یہ فوجی عدالتیں کیوں
پاکستان کو قائم ہوئے مدتیں گزر گئیں اتنی عمر میں کئی پاکستانی صاحب اولاد اور بڑے خاندانوں کے بزرگ بھی بن گئے
پاکستان کو قائم ہوئے مدتیں گزر گئیں اتنی عمر میں کئی پاکستانی صاحب اولاد اور بڑے خاندانوں کے بزرگ بھی بن گئے لیکن وطن عزیز زندگی کے کئی شعبوں میں ابھی تک جیسے روز اول سے گزر رہا ہے اور ہر روز کوئی نہ کوئی ایسی خبر چھپ جاتی ہے جو کسی بہت ہی نوزائیدہ ملک کی لگتی ہے مثلاً ان دنوں فوجی عدالتوں کے بارے میں خبریں چھپ رہی ہیں کہ ان کی مدت میں کتنی توسیع کی جائے۔
ایک سال کی توسیع کی بات بھی ہو رہی ہے لیکن کوئی سیاسی جماعت ان عدالتوں کی عمر بڑھانے گھٹانے کی بات تو کرتی ہے لیکن ان کے خاتمے کی بات نہیں کرتی جو ان فوجی عدالتوں کے بارے میں سب سے پہلے کرنی چاہیے۔ ہماری بڑی پارٹی نے ایک سال کی توسیع کی تجویز دی ہے۔ ہماری عمر عزیز ستر برس ہو چکی ہے اور ہم ان غیرمعمولی عدالتوں کی عمر وغیرہ پر بحث کر رہے ہیں جنھیں موجود ہی نہیں ہونا چاہیے۔ ایک آئینی جمہوری ملک میں عدالت جیسے بنیادی شعبے میں بھی انتشار ہو اور یہ واضح نہ ہو اور اس میں ابہام موجود ہو تو کوئی آج کے دور میں اس ملک کو مکمل اور وہ بھی جمہوری ملک کیسے کہہ سکتا ہے جس ملک میں عدالت بھی مکمل اور فرائض میں واضح نہ ہو ایسے ملک کو کیا نام دیا جائے خواہ اس کے پاس ایٹم بم بھی کیوں نہ ہو اور ''کھیلوں'' کے شعبے میں اس کا بڑا نام بھی کیوں نہ ہو۔
پاکستان کو قانون قاعدے اور اس خطے کی روایت کے مطابق ایک جدید ملک کیوں نہ کہا جائے لیکن جس ملک کی عدالتیں ہی نامکمل ہوں اسے کیا نام دیا جائے اور ایسے ملک کو ایک جدید جمہوری ملک کیوں اور کیسے کہا جا سکتا ہے۔ ہمارے آج کے اخباروں میں کئی بڑے اخباروں کی شہ سرخی ہی یہ ہے کہ ان فوجی عدالتوں کی عمر کتنی ہو۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے ان فوجی عدالتوں کی مختلف عمر تجویز کی ہے لیکن افسوس کہ اصل اور بنیادی بات کسی نے نہیں کہی کہ ان کا سرے سے وجود ہی کیوں ہو۔ کیا ملک میں مارشل لا لگا ہے کہ اس میں عدالتیں ہی مارشل لاء یعنی فوج کی ہوں۔
اگر فوجی عدالتیں ہی درکار ہیں تو پھر واپس چلتے ہیں 1947ء کی طرف، جب ہم نے ہندوستان کے مقابلے اور برابری میں ایک جمہوری اور جدید ترین ملک بنایا تھا بلکہ ایک روایتی جمہوری ریاست سے بڑھ کر ایک ایسی اسلامی ریاست بنایا تھا جو انسانوں کے سامنے ہی نہیں خدا اور رسولؐ کے سامنے بھی جواب دہ ہو اور جس کی نافرمانی کا اس دنیا میں ہی نہیں آخرت میں بھی حساب دینا ہو یعنی اس ریاست کی اطاعت اس کے قانون کی فرمانبرداری عقیدے میں شامل ہو جس کا حساب اس دنیا میں ہی نہیں آخرت میں بھی دینا ہو یعنی جس کی نافرمانی کا کوئی طریقہ نہ ہو، کوئی عدالت ضمانت نہ دے سکے اور نہ ہی کوئی رعایت یا معافی دے سکے یعنی اسلامی ریاست ایک عدالت کی طرح نہ ہو جس میں انسان اپنی مرضی سے رعایتیں اور معافیاں دے سکیں بلکہ پوری کی پوری عدالت خدا کے سامنے جواب دہ ہو جہاں کسی کی سفارش نہیں چلتی اور نہ کوئی قانونی موشگافی یعنی انسانوں کی عدالت انسانوں کی طرح خدا کے سامنے جوابدہ ہو۔ایسی عدالتیں جو فیصلہ بھی دیتی ہیں اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ کسی انسانی بنائے ہوئے قانون کے تحت نہیں کسی اوپر کے بنائے ہوئے قانون کی تابع ہیں اور جواب دہی کا نظام اس کے سامنے موجود ہے۔
یہ ہے وہ عدالتی نظام جس پر ہم مسلمان فخر کرتے ہیں اور ہماری عدالتیں خدا کے نظام اور خدا کے سامنے جوابدہ ہوتی ہیں۔ ایک مسلمان اللہ اور رسولؐ کی نافرمانی نہیں کر سکتا اس کے سامنے یوم حساب موجود رہتا ہے جو اسے سیدھے راستے پر چلنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس لیے پاکستان میں فوجی عدالتوں کی وکالت ایک انتہائی غیر جمہوری عمل ہے۔ ہم مسلمان اور ہماری ریاست اعلیٰ ترین منصفانہ نظام کی علمبردار ہے اور فوجی عدالت ہمارے مقاصد اور روایات کے مطابق نہیں ہے۔ ہمیں کسی صورت بھی غیرروایتی عدالتوں کی بات ہی نہیں کرنی چاہیے ہم تو مدینہ میں بیٹھ کر دور فرات کے کنارے کتے کی حفاظت بھی اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں کجا کہ اپنے ہاں روایتی اور آزمودہ عدالتی نظام ترک کر دیں۔
ایک سال کی توسیع کی بات بھی ہو رہی ہے لیکن کوئی سیاسی جماعت ان عدالتوں کی عمر بڑھانے گھٹانے کی بات تو کرتی ہے لیکن ان کے خاتمے کی بات نہیں کرتی جو ان فوجی عدالتوں کے بارے میں سب سے پہلے کرنی چاہیے۔ ہماری بڑی پارٹی نے ایک سال کی توسیع کی تجویز دی ہے۔ ہماری عمر عزیز ستر برس ہو چکی ہے اور ہم ان غیرمعمولی عدالتوں کی عمر وغیرہ پر بحث کر رہے ہیں جنھیں موجود ہی نہیں ہونا چاہیے۔ ایک آئینی جمہوری ملک میں عدالت جیسے بنیادی شعبے میں بھی انتشار ہو اور یہ واضح نہ ہو اور اس میں ابہام موجود ہو تو کوئی آج کے دور میں اس ملک کو مکمل اور وہ بھی جمہوری ملک کیسے کہہ سکتا ہے جس ملک میں عدالت بھی مکمل اور فرائض میں واضح نہ ہو ایسے ملک کو کیا نام دیا جائے خواہ اس کے پاس ایٹم بم بھی کیوں نہ ہو اور ''کھیلوں'' کے شعبے میں اس کا بڑا نام بھی کیوں نہ ہو۔
پاکستان کو قانون قاعدے اور اس خطے کی روایت کے مطابق ایک جدید ملک کیوں نہ کہا جائے لیکن جس ملک کی عدالتیں ہی نامکمل ہوں اسے کیا نام دیا جائے اور ایسے ملک کو ایک جدید جمہوری ملک کیوں اور کیسے کہا جا سکتا ہے۔ ہمارے آج کے اخباروں میں کئی بڑے اخباروں کی شہ سرخی ہی یہ ہے کہ ان فوجی عدالتوں کی عمر کتنی ہو۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے ان فوجی عدالتوں کی مختلف عمر تجویز کی ہے لیکن افسوس کہ اصل اور بنیادی بات کسی نے نہیں کہی کہ ان کا سرے سے وجود ہی کیوں ہو۔ کیا ملک میں مارشل لا لگا ہے کہ اس میں عدالتیں ہی مارشل لاء یعنی فوج کی ہوں۔
اگر فوجی عدالتیں ہی درکار ہیں تو پھر واپس چلتے ہیں 1947ء کی طرف، جب ہم نے ہندوستان کے مقابلے اور برابری میں ایک جمہوری اور جدید ترین ملک بنایا تھا بلکہ ایک روایتی جمہوری ریاست سے بڑھ کر ایک ایسی اسلامی ریاست بنایا تھا جو انسانوں کے سامنے ہی نہیں خدا اور رسولؐ کے سامنے بھی جواب دہ ہو اور جس کی نافرمانی کا اس دنیا میں ہی نہیں آخرت میں بھی حساب دینا ہو یعنی اس ریاست کی اطاعت اس کے قانون کی فرمانبرداری عقیدے میں شامل ہو جس کا حساب اس دنیا میں ہی نہیں آخرت میں بھی دینا ہو یعنی جس کی نافرمانی کا کوئی طریقہ نہ ہو، کوئی عدالت ضمانت نہ دے سکے اور نہ ہی کوئی رعایت یا معافی دے سکے یعنی اسلامی ریاست ایک عدالت کی طرح نہ ہو جس میں انسان اپنی مرضی سے رعایتیں اور معافیاں دے سکیں بلکہ پوری کی پوری عدالت خدا کے سامنے جواب دہ ہو جہاں کسی کی سفارش نہیں چلتی اور نہ کوئی قانونی موشگافی یعنی انسانوں کی عدالت انسانوں کی طرح خدا کے سامنے جوابدہ ہو۔ایسی عدالتیں جو فیصلہ بھی دیتی ہیں اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ کسی انسانی بنائے ہوئے قانون کے تحت نہیں کسی اوپر کے بنائے ہوئے قانون کی تابع ہیں اور جواب دہی کا نظام اس کے سامنے موجود ہے۔
یہ ہے وہ عدالتی نظام جس پر ہم مسلمان فخر کرتے ہیں اور ہماری عدالتیں خدا کے نظام اور خدا کے سامنے جوابدہ ہوتی ہیں۔ ایک مسلمان اللہ اور رسولؐ کی نافرمانی نہیں کر سکتا اس کے سامنے یوم حساب موجود رہتا ہے جو اسے سیدھے راستے پر چلنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس لیے پاکستان میں فوجی عدالتوں کی وکالت ایک انتہائی غیر جمہوری عمل ہے۔ ہم مسلمان اور ہماری ریاست اعلیٰ ترین منصفانہ نظام کی علمبردار ہے اور فوجی عدالت ہمارے مقاصد اور روایات کے مطابق نہیں ہے۔ ہمیں کسی صورت بھی غیرروایتی عدالتوں کی بات ہی نہیں کرنی چاہیے ہم تو مدینہ میں بیٹھ کر دور فرات کے کنارے کتے کی حفاظت بھی اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں کجا کہ اپنے ہاں روایتی اور آزمودہ عدالتی نظام ترک کر دیں۔