اپنی شناخت کا مسئلہ
بھٹو کے دور میں شناختی کارڈ بنوانے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ بہت آسان اور آج کل خاصا سخت بنا ہوا ہے
یوں تو ہم لسانی تعصبات کے باعث صوبائیت میں تقسیم ہیں اور بہت ہی کم ایسے لوگ ہوں گے جو خود کو پاکستانی قرار دیتے ہیں اور یا وہ افراد بیرون ملک سفر کرتے ہیں وہ بھی مجبوری میں خود کو پاکستانی قرار دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں گرین پاسپورٹ کی وجہ سے ہم خود کو پاکستانی بتاتے ہیں اور پاسپورٹ پر ہمارے کوائف انگریزی میں لکھے ہوتے ہیں ، پاسپورٹ کی وجہ سے ہی بیرون دنیا میں ہمیں پاکستانی کہا جاتا ہے۔ پاسپورٹ بیرون ملک تو ہماری شناخت ہے مگر پاکستان میں پاکستانی کی شناخت ہمارا شناختی کارڈ ہے جس کو بنواتے وقت ہمیں اپنی قومیت پاکستانی لکھنا پڑتی ہے اور اپنے ملک میں زیادہ تر این آئی سی اردو ہی میں بنے ہوئے ہیں جو ہمارے پاکستانی ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔
بھٹو کے دور میں شناختی کارڈ بنوانے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ بہت آسان اور آج کل خاصا سخت بنا ہوا ہے۔ پہلے ہر ضلع میں شناختی کارڈ بنتے تھے جو بہت آسان تھے جس کی وجہ سے غیر ملکیوں نے بھی یہ کارڈ بنوا لیے تھے جس کے سدباب کے لیے ملک بھر میں محکمہ داخلہ کے ماتحت پاکستانیوں کے لیے نادرا اور غیر ملکیوں کے لیے نارا کے نام سے ادارے وجود میں آئے تھے اور ملک بھر میں نادرا کے زیادہ اور نارا کے مخصوص علاقوں میں دفاتر قائم کیے گئے۔ نادرا کے قیام سے پاکستانیوں کے لیے اپنی شناخت کے لیے کمپیوٹرائزڈ کارڈ بنوانا لازمی ہے اور این آئی سی کے بغیر کوئی ملک سے باہر جا سکتا ہے اور نہ ملک میں کوئی بھی سرکاری کام، داخلے، بینکوں میں اکاؤنٹس کھولنا و دیگر معاملات ناممکن قرار دیے گئے ہیں۔
رشوت لے کر غیر ملکیوں کو بھی شناختی کارڈ بنادیے گئے ہیں، آج کل صورتحال یہ ہے کہ حقیقی پاکستانی مقررہ سرکاری فیس ادا کرکے بھی شناختی کارڈ آسانی سے نہیں بنوا سکتے۔ نیا شناختی کارڈ بنوانا یا اپنے کارڈ میں نادرا ہی کی غلطی درست کرانا یا پتے وغیرہ کی اور کوئی بھی تبدیلی دشوار تر بنا دی گئی ہے۔ بعض اوقات شناختی کارڈ میں مرد کو عورت لکھ دیا جاتا ہے اورکبھی نوجوانوں کو بوڑھا، عارضی اور مستقل پتوں میں غلطیاں ہوجاتی ہیں اور انھیں درست کروانا بھی خاصا مشکل ہے۔
ملک بھر میں جو شکایات میڈیا پر آرہی ہیں ان کا فوری ازالہ ہونا چاہیے، مگر شاید اس طرف توجہ دینے کی کسی کے پاس فرصت نہیں ہے۔ ملک بھر میں نادرا کے علاقائی دفاتر بہت کم اور ناکافی ہیں۔ ان کی تعداد زیادہ کرنی چاہیے، سکیورٹی گارڈز اور عوام کے درمیان تلخی کی شکایات عام ہیں، ان کا بھی سدباب ہونا چاہیے۔ رش ایک اور عذاب ہے، گزشتہ سال کراچی میں نادرا کے ایک سکیورٹی گارڈ نے ایک خاتون صحافی کو تھپڑ بھی رسید کردیا تھا۔ کسی بھی نادرا دفتر کے باہر ہجوم میڈیا والوں کو دیکھ کر اپنے ساتھ پیش آنے والی مشکلات سے آگاہ کرتا ہے جس کے تدارک کے لیے میڈیا والے نادرا کا موقف لینے کے لیے نادرا دفتر کے انچارج سے ملنا چاہتے ہیں تو دفتر میں اندر موجود انچارج کہلوا دیتے ہیں کہ وہ موجود نہیں ہیں اور کوئی اندر جاکر صورتحال معلوم کرنا چاہے تو سکیورٹی گارڈ رکاوٹ بن جاتے ہیں اور اندر جانے نہیں دیتے، یہیں سے صورتحال خراب ہوتی ہے، اگر سکیورٹی عملے کی تربیت ہو تو صورتحال درست ہوسکتی ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ نادرا کے دفتر میں موجود ملازموں کے شناساؤں کے لیے اندر جانا اور شناختی کارڈ بنوانا بہت آسان اور عام لوگوں کے لیے نہایت مشکل بن چکا ہے۔
نادرا کے دفاتر صبح نو بجے کھلتے ہیں اور این آئی سی بنوانے والوں کو صبح سویرے ہی آکر قطار بنانا پڑتی ہے تاکہ جلد ٹوکن حاصل کرکے اندر جاسکیں۔ ہر نادرا دفتر کے باہر موجود ہجوم نیا این آئی سی بنوانے ہی نہیں سیتا بلکہ جن لوگوں کو کارڈ میں تبدیلی کرانا ہو یا کارڈ کی مدت ختم ہوجانے کے بعد نیا کارڈ بنوانے والے ہی کو نہیں بلکہ اس کے والدین کو بھی سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سرکاری و غیر سرکاری ملازمین کوکارڈ بنوانے کے لیے دو تین روز کی رخصت لینا پڑتی ہے۔ بہت کم لوگوں سے کوائف پہلے روز ہی مکمل کرکے رسید دے دی جاتی ہے وگرنہ غیر ضروری اعتراضات اور دیگر کاغذات طلب کیے جاتے ہیں جس کا مقصد پریشان کرنا ہی ہوتا ہے۔ راقم کو نادرا کے ایک دفتر جاکر لوگوں کی پریشانی دیکھنے کا موقعہ ملا جہاں ٹوکن کاؤنٹر دونوں بند تھے اور اندر موجود چار پانچ افراد آرام آرام سے لوگوں کو تاخیر سے بلاکر امور نمٹا رہے تھے۔ باہر ہجوم کے شور، چیخ وپکار، تلخ کلامی سے بھی عملے پر کوئی اثر نہیں دیکھا۔ ایک شخص نے بتایا کہ ان سے گزشتہ روز فوٹو کاپی مانگی گئی جو وہ موقع پر دینا چاہتے تھے مگر کل آنے کا کہا اور محض کاپی لینے کے لیے بھی صبح سے انتظار کرایا جا رہا ہے۔
اپنی شناخت اپنے شہر ہی میں مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نادرا لوگوں کو سہولت دے اور اپنے ہی ملک میں شہریوں کو اپنی ہی شناخت کا کارڈ بنوانا دشوار اور پرشان کن نہیں ہونا چاہیے۔
بھٹو کے دور میں شناختی کارڈ بنوانے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ بہت آسان اور آج کل خاصا سخت بنا ہوا ہے۔ پہلے ہر ضلع میں شناختی کارڈ بنتے تھے جو بہت آسان تھے جس کی وجہ سے غیر ملکیوں نے بھی یہ کارڈ بنوا لیے تھے جس کے سدباب کے لیے ملک بھر میں محکمہ داخلہ کے ماتحت پاکستانیوں کے لیے نادرا اور غیر ملکیوں کے لیے نارا کے نام سے ادارے وجود میں آئے تھے اور ملک بھر میں نادرا کے زیادہ اور نارا کے مخصوص علاقوں میں دفاتر قائم کیے گئے۔ نادرا کے قیام سے پاکستانیوں کے لیے اپنی شناخت کے لیے کمپیوٹرائزڈ کارڈ بنوانا لازمی ہے اور این آئی سی کے بغیر کوئی ملک سے باہر جا سکتا ہے اور نہ ملک میں کوئی بھی سرکاری کام، داخلے، بینکوں میں اکاؤنٹس کھولنا و دیگر معاملات ناممکن قرار دیے گئے ہیں۔
رشوت لے کر غیر ملکیوں کو بھی شناختی کارڈ بنادیے گئے ہیں، آج کل صورتحال یہ ہے کہ حقیقی پاکستانی مقررہ سرکاری فیس ادا کرکے بھی شناختی کارڈ آسانی سے نہیں بنوا سکتے۔ نیا شناختی کارڈ بنوانا یا اپنے کارڈ میں نادرا ہی کی غلطی درست کرانا یا پتے وغیرہ کی اور کوئی بھی تبدیلی دشوار تر بنا دی گئی ہے۔ بعض اوقات شناختی کارڈ میں مرد کو عورت لکھ دیا جاتا ہے اورکبھی نوجوانوں کو بوڑھا، عارضی اور مستقل پتوں میں غلطیاں ہوجاتی ہیں اور انھیں درست کروانا بھی خاصا مشکل ہے۔
ملک بھر میں جو شکایات میڈیا پر آرہی ہیں ان کا فوری ازالہ ہونا چاہیے، مگر شاید اس طرف توجہ دینے کی کسی کے پاس فرصت نہیں ہے۔ ملک بھر میں نادرا کے علاقائی دفاتر بہت کم اور ناکافی ہیں۔ ان کی تعداد زیادہ کرنی چاہیے، سکیورٹی گارڈز اور عوام کے درمیان تلخی کی شکایات عام ہیں، ان کا بھی سدباب ہونا چاہیے۔ رش ایک اور عذاب ہے، گزشتہ سال کراچی میں نادرا کے ایک سکیورٹی گارڈ نے ایک خاتون صحافی کو تھپڑ بھی رسید کردیا تھا۔ کسی بھی نادرا دفتر کے باہر ہجوم میڈیا والوں کو دیکھ کر اپنے ساتھ پیش آنے والی مشکلات سے آگاہ کرتا ہے جس کے تدارک کے لیے میڈیا والے نادرا کا موقف لینے کے لیے نادرا دفتر کے انچارج سے ملنا چاہتے ہیں تو دفتر میں اندر موجود انچارج کہلوا دیتے ہیں کہ وہ موجود نہیں ہیں اور کوئی اندر جاکر صورتحال معلوم کرنا چاہے تو سکیورٹی گارڈ رکاوٹ بن جاتے ہیں اور اندر جانے نہیں دیتے، یہیں سے صورتحال خراب ہوتی ہے، اگر سکیورٹی عملے کی تربیت ہو تو صورتحال درست ہوسکتی ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ نادرا کے دفتر میں موجود ملازموں کے شناساؤں کے لیے اندر جانا اور شناختی کارڈ بنوانا بہت آسان اور عام لوگوں کے لیے نہایت مشکل بن چکا ہے۔
نادرا کے دفاتر صبح نو بجے کھلتے ہیں اور این آئی سی بنوانے والوں کو صبح سویرے ہی آکر قطار بنانا پڑتی ہے تاکہ جلد ٹوکن حاصل کرکے اندر جاسکیں۔ ہر نادرا دفتر کے باہر موجود ہجوم نیا این آئی سی بنوانے ہی نہیں سیتا بلکہ جن لوگوں کو کارڈ میں تبدیلی کرانا ہو یا کارڈ کی مدت ختم ہوجانے کے بعد نیا کارڈ بنوانے والے ہی کو نہیں بلکہ اس کے والدین کو بھی سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سرکاری و غیر سرکاری ملازمین کوکارڈ بنوانے کے لیے دو تین روز کی رخصت لینا پڑتی ہے۔ بہت کم لوگوں سے کوائف پہلے روز ہی مکمل کرکے رسید دے دی جاتی ہے وگرنہ غیر ضروری اعتراضات اور دیگر کاغذات طلب کیے جاتے ہیں جس کا مقصد پریشان کرنا ہی ہوتا ہے۔ راقم کو نادرا کے ایک دفتر جاکر لوگوں کی پریشانی دیکھنے کا موقعہ ملا جہاں ٹوکن کاؤنٹر دونوں بند تھے اور اندر موجود چار پانچ افراد آرام آرام سے لوگوں کو تاخیر سے بلاکر امور نمٹا رہے تھے۔ باہر ہجوم کے شور، چیخ وپکار، تلخ کلامی سے بھی عملے پر کوئی اثر نہیں دیکھا۔ ایک شخص نے بتایا کہ ان سے گزشتہ روز فوٹو کاپی مانگی گئی جو وہ موقع پر دینا چاہتے تھے مگر کل آنے کا کہا اور محض کاپی لینے کے لیے بھی صبح سے انتظار کرایا جا رہا ہے۔
اپنی شناخت اپنے شہر ہی میں مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نادرا لوگوں کو سہولت دے اور اپنے ہی ملک میں شہریوں کو اپنی ہی شناخت کا کارڈ بنوانا دشوار اور پرشان کن نہیں ہونا چاہیے۔