تقسیم واضح ہے
اس وقت پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے چار رجحان پائے جاتے ہیں.
ملتان کے ضمنی انتخابات کے نتائج سے چند باتیں واضح ہوکر سامنے آئی ہیں۔ اول، پاکستان میں سیاسی تقسیم آج بھی خاصی حدتک بھٹونواز اور بھٹو مخالف خطوط پراستوار ہے۔دوئم،کوئی دوسری چوائس نہ ہونے کی وجہ سے بائیں بازو اور لبرل سوچ کے حامل لوگوں کی مجبوری ہے کہ وہ تمامتر کمزوریوں کے باوجود پیپلز پارٹی کا ساتھ دیں۔
سوئم، بیلٹ بکس کے ذریعے فی الوقت کسی بڑی تبدیلی کی توقع عبث ہے۔چہارم،میڈیا عوامی ذہن تبدیل کرنے میںکوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کرسکاہے اورسیاست آج بھی برادریوں اور روایتی خاندانی وفاداریوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ پنجم ،اس حلقے کے انتخابی نتائج سے آیندہ عام انتخابات میں ووٹنگ کے رجحانات کا خاصی حد تک اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ششم،اگر سیاسی قیادتیں چاہیں تو انتخابی عمل پرسکون ہوسکتاہے۔
NA-151میںہونے والا ضمنی انتخاب اس وقت بھٹونواز اور بھٹو مخالف فکری تقسیم کے عددی اظہارکا ذریعہ بن گیا، جب اپوزیشن جماعتوں اپنے اپنے امیدوار کھڑے کرنے کے بجائے ملتان کے ایک معروف سیاسی خانوادے سے تعلق رکھنے والے آزاد امیدوار شوکت بوسن کی پس پردہ حمایت کافیصلہ کیا۔ شوکت بوسن نے اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کی خاطرمسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے قائدین کے علاوہ چیف جسٹس کی تصاویر بھی اپنے پوسٹروں اور بینروں پر آویزاں کرکے ،اس تقسیم کو مزید ہوادی۔
انتخابات سے قبل میڈیاسے رپورٹ ہونے کے باوجودنہ عدلیہ نے اس عمل کے خلاف کوئی نوٹس لیا اور نہ دونوں بڑی جماعتوں نے پوسٹروں اور بینروں پراپنے قائدین کی تصاویر پر اعتراض کیا۔جس کاصاف مطلب یہ تھاکہ یہ سب کچھ ان جماعتوں کی مرضی اور منشا سے ہورہاہے۔اس طرح ایک طرف پیپلزپارٹی اور دوسری طرف مذہبی جماعتوں سمیت مکمل اپوزیشن۔ گویاپورا حلقہ بھٹوحامی اور بھٹومخالف ووٹ میں تقسیم ہوگیا۔ یوں ملتان کا یہ حلقہ آیندہ انتخابات کے لیے ایک ٹیسٹ حلقے کی شکل اختیارکرگیا۔جس سے آیندہ انتخابات میں ووٹر کے رجحان کا اندازہ لگانا آسان ہوگیاہے۔
ملتان کے اس حالیہ ضمنی انتخاب نے اس خیال کو تقویت دی ہے کہ پاکستان میں ووٹنگ کے رجحان میں کوئی بڑی تبدیلی اگلے انتخابات میں متوقع نہیںہے۔ اس وقت پاکستان میںانتخابات کے حوالے سے چار رجحان پائے جاتے ہیں، جو مختلف علاقوں میں پائے جانے والے مختلف سیاسی وسماجی حالات کو ظاہر کرتے ہیں۔ اول، برادریوںاورروایتی خاندانی وفاداریوں کی بنیاد پرووٹ دینے کا رجحان۔دوئم، لسانی اور قومیتی بنیادپر ووٹنگ میں حصہ لینا۔سوئم،نظریاتی بنیادوںپر ووٹ ڈالنا۔ چہارم،مسائل کی بنیادپر امیدوار کی اہلیت کو پرکھتے ہوئے ووٹ کا استعمال کرنا۔
آخرالذکر دو رجحانات بہت محدود ہیںاور عموماًتعلیم یافتہ اور مخصوص فکری میلان رکھنے والے شہری ان بنیادوں پر ووٹنگ میں حصہ لیتے ہیں۔ لیکن اگر بھٹونواز اور بھٹو مخالف ووٹ کی بنیاد پرسیاسی تقسیم کومدنظر رکھا جائے تو شایدیہ سب سے بڑاووٹنگ رجحان بھی ہے۔جب کہ اول الذکردونوں رجحانات کی جڑیں پاکستانی معاشرے میں خاصی گہری ہیں۔پنجاب اور سندھ کے دیہی علاقوں اور پختونخوا میں عمومی طورپر پہلا رجحان زیادہ حاوی ہے۔ شہری سندھ میں مخصوص سیاسی حالات کی وجہ سے دوسرارجحان ووٹنگ پر حاوی ہے۔ وسطی اور شمالی بلوچستان میں قبائلی بنیادوں پر جب کہ جنوبی بلوچستان(مکران)میںسیاسی شعور کی وجہ سے تیسرا رجحان عام ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)، ملک کے دو ایسی بڑی جماعتیںہیں،جوعوام کو موبلائز کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہیں اورElectablesبھی خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں،اس لیے مختلف برادریوں، بااثر خاندانوں کے زیر اثر ووٹوں کی اکثریت ان دونوں جماعتوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔لیکن پیپلز پارٹی کومسلم لیگ (ن) پر تین وجوہات کی بنیاد پر برتری حاصل ہے۔اول،اپنی تمام تر خامیوں اورکمزوریوںکے باوجود پیپلز پارٹی کو ایک لبرل جماعت تصور کیا جاتا ہے۔
یہی سبب ہے کہ مذہبی اقلیتوںاور چھوٹے فرقوں سے تعلق رکھنے والے ووٹر کے علاوہ لبرل اور آزاد خیال ووٹربھی پیپلز پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالتاہے۔اس کے برعکس مسلم لیگ(ن)کے بارے میںغلط یا صحیح،ایک عام تاثر ہے کہ یہ جماعت طالبان سمیت مذہبی شدت پسند عناصر کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔اس لیے لبرل ذہن رکھنے والا ووٹر اس کے بارے میں مسلسل تشکیک کا شکار ہے اور اسے ووٹ دیتے ہوئے ہچکچاتاہے ۔دوئم، مسائل حل کرے یا نہ کرے، پیپلز پارٹی کومعاشرے کے نچلے طبقات کے جذبات واحسات کی ترجمانی کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔
اس لیے نچلے طبقات اس جماعت کے لیے اپنائیت محسوس کرتے ہیں۔جب کہ مسلم لیگ(ن) کے بارے میں ایک عمومی تصور یہ ہے کہ یہ امیروں کی جماعت ہے۔سوئم، بھٹو مخالف ووٹ گوکہ کئی جماعتوں میں تقسیم ہوتاہے، لیکن مسلم لیگ(ن) کوبھٹو مخالف کیمپ کی نمایندہ جماعت سمجھاجاتا ہے،اس لیے بھٹو نواز ووٹ کے علاوہ بھٹوسے معمولی وابستگی رکھنے والاووٹر بھی پیپلزپارٹی کے حق میں جاتا ہے۔
قومی سطح پرحالیہ برسوں میں ایک تیسرا فیکٹرتحریک انصاف کی شکل میں نمودار ہواہے۔جس نے فیشن ایبل گھرانے کے نوجوانوں کوخاصی حد تک متاثربھی کیاہے۔ لیکن اس کے سامنے دو بڑے چیلنج ہیں۔اول یہ کہ آیندہ انتخابات میں یہ ان نوجوانوں کو کس حد تک پولنگ اسٹیشن لے جانے میں کامیاب ہوتی ہے۔
دوئم ملک کے مختلف حصوں میں نچلی سطح تک تنظیم سازی کا فقدان۔تحریک انصاف کے بارے میں سیاسی پنڈتوں کی ایک عمومی رائے یہ ہے کہ بہت جلد اس کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی،کیونکہ اپنے دائیںبازو کے فکری میلان اور مذہبی شدت پسندی کے بارے میںمبہم اور غیر واضح نقطہ نظرکی وجہ سے لبرل ووٹرکو اپنی جانب شاید کھینچ نہ سکے۔اس طرح یہ دائیں بازو کے ووٹ کو تقسیم کرنے کا سبب بن سکتی ہے، جس کا فائدہ پیپلز پارٹی کوہوگا۔
دوسرے جس انداز میں دیگر جماعتوں سے ٹھکرائے ہوئے لوگ اس میں شامل ہورہے ہیں، وہ ان تعلیمیافتہ نوجوانوں کی مایوس کا سبب بن رہے ہیں،جو پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ(ن) کے مقابلے میں اس جماعت میں اپنا سیاسی مستقبل بنانے کے لیے اس کی جانب راغب ہوئے تھے۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتا ہے کہ سوائے وسطی پنجاب کے بعض حلقوں اور پختونخوا میں چند نشستیں حاصل کرنے کے علاوہ تحریک انصاف کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیتی نظر نہیںآرہی۔
اس تناظر میں اگر ہر صوبے کا الگ الگ جائزہ لیاجائے تواصل دنگل پنجاب میں سجتانظر آرہاہے۔جہاںپیپلزپارٹی،مسلم لیگ(ن)،مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کے علاوہ مذہبی جماعتیں بھی میدان میں ہوں گی۔جیساکہ کہاجارہاہے ،اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ق) نے مشترکہ امیدوار کھڑے کیے اور مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف ایک دوسرے کے مدمقابل رہیں، تو سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ(ن) کو ہونے کا خدشہ ہے۔
ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ق) 2008 سے زیادہ نشستیں نکالنے میں کامیاب ہوجائیں۔بلوچستان سے ماضی کی طرح منتشر مینڈیٹ ہی کی توقع ہے۔ پختونخوامیںجمعیت علمائے اسلام (فضل) کے بارے میں سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے، جس کا نقصانANPکو ہوسکتاہے۔
سندھ میں قوم پرستوں کی قوت منتشراور مضمحل ہے،اس لیے وہ چاہے مسلم لیگ(ن) کا سہارا لیں یا تحریک انصاف کا، پیپلز پارٹی کو زک پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف دونوں کی سندھ میں سیاسی تنظیم نہ ہونے کے برابرہے۔یہی سبب ہے کہ دونوں جماعتیں قوم پرستوں کا سہارا تلاش کررہی ہیں۔
لیکن آیندہ حکومت سازی میں ایم کیو ایم کے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی ایسے معاہدے سے گریز بھی کررہی ہیں، جو شہری سندھ کی ناراضگی کا سبب بنے۔جب کہ شہری سندھ میںANP ایم کیوایم کے لیے مشکلات تو پیدا کرے گی، لیکن اس کے ووٹ بینک یا نشستوں کو متاثر کرتی نظر نہیں آرہی۔محسوس یہ ہورہاہے کہ اگر حالات میں کوئی بڑا موڑ نہیں آیا تو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم آیندہ بھی ایک دوسرے کی حلیف رہیں گی۔
اس طرح ملتان کے حالیہ ضمنی انتخاب نے یہ ثابت کردیا ہے کہ آیندہ انتخابات میں کوئی بڑی تبدیلی رونماء ہونے نہیں جارہی۔ موجودہ سیاسی جماعتوں کو حاصل مینڈیٹ انیس بیس کے فرق سے جاری رہتا نظر آرہاہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں اکثر انہونیاں بھی رونماء ہوتی رہتی ہیں۔اس لیے کوئی بڑا دعویٰ بھی نہیں کیا جاسکتا۔البتہ یہ طے ہے کہ پاکستان میں فکری تقسیم جو1970 میں شروع ہوئی تھی، کسی نہ کسی شکل میں آج تک برقرار ہے۔
سوئم، بیلٹ بکس کے ذریعے فی الوقت کسی بڑی تبدیلی کی توقع عبث ہے۔چہارم،میڈیا عوامی ذہن تبدیل کرنے میںکوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کرسکاہے اورسیاست آج بھی برادریوں اور روایتی خاندانی وفاداریوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ پنجم ،اس حلقے کے انتخابی نتائج سے آیندہ عام انتخابات میں ووٹنگ کے رجحانات کا خاصی حد تک اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ششم،اگر سیاسی قیادتیں چاہیں تو انتخابی عمل پرسکون ہوسکتاہے۔
NA-151میںہونے والا ضمنی انتخاب اس وقت بھٹونواز اور بھٹو مخالف فکری تقسیم کے عددی اظہارکا ذریعہ بن گیا، جب اپوزیشن جماعتوں اپنے اپنے امیدوار کھڑے کرنے کے بجائے ملتان کے ایک معروف سیاسی خانوادے سے تعلق رکھنے والے آزاد امیدوار شوکت بوسن کی پس پردہ حمایت کافیصلہ کیا۔ شوکت بوسن نے اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کی خاطرمسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے قائدین کے علاوہ چیف جسٹس کی تصاویر بھی اپنے پوسٹروں اور بینروں پر آویزاں کرکے ،اس تقسیم کو مزید ہوادی۔
انتخابات سے قبل میڈیاسے رپورٹ ہونے کے باوجودنہ عدلیہ نے اس عمل کے خلاف کوئی نوٹس لیا اور نہ دونوں بڑی جماعتوں نے پوسٹروں اور بینروں پراپنے قائدین کی تصاویر پر اعتراض کیا۔جس کاصاف مطلب یہ تھاکہ یہ سب کچھ ان جماعتوں کی مرضی اور منشا سے ہورہاہے۔اس طرح ایک طرف پیپلزپارٹی اور دوسری طرف مذہبی جماعتوں سمیت مکمل اپوزیشن۔ گویاپورا حلقہ بھٹوحامی اور بھٹومخالف ووٹ میں تقسیم ہوگیا۔ یوں ملتان کا یہ حلقہ آیندہ انتخابات کے لیے ایک ٹیسٹ حلقے کی شکل اختیارکرگیا۔جس سے آیندہ انتخابات میں ووٹر کے رجحان کا اندازہ لگانا آسان ہوگیاہے۔
ملتان کے اس حالیہ ضمنی انتخاب نے اس خیال کو تقویت دی ہے کہ پاکستان میں ووٹنگ کے رجحان میں کوئی بڑی تبدیلی اگلے انتخابات میں متوقع نہیںہے۔ اس وقت پاکستان میںانتخابات کے حوالے سے چار رجحان پائے جاتے ہیں، جو مختلف علاقوں میں پائے جانے والے مختلف سیاسی وسماجی حالات کو ظاہر کرتے ہیں۔ اول، برادریوںاورروایتی خاندانی وفاداریوں کی بنیاد پرووٹ دینے کا رجحان۔دوئم، لسانی اور قومیتی بنیادپر ووٹنگ میں حصہ لینا۔سوئم،نظریاتی بنیادوںپر ووٹ ڈالنا۔ چہارم،مسائل کی بنیادپر امیدوار کی اہلیت کو پرکھتے ہوئے ووٹ کا استعمال کرنا۔
آخرالذکر دو رجحانات بہت محدود ہیںاور عموماًتعلیم یافتہ اور مخصوص فکری میلان رکھنے والے شہری ان بنیادوں پر ووٹنگ میں حصہ لیتے ہیں۔ لیکن اگر بھٹونواز اور بھٹو مخالف ووٹ کی بنیاد پرسیاسی تقسیم کومدنظر رکھا جائے تو شایدیہ سب سے بڑاووٹنگ رجحان بھی ہے۔جب کہ اول الذکردونوں رجحانات کی جڑیں پاکستانی معاشرے میں خاصی گہری ہیں۔پنجاب اور سندھ کے دیہی علاقوں اور پختونخوا میں عمومی طورپر پہلا رجحان زیادہ حاوی ہے۔ شہری سندھ میں مخصوص سیاسی حالات کی وجہ سے دوسرارجحان ووٹنگ پر حاوی ہے۔ وسطی اور شمالی بلوچستان میں قبائلی بنیادوں پر جب کہ جنوبی بلوچستان(مکران)میںسیاسی شعور کی وجہ سے تیسرا رجحان عام ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)، ملک کے دو ایسی بڑی جماعتیںہیں،جوعوام کو موبلائز کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہیں اورElectablesبھی خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں،اس لیے مختلف برادریوں، بااثر خاندانوں کے زیر اثر ووٹوں کی اکثریت ان دونوں جماعتوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔لیکن پیپلز پارٹی کومسلم لیگ (ن) پر تین وجوہات کی بنیاد پر برتری حاصل ہے۔اول،اپنی تمام تر خامیوں اورکمزوریوںکے باوجود پیپلز پارٹی کو ایک لبرل جماعت تصور کیا جاتا ہے۔
یہی سبب ہے کہ مذہبی اقلیتوںاور چھوٹے فرقوں سے تعلق رکھنے والے ووٹر کے علاوہ لبرل اور آزاد خیال ووٹربھی پیپلز پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالتاہے۔اس کے برعکس مسلم لیگ(ن)کے بارے میںغلط یا صحیح،ایک عام تاثر ہے کہ یہ جماعت طالبان سمیت مذہبی شدت پسند عناصر کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔اس لیے لبرل ذہن رکھنے والا ووٹر اس کے بارے میں مسلسل تشکیک کا شکار ہے اور اسے ووٹ دیتے ہوئے ہچکچاتاہے ۔دوئم، مسائل حل کرے یا نہ کرے، پیپلز پارٹی کومعاشرے کے نچلے طبقات کے جذبات واحسات کی ترجمانی کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔
اس لیے نچلے طبقات اس جماعت کے لیے اپنائیت محسوس کرتے ہیں۔جب کہ مسلم لیگ(ن) کے بارے میں ایک عمومی تصور یہ ہے کہ یہ امیروں کی جماعت ہے۔سوئم، بھٹو مخالف ووٹ گوکہ کئی جماعتوں میں تقسیم ہوتاہے، لیکن مسلم لیگ(ن) کوبھٹو مخالف کیمپ کی نمایندہ جماعت سمجھاجاتا ہے،اس لیے بھٹو نواز ووٹ کے علاوہ بھٹوسے معمولی وابستگی رکھنے والاووٹر بھی پیپلزپارٹی کے حق میں جاتا ہے۔
قومی سطح پرحالیہ برسوں میں ایک تیسرا فیکٹرتحریک انصاف کی شکل میں نمودار ہواہے۔جس نے فیشن ایبل گھرانے کے نوجوانوں کوخاصی حد تک متاثربھی کیاہے۔ لیکن اس کے سامنے دو بڑے چیلنج ہیں۔اول یہ کہ آیندہ انتخابات میں یہ ان نوجوانوں کو کس حد تک پولنگ اسٹیشن لے جانے میں کامیاب ہوتی ہے۔
دوئم ملک کے مختلف حصوں میں نچلی سطح تک تنظیم سازی کا فقدان۔تحریک انصاف کے بارے میں سیاسی پنڈتوں کی ایک عمومی رائے یہ ہے کہ بہت جلد اس کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی،کیونکہ اپنے دائیںبازو کے فکری میلان اور مذہبی شدت پسندی کے بارے میںمبہم اور غیر واضح نقطہ نظرکی وجہ سے لبرل ووٹرکو اپنی جانب شاید کھینچ نہ سکے۔اس طرح یہ دائیں بازو کے ووٹ کو تقسیم کرنے کا سبب بن سکتی ہے، جس کا فائدہ پیپلز پارٹی کوہوگا۔
دوسرے جس انداز میں دیگر جماعتوں سے ٹھکرائے ہوئے لوگ اس میں شامل ہورہے ہیں، وہ ان تعلیمیافتہ نوجوانوں کی مایوس کا سبب بن رہے ہیں،جو پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ(ن) کے مقابلے میں اس جماعت میں اپنا سیاسی مستقبل بنانے کے لیے اس کی جانب راغب ہوئے تھے۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتا ہے کہ سوائے وسطی پنجاب کے بعض حلقوں اور پختونخوا میں چند نشستیں حاصل کرنے کے علاوہ تحریک انصاف کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیتی نظر نہیںآرہی۔
اس تناظر میں اگر ہر صوبے کا الگ الگ جائزہ لیاجائے تواصل دنگل پنجاب میں سجتانظر آرہاہے۔جہاںپیپلزپارٹی،مسلم لیگ(ن)،مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کے علاوہ مذہبی جماعتیں بھی میدان میں ہوں گی۔جیساکہ کہاجارہاہے ،اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ق) نے مشترکہ امیدوار کھڑے کیے اور مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف ایک دوسرے کے مدمقابل رہیں، تو سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ(ن) کو ہونے کا خدشہ ہے۔
ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ق) 2008 سے زیادہ نشستیں نکالنے میں کامیاب ہوجائیں۔بلوچستان سے ماضی کی طرح منتشر مینڈیٹ ہی کی توقع ہے۔ پختونخوامیںجمعیت علمائے اسلام (فضل) کے بارے میں سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے، جس کا نقصانANPکو ہوسکتاہے۔
سندھ میں قوم پرستوں کی قوت منتشراور مضمحل ہے،اس لیے وہ چاہے مسلم لیگ(ن) کا سہارا لیں یا تحریک انصاف کا، پیپلز پارٹی کو زک پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف دونوں کی سندھ میں سیاسی تنظیم نہ ہونے کے برابرہے۔یہی سبب ہے کہ دونوں جماعتیں قوم پرستوں کا سہارا تلاش کررہی ہیں۔
لیکن آیندہ حکومت سازی میں ایم کیو ایم کے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی ایسے معاہدے سے گریز بھی کررہی ہیں، جو شہری سندھ کی ناراضگی کا سبب بنے۔جب کہ شہری سندھ میںANP ایم کیوایم کے لیے مشکلات تو پیدا کرے گی، لیکن اس کے ووٹ بینک یا نشستوں کو متاثر کرتی نظر نہیں آرہی۔محسوس یہ ہورہاہے کہ اگر حالات میں کوئی بڑا موڑ نہیں آیا تو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم آیندہ بھی ایک دوسرے کی حلیف رہیں گی۔
اس طرح ملتان کے حالیہ ضمنی انتخاب نے یہ ثابت کردیا ہے کہ آیندہ انتخابات میں کوئی بڑی تبدیلی رونماء ہونے نہیں جارہی۔ موجودہ سیاسی جماعتوں کو حاصل مینڈیٹ انیس بیس کے فرق سے جاری رہتا نظر آرہاہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں اکثر انہونیاں بھی رونماء ہوتی رہتی ہیں۔اس لیے کوئی بڑا دعویٰ بھی نہیں کیا جاسکتا۔البتہ یہ طے ہے کہ پاکستان میں فکری تقسیم جو1970 میں شروع ہوئی تھی، کسی نہ کسی شکل میں آج تک برقرار ہے۔