روایتی ہتھیاروں کی تجارت اور بڑی طاقتیں

دنیا بھر کی دہشت گرد تنظیموں اور جرائم پیشہ گروہوں کے پاس امریکا...

اس وقت ہتھیاروں کی غیر قانونی تجارت سے پوری دنیا کا امن دائو پر لگ چکا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

ISLAMABAD:
دنیا میں روایتی ہتھیاروں کی تجارت کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مذاکرات ہفتے کو بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہو گئے۔امریکا کے شہر نیویارک میں ہونے والی عالمی کانفرس میں امریکا ، روس اور چین نے معاہدے پر غور کے لیے مزید وقت مانگا ہے۔ اقوام متحدہ کے تجویز کردہ اس معاہدے کے تحت ہتھیاروں کی فروخت کے وقت اس امر کو مدنظر رکھا جائے گا کہ یہ ہتھیار کسی منظم جرائم پیشہ گروہ کے ہاتھ نہ لگیں۔اس عالمی کانفرس کے سربراہ رابرٹو گارشیا پرامید ہیں کہ ہتھیاروں کی تجارت کے حوالے سے رواں سال کے اختتام تک معاہدہ طے پا جائے گا تاہم اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے مذاکرات کی ناکامی پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

اس وقت ہتھیاروں کی غیر قانونی تجارت سے پوری دنیا کا امن دائو پر لگ چکا ہے۔ اسلحہ سازی امریکا اور یورپین ممالک کی ایک بہت بڑی صنعت ہے جس سے وہ سالانہ کھربوں ڈالر کماتے ہیں۔چین بھی اسلحہ تیار کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے۔ امریکا کی ترقی اور خوشحالی میں اسلحہ کی تجارت سے حاصل ہونے والے منافع کا بہت بڑا حصہ ہے۔ یہ ممالک اپنی اسلحہ کی صنعت کو ہر دم ترقی دینے کے لیے کوشاں ہیں اور جدید سے جدید ہتھیار بنا کر اور فروخت کر کے زرکثیر سمیٹ رہے ہیں۔

دوسرے ممالک سے سرکاری سطح پر طے پانے والے معاہدے ایک طرف مگر دنیا بھر کی دہشت گرد تنظیموں اور جرائم پیشہ گروہوں کے پاس امریکا اور یورپ کا جدید اسلحہ موجود ہے۔ اس وقت ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکا میں سرگرم مختلف نوعیت کے گروہ ترقی یافتہ ممالک سے اسلحہ خریدتے ہیں، پاکستان میں دہشت گرد گروپ بھی اسلحہ بلیک مارکیٹ سے خریدتے ہیں ۔ یوں اس سوال کا جواب تلاش کرنا مشکل نہیں ہے کہ دنیا بھر میں سرگرم دہشت گرد اور جرائم پیشہ گروہوں کے پاس یہ اسلحہ کہاں سے آ رہا ہے، کون سے ذرایع اس میں ملوث ہیں۔اب دوسرا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان گروہوں کی مالی معاونت کون کر رہا ہے اور اس کے پس منظر میں کیا مقاصد کارفرما ہیں؟

اس معاملے میں بھی امریکا اور یورپین ممالک کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ترقی یافتہ ممالک میں نجی شعبے میں اسلحہ سازی ہوتی ہے ۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ممالک اسلحہ کی قانونی تجارت کے علاوہ غیرقانونی تجارت سے بھی اربوں ڈالر کما رہے ہیں۔ ایسے میں وہ کیسے چاہیں گے کہ اسلحہ کی غیر قانونی تجارت پر پابندیاں عائد ہو جائیں کیونکہ اس سے ان کی اسلحہ سازی کی صنعت کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ امریکا پر یہ الزام تواتر سے عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی اسلحہ سازی کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد پر مشتمل منظم گروہ پیدا کرکے کسی ایک خطے کے حالات میں بگاڑ پیدا کر دیتا ہے اور اس طرح وہ اسلحہ کی غیر قانونی تجارت سے اربوں ڈالر کماتا ہے۔

یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ افریقہ' سری لنکا اور دنیا کے دیگر ممالک میں حکومت سے اور آپس میں برسر پیکار گروہوں کے پاس غیر ملکی اسلحہ کی بھرمار ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ان جنگجوئوں کے پائوں میں ٹوٹی چپلیں اور تن پر معمولی کپڑے ہیں، ان کے پاس کھانے کو معیاری خوراک اور زندگی کی بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں مگر ان کے پاس جدید ہتھیاروں کے انبار لگے ہیں اور وہ ہاتھوں میں خوفناک ہتھیار اٹھائے یوں پھرے رہے ہوتے ہیں جیسے یہ کھلونے ہوں۔


یہ ہتھیار انھیں کون فراہم کر رہا ہے۔ امریکا اور یورپ جن کے پاس سیکیورٹی کا جدید ترین نظام ہے ان کا اسلحہ ان گروہوں کے پاس کیسے پہنچ جاتا ہے۔ اس امر سے ان شکوک کو تقویت ملتی ہے کہ عالمی سطح پر اسلحہ کی غیر قانونی تجارت میںان ممالک کی طاقتور لابیاں بذات خود شامل ہیں۔اسلحہ سازی اور اس کی فروخت سے دولت کمانے والی یہ لابیاں اسلحہ کے پھیلاو کو روکنے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو غیرقانونی اسلحہ کی تجارت پر پابندی کے لیے ہونے والے مذاکرات ڈھکوسلے سے کم نہیں۔ اگر یہ غیر قانونی تجارت ختم ہو جاتی ہے تو اس سے ان ممالک کی معیشت کو شدید دھچکا لگے گا۔

جنرل بان کی مون نے ہتھیاروں کی تجارت کے معاہدے کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات کی ناکامی پر مایوسی کو اظہار توکر دیا ہے مگر سب کو معلوم ہے کہ اس کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں ہے ۔ اقوام متحدہ ہو یا اس کا سیکریٹری جنرل وہ عالمی طاقتوں کے سامنے بے بس ہیں ، ان کا کام صرف ان معاملات کی منظوری دینا ہے جنھیں امریکا یا دیگر طاقتور ممالک درست سمجھیں گے۔ امریکا' روس اور چین نے معاہدے پر غور کرنے کے لیے مزید وقت مانگا ہے۔

مزید وقت مانگنے میں کیا مصلحت ہے اور فوری طور پر کسی نتیجے پر پہنچنے میں کیا امر مانع ہے۔ عالمی طاقتیں مخلص ہوں تو دنیا بھر میں اسلحہ کی غیر قانونی تجارت پر قابو پانا کوئی مشکل نہیں اس سے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کی کارروائیوں پر قابو پانے میں بھی آسانی رہے گی مگر شاید یہ قوتیں ایسا چاہتی ہی نہیں۔ اس وقت افریقہ ، ایشیا اور لاطینی امریکا میں ہزاروں افراد قتل ہورہے ہیں۔ دور کیوں جائیں ، افغانستان اور پاکستان کی ہی مثال کافی ہے۔

یہاں دہشت گرد گروہوں کے پاس جدید ترین ہتھیارہیں۔ یہ سارے غیرملکی ساختہ ہیں۔ ان دشت گرد گروہوں تک یہ ہتھیار کیسے پہنچتے ہیں؟یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ بحرہند ہویا بحرالکاہل ، ہر آبی گزرگاہ پر امریکا یا نیٹو کے بحری جہاز گشت کررہے ہیں، ان سے بچ کر نکلنا بہت مشکل کام ہے لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ ہتھیاروں سے لدے شپ بڑی آسانی سے گزر جاتے ہیں، اسی طرح ترقی یافتہ ممالک کے ہوائی اڈوں کی نگرانی بھی بہت سخت ہے لیکن وہ سے اگر جہاز کے ذریعے کوئی چیز غریب ممالک کے ہوائی اڈوں تک پہنچتی ہے تو اس کی ذمے داری بھی ترقی تافتہ ممالک پر ہی عائد ہوتی ہے۔

حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے مسائل کی ذمے داری ترقی یافتہ ممالک پر ہی عائد ہوتی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ ہو یا ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری ہو۔ غیر قانونی اسلحہ کی فروخت روکنے کا معاملہ ہو یا منشیات کا مسئلہ، ان سب کے ڈانڈے ترقی یافتہ ممالک کی بااثر لابیوں سے ملتے ہیں۔غریب ملکوں میں برسراقتدار حکومتیں بھی انھی لابیوں کی پروردہ ہوتی ہیں اور وہ ان لابیوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنے ہی ہم وطنوں کی ہلاکت کا سامان کرتی ہیں۔

اگر ترقی یافتہ ممالک چاہیں تو دنیا سے ایٹمی ہتھیار بھی ختم ہوسکتے ہیں اور غیر قانونی ہتھیاروں کی تجارت بھی ختم ہوسکتی ہے۔ نیویارک میں جو کانفرنس ہوئی، اس کا فائدہ اسی وقت ہوتا جب شرکاء کسی معاہدے پر متفق ہوجاتے ، اس سے دنیا کو پیغام ملنا تھا کہ طاقتور ممالک نے ذمے داری کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوسکا، اب اگلی کانفرنس کے انعقاد تک انتطار کے سوا کوئی چارہ نہیں، اس وقت کیا حالات ہوں گے، کسی کو پتہ نہیں۔
Load Next Story