بھارتی عدلیہ خوف کے سائے میں ہے
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر جی این سائیں بابا کو ماؤ نوازوں کے ساتھ روابط کے جرم میں عمر قید سنا دی گئی
ISLAMABAD:
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر جی این سائیں بابا کو ماؤ نوازوں کے ساتھ روابط کے جرم میں عمر قید سنا دی گئی۔ عدالت کے مکمل احترام کے باوجود میں اس سزا کے خلاف اختلاف کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ ماؤ نواز لوگ انتہائی بائیں جانب کے فلسفے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن بھارت میں زیادہ تر لوگ ان کے نظریے کو پسند نہیں کرتے اور جو ان کی تقلید کرتے ہیں ان پر تنقید کی جاتی ہے۔
لیکن اختلافات کے باعث کسی کو قید نہیں کیا جاتا چہ جائیکہ عمر قید کی سزا سنا دی جائے۔ ایسے لگتا ہے جیسے عدالتیں بھی برسراقتدار سیاسی جماعت کے دباؤ میں آ جاتی ہیں۔ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی ہندو راشٹرا میں یقین رکھتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بی جے پی حکومت نے ہندوتوا کو کسی قانون کے ذریعے نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن یہ حقیقت کہ وزیراعظم نریندر مودی چونکہ اس نظریے کی حمایت کرتے ہیں یہی اس کی تقویت کی وجہ ہے۔ ماؤ نوازوں سے نظریاتی بنیادوں پر مقابلہ کرنا چاہیے۔ بی جے پی یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ بائیں بازو کی سوچ کے برعکس ہندوتوا کے فلسفے پر عمل کر کے بھارت کی زیادہ ترقی ہو سکتی ہے۔ جب کہ بائیں بازو کے نظریے کو ماننے والے کہتے ہیں کہ ان کے راستے سے معاشرے میں مساوات قائم ہو سکتی ہے۔
دراصل بائیں بازو والوں کو اپنے نظریات کا کھل کر پرچار کرنا ہو گا اور بتانا ہو گا کہ اس سے لوگوں کو کیسے اور کتنا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ جہاں تک ملک کے لیے مسائل کا تعلق ہے تو بھارت واحد ملک نہیں جو مسائل در مسائل کا شکار ہے۔ یہ مسائل تو ساری دنیا کے لیے ہیں، بالخصوص امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد سب ہی خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ جیسا کہ ٹرمپ کی مدمقابل ہلیری کلنٹن نے کہا تھا کہ نئے صدر کو امریکی آئین کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے جس میں افراد کو بنیادی حقوق دینے کی ضمانت دی گئی ہے۔
سوویت نظام کے خلاف اسی بنا پر تحریک چلی تھی کہ وہاں لوگوں کو مخالفانہ آواز بلند کرنے کی اجازت نہیں تھی چنانچہ انھوں نے اس حکومت کو گرا دیا حتیٰ کہ سوویت لیڈر اسٹالن کو بھی جانا پڑا کیونکہ عوام کی آواز اپنے لیڈر سے کہیں زیادہ بلند ہو گئی تھی۔ اگرچہ اسٹالن نے اپنے مخالفین کو بہت بری طرح کچل دیا اور یہ ظلم کسی ایک کمیونٹی پر نہیں ہوا بلکہ کسی کو بھی مخالفانہ جذبات کے اظہار کی اجازت نہیں دی۔ جرمنی میں بھی یہی نکتہ ثابت ہوا۔ جرمنی کا آئین بھی بہترین تھا جس میں ہر طرح سے آزادی اظہار کی ضمانت دی گئی تھی لیکن جرمنی کے ہی ایک شخص ایڈولف ہٹلر نے اسی بہترین آئین کے تحت بدترین قوانین تشکیل دیے۔
یہی وجہ ہے کہ جرمن عوام کو ہٹلر اور اس کے فلسفے سے نجات کے لیے ایک بھرپور جنگ لڑنا پڑی۔ حتیٰ کہ ابھی تک جرمنی نازی ازم کے بھوت کے ڈر سے پوری طرح نجات حاصل نہیں کر سکا۔ برلن کی دیواروں پر نازیوں کا علامتی نشان سواستیکا اب بھی نظر آتا ہے۔ گویا جرمنی میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو پورے یورپ پر اقتصادی طور پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ گو کہ جرمنی اقتصادی طور پر ایک مضبوط ملک ہے لیکن سیاسی طور پر اسے ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
نئی دہلی حکومت غیر ضروری طور پر تشویش میں مبتلا ہے۔ بھارت کے لوگوں کو بھارتی ہونا اسقدر پسند ہے کہ ان کے لیے کسی اور نظریے میں کوئی کشش ہی نہیں۔ یہ سوچ بھارت کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں ماؤ نوازوں کی دراندازی کا کوئی امکان ہی نہیں۔ بھارتی عوام جمہوریت سے ایک عقیدے کی طرح محبت کرتے ہیں۔ انھوں نے دیکھا ہے کہ بھارت کی مقبول لیڈر مسز اندرا گاندھی کا ایمرجنسی ہٹاتے ہی بوریا بستر گول کر دیا گیا۔ بعدازاں اندرا کو انتخابات میں بھی شکست ہو گئی۔
رائے دہندگان مطلق العنان حکمرانی پسند نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی انھیں موقع ملا انھوں نے اندرا کے خلاف بغاوت کر دی۔ آج کی حکمران جماعت بی جے پی اس زمانے میں جن سنگھ کہلواتی تھی۔ اس کو بھی انتخابی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے پیروکاروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا، حتیٰ کہ دہلی کے میئر ہنس راج گپتا کو بھی معاف نہیں کیا گیا۔ جن سنگھ پارٹی کے اراکین اور گاندھی کو ماننے والے دونوں کو ایک ہی سیل میں قید کیا گیا۔ جنتا پارٹی کی پیدائش ہی جیل میں ہوئی تھی جس کا سہرا راج نارائن کے سر بندھتا ہے جو کہ سوشلسٹ تھے جنہوںنے انتخابی دھاندلیوں پر اندرا گاندھی کو چیلنج کیا تھا جس پر الہ آباد ہائی کورٹ نے اندرا پر چھ سال تک کسی انتخاب میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی لیکن اندرا نے ایمرجنسی کا نفاذ کر کے اسمبلی ہی توڑ دی۔
دہلی یونیورسٹی کے ٹیچر اور چار دیگر افراد جنھیں عمر قید کی سزا دی گئی انھوں نے کوئی خطرناک جرم نہیں کیا کہ اسقدر سخت سزا دی جائے۔ ان پر صرف ماؤ نوازوں کے ساتھ روابط کا الزام ہے۔ حالانکہ میرے خیال میں ماؤ نوازوں کو بھی اپنے خیالات و نظریات کے پرچار کا پورا حق ہونا چاہیے کیونکہ وہ بھی ہمارے ملک کے شہری ہیں۔ اگر وہ دوسروں کو تشدد پر نہیں اکساتے تو پھر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جانی چاہیے۔ تجربہ یہ کہتا ہے کہ اگر آپ کسی ایک کے ساتھ نرمی برتیں تو دوسرے معاملات میں بھی نرمی برتنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ عدالت میں اس کی مثال دی جائے گی اور پھر یہ عدالت پر منحصر ہو گا کہ وہ اس مثال کو قبول کرتی ہے یا نہیں۔ خوش قسمتی سے ملزم کا بڑی عدالتوں میں اپیل کر نے کا حق قائم رہتا ہے چنانچہ حتمی فیصلہ بڑی عدالتیں ہی کرتی ہیں۔
ہمارے ملک میں تحریر و تقریر کی آزادی کے باعث کسی مختلف نظریے پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی، لیکن تشدد کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ بھارت کے ایک علاقے میں ماؤ نوازوں کے ہاتھوں جو قتل و غارت ہوئی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو انسانی جان کی کوئی تکریم نہیں اور وہ اپنی بات منوانے کے لیے جو بھی طریقہ چاہیں استعمال کر سکتے ہیں۔ عدالت کو ماؤ نوازوں کے فلسفے سے متاثر نہیں ہونا چاہیے اور اس مقدمے کا فیصلہ اعلیٰ ترین عدالت کے جج حضرات کی صوابدید سے ہی کیا جانا چاہیے۔ یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ اب اعلی ججوں کی تعیناتی سپریم کورٹ کے سینئر جج ہی کریں گے لیکن اس کے باوجود میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ چیف جسٹس حکمرانوں کے دباؤ میں آ جاتا ہے۔ موجودہ ججوں کی تعیناتی حکومت نے کی تھی اور انھوں نے کئی معاملات میں بہت بہترین فیصلے دیے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ جج حضرات کی آزادی اور خود مختاری بہرصورت برقرار رہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر جی این سائیں بابا کو ماؤ نوازوں کے ساتھ روابط کے جرم میں عمر قید سنا دی گئی۔ عدالت کے مکمل احترام کے باوجود میں اس سزا کے خلاف اختلاف کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ ماؤ نواز لوگ انتہائی بائیں جانب کے فلسفے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن بھارت میں زیادہ تر لوگ ان کے نظریے کو پسند نہیں کرتے اور جو ان کی تقلید کرتے ہیں ان پر تنقید کی جاتی ہے۔
لیکن اختلافات کے باعث کسی کو قید نہیں کیا جاتا چہ جائیکہ عمر قید کی سزا سنا دی جائے۔ ایسے لگتا ہے جیسے عدالتیں بھی برسراقتدار سیاسی جماعت کے دباؤ میں آ جاتی ہیں۔ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی ہندو راشٹرا میں یقین رکھتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بی جے پی حکومت نے ہندوتوا کو کسی قانون کے ذریعے نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن یہ حقیقت کہ وزیراعظم نریندر مودی چونکہ اس نظریے کی حمایت کرتے ہیں یہی اس کی تقویت کی وجہ ہے۔ ماؤ نوازوں سے نظریاتی بنیادوں پر مقابلہ کرنا چاہیے۔ بی جے پی یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ بائیں بازو کی سوچ کے برعکس ہندوتوا کے فلسفے پر عمل کر کے بھارت کی زیادہ ترقی ہو سکتی ہے۔ جب کہ بائیں بازو کے نظریے کو ماننے والے کہتے ہیں کہ ان کے راستے سے معاشرے میں مساوات قائم ہو سکتی ہے۔
دراصل بائیں بازو والوں کو اپنے نظریات کا کھل کر پرچار کرنا ہو گا اور بتانا ہو گا کہ اس سے لوگوں کو کیسے اور کتنا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ جہاں تک ملک کے لیے مسائل کا تعلق ہے تو بھارت واحد ملک نہیں جو مسائل در مسائل کا شکار ہے۔ یہ مسائل تو ساری دنیا کے لیے ہیں، بالخصوص امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد سب ہی خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ جیسا کہ ٹرمپ کی مدمقابل ہلیری کلنٹن نے کہا تھا کہ نئے صدر کو امریکی آئین کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے جس میں افراد کو بنیادی حقوق دینے کی ضمانت دی گئی ہے۔
سوویت نظام کے خلاف اسی بنا پر تحریک چلی تھی کہ وہاں لوگوں کو مخالفانہ آواز بلند کرنے کی اجازت نہیں تھی چنانچہ انھوں نے اس حکومت کو گرا دیا حتیٰ کہ سوویت لیڈر اسٹالن کو بھی جانا پڑا کیونکہ عوام کی آواز اپنے لیڈر سے کہیں زیادہ بلند ہو گئی تھی۔ اگرچہ اسٹالن نے اپنے مخالفین کو بہت بری طرح کچل دیا اور یہ ظلم کسی ایک کمیونٹی پر نہیں ہوا بلکہ کسی کو بھی مخالفانہ جذبات کے اظہار کی اجازت نہیں دی۔ جرمنی میں بھی یہی نکتہ ثابت ہوا۔ جرمنی کا آئین بھی بہترین تھا جس میں ہر طرح سے آزادی اظہار کی ضمانت دی گئی تھی لیکن جرمنی کے ہی ایک شخص ایڈولف ہٹلر نے اسی بہترین آئین کے تحت بدترین قوانین تشکیل دیے۔
یہی وجہ ہے کہ جرمن عوام کو ہٹلر اور اس کے فلسفے سے نجات کے لیے ایک بھرپور جنگ لڑنا پڑی۔ حتیٰ کہ ابھی تک جرمنی نازی ازم کے بھوت کے ڈر سے پوری طرح نجات حاصل نہیں کر سکا۔ برلن کی دیواروں پر نازیوں کا علامتی نشان سواستیکا اب بھی نظر آتا ہے۔ گویا جرمنی میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو پورے یورپ پر اقتصادی طور پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ گو کہ جرمنی اقتصادی طور پر ایک مضبوط ملک ہے لیکن سیاسی طور پر اسے ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
نئی دہلی حکومت غیر ضروری طور پر تشویش میں مبتلا ہے۔ بھارت کے لوگوں کو بھارتی ہونا اسقدر پسند ہے کہ ان کے لیے کسی اور نظریے میں کوئی کشش ہی نہیں۔ یہ سوچ بھارت کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں ماؤ نوازوں کی دراندازی کا کوئی امکان ہی نہیں۔ بھارتی عوام جمہوریت سے ایک عقیدے کی طرح محبت کرتے ہیں۔ انھوں نے دیکھا ہے کہ بھارت کی مقبول لیڈر مسز اندرا گاندھی کا ایمرجنسی ہٹاتے ہی بوریا بستر گول کر دیا گیا۔ بعدازاں اندرا کو انتخابات میں بھی شکست ہو گئی۔
رائے دہندگان مطلق العنان حکمرانی پسند نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی انھیں موقع ملا انھوں نے اندرا کے خلاف بغاوت کر دی۔ آج کی حکمران جماعت بی جے پی اس زمانے میں جن سنگھ کہلواتی تھی۔ اس کو بھی انتخابی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے پیروکاروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا، حتیٰ کہ دہلی کے میئر ہنس راج گپتا کو بھی معاف نہیں کیا گیا۔ جن سنگھ پارٹی کے اراکین اور گاندھی کو ماننے والے دونوں کو ایک ہی سیل میں قید کیا گیا۔ جنتا پارٹی کی پیدائش ہی جیل میں ہوئی تھی جس کا سہرا راج نارائن کے سر بندھتا ہے جو کہ سوشلسٹ تھے جنہوںنے انتخابی دھاندلیوں پر اندرا گاندھی کو چیلنج کیا تھا جس پر الہ آباد ہائی کورٹ نے اندرا پر چھ سال تک کسی انتخاب میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی لیکن اندرا نے ایمرجنسی کا نفاذ کر کے اسمبلی ہی توڑ دی۔
دہلی یونیورسٹی کے ٹیچر اور چار دیگر افراد جنھیں عمر قید کی سزا دی گئی انھوں نے کوئی خطرناک جرم نہیں کیا کہ اسقدر سخت سزا دی جائے۔ ان پر صرف ماؤ نوازوں کے ساتھ روابط کا الزام ہے۔ حالانکہ میرے خیال میں ماؤ نوازوں کو بھی اپنے خیالات و نظریات کے پرچار کا پورا حق ہونا چاہیے کیونکہ وہ بھی ہمارے ملک کے شہری ہیں۔ اگر وہ دوسروں کو تشدد پر نہیں اکساتے تو پھر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جانی چاہیے۔ تجربہ یہ کہتا ہے کہ اگر آپ کسی ایک کے ساتھ نرمی برتیں تو دوسرے معاملات میں بھی نرمی برتنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ عدالت میں اس کی مثال دی جائے گی اور پھر یہ عدالت پر منحصر ہو گا کہ وہ اس مثال کو قبول کرتی ہے یا نہیں۔ خوش قسمتی سے ملزم کا بڑی عدالتوں میں اپیل کر نے کا حق قائم رہتا ہے چنانچہ حتمی فیصلہ بڑی عدالتیں ہی کرتی ہیں۔
ہمارے ملک میں تحریر و تقریر کی آزادی کے باعث کسی مختلف نظریے پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی، لیکن تشدد کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ بھارت کے ایک علاقے میں ماؤ نوازوں کے ہاتھوں جو قتل و غارت ہوئی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو انسانی جان کی کوئی تکریم نہیں اور وہ اپنی بات منوانے کے لیے جو بھی طریقہ چاہیں استعمال کر سکتے ہیں۔ عدالت کو ماؤ نوازوں کے فلسفے سے متاثر نہیں ہونا چاہیے اور اس مقدمے کا فیصلہ اعلیٰ ترین عدالت کے جج حضرات کی صوابدید سے ہی کیا جانا چاہیے۔ یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ اب اعلی ججوں کی تعیناتی سپریم کورٹ کے سینئر جج ہی کریں گے لیکن اس کے باوجود میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ چیف جسٹس حکمرانوں کے دباؤ میں آ جاتا ہے۔ موجودہ ججوں کی تعیناتی حکومت نے کی تھی اور انھوں نے کئی معاملات میں بہت بہترین فیصلے دیے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ جج حضرات کی آزادی اور خود مختاری بہرصورت برقرار رہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)