’’ذرا کم ہو لوڈشیڈنگ تویہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘

پاکستان کو بجلی کا جو مسئلہ لاحق ہے وہ پیداوار کا نہیں بلکہ بے دریغ منافع کا ہے

tahir.mir@expressnews.tv

پے درپے نحس خبروں کے سونامی میں اکا دکا اچھی خبریں بھی سننے کو نصیب ہوئی ہیں۔ ایسی غیر مروجہ خبروں میں ایک یہ ہے کہ اس بار صوبہ پنجاب میں میٹرک کے نتائج غیرمعمولی طور پر بہتر آئے ہیں۔ پنجاب کے علاوہ سندھ، کراچی، کوئٹہ اور پشاور سمیت دوسرے صوبوں کے علاقوں میں بھی میٹرک کے نتائج حوصلہ افزاء آئے ہیں۔ پنجاب کے مختلف بورڈز میں جو نتائج سامنے آئے ہیں انھیں خوش کن قرار دیا جاسکتاہے۔ اس بار میٹرک کا دنگل پہلوانوں کے شہر گجرانوالہ نے جیتا ہے جس کے 69 فیصد امیدوار کامیاب ہوئے۔

دوسرے نمبر پر ملتان بورڈ67 فیصد، تیسرے نمبر پر ڈیرہ غازی خان 66.26 فیصد، چوتھے نمبر پر سرگودھا بورڈ65.87 فیصد جب کہ پانچویں نمبر پر لاہور بورڈ رہا جس کا نتیجہ65.71 فیصد رہا ہے۔ فیصل آباد بورڈ کا نتیجہ 64.43 فیصد، بہاولپور بورڈ 62.83 فیصد اور راولپنڈی بورڈ کا رزلٹ 62 فیصد رہا۔ میٹرک کے پوزیشن ہولڈر طالب علموں نے میڈیا کو اپنے مسائل بتاتے ہوئے کہا کہ امتحانات کے دنوں میں ملک میں شدید ترین لوڈ شیڈنگ کی جا رہی تھی جسکے باعث وہ اپنے موبائیل ٹیلی فونز کی بیٹری کی روشنی میں پڑھ کر تیاری کرتے رہے......

حضرات! ذرا سوچئے اگر ان ہونہاروں نے صبر آزما موسم اورکٹھن حالات میںاس عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اگر انھیں بہتر ماحول، آسودگی اور لوڈ شیڈنگ سے پاک دن رات مہیا کیے جاتے تو یقیناً یہ اس سے بڑا معرکہ سر کرتے، ہم اپنے مستقبل سے پُر اُمید ہیں پر اس کے لیے سیاسی سمجھوتوں سے لدی پھدی کولیشن اور عدالتوں سمیت دیگر ریاستی اداروں سے سہمی ہوئی حکومت کو لوڈ شیڈنگ پر قابو پانا ہو گا

ذرا کم ہو، لوڈشیڈنگ، تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

یوں لگتاہے جیسے لوڈ شیڈنگ ہمارا قومی ٹریڈ مارک بن چکی ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے خادم اعلیٰ نے اس قومی مسئلہ کو ہائی لائٹ کرنے کے لیے وفاقی حکومت کے خلاف ملامتی ٹینٹ آباد کر رکھا ہے۔ جہاں یہ ٹینٹ اندرون ملک وفاقی حکمرانوں کی بدنامی کا باعث بنتا ہے وہاں یہ کیمپ آفس پوری دنیا کو یہ خبر بھی دیتا ہے کہ پاکستان، جسے اٹیمی قوت ہونے پر فخر ہے، اس کے پاس اپنے شہریوں کو دینے کے لیے بجلی بھی نہیںہے۔ پوری دنیا میںبجلی کو بنیادی ضرورت جانا جاتاہے جو اپنے باشندوںکو مہیا کرنا ریاست اور حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے۔

لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری ریاست، حکومت اور صحافت کے نزدیک ہمارے لیے بجلی، گیس، پانی اور اشیائے ضرورت اور معیشت کی بحالی کے بجائے صدارتی استثنیٰ، توہین عدالت اور نیٹو سپلائی پر سے پابندی اٹھانا زیادہ اہم ہیں۔ خادم اعلیٰ کی طرف سے اس قومی مسئلہ کو سامنے لانے کے لیے ٹینٹ بازی کی مہم کا آغاز کرنا اچھی کاوش ہے مگر یاد رہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبہ کی طرف سے اپنی بجلی پیدا کرنے پر بھی پابندی نہیںہے۔ خادم اعلیٰ نے لوڈ شیڈنگ کے دورانیہ میں قدرے کمی واقع ہونے اور رمضان کے دنوںمیں ٹینٹ اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا مگر لوڈ شیڈنگ کی دوبارہ شدت سے انھوں نے اس سلسلہ کو دوبارہ شروع کر دیا ہے۔


بلکہ اب تو یہ خبر بھی آئی ہے کہ خادم اعلیٰ عید کے روز نماز عید ادا کرنے کے بعد اسی ملامتی ٹینٹ میں ہی جلوہ گر ہوں گے۔ ممکن ہے خادم اعلیٰ عید کے تین روز یعنی عید، ٹرو اور مرو اپنے چاہنے والوں کو انھی ٹینٹوں سے اپنا دیدار کرائیں۔ تماشائیوں کے بے پناہ رش کے باعث عید کے تین روز چار شوز کا اہتمام کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے اور پہلایعنی میٹنی شو 12 بجے سے شروع کیا جانا چاہیے۔ اس طرح لوڈ شیڈنگ کا قومی مسئلہ تو ابھر کر سامنے آئے گا مگر یہ خدشہ موجود ہے کہ عید پر نمائش ہونے والی پاکستانی فلموںکے ساتھ، ساتھ بھارتی فلموںکے باکس آفس نتائج پر خادم اعلیٰ کے اسٹارڈم کے گہرے اثرات مرتب ہوں۔

ہمارے ملک میںبجلی کا بحران کیوں ہے اورکیااب یہ ہمیشہ کے لیے ہمارا مقدر بنا رہے گا؟؟؟ اس مسئلہ کے حوالے سے سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر کا بیان قابل غور ہے جو حال ہی میںاپنی مدت ِسفارت پوری کر کے پاکستان سے گئے ہیں۔ منٹر کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بجلی کا جو مسئلہ لاحق ہے وہ پیداوار کا نہیں بلکہ بے دریغ منافع کا ہے۔ امریکی سفیر کی بات کی تشریح یوں کی جا سکتی ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے دھندے میںملوث منافع باز اس کی قیمت کو آسمانوں تک لے گئے ہیں جس سے یہ کاروبار آسمانی بجلی کا سا ہو گیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس وقت 19سے 22 ہزار میگا واٹ بجلی کی ضرورت ہے جب کہ ہمارے ہاں اس سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ہم اپنی ضرورت کے ساتھ، ساتھ مزید بجلی پیدا کرنے اوراس کی فروخت سے اپنی معیشت بہتر کرنے کی پوزیشن میںہیںمگر منافع سازی کے ''دیوتا'' ایسا کرنے کے رستے میںسب سی بڑی رکاوٹ ہیں۔ میں پانچ مرلہ ہاوسنگ اسکیم کا رہائشی ہوں مجھے دو ماہ کا بجلی کا بل مبلغ 30 ہزار روپیہ سکہ رائج الوقت ارسال فرمایا گیا تھا۔

اس ''دوزخ فیم'' گرمی میں بجلی کا میٹر کٹ جانے کے شور شاٹ خدشہ کے باعث مورخہ 29 جولائی کو ہی اپنا کھیسہ ڈھیلا کر چکا ہوں۔ اس موقعہ پر جب کہ میری ذاتی معیشت کو زبردست دھچکا لگا ہے مجھے وہ کنڈے باز بھی یاد آ رہے ہیں جو ۔۔۔۔ستاروں پر کمند ڈالنے کے بجائے بجلی کے برہنہ کھمبوں پر کنڈے ڈال کر بجلی کے ذاتی بحران کا حل کر لیتے ہیں۔۔ذرا سوچئے! ان کنڈا بازوں پر ان اینکر پرسنز کے پیغامات کا کتنا اثر ہوتا ہو گاجن کی پیشہ وارانہ پاسداری کی داستانیں بھی یو ۔ ٹیوب پر چڑھا دی گئی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے الیکشن میںماضی کا ہر سیاسی نعرہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔ آیندہ الیکشن معیشت کی بحالی، لوڈشیڈنگ کے خاتمے، بے روزگاری کے مستقل حل اور بھوک ننگ کے عملی خاتمے کے ناقابل تردید ثبوت طلب کرے گا۔ ریاستی طاقتوں اورجمہوری نمایندوں کو اتنا سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر عوام کے سانس چلتے رہے تو گلشن کا کاروبار اور سرکار چلے گی۔ جس روز عوام کا سانس بند ہوا سب کا ''جھٹکا '' ہو جائے گا۔ سب سے پہلے گول میز کانفرنس بجلی کے بحران پر بلائی جانی چاہیے۔

اس مسئلہ کے حل کے لیے ان طاقتوںکو بھی آ گے آنا چاہیے جو کچھ مدت کے بعد کرپشن اورقومی سلامتی کی ترجیحات کی تنظیم نو کے لیے ''آجایاکرتی ہیں'' یہاںآ گے آنے سے مراد صرف مشورہ اور پریشر کی حد تک آگے آنا ہے۔ آخر میںبھارتی فلم''ودھاتا'' کا کلائی مکس یاد دلانا چاہتا ہوں جس میں دلیپ کمار فلم کے ولن امریش پوری کو ایک جنگلی اور ڈسکو دھن بجا کر اس کے انجام تک پہنچا دیتے ہیں۔ امریش پوری فلم کے آغاز میںہیرو کو ایسی ہی ڈسکو دھن پر بیدردی سے قتل کر دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔غریب عوام پر حکومت کرنے اور ان کی لاشوں سے منافع کشید کرنے کا ''ڈسکو پروگرام'' بند ہونا چاہیے کہیںایسا نہ ہو کہ عوام دلیپ کمار بن کر اپنے ولن کے ساتھ وہی سین پارٹ کرے جو ''ودھاتا'' کے اختتام پر ہوتا ہے۔
Load Next Story