شادی سے قبل تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی قرار دینے سے متعلق بل تیار
مرض کےخاتمےکیلیےتھیلیسیمیاپریوینشن بل2013سندھ اسمبلی میں پیش کیاجائیگا،نکاح نامےپرتھیلیسیمیا ٹیسٹ کےکالم کااندراج ہوگا
حکومت سندھ نے صوبے میں شادی سے قبل تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی قراردیے جانے سے متعلق قانونی مسودے کو حتمی شکل دیدی۔
بل آئندہ چند روز میں صوبائی اسمبلی میںپیش کیا جائیگا، جس کا نام تھیلیسیمیا پریوینشن بل 2013رکھاگیا ہے ،بل میں نکاح نامے پرتھیلیسیمیا کے ٹیسٹ کے کالم کا اندراج لازمی قرار دیاگیا ہے، اس حوالے سے بدھ کوگورنرہاؤس میںگورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی سربراہی میں اجلاس بھی منعقدکیاگیا جس میں سینیٹر عبدالحسیب ، صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیراحمد، وزیر خزانہ مراد علی شاہ ،گورنرکے سیکریٹری پروفیسر نوشاد احمد شیخ ، سیکریٹری صحت آفتاب کھتری سمیت دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔
ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں تھیلیسیمیاکے مرض پر قابوپانے کیلیے شادی سے قبل تھیلیسیمیاکے ٹیسٹ کولازمی قراردیاگیا ہے اور اس حوالے سے گورنرسندھ نے سرکاری اسپتالوں میں 7 تھیلیسیمیا سینٹرز، ٹیسٹنگ مراکز کو جلد مکمل اور صوبے کے تمام ٹیچینگ اسپتالوں میں ڈاکٹر عشرت العبادخان کے نام سے منسوب تھیلیسیمیا سینٹرز کو بھی فوری فعال کرنے کی ہدایت دی ہے، ذرائع کے مطابق اجلاس میں شادی سے قبل کرائے جانے والے تھیلیسیمیا ٹیسٹ کی رپورٹ کونکاح نامے کے ساتھ منسلک کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیاہے جبکہ نکاح نامے میں درج کالم میں بھی رپورٹ تحریرکی جائیگی۔
ذرائع نے بتایا کہ تھیلیسیمیا بل کی منظوری کے بعد دولہا اوردلہن ٹیسٹ کرانے کے پابند ہوںگے جبکہ نکاح خواں (قاضی ) بھی نکاح پڑھانے سے قبل تھیلیسیمیا ٹیسٹ کی رپورٹ دیکھ کرنکاح نامے سے منسلک کریںگے، معلوم ہوا ہے کہ نکاح خواں کی جانب سے ٹیسٹ کے بغیر نکاح پڑھانے اورقانون کی خلاف ورزی پر کارروائی کی جائیگی جبکہ دولہا، دلہن پربھی جرمانہ عائد کرنے پر غورکیا جارہا ہے، واضح رہے کہ صوبائی محکمہ صحت نے امسال 7تھیلیسیمیا سینٹرقائم کرنے کی منظوری دی ہے ،ماہرین طب کے مطابق تھیلیسیمیا خون کی ایک موروثی بیماری ہے ، یہ مرض والدین سے بچوں میں منتقل ہوتا ہے،اس مرض میں مبتلا بچوں میںخون بننے کا عمل رک جاتا ہے۔
پاکستان میں ہر سال 5ہزار بچے یہ مرض لے کر پیدا ہو رہے ہیں ،ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں تھیلیسیمیاکے مریض بچوں کی تعداد لگ بھگ 80ہزار ہے، تھیلیسیمیاکی دو قسمیں ہیں: تھیلیسیمیا میجراور تھیلیسیمیامائنر،تھیلیسیمیامائنرکوئی علامت ظاہر نہیں کرتا،مگرجب والدین تھیلیسیمیامائنرکا شکار ہوں تو پیدا ہونے والے بچوں میں اس بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ وہ تھیلیسیمیامیجر کا شکار ہوں،تھیلیسیمیا میجر میں خون بننے کا عمل رک جاتا ہے، نتیجتاً ایسے بچوں کے جسم میں خون کی شدید کمی پیدا ہوجاتی ہے اور انہیں ساری زندگی انتقال خون کی ضرورت پیش آتی ہے، ا س انتقال خون اور ادویات کے استعمال میں ماہانہ6000روپے خرچ ہوتے ہیں جو کہ ایک غریب آدمی کے بس سے باہر ہوتا ہے ۔
بل آئندہ چند روز میں صوبائی اسمبلی میںپیش کیا جائیگا، جس کا نام تھیلیسیمیا پریوینشن بل 2013رکھاگیا ہے ،بل میں نکاح نامے پرتھیلیسیمیا کے ٹیسٹ کے کالم کا اندراج لازمی قرار دیاگیا ہے، اس حوالے سے بدھ کوگورنرہاؤس میںگورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی سربراہی میں اجلاس بھی منعقدکیاگیا جس میں سینیٹر عبدالحسیب ، صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیراحمد، وزیر خزانہ مراد علی شاہ ،گورنرکے سیکریٹری پروفیسر نوشاد احمد شیخ ، سیکریٹری صحت آفتاب کھتری سمیت دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔
ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں تھیلیسیمیاکے مرض پر قابوپانے کیلیے شادی سے قبل تھیلیسیمیاکے ٹیسٹ کولازمی قراردیاگیا ہے اور اس حوالے سے گورنرسندھ نے سرکاری اسپتالوں میں 7 تھیلیسیمیا سینٹرز، ٹیسٹنگ مراکز کو جلد مکمل اور صوبے کے تمام ٹیچینگ اسپتالوں میں ڈاکٹر عشرت العبادخان کے نام سے منسوب تھیلیسیمیا سینٹرز کو بھی فوری فعال کرنے کی ہدایت دی ہے، ذرائع کے مطابق اجلاس میں شادی سے قبل کرائے جانے والے تھیلیسیمیا ٹیسٹ کی رپورٹ کونکاح نامے کے ساتھ منسلک کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیاہے جبکہ نکاح نامے میں درج کالم میں بھی رپورٹ تحریرکی جائیگی۔
ذرائع نے بتایا کہ تھیلیسیمیا بل کی منظوری کے بعد دولہا اوردلہن ٹیسٹ کرانے کے پابند ہوںگے جبکہ نکاح خواں (قاضی ) بھی نکاح پڑھانے سے قبل تھیلیسیمیا ٹیسٹ کی رپورٹ دیکھ کرنکاح نامے سے منسلک کریںگے، معلوم ہوا ہے کہ نکاح خواں کی جانب سے ٹیسٹ کے بغیر نکاح پڑھانے اورقانون کی خلاف ورزی پر کارروائی کی جائیگی جبکہ دولہا، دلہن پربھی جرمانہ عائد کرنے پر غورکیا جارہا ہے، واضح رہے کہ صوبائی محکمہ صحت نے امسال 7تھیلیسیمیا سینٹرقائم کرنے کی منظوری دی ہے ،ماہرین طب کے مطابق تھیلیسیمیا خون کی ایک موروثی بیماری ہے ، یہ مرض والدین سے بچوں میں منتقل ہوتا ہے،اس مرض میں مبتلا بچوں میںخون بننے کا عمل رک جاتا ہے۔
پاکستان میں ہر سال 5ہزار بچے یہ مرض لے کر پیدا ہو رہے ہیں ،ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں تھیلیسیمیاکے مریض بچوں کی تعداد لگ بھگ 80ہزار ہے، تھیلیسیمیاکی دو قسمیں ہیں: تھیلیسیمیا میجراور تھیلیسیمیامائنر،تھیلیسیمیامائنرکوئی علامت ظاہر نہیں کرتا،مگرجب والدین تھیلیسیمیامائنرکا شکار ہوں تو پیدا ہونے والے بچوں میں اس بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ وہ تھیلیسیمیامیجر کا شکار ہوں،تھیلیسیمیا میجر میں خون بننے کا عمل رک جاتا ہے، نتیجتاً ایسے بچوں کے جسم میں خون کی شدید کمی پیدا ہوجاتی ہے اور انہیں ساری زندگی انتقال خون کی ضرورت پیش آتی ہے، ا س انتقال خون اور ادویات کے استعمال میں ماہانہ6000روپے خرچ ہوتے ہیں جو کہ ایک غریب آدمی کے بس سے باہر ہوتا ہے ۔