خواتین کا عالمی دن
پاکستان کے کچھ علاقے خاص کر خیبر پختونخوا میں خواتین کو آج بھی ووٹ ڈالنے کا حق نہیں۔
PESHAWAR:
آج سے پچاس ہزار سال قبل جب انسان جنگلوں سے شکار اور پانی سے مچھلیاں پکڑ کرکھاتا تھا، اس وقت چونکہ طبقاتی تقسیم نہیں تھی، اس لیے خواتین بھی آزاد تھیں۔ مرد شکارکرتے اور خواتین باقی کام کی نہ صرف ذمے دار تھیں بلکہ تقریباً سارے سماجی امور کا انتظام اور نگہبانی کرتی تھیں۔ درختوں کی جڑیں، جڑی بوٹیاں جمع کرنے، اجناس کا ذخیرہ کرنا، روزمرہ کا حساب کتاب رکھنا، دوا داروکا انتظام کرنا، تفریحات کا انتظام کرنا اور کھانے کو تقسیم کرنا عورت کے ذمے تھا۔جب طبقاتی تقسیم ہوئی اور ریاست وجود میں آئی، طبقاتی استحصال شروع ہوگیا۔ یہ استحصال غلامانہ دور سے شروع ہوا۔ اس لیے کہ اسی دور سے طبقات وجود میں آئے۔
آج کے نام نہاد مہذب معاشرے میں مختلف انداز میں خواتین کو غلام بناکر رکھا گیا ہے۔ خاندانی اور ریاستی جبر کا آغاز ہوا۔ اس جبر کے خلاف صدیوں سے خواتین طبقاتی، سماجی اور مردوں کے استحصال کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر آج دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن آٹھ مارچ کو ہر سال منایا جاتا ہے۔ اس کی شروعات کیسے ہوئی اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
1908ء میں انٹرنیشنل لیڈیز گارمنٹ ورکرز کی ہڑتال کی یاد میں سوشلسٹ پارٹی آف امریکا نے پہلی بار 28 فروری 1909ء میں خواتین کا یوم منایا۔ 8 مارچ کو کوئی خصوصی ہڑتال نہیں ہوئی۔ سوشلسٹ انٹرنیشنل یعنی سیکنڈ انٹرنیشنل کے فیصلے کے مطابق کوپن ہیگن ڈنمارک میں اگست 1910ء میں انٹرنیشنل ویمینز کانفرنس منعقد کی گئی۔ جرمن سوشلسٹ لوئس زیٹیز نے انٹرنیشنل ڈے منانے کی تجویز پیش کی، جس کی سوشلسٹ رہنما نے تائید کی اور بعد میں کمیونسٹ رہنما کلارازیٹ کین نے اس کی حمایت کا اعلان کیا۔
اس کانفرنس میں 17 ممالک کی 100 خواتین نمایندوں نے شرکت کی۔ 19 مارچ 1911 ء کو WID کے انعقاد کے موقع پر دس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں ریلی نکالی۔ صرف سلطنت آسٹرو ہنگری میں 300 شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ ویانا میں خواتین نے کمیون کے شہدا کی یاد میں بینرز اٹھا رکھے تھے۔ خواتین نے برابر کے حقوق کے ساتھ ساتھ ووٹ ڈالنے کے حق کا مطالبہ بھی کیا تھا، جنسی تفریقات سے بالاتر ہوکر ملازمت دینے کا مطا لبہ بھی تھا۔ امریکا میں مسلسل فروری کے آخری اتوار کو انٹرنیشنل ویمن ڈے منایا جاتا تھا۔ 1913ء میں پہلی بار روس میں انٹرنیشنل ویمن ڈے ہر سال فروری کے آخری ہفتے کو منایا جانے لگا۔ جرمنی میں 8 مارچ کو اس لیے منایا جانے لگا کہ اس روز اتوار ہوتا تھا۔ روس میں 1917ء کے فروری انقلاب کے بعد سینٹ پیٹرزبرگ میں اس دن کو ''روٹی اور امن'' کے دن کے طور پر منایا جانے لگا۔
خواتین کا عالمی دن روسی انقلاب کی بنیاد بنا۔ اس روز ٹیکسٹائل ورکرز ہڑتال پہ چلے گئے۔ 1917ء کے سوویت انقلاب کے بعد خواتین کے عالمی دن کو سرکاری طور پر چھٹی کے دن کا اعلان کیا گیا اور خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا، اس کے بعد 1918ء میں جرمنی، 1919ء میں امریکا، 1929ء میں برطانیہ اور 1973ء میں سوئٹزرلینڈ میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا۔ اس کے بعد سوشلسٹ ممالک اس دن کو سرکاری طور پر منانے لگے۔ 1922ء سے چین کی کمیونسٹ پارٹی یہ دن منانے لگی۔ اسپین کے کمیونسٹ 1936ء سے منانے لگے۔ 1977ء میں اقوام متحدہ نے خواتین نمایندوں کو دعوت دی اور اس کے بعد سے اقوام متحدہ بھی اسے عالمی دن کے طور پر منانے لگی۔ لیکن کسی نہ کسی طور ہر ملک میں خواتین کا استحصال ہوتا آرہا ہے۔ ہاں مگر سابق سوشلسٹ ممالک، موجودہ سوشلسٹ ممالک اور کچھ یورپی ممالک کے سوا خواتین کا استحصال جاری ہے۔
آج سب سے زیادہ عورتوںکا استحصال برصغیر میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں صرف گزشتہ برس 2016ء میں 6000 خواتین کو مختلف طریقوں سے قتل کیا گیا۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مزدوروں اور کسانوں کا سب سے زیادہ استحصال کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں سب سے زیادہ استحصال خواتین کا ہوتا ہے۔ لڑکیوں کو ان کی مرضی سے شادی نہیں کرنے دی جاتی ہے، اگر کر لے تو اسے نام نہاد روایات اور غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے، تیزاب گردی، سسرالی جبر، ونی، وٹہ سٹہ، کاروکاری کے الزام میں آئے روز انھیں جینے اور آزادی کے حق سے محروم کیا جاتا ہے۔
جب کہ یہاں مردوں سے زیادہ محنت خواتین کرتی ہیں۔ دیہی خواتین تو صبح پانچ بجے سے لے کر رات آٹھ بجے تک مسلسل زرعی، غلہ بانی اور گھریلو کاموں میں مصروف رہتی ہیں، جب کہ وہ صرف پانچ فیصد ملکیت کی مالک ہیں۔ شہروں میں بھی دیہات کی طرح عورتیں باورچی خانہ اور دھوبی گھاٹ میں بلامعاوضہ دن و رات کولہو کے بیل کی طرح لگی رہتی ہیں۔ فیکٹریوں میں اور مل کارخانوں میں ملازمت پیشہ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ پڑھی لکھی 80 فیصد خواتین کو ان کے شوہر خود یا والدین کے کہنے پر ملازمت چھڑوا دیتے ہیں، اس لیے کہ غلامی میں کوئی کسر باقی نہ رہے۔ لڑکیاں ہر سال امتحانات میں بازی لے جاتی ہیں لیکن بیشتر اعلیٰ عہدے پر خواتین فائز نظر نہیں آتیں۔
پاکستان کے کچھ علاقے خاص کر خیبر پختونخوا میں خواتین کو آج بھی ووٹ ڈالنے کا حق نہیں۔ قتل و غارت گری، منشیات فروشی، ریپ، ڈاکے، چوری، خودکش دھماکے، اسمگلنگ، منی لانڈرنگ، سرمایہ کی منتقلی، رشوت، زیر زمین اسلحہ سازی اور بیوپار میں مرد ہی ملوث پائے جاتے ہیں، جب کہ ساری قدغنیں خواتین پر ہوتی ہیں۔ پنجاب، سندھ، ہندکو، سرائیکی اور بلوچ خواتین کو میلوں دور سے پانی اور لکڑیاں سر پہ لادے آتے ہوئے ہم نے خود دیکھا ہے۔ لاکھوں کروڑوں خواتین کو کھیتوں میں کام کرتے، دھان، گندم بوتے اور کاٹتے دیکھا ہے۔ حسن کارکردگی کے لیے اعزازات دیے جاتے ہیں، مگر کسی مزدور، کسان، محنت کش خواتین یا کھیت مزدور کو اعزازات سے نوازتے نہیں دیکھا یا سنا۔ یہ سارے ظلم و ستم، اذیتیں، ذلتیں، لوٹ، غلامی اور استحصال، اس طبقاتی نظام کی دین ہے۔ اس سے نجات اور عوام کی خوشحالی کا واحد راستہ غیر طبقاتی نظام یعنی امداد باہمی کا آزاد سماج یا کمیونسٹ نظام میں ہی ممکن ہے۔ خواتین کو پیداواری قوتوں، محنت کشوں اور شہریوں سے مل کر یہ لڑائی لڑنا ہوگی۔ جیت محنت کشوں کا مقدر ہے۔
آج سے پچاس ہزار سال قبل جب انسان جنگلوں سے شکار اور پانی سے مچھلیاں پکڑ کرکھاتا تھا، اس وقت چونکہ طبقاتی تقسیم نہیں تھی، اس لیے خواتین بھی آزاد تھیں۔ مرد شکارکرتے اور خواتین باقی کام کی نہ صرف ذمے دار تھیں بلکہ تقریباً سارے سماجی امور کا انتظام اور نگہبانی کرتی تھیں۔ درختوں کی جڑیں، جڑی بوٹیاں جمع کرنے، اجناس کا ذخیرہ کرنا، روزمرہ کا حساب کتاب رکھنا، دوا داروکا انتظام کرنا، تفریحات کا انتظام کرنا اور کھانے کو تقسیم کرنا عورت کے ذمے تھا۔جب طبقاتی تقسیم ہوئی اور ریاست وجود میں آئی، طبقاتی استحصال شروع ہوگیا۔ یہ استحصال غلامانہ دور سے شروع ہوا۔ اس لیے کہ اسی دور سے طبقات وجود میں آئے۔
آج کے نام نہاد مہذب معاشرے میں مختلف انداز میں خواتین کو غلام بناکر رکھا گیا ہے۔ خاندانی اور ریاستی جبر کا آغاز ہوا۔ اس جبر کے خلاف صدیوں سے خواتین طبقاتی، سماجی اور مردوں کے استحصال کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر آج دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن آٹھ مارچ کو ہر سال منایا جاتا ہے۔ اس کی شروعات کیسے ہوئی اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
1908ء میں انٹرنیشنل لیڈیز گارمنٹ ورکرز کی ہڑتال کی یاد میں سوشلسٹ پارٹی آف امریکا نے پہلی بار 28 فروری 1909ء میں خواتین کا یوم منایا۔ 8 مارچ کو کوئی خصوصی ہڑتال نہیں ہوئی۔ سوشلسٹ انٹرنیشنل یعنی سیکنڈ انٹرنیشنل کے فیصلے کے مطابق کوپن ہیگن ڈنمارک میں اگست 1910ء میں انٹرنیشنل ویمینز کانفرنس منعقد کی گئی۔ جرمن سوشلسٹ لوئس زیٹیز نے انٹرنیشنل ڈے منانے کی تجویز پیش کی، جس کی سوشلسٹ رہنما نے تائید کی اور بعد میں کمیونسٹ رہنما کلارازیٹ کین نے اس کی حمایت کا اعلان کیا۔
اس کانفرنس میں 17 ممالک کی 100 خواتین نمایندوں نے شرکت کی۔ 19 مارچ 1911 ء کو WID کے انعقاد کے موقع پر دس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں ریلی نکالی۔ صرف سلطنت آسٹرو ہنگری میں 300 شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ ویانا میں خواتین نے کمیون کے شہدا کی یاد میں بینرز اٹھا رکھے تھے۔ خواتین نے برابر کے حقوق کے ساتھ ساتھ ووٹ ڈالنے کے حق کا مطالبہ بھی کیا تھا، جنسی تفریقات سے بالاتر ہوکر ملازمت دینے کا مطا لبہ بھی تھا۔ امریکا میں مسلسل فروری کے آخری اتوار کو انٹرنیشنل ویمن ڈے منایا جاتا تھا۔ 1913ء میں پہلی بار روس میں انٹرنیشنل ویمن ڈے ہر سال فروری کے آخری ہفتے کو منایا جانے لگا۔ جرمنی میں 8 مارچ کو اس لیے منایا جانے لگا کہ اس روز اتوار ہوتا تھا۔ روس میں 1917ء کے فروری انقلاب کے بعد سینٹ پیٹرزبرگ میں اس دن کو ''روٹی اور امن'' کے دن کے طور پر منایا جانے لگا۔
خواتین کا عالمی دن روسی انقلاب کی بنیاد بنا۔ اس روز ٹیکسٹائل ورکرز ہڑتال پہ چلے گئے۔ 1917ء کے سوویت انقلاب کے بعد خواتین کے عالمی دن کو سرکاری طور پر چھٹی کے دن کا اعلان کیا گیا اور خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا، اس کے بعد 1918ء میں جرمنی، 1919ء میں امریکا، 1929ء میں برطانیہ اور 1973ء میں سوئٹزرلینڈ میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا۔ اس کے بعد سوشلسٹ ممالک اس دن کو سرکاری طور پر منانے لگے۔ 1922ء سے چین کی کمیونسٹ پارٹی یہ دن منانے لگی۔ اسپین کے کمیونسٹ 1936ء سے منانے لگے۔ 1977ء میں اقوام متحدہ نے خواتین نمایندوں کو دعوت دی اور اس کے بعد سے اقوام متحدہ بھی اسے عالمی دن کے طور پر منانے لگی۔ لیکن کسی نہ کسی طور ہر ملک میں خواتین کا استحصال ہوتا آرہا ہے۔ ہاں مگر سابق سوشلسٹ ممالک، موجودہ سوشلسٹ ممالک اور کچھ یورپی ممالک کے سوا خواتین کا استحصال جاری ہے۔
آج سب سے زیادہ عورتوںکا استحصال برصغیر میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں صرف گزشتہ برس 2016ء میں 6000 خواتین کو مختلف طریقوں سے قتل کیا گیا۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مزدوروں اور کسانوں کا سب سے زیادہ استحصال کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں سب سے زیادہ استحصال خواتین کا ہوتا ہے۔ لڑکیوں کو ان کی مرضی سے شادی نہیں کرنے دی جاتی ہے، اگر کر لے تو اسے نام نہاد روایات اور غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے، تیزاب گردی، سسرالی جبر، ونی، وٹہ سٹہ، کاروکاری کے الزام میں آئے روز انھیں جینے اور آزادی کے حق سے محروم کیا جاتا ہے۔
جب کہ یہاں مردوں سے زیادہ محنت خواتین کرتی ہیں۔ دیہی خواتین تو صبح پانچ بجے سے لے کر رات آٹھ بجے تک مسلسل زرعی، غلہ بانی اور گھریلو کاموں میں مصروف رہتی ہیں، جب کہ وہ صرف پانچ فیصد ملکیت کی مالک ہیں۔ شہروں میں بھی دیہات کی طرح عورتیں باورچی خانہ اور دھوبی گھاٹ میں بلامعاوضہ دن و رات کولہو کے بیل کی طرح لگی رہتی ہیں۔ فیکٹریوں میں اور مل کارخانوں میں ملازمت پیشہ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ پڑھی لکھی 80 فیصد خواتین کو ان کے شوہر خود یا والدین کے کہنے پر ملازمت چھڑوا دیتے ہیں، اس لیے کہ غلامی میں کوئی کسر باقی نہ رہے۔ لڑکیاں ہر سال امتحانات میں بازی لے جاتی ہیں لیکن بیشتر اعلیٰ عہدے پر خواتین فائز نظر نہیں آتیں۔
پاکستان کے کچھ علاقے خاص کر خیبر پختونخوا میں خواتین کو آج بھی ووٹ ڈالنے کا حق نہیں۔ قتل و غارت گری، منشیات فروشی، ریپ، ڈاکے، چوری، خودکش دھماکے، اسمگلنگ، منی لانڈرنگ، سرمایہ کی منتقلی، رشوت، زیر زمین اسلحہ سازی اور بیوپار میں مرد ہی ملوث پائے جاتے ہیں، جب کہ ساری قدغنیں خواتین پر ہوتی ہیں۔ پنجاب، سندھ، ہندکو، سرائیکی اور بلوچ خواتین کو میلوں دور سے پانی اور لکڑیاں سر پہ لادے آتے ہوئے ہم نے خود دیکھا ہے۔ لاکھوں کروڑوں خواتین کو کھیتوں میں کام کرتے، دھان، گندم بوتے اور کاٹتے دیکھا ہے۔ حسن کارکردگی کے لیے اعزازات دیے جاتے ہیں، مگر کسی مزدور، کسان، محنت کش خواتین یا کھیت مزدور کو اعزازات سے نوازتے نہیں دیکھا یا سنا۔ یہ سارے ظلم و ستم، اذیتیں، ذلتیں، لوٹ، غلامی اور استحصال، اس طبقاتی نظام کی دین ہے۔ اس سے نجات اور عوام کی خوشحالی کا واحد راستہ غیر طبقاتی نظام یعنی امداد باہمی کا آزاد سماج یا کمیونسٹ نظام میں ہی ممکن ہے۔ خواتین کو پیداواری قوتوں، محنت کشوں اور شہریوں سے مل کر یہ لڑائی لڑنا ہوگی۔ جیت محنت کشوں کا مقدر ہے۔