پاکستان میں دولت لٹ رہی ہے
موسم سرما میں اپنے ٹھنڈے برفیلے علاقوں سے اڑتی ہیں اور فضائوں میں...
LONDON:
ہم سمجھ رہے تھے کہ ہمارے اس دیار میں سب سے بڑھ کر درخت مشکل میں ہیں۔ اب جو خبریں آ رہی ہیں ان سے پتہ چلا کہ یہاں یہ وقت پرندوں پر بہت بھاری گزر رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر موروں پر برا وقت آیا ہوا ہے۔ تھر کا علاقہ موروں کا گہوارہ چلا آتا تھا۔ اس علاقے کی طرف جانا تو کبھی نہیں ہوا۔ لیکن ہم یہ سن سن کر ہی خوش ہوتے تھے کہ پاکستان میں ایک علاقہ ایسا بھی ہے جسے موروں کی اقلیم کہنا چاہیے۔
اب سن رہے کہ اس علاقے میں موروں پر ان کا چین ،آرام حرام ہو چکا ہے۔ کسی وبا نے انھیں آن گھیرا ہے۔ مور پہلے تو اپنے رقص سے پہچانا جاتا تھا۔ اب سن رہے ہیں کہ اچانک اس پر دورہ پڑتا ہے۔ وہ چکر کھانے لگتا ہے اور پھر گر پڑتا ہے۔ اسی عالم میں جان دیدیتا ہے۔ جانے یہ کونسی بیماری ہے۔ خبروں میں ہم نے یہ پڑھا کہ کسی وائرس نے تھر کے موروں کو آن پکڑا ہے۔
یہ تو خیر بیماری ہوئی۔ مگر اس بیماری کے بھی تو کچھ اسباب ہوں گے۔ اس جنگل میں وہ اسباب کیسے پیدا ہوئے۔ کیا عجب ہے کہ آخر میں پتہ چلے کہ وہ اسباب ہم ہی نے پیدا کیے ہیں۔ لوگ پرندوں کے ساتھ کیا کچھ کر رہے ہیں' یہ جاننا ہو تو بہاولپور میں جا کر اس غریب پرندے کا حال دیکھو جسے تلور کہتے ہیں۔ اور ان مرغابیوں کے حال پر غور کرو جو موسم سرما میں اپنے ٹھنڈے برفیلے علاقوں سے اڑتی ہیں اور فضائوں میں ایک لمبے سفر کے بعد اس علاقے میں پہنچتی ہیں۔
کسی زمانے میں ان کے لیے ضرور یہ امن کا گہوارہ ہو گا اب نہیں ہے۔ ایک تو اس علاقے میں گھومنے پھرنے والے شکاری ان کی تاک میں رہتے ہیں۔ اور ہر چند کہ اس علاقے میں شکار پر چند در چند پابندیاں ہیں۔ قانوناً شکار یہاں منع ہے۔ مگر قانون چہ شیست کہ پیش مرداں می آید۔ شکار کے دھنی یہاں آ کر بے دریغ گولیاں چلاتے ہیں۔
پھر باہر کے شکاری بالخصوص عرب علاقوں سے یہاں دندناتے ہوئے آتے ہیں۔ اور ہمارے دور سے آئے ہوئے مہمانوں پر بلا تکلف گولیاں چلاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ یہاں کے لوگ ان پر روک ٹوک کریں، وہ ان کے میزبان بن جاتے ہیں۔ انھیں یہاں مدعو کرتے ہیں۔ ان کے لیے شکار کھیلنے کے لائسنسوں کا انتظام کرتے ہیں۔
ان پرندوں کے علاوہ یہاں کچھ اور جانور بھی ہیں۔ خاص طور پر ہرن اور بارہ سنگھے۔ دونوں ہی کتنے خوبصورت جانور ہیں۔ اور بارہ سنگھا۔ اس کے ہلکے پیچ کھاتے سینگوں کی بہار دیکھو اور صانع قدرت کی صنعت گری پر رشک کرو۔ مگر کہتے ہیں کہ بارہ سنگھا اب یہاں کم بہت کم نظر آتے ہیں چور اچکے انھیں یہاں سے ایک ایک کر کے چرا کر لے گئے۔
ہرنوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جا رہا ہے۔ ابھی کل پرسوں خبر تھی کہ ہرن کے چار بچے اسمگل ہونے لگے تھے کہ کراچی کے ہوائی اڈے پر پکڑے گئے۔
اس کالے کاروباریوں کا احوال کیا پوچھتے ہو۔ ایک طرف وہ پاکستان کی حیوانی دولت کو لوٹ رہے ہیں۔ دوسری طرف یہاں جو مجسموں کی صورت میں دولت دبی پڑی ہے اس پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ گندھارا آرٹ کا پورا علاقہ ان کی زد میں ہے۔ ابھی ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ پہلے خبر آئی تھی کہ ایک پورا ٹرک گندھارا کی قدیم مورتیوں سے بھرا ہوا اس علاقے سے نکل کر کراچی پہنچا۔
وہاں سے اسے باہر کے کسی ملک میں منتقل ہونا تھا۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ پولیس نے اس واردات کو تاڑ لیا اور مورتیوں سے بھرے ٹرک کو پکڑ لیا۔ مگر وارداتئے کہاں ہاتھ آنے والے تھے۔ وہ موقعہ واردات سے ایسے اڑنچھو ہوئے کہ سراغیوں نے لاکھ بھاگ دوڑ کی۔ وہ ان کو جل دے کر غائب ہو گئے۔
یہ ایک ٹرک اب پکڑا گیا ہے۔ یہ عمل کب سے جاری ہے۔ گندھارا کی کتنی دولت ان کالے چوروں کی بدولت باہر کے ملکوں میں منتقل ہو گئی۔
یہ سب کیا ہے۔ لگتا ہے کہ پاکستان میں لوٹ پڑی ہوئی ہے۔ لوٹنے والے یہاں کی دولت دونوں ہاتھوں سے سمیٹ رہے ہیں۔ درختوں کے نام انھوں نے جنگل کے جنگل صاف کر دیے۔ سب سے بڑی آفت شیشم کے پیڑوں پر ٹوٹی۔ شیشم کی لکڑی سبحان اﷲ۔ اس درخت کے فیض سے لکڑی کا سامان کیا خوب بنتا ہے۔ اور شیشم یہاں کے جنگلوں میں بہت تھا۔ ایک پورا جنگل تو چھانگا مانگا میں تھا۔ مگر اب وہ جنگل کہاں ہے۔ مٹھی بھر درخت چوروں کی دستبرد سے بچے رہ گئے ہیں۔
پرندے' وہ نادر پرندے جو پاکستان کی پہچان تھے کتنے شکار ہو گئے' کتنے اسمگل ہو گئے۔ اور پرانے جگوں کی یاد دلانے والی اور قدیم تہذیبوں کی کہانی سنانے والی مورتیاں کس طرح یہاں سے ڈھوئی گئیں۔ بس جیسے کوئی ملک فتح ہوتا ہے اور فاتحین جس طرح اسے لوٹتے ہیں کہ جو مال ہاتھ آیا وہ لے اڑے یہی حال پاکستان کا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اور فاتحین باہر سے نہیں آئے۔ ہمارے ہی بیچ میں وہ چل پھر رہے ہیں اور ملک کی دولت کو بے دریغ لوٹ رہے ہیں۔
ارے یہاں ان پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ روک ٹوک کون کرے۔ جو لوگ ارباب بست و کشاد بنے بیٹھے ہیں، انھیں اپنی باہمی لڑائیوں سے فرصت نہیں۔ وہ اغیار سے نبٹیں یا اس دولت کی نگہبانی کریں۔ غالباً انھیں یہ احساس بھی نہیں ہے کہ یہ کتنی قیمتی دولت ہے۔ شاید سمجھتے ہوں کہ ارے یہ مٹی کی مورتیاں ہی تو ہیں۔ چرانے والے بیشک چرا کر لے جائیں۔ ہمیں کیا۔ خس کم جہاں پاک۔ جب پولیس نے مورتیوں سے بھرا ٹرک کراچی میں پکڑا تو انھیں کیا پتہ تھا کہ یہ کس طرح کی دولت ہے۔ یہاں سے نکلے گی تو کس کس ملک کے عجائب گھر کی زینت بنے گی۔
متعلقہ محکموں میں بھلے لوگ بھی ہوں گے اور وہ بھی ہوں گے جو اس مال کی قدر جانتے ہیں۔
مگر کرپشن کی دلدادہ مخلوق میں ان گنے چنے عمال کی کیا بساط ہے۔ کرپشن کے ریلے کو وہ بھلا روک سکتے ہیں۔ وہ بس کڑھ ہی سکتے ہیں۔ بہت ہوا تو کسی اخباری رپورٹر کے کان میں اس لٹس کا احوال کہہ دیا اور وعدہ لے لیا کہ ہمارا نام کسی کو نہ بتانا۔
اخبار میں خبر چھپ بھی جائے جیسے ان دنوں ایسی خبریں بھیدیوں کی بدولت باہر نکل رہی ہیں اور اب پتہ چل رہا ہے کہ پاکستان میں تو دولت کی گنگا بہہ رہی ہے۔ اور چوراچکے بہتی گنگا میں جی بھر کر ہاتھ دھو رہے ہیں ع کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں
ہم سمجھ رہے تھے کہ ہمارے اس دیار میں سب سے بڑھ کر درخت مشکل میں ہیں۔ اب جو خبریں آ رہی ہیں ان سے پتہ چلا کہ یہاں یہ وقت پرندوں پر بہت بھاری گزر رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر موروں پر برا وقت آیا ہوا ہے۔ تھر کا علاقہ موروں کا گہوارہ چلا آتا تھا۔ اس علاقے کی طرف جانا تو کبھی نہیں ہوا۔ لیکن ہم یہ سن سن کر ہی خوش ہوتے تھے کہ پاکستان میں ایک علاقہ ایسا بھی ہے جسے موروں کی اقلیم کہنا چاہیے۔
اب سن رہے کہ اس علاقے میں موروں پر ان کا چین ،آرام حرام ہو چکا ہے۔ کسی وبا نے انھیں آن گھیرا ہے۔ مور پہلے تو اپنے رقص سے پہچانا جاتا تھا۔ اب سن رہے ہیں کہ اچانک اس پر دورہ پڑتا ہے۔ وہ چکر کھانے لگتا ہے اور پھر گر پڑتا ہے۔ اسی عالم میں جان دیدیتا ہے۔ جانے یہ کونسی بیماری ہے۔ خبروں میں ہم نے یہ پڑھا کہ کسی وائرس نے تھر کے موروں کو آن پکڑا ہے۔
یہ تو خیر بیماری ہوئی۔ مگر اس بیماری کے بھی تو کچھ اسباب ہوں گے۔ اس جنگل میں وہ اسباب کیسے پیدا ہوئے۔ کیا عجب ہے کہ آخر میں پتہ چلے کہ وہ اسباب ہم ہی نے پیدا کیے ہیں۔ لوگ پرندوں کے ساتھ کیا کچھ کر رہے ہیں' یہ جاننا ہو تو بہاولپور میں جا کر اس غریب پرندے کا حال دیکھو جسے تلور کہتے ہیں۔ اور ان مرغابیوں کے حال پر غور کرو جو موسم سرما میں اپنے ٹھنڈے برفیلے علاقوں سے اڑتی ہیں اور فضائوں میں ایک لمبے سفر کے بعد اس علاقے میں پہنچتی ہیں۔
کسی زمانے میں ان کے لیے ضرور یہ امن کا گہوارہ ہو گا اب نہیں ہے۔ ایک تو اس علاقے میں گھومنے پھرنے والے شکاری ان کی تاک میں رہتے ہیں۔ اور ہر چند کہ اس علاقے میں شکار پر چند در چند پابندیاں ہیں۔ قانوناً شکار یہاں منع ہے۔ مگر قانون چہ شیست کہ پیش مرداں می آید۔ شکار کے دھنی یہاں آ کر بے دریغ گولیاں چلاتے ہیں۔
پھر باہر کے شکاری بالخصوص عرب علاقوں سے یہاں دندناتے ہوئے آتے ہیں۔ اور ہمارے دور سے آئے ہوئے مہمانوں پر بلا تکلف گولیاں چلاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ یہاں کے لوگ ان پر روک ٹوک کریں، وہ ان کے میزبان بن جاتے ہیں۔ انھیں یہاں مدعو کرتے ہیں۔ ان کے لیے شکار کھیلنے کے لائسنسوں کا انتظام کرتے ہیں۔
ان پرندوں کے علاوہ یہاں کچھ اور جانور بھی ہیں۔ خاص طور پر ہرن اور بارہ سنگھے۔ دونوں ہی کتنے خوبصورت جانور ہیں۔ اور بارہ سنگھا۔ اس کے ہلکے پیچ کھاتے سینگوں کی بہار دیکھو اور صانع قدرت کی صنعت گری پر رشک کرو۔ مگر کہتے ہیں کہ بارہ سنگھا اب یہاں کم بہت کم نظر آتے ہیں چور اچکے انھیں یہاں سے ایک ایک کر کے چرا کر لے گئے۔
ہرنوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جا رہا ہے۔ ابھی کل پرسوں خبر تھی کہ ہرن کے چار بچے اسمگل ہونے لگے تھے کہ کراچی کے ہوائی اڈے پر پکڑے گئے۔
اس کالے کاروباریوں کا احوال کیا پوچھتے ہو۔ ایک طرف وہ پاکستان کی حیوانی دولت کو لوٹ رہے ہیں۔ دوسری طرف یہاں جو مجسموں کی صورت میں دولت دبی پڑی ہے اس پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ گندھارا آرٹ کا پورا علاقہ ان کی زد میں ہے۔ ابھی ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ پہلے خبر آئی تھی کہ ایک پورا ٹرک گندھارا کی قدیم مورتیوں سے بھرا ہوا اس علاقے سے نکل کر کراچی پہنچا۔
وہاں سے اسے باہر کے کسی ملک میں منتقل ہونا تھا۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ پولیس نے اس واردات کو تاڑ لیا اور مورتیوں سے بھرے ٹرک کو پکڑ لیا۔ مگر وارداتئے کہاں ہاتھ آنے والے تھے۔ وہ موقعہ واردات سے ایسے اڑنچھو ہوئے کہ سراغیوں نے لاکھ بھاگ دوڑ کی۔ وہ ان کو جل دے کر غائب ہو گئے۔
یہ ایک ٹرک اب پکڑا گیا ہے۔ یہ عمل کب سے جاری ہے۔ گندھارا کی کتنی دولت ان کالے چوروں کی بدولت باہر کے ملکوں میں منتقل ہو گئی۔
یہ سب کیا ہے۔ لگتا ہے کہ پاکستان میں لوٹ پڑی ہوئی ہے۔ لوٹنے والے یہاں کی دولت دونوں ہاتھوں سے سمیٹ رہے ہیں۔ درختوں کے نام انھوں نے جنگل کے جنگل صاف کر دیے۔ سب سے بڑی آفت شیشم کے پیڑوں پر ٹوٹی۔ شیشم کی لکڑی سبحان اﷲ۔ اس درخت کے فیض سے لکڑی کا سامان کیا خوب بنتا ہے۔ اور شیشم یہاں کے جنگلوں میں بہت تھا۔ ایک پورا جنگل تو چھانگا مانگا میں تھا۔ مگر اب وہ جنگل کہاں ہے۔ مٹھی بھر درخت چوروں کی دستبرد سے بچے رہ گئے ہیں۔
پرندے' وہ نادر پرندے جو پاکستان کی پہچان تھے کتنے شکار ہو گئے' کتنے اسمگل ہو گئے۔ اور پرانے جگوں کی یاد دلانے والی اور قدیم تہذیبوں کی کہانی سنانے والی مورتیاں کس طرح یہاں سے ڈھوئی گئیں۔ بس جیسے کوئی ملک فتح ہوتا ہے اور فاتحین جس طرح اسے لوٹتے ہیں کہ جو مال ہاتھ آیا وہ لے اڑے یہی حال پاکستان کا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اور فاتحین باہر سے نہیں آئے۔ ہمارے ہی بیچ میں وہ چل پھر رہے ہیں اور ملک کی دولت کو بے دریغ لوٹ رہے ہیں۔
ارے یہاں ان پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ روک ٹوک کون کرے۔ جو لوگ ارباب بست و کشاد بنے بیٹھے ہیں، انھیں اپنی باہمی لڑائیوں سے فرصت نہیں۔ وہ اغیار سے نبٹیں یا اس دولت کی نگہبانی کریں۔ غالباً انھیں یہ احساس بھی نہیں ہے کہ یہ کتنی قیمتی دولت ہے۔ شاید سمجھتے ہوں کہ ارے یہ مٹی کی مورتیاں ہی تو ہیں۔ چرانے والے بیشک چرا کر لے جائیں۔ ہمیں کیا۔ خس کم جہاں پاک۔ جب پولیس نے مورتیوں سے بھرا ٹرک کراچی میں پکڑا تو انھیں کیا پتہ تھا کہ یہ کس طرح کی دولت ہے۔ یہاں سے نکلے گی تو کس کس ملک کے عجائب گھر کی زینت بنے گی۔
متعلقہ محکموں میں بھلے لوگ بھی ہوں گے اور وہ بھی ہوں گے جو اس مال کی قدر جانتے ہیں۔
مگر کرپشن کی دلدادہ مخلوق میں ان گنے چنے عمال کی کیا بساط ہے۔ کرپشن کے ریلے کو وہ بھلا روک سکتے ہیں۔ وہ بس کڑھ ہی سکتے ہیں۔ بہت ہوا تو کسی اخباری رپورٹر کے کان میں اس لٹس کا احوال کہہ دیا اور وعدہ لے لیا کہ ہمارا نام کسی کو نہ بتانا۔
اخبار میں خبر چھپ بھی جائے جیسے ان دنوں ایسی خبریں بھیدیوں کی بدولت باہر نکل رہی ہیں اور اب پتہ چل رہا ہے کہ پاکستان میں تو دولت کی گنگا بہہ رہی ہے۔ اور چوراچکے بہتی گنگا میں جی بھر کر ہاتھ دھو رہے ہیں ع کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں