازسرنوتعمیرالتوا کا شکارہے ، ابتدائی دنوں میں باغ ابن قاسم دلفریب منظر پیش کرتا تھا لیکن اب ویرانی اس پر غالب ہے ، اس سے پہلے کہ ابن قاسم بھی دیگر پارکوں کی طرح ماضی کا حصہ بن جائے اس پر نظرکرم کرنی چاہیے ۔ کراچی میں فاطمہ جناح روڈ پر قائم دل کش قدیمی عمارت فریئرہال، سابق کمشنر سندھ سر ایچ بار ٹلے ای فریئر کی سندھ میں خدمات کے اعتراف میں تعمیرکرائی گئی تھی۔ اس عمارت کی تعمیرکا آغاز 1863ء میں ہوا تھا ، اس عمارت کی تعمیر تقریبا دوسال میں مکمل ہوئی تھی ، 10اکتوبر 1865ء کو اس وقت کے کمشنر سندھ مسٹر سیموئیل مینسفیلڈ نے افتتاح کیا تھا ۔اس عمارت کی تعمیر میں ایک لاکھ اسی ہزار روپے خرچ ہوئے تھے،اس رقم میں سے 22,500 روپے عوامی چندے کے ذریعے وصول ہوئے تھے ، جب کہ 10ہزار روپے حکومت نے مہیا کیے تھے اور بقیہ 147,500روپے کراچی میونسپلٹی نے فراہم کیے تھے۔

اس عمارت کے اوپری دوکمروں میں 1871ء میں جنرل لائبریری اور میوزیم قائم کیے گئے تھے ، یہ عمارت ڈیڑھ صدی سے کراچی کی پہچان بنی ہوئی ہے ۔اس عمارت کے اندر قائم میوزیم( جسے بت خانہ کہا جاتا تھا ) سے اور اس سے ملحق پارک سے بچپن کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ اس زمانے میںہماری سیرکے مقامات ، کبھی ہوابندر (کلفٹن )، کبھی چڑیا گھر،کبھی منوڑہ ،کبھی عزیزبھٹی پارک ،کبھی ڈرگ روڈ (بابا کا مزاراور وہاں قائم گرم پانی کی کشتی ( حوض )، منگھوپیر ( باباکا مزار اور وہاں کے گرم اور ٹھنڈے پانی کے حوض )، ہل پارک ، مزار قائداعظم ، قومی عجائب گھر، ہاکس بے، لوکل ٹرین کا سفر اوربلوچستان کے علاقے گڈانی ہوا کرتے تھے ۔

ان میں بند مراد خان بھی شامل ہوا کرتا تھا، مدت گزرجانے کے بعد شہرکراچی میں دیگر تفریح مقامات قائم ہوئے جن میں سفاری پارک،الہ دین پارک، سند باد ، عسکری پارک، ہل پارک امیوزمنٹ پارک ، بن قاسم پارک ، سیمنز پارک،کوزی پارک،واٹرپارک، پی این ایس سی پارک ، فضائیہ پارک اوردیگر پارک وغیرہ شامل ہیں۔فریئر ہال اورقومی عجائب گھر میں ہم اکثرجایا کرتے تھے کیوں کہ وہاں پرانے زمانے کی چیزیں ہوا کرتی تھی جنھیں دیکھنے کا بڑا شوق ہواکرتا تھا اور یہ شوق اب بھی برقرار ہے ۔ آیندہ مضمون کے آخری حصے میں ان یادوں کا چیدہ چیدہ تذکرہ کریں گے ۔ (جاری ہے)
Load Next Story