اسلامی معاشرے میں اخلاق کی اہمیت
’’اور رشتے داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو۔‘‘
MIRAMSHAH:
حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ ''اللہ کے بندوں میں اللہ کا سب سے پیارا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔''
اخلاق ''خلق'' کی جمع ہے، جس کے معنیٰ خصلت، عادت اور طبیعت کے ہیں۔ اصطلاح میں اخلاق سے مراد وہ خصائل و عادات ہیں جو انسان سے روز مرہ اور مسلسل سرزد ہوتے رہتے ہیں اور یہی عادات و خصائل رفتہ رفتہ انسانی طبیعت کا جزو بن کر رہ جاتے ہیں جسے انسان دوسرے کے لیے تمثیل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اگر یہ عادات اچھی ہوں تو ''اخلاق حسنہ'' اور اگر بُری ہوں تو ''اخلاق سیٔہ'' کے طور پر جانی جاتی ہیں۔
اسلام ایک عالم گیر مذہب ہے اور تمام بنی نوع انسان کی فلاح اور کامرانی کا علم بردار ہے ۔ یہ زندگی کے ہر اصول پر انسان کی راہ نمائی کرتا ہے۔ اسلام کے زرّیں اصولوں میں اخلاق کو سر فہرست رکھا گیا ہے۔ انسانی زندگی میں معاشرے کا قیام اس کی فطرت کا تقاضا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسان دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے اور زندگی بسر کرنے پر فطرتاً مجبور ہے۔ اسلام میں اخلاق سے مراد وہ ''اخلاق حسنہ'' ہیں جو بنی نوع انسان کی فلاح اور اصلاح کے لیے انسانیت کو عطا کیے گئے۔ دنیا میں انسان کی اولین حیثیت ایک فرد کی سی ہے اور افراد کے مجموعے سے معاشرہ تکمیل پاتا ہے۔ اگر دنیا میں موجود تمام انسان اپنی اصلاح کرلیں، یعنی اسلامی تعلیمات کے عین مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال لیں تو وہ معاشرہ یقیناً درست اور صالح کہلائے گا،یا یوں کہہ لیجیے کہ ایک مثالی اسلامی معاشرہ کہلائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام فرد کی اصلاح کے لیے اخلاق حسنہ پر زور دیتا ہے۔قرآن حکیم میں بیشتر مقامات پر اخلاق کا درس دیا گیا ہے جو اس قدر حکیمانہ اور فلسفیانہ ہے جو دنیا کے کسی مذہبی کتاب میں نہیں ملتا۔ چند آیات کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے۔
''اور جب تم کو کوئی دعا دے تو تم اس سے بہتر لفظوں سے دعا دوبے شک خدا ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔'' (سورہ النساء آیت 86)
مشاورت اور مصالحت کے بارے میں فرمایا ''ان لوگوں کی بہت سی مشورتیں اچھی نہیں۔ ہاں جو خیرات یا نیک بات یا لوگوں میں صلح کرنے کو کہے اور جو ایسے کام کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرے گا تو ہم اس کو بڑا ثواب دیں گے۔'' (سورہ النساء آیت 114)
ملک میں سیاست اور مملکت سے ایفائے عہد برقرار رکھنے کے لیے فرمایا ''اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنا اور خدا سے خوف کرتے ہوئے اور امید رکھ کر دعائیں مانگتے رہنا کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے۔'' (سورہ الاعراف آیت 56)
کفار کی مال دولت سے حرص نہ کرنے اور مومنوں کی خاطر مدارت کے لیے حکم فرمایا ''اور ہم نے کفار کی کئی جماعتوں کو جو متمتع کیا ہے تم ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا اور نہ ان کے حال پر تاسف کرنا اور مومنوں سے خاطر تواضع سے پیش آنا۔'' (سورہ الحجر ،آیت88)
کسی کو ایذا یا تکلیف نہ دینے کے حوالے سے فرمایا : '' اگر تم ان کو تکلیف پہنچانا چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تمہیں ان سے پہنچی ہو اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہت اچھا ہے۔'' ( سورہ النحل، آیت 126)
رشتے داروں محتاجوں اور مسافروں کے حوالے سے حکم دیا : ''اور رشتے داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو۔'' سلسلۂ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے فضول خرچی سے بڑے سخت الفاظ میں اجتناب برتنے کو کہا کہ '' فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا نا شکرا ہے ۔'' وہ لوگ جو مستحقین کی مدد کرنے کے قابل نہ ہوں تو اُن کے بارے میں فرمایا: ''اگر تم اپنے پروردگار کی رحمت (یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں جس کی تمہیں امید ہو ان (مستحقین) کی طرف توجہ نہ کر سکو تو ان سے نرمی سے بات کہہ دیا کرو۔'' بخل اور اسراف سے بچنے کا حکم دیا: ''اور اپنے ہاتھ کو نہ تو گردن سے بندھا ہوا کرلو (کہ کسی کو کچھ دو ہی نہ) اور نہ بالکل کھول ہی دو کہ سبھی کچھ دے ڈالو اور (انجام ) یہ ہو کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جائو۔'' (سورہ بنی اسرائیل آیات 26 تا 29)
ناپ تول میں کمی بھی ایک بہت بڑی معاشرتی بُرائی ہے جس سے بچنے کا حکم دیا اور فرمایا: ''اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا بھرا کرو اور جب تول کردو تو ترازو سیدھا رکھا کرو یہ بہت اچھی بات اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت بہتر ہے۔'' دوسروں کی ٹوہ میں لگا رہنے سے منع فرمایا۔ ترجمہ: ''اور جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب سے باز پرس ہوگی۔'' آگے چل کر انسان کے غرور اور تکبر کو خاک میں ملاتے ہوئے فرمایا ''اور زمین پر اکٹر کر نہ چل کہ تو زمین کو پھاڑ تو نہیں ڈالے گا اور نہ لمبا ہو کر پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ جائے گا ان سب عادتوں کی برائی تیرے پروردگار کے نزدیک بہت نا پسند ہے۔'' (سورہ بنی اسرائیل آیات35 تا 38)
مومنین کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ''خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ گفتگو ) کرتے ہیں تو وہ انہیں سلام کرتے ہیں۔'' (سورۃ الفرقان آیت 63)
مذاق اڑانے سے منع فرمایا: ترجمہ '' مومنو! کوئی قوم کسی قوم کا تمسخر نہ اڑائے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اورنہ عورتیں عورتوں سے تمسخر (کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور اپنے مومن بھائی کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا بُرا نام رکھو ایمان لانے کے بعد برا نام رکھنا گنا ہ ہے اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں ۔'' (سورہ الحجرات آیت11)
مومنین کو آداب مجلس سکھاتے ہوئے اور ان کے انجام کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا: ''مومنو جب تم سے کہا جائے کہ مجلس میں کھل کر بیٹھو تو کھل بیٹھا کرو خدا تمہیں کشادگی بخشے گا اور جب کہا جائے اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوا کرو جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے خدا ان کے درجے بلند کرے گا اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے ۔'' (سورہ المجادلہ آیت 11)
اس کے بعد حکمت کی ان باتوں کی مزید تشریح کی گئی ہے جیسے خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، والدین کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا، نیچی آواز میں بات کرنا۔ ان آیات کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ قرآن کی اصطلاح میں ان فطری امور خیر کو بھی جن کا خیر ہونا فطرتاً تمام قوموں اور مذاہب میں مسلم ہے اور جن کو دوسرے معنی میں اخلاق کہہ سکتے ہیں، ''حکمت'' کہا گیا ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حضور ؐ کی شریعت میں اخلاق کا مرتبہ حکمت کے لفظ سے تعبیر ہوا ہے۔
علامہ شبلی نعمانی فرماتے ہیں کہ عقائد اور عبادات کے بعد تعلیمات نبویؐ کا تیسرا باب اخلاق ہے۔ اخلاق سے مقصود باہم بندوں کے حقوق و فرائض کے وہ تعلقات ہیں جن کو ادا کرنا ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس کا ہر شے سے تھوڑا بہت تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ اس تعلق کے فرض کو بحسن خوبی انجام دینا اخلاق ہے۔ اس کے اپنے ماں باپ اہل و عیال عزیز و رشتے دار، دوست احباب سب سے تعلقات ہیں بلکہ ہر اس انسان کے ساتھ اس کا تعلق ہے جس سے وہ محلے، وطن، قومیت، جنسیت یا اور کسی نوع کا تعلق رکھتا ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر حیوانات تک سے اس کے تعلقات ہیں اور ان تعلقات کے سبب اس پر کچھ فرائض عائد ہیں۔ دنیا کی ساری خوشیاں، خوش حالی، امن و امان اسی اخلاق کی بدولت ہے۔ اسی دولت کی کمی کو حکومت و جماعت اپنی طاقت اور قوت کے قانون سے پورا کرتی ہے۔ اگر انسانی جماعتیں اپنے فرائض از خود انجام دے لیں تو پھر حکومت کے جبری قوانین کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اسی لئے بہترین مذہب وہ ہے جس کا اخلاقی دباؤ اپنے ماننے والوں پر اتنا ہو کہ وہ ان کے قدموں کو سیدھا رکھ سکے، بہکنے نہ دے۔ (سیرت النبیؐ جلد ششم)
حضور نبی اکرمؐ کی بعثت، تکمیلی حیثیت رکھتی ہے۔ چناںچہ آپؐ نے فرمایا ''میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔'' (موطا حسن اخلاق، مسند احمد، بیہقی) اور ابن سعد میں ان الفاظ میں آیا ہے کہ ''میں تو اسی لیے بھیجا گیا کہ اخلاق حسنہ کی تکمیل کروں۔''
حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ ''اللہ کے بندوں میں اللہ کا سب سے پیارا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔''
اخلاق ''خلق'' کی جمع ہے، جس کے معنیٰ خصلت، عادت اور طبیعت کے ہیں۔ اصطلاح میں اخلاق سے مراد وہ خصائل و عادات ہیں جو انسان سے روز مرہ اور مسلسل سرزد ہوتے رہتے ہیں اور یہی عادات و خصائل رفتہ رفتہ انسانی طبیعت کا جزو بن کر رہ جاتے ہیں جسے انسان دوسرے کے لیے تمثیل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اگر یہ عادات اچھی ہوں تو ''اخلاق حسنہ'' اور اگر بُری ہوں تو ''اخلاق سیٔہ'' کے طور پر جانی جاتی ہیں۔
اسلام ایک عالم گیر مذہب ہے اور تمام بنی نوع انسان کی فلاح اور کامرانی کا علم بردار ہے ۔ یہ زندگی کے ہر اصول پر انسان کی راہ نمائی کرتا ہے۔ اسلام کے زرّیں اصولوں میں اخلاق کو سر فہرست رکھا گیا ہے۔ انسانی زندگی میں معاشرے کا قیام اس کی فطرت کا تقاضا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسان دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے اور زندگی بسر کرنے پر فطرتاً مجبور ہے۔ اسلام میں اخلاق سے مراد وہ ''اخلاق حسنہ'' ہیں جو بنی نوع انسان کی فلاح اور اصلاح کے لیے انسانیت کو عطا کیے گئے۔ دنیا میں انسان کی اولین حیثیت ایک فرد کی سی ہے اور افراد کے مجموعے سے معاشرہ تکمیل پاتا ہے۔ اگر دنیا میں موجود تمام انسان اپنی اصلاح کرلیں، یعنی اسلامی تعلیمات کے عین مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال لیں تو وہ معاشرہ یقیناً درست اور صالح کہلائے گا،یا یوں کہہ لیجیے کہ ایک مثالی اسلامی معاشرہ کہلائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام فرد کی اصلاح کے لیے اخلاق حسنہ پر زور دیتا ہے۔قرآن حکیم میں بیشتر مقامات پر اخلاق کا درس دیا گیا ہے جو اس قدر حکیمانہ اور فلسفیانہ ہے جو دنیا کے کسی مذہبی کتاب میں نہیں ملتا۔ چند آیات کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے۔
''اور جب تم کو کوئی دعا دے تو تم اس سے بہتر لفظوں سے دعا دوبے شک خدا ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔'' (سورہ النساء آیت 86)
مشاورت اور مصالحت کے بارے میں فرمایا ''ان لوگوں کی بہت سی مشورتیں اچھی نہیں۔ ہاں جو خیرات یا نیک بات یا لوگوں میں صلح کرنے کو کہے اور جو ایسے کام کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرے گا تو ہم اس کو بڑا ثواب دیں گے۔'' (سورہ النساء آیت 114)
ملک میں سیاست اور مملکت سے ایفائے عہد برقرار رکھنے کے لیے فرمایا ''اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنا اور خدا سے خوف کرتے ہوئے اور امید رکھ کر دعائیں مانگتے رہنا کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے۔'' (سورہ الاعراف آیت 56)
کفار کی مال دولت سے حرص نہ کرنے اور مومنوں کی خاطر مدارت کے لیے حکم فرمایا ''اور ہم نے کفار کی کئی جماعتوں کو جو متمتع کیا ہے تم ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا اور نہ ان کے حال پر تاسف کرنا اور مومنوں سے خاطر تواضع سے پیش آنا۔'' (سورہ الحجر ،آیت88)
کسی کو ایذا یا تکلیف نہ دینے کے حوالے سے فرمایا : '' اگر تم ان کو تکلیف پہنچانا چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تمہیں ان سے پہنچی ہو اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہت اچھا ہے۔'' ( سورہ النحل، آیت 126)
رشتے داروں محتاجوں اور مسافروں کے حوالے سے حکم دیا : ''اور رشتے داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو۔'' سلسلۂ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے فضول خرچی سے بڑے سخت الفاظ میں اجتناب برتنے کو کہا کہ '' فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا نا شکرا ہے ۔'' وہ لوگ جو مستحقین کی مدد کرنے کے قابل نہ ہوں تو اُن کے بارے میں فرمایا: ''اگر تم اپنے پروردگار کی رحمت (یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں جس کی تمہیں امید ہو ان (مستحقین) کی طرف توجہ نہ کر سکو تو ان سے نرمی سے بات کہہ دیا کرو۔'' بخل اور اسراف سے بچنے کا حکم دیا: ''اور اپنے ہاتھ کو نہ تو گردن سے بندھا ہوا کرلو (کہ کسی کو کچھ دو ہی نہ) اور نہ بالکل کھول ہی دو کہ سبھی کچھ دے ڈالو اور (انجام ) یہ ہو کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جائو۔'' (سورہ بنی اسرائیل آیات 26 تا 29)
ناپ تول میں کمی بھی ایک بہت بڑی معاشرتی بُرائی ہے جس سے بچنے کا حکم دیا اور فرمایا: ''اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا بھرا کرو اور جب تول کردو تو ترازو سیدھا رکھا کرو یہ بہت اچھی بات اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت بہتر ہے۔'' دوسروں کی ٹوہ میں لگا رہنے سے منع فرمایا۔ ترجمہ: ''اور جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب سے باز پرس ہوگی۔'' آگے چل کر انسان کے غرور اور تکبر کو خاک میں ملاتے ہوئے فرمایا ''اور زمین پر اکٹر کر نہ چل کہ تو زمین کو پھاڑ تو نہیں ڈالے گا اور نہ لمبا ہو کر پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ جائے گا ان سب عادتوں کی برائی تیرے پروردگار کے نزدیک بہت نا پسند ہے۔'' (سورہ بنی اسرائیل آیات35 تا 38)
مومنین کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ''خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ گفتگو ) کرتے ہیں تو وہ انہیں سلام کرتے ہیں۔'' (سورۃ الفرقان آیت 63)
مذاق اڑانے سے منع فرمایا: ترجمہ '' مومنو! کوئی قوم کسی قوم کا تمسخر نہ اڑائے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اورنہ عورتیں عورتوں سے تمسخر (کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور اپنے مومن بھائی کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا بُرا نام رکھو ایمان لانے کے بعد برا نام رکھنا گنا ہ ہے اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں ۔'' (سورہ الحجرات آیت11)
مومنین کو آداب مجلس سکھاتے ہوئے اور ان کے انجام کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا: ''مومنو جب تم سے کہا جائے کہ مجلس میں کھل کر بیٹھو تو کھل بیٹھا کرو خدا تمہیں کشادگی بخشے گا اور جب کہا جائے اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوا کرو جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے خدا ان کے درجے بلند کرے گا اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے ۔'' (سورہ المجادلہ آیت 11)
اس کے بعد حکمت کی ان باتوں کی مزید تشریح کی گئی ہے جیسے خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، والدین کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا، نیچی آواز میں بات کرنا۔ ان آیات کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ قرآن کی اصطلاح میں ان فطری امور خیر کو بھی جن کا خیر ہونا فطرتاً تمام قوموں اور مذاہب میں مسلم ہے اور جن کو دوسرے معنی میں اخلاق کہہ سکتے ہیں، ''حکمت'' کہا گیا ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حضور ؐ کی شریعت میں اخلاق کا مرتبہ حکمت کے لفظ سے تعبیر ہوا ہے۔
علامہ شبلی نعمانی فرماتے ہیں کہ عقائد اور عبادات کے بعد تعلیمات نبویؐ کا تیسرا باب اخلاق ہے۔ اخلاق سے مقصود باہم بندوں کے حقوق و فرائض کے وہ تعلقات ہیں جن کو ادا کرنا ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس کا ہر شے سے تھوڑا بہت تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ اس تعلق کے فرض کو بحسن خوبی انجام دینا اخلاق ہے۔ اس کے اپنے ماں باپ اہل و عیال عزیز و رشتے دار، دوست احباب سب سے تعلقات ہیں بلکہ ہر اس انسان کے ساتھ اس کا تعلق ہے جس سے وہ محلے، وطن، قومیت، جنسیت یا اور کسی نوع کا تعلق رکھتا ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر حیوانات تک سے اس کے تعلقات ہیں اور ان تعلقات کے سبب اس پر کچھ فرائض عائد ہیں۔ دنیا کی ساری خوشیاں، خوش حالی، امن و امان اسی اخلاق کی بدولت ہے۔ اسی دولت کی کمی کو حکومت و جماعت اپنی طاقت اور قوت کے قانون سے پورا کرتی ہے۔ اگر انسانی جماعتیں اپنے فرائض از خود انجام دے لیں تو پھر حکومت کے جبری قوانین کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اسی لئے بہترین مذہب وہ ہے جس کا اخلاقی دباؤ اپنے ماننے والوں پر اتنا ہو کہ وہ ان کے قدموں کو سیدھا رکھ سکے، بہکنے نہ دے۔ (سیرت النبیؐ جلد ششم)
حضور نبی اکرمؐ کی بعثت، تکمیلی حیثیت رکھتی ہے۔ چناںچہ آپؐ نے فرمایا ''میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔'' (موطا حسن اخلاق، مسند احمد، بیہقی) اور ابن سعد میں ان الفاظ میں آیا ہے کہ ''میں تو اسی لیے بھیجا گیا کہ اخلاق حسنہ کی تکمیل کروں۔''