نئی پیش رفت
ریاست کے دو اداروں میں تناؤ ختم کرنے کے لیے سنجیدہ اور حقیقی کوششیں ہونی چاہئیں
لاہور:
سپریم کورٹ نے این آر او عملدرآمد کیس میں وزیراعظم کو سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے نئی ڈیڈلائن دیتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ آیندہ تاریخ تک قابل قبول حل نکال لیا جائے گا۔ عدالت نے آبزرویشن دی کہ ریاست کے دو اداروں میں تناؤ ختم کرنے کے لیے سنجیدہ اور حقیقی کوششیں ہونی چاہئیں۔ فاصلے ختم کرنا ناممکن نہیں۔ کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا جائے گا جس کا نقصان ملک وقوم کو ہو۔ اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ ہمارا ملک ہے اور ہم نے اسے آگے لے کر جانا ہے۔
ہماری کمزوریوں سے ملک کا نقصان ہو تو اس سے زیادہ بدقسمتی اور نہیں ہو سکتی۔ ہمیں کسی وزیراعظم کو گھر بھیجنے کا شوق نہیں ''آپ سوچیں راستے نکل سکتے ہیں'' ہم پہلے پاکستانی ہیں۔ عدالت ایک قانونی پوزیشن لے چکی ہے۔ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہو سکتی۔ ایڈجسٹمنٹ تو سیاست میں کی جاتی ہے۔ انھوں نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ وہ اس مسئلے کا ''درمیانی حل'' نکالیں۔ حل ایسا ہونا چاہیے جس سے دونوں کے مؤقف کی تسکین ہو۔'' اس مسئلے کا حل ''موجود ہے'' لیکن حل بتانا عدالت کا کام نہیں۔
اگر حل بتا دیا تو اس پر بھی اعتراض کیا جائے گا۔ فاضل جج نے کہا کہ عدالت نے یہ کبھی نہیں کہا کہ صدر مملکت کا ٹرائل کیا جائے۔ انھیں قانون نے جو تحفظ دیا ہوا ہے وہ اپنی جگہ موجود ہے، اس پر کوئی جھگڑا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری ان کے بھی صدر ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز میں جو ''ماحول'' بنایا جاتاہے اس سے پوری قوم خوفزدہ ہو جاتی ہے کہ پتہ نہیں عدالت کیا کرنے والی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کبھی سسٹم کو ڈی ریل نہیں ہونے دے گی۔
جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ معاملات سدھار لیں تاکہ قیاس آرائیاں ختم ہوں جس پر اٹارنی جنرل نے یقین دہائی کرائی کہ معاملہ کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے گی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ صدر مملکت کو بین الاقوامی استثنیٰ حاصل ہے تو ہم یہ لکھ کر دینے کے لیے تیار ہیں کہ ان کو بین الاقوامی قانون کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔ ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ ان کو پراسیکیوٹ کریں۔ وہ ہمارے بھی صدر ہیں۔ ان کے عہدے کا ایک وقار ہے۔
بعدازاں عدالتی حکم میں کہا گیا کہ امید ہے، دو اداروں کے درمیان دوری ختم کرنا ناممکن نہیں۔ اٹارنی جنرل نے معاملے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ملک کے اہم اداروں میں نام نہاد تناؤ ہے۔ عدالت توقع کرتی ہے کہ آیندہ سماعت تک ''قابل قبول حل ''نکال لیا جائے گا۔
دوسری طرف توہین عدالت قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ میں اس بل پر کیا غور وفکر ہوا۔ وکیل نے کہا کہ بل پر بحث نہ ہونے پر اپوزیشن نے واک آؤٹ کیا۔ چیف جسٹس نے کہا، کیا واک آؤٹ حل ہے؟ ادھر قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی نے کہا کہ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ 342 رکنی ایوان میں 90 ارکان پر مشتمل اپوزیشن کیسے بل کی منظوری روک سکتی ہے سوائے اس کے کہ وزیروں کے ہاتھ سے بل چھین کر پھاڑ دیے جاتے اور پارلیمنٹ میں ایک تشدد آمیز منظر پیدا کرا دیا جاتا۔
پارلیمنٹ ہاؤس سے جاری ایک بیان میں قائد حزب اختلاف نے کہا کہ ن لیگ نے توہین عدالت قانون کی منظوری کے حکومتی اقدامات کے خلاف پارلیمانی' سیاسی اور قانونی سطح پر بھرپور مزاحمتی آواز بلند کی اور حکومتی رویے کے خلاف اسمبلی میں بھرپور احتجاج کیا۔ اس سے زیادہ اور کیا ہم کر سکتے تھے اور کیا ہم اسمبلی میں ڈنڈے لے کر چلے جاتے۔
ملک اور قوم کے لیے یہ بڑی خوش آیند بات ہے کہ اعلیٰ عدلیہ ''درمیانی حل'' نکلنے کی بات کر رہی ہے۔ یہ بات تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھی جائے گی کہ پیپلزپارٹی اور اس کی اعلیٰ لیڈرشپ نے سابق وزیراعظم گیلانی کی نااہلی کے فیصلے کو قبول کر کے عدلیہ کی عزت ووقار اور طاقت میں اضافہ کیا۔ اپنے وزیروں کی نااہلی سمیت اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کو قبول کیا۔ مستقبل میں پیپلزپارٹی کی طرف سے قائم کی گئی یہ نظیر اعلیٰ عدلیہ کو ایسی قوت وطاقت فراہم کرے گی کہ کسی کو یہ جرأت نہیں ہو گی کہ ماضی کی طرح سپریم کورٹ پرحملہ کر سکے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ دو تو کیا دس وزیراعظم بھی نااہل قرار دے دیے جائیں تو کوئی بات نہیں۔ اس کے پیچھے (سوچ) سازش یہ ہے کہ سپریم کورٹ کو پاکستانی عوام کی نظروں میں اتنا متنازعہ اور کمزور بنا دیا جائے کہ جب ان کا دور حکومت آئے تو ماضی کی طرح عدلیہ کو پھر اپنے قدموں میں جھکا سکیں۔
اعلیٰ عدلیہ کا مستقبل کیا ہے اس کا پتہ 2013ء کے شروع میں چلے گا لیکن اس سے پہلے اگست اور نومبر بھی اہم مہینے ہیں۔
لگتا ہے کہ عدالتی فعالیت کی وجہ سے کلاک کا پنڈولم جو ماضی کے برعکس ایک انتہا (نظریہ ضرورت) سے دوسری انتہا پر چلا گیا تھا واپس اپنی جگہ پر آنے والا ہے۔
ماضی قریب میں پیپلزپارٹی کے بدترین دور کا آغاز اس وقت ہو گیا تھا جب بے نظیر کا قتل ہوا۔ اس دور کا تسلسل آج بھی جاری ہے حالانکہ بظاہر 2008ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت بھی قائم ہو گئی لیکن یہ حکومت نہیں کانٹوں کی سیج تھی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت اور اس کی اعلیٰ قیادت جو دن رات کردار کشی کی گئی اس کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
بے نظیر کے قتل سے پیپلزپارٹی کا جو ''نیگیٹو فیز'' شروع ہوا تھا کیا اس کا خاتمہ ہو گیا ہے یا نہیں اس کا پتہ اگست کے مہینے خاص طور پر 4' 7' 8 اور 9 اور 16' 17 اور 18 اگست اور اس کے درمیان کے عرصے میں چلے گا۔ یہ وقت صرف عدلیہ اور سیاسی حوالے سے ہی اہم نہیں ہے بلکہ خطے کے حوالے سے بھی اس کی بڑی اہمیت ہے۔ شام اور اس کے صدر بشار الاسد کے حوالے سے بھی کہ ان کے مقدر کا فیصلہ بھی انھی تاریخوں میں ہو گا۔
حرف آخر: دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے محترم قارئین سے ایک مرتبہ پھر عاجزانہ گزارش ہے کہ براہ کرم کال مختصر کریں۔ کال کرتے ہوئے دوسروں کا خیال رکھیں۔ طویل گفتگو دوسروں کی حق تلفی کا باعث بن سکتی ہے اور میں عاجز' کمزور انسان بے شمار کالوں میں ایک وقت میں صرف ایک کال ہی اٹینڈ کر سکتا ہوں۔ آپ کا تعاون ہی ہم سب کی آسانی کا باعث بن سکتا ہے۔ آپ کی سہولت کے لیے ہفتے میں دن بڑھا کر پانچ یعنی پیر تا جمعہ اور اوقات رابطہ رمضان المبارک کے پیش نظر دوپہر 2 تا شام 6 بجے کر دیے ہیں۔ براہ کرم نئے اوقات نوٹ کر لیں۔ سیل فون نمبر: 0346-4527997۔
سپریم کورٹ نے این آر او عملدرآمد کیس میں وزیراعظم کو سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے نئی ڈیڈلائن دیتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ آیندہ تاریخ تک قابل قبول حل نکال لیا جائے گا۔ عدالت نے آبزرویشن دی کہ ریاست کے دو اداروں میں تناؤ ختم کرنے کے لیے سنجیدہ اور حقیقی کوششیں ہونی چاہئیں۔ فاصلے ختم کرنا ناممکن نہیں۔ کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا جائے گا جس کا نقصان ملک وقوم کو ہو۔ اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ ہمارا ملک ہے اور ہم نے اسے آگے لے کر جانا ہے۔
ہماری کمزوریوں سے ملک کا نقصان ہو تو اس سے زیادہ بدقسمتی اور نہیں ہو سکتی۔ ہمیں کسی وزیراعظم کو گھر بھیجنے کا شوق نہیں ''آپ سوچیں راستے نکل سکتے ہیں'' ہم پہلے پاکستانی ہیں۔ عدالت ایک قانونی پوزیشن لے چکی ہے۔ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہو سکتی۔ ایڈجسٹمنٹ تو سیاست میں کی جاتی ہے۔ انھوں نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ وہ اس مسئلے کا ''درمیانی حل'' نکالیں۔ حل ایسا ہونا چاہیے جس سے دونوں کے مؤقف کی تسکین ہو۔'' اس مسئلے کا حل ''موجود ہے'' لیکن حل بتانا عدالت کا کام نہیں۔
اگر حل بتا دیا تو اس پر بھی اعتراض کیا جائے گا۔ فاضل جج نے کہا کہ عدالت نے یہ کبھی نہیں کہا کہ صدر مملکت کا ٹرائل کیا جائے۔ انھیں قانون نے جو تحفظ دیا ہوا ہے وہ اپنی جگہ موجود ہے، اس پر کوئی جھگڑا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری ان کے بھی صدر ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز میں جو ''ماحول'' بنایا جاتاہے اس سے پوری قوم خوفزدہ ہو جاتی ہے کہ پتہ نہیں عدالت کیا کرنے والی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کبھی سسٹم کو ڈی ریل نہیں ہونے دے گی۔
جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ معاملات سدھار لیں تاکہ قیاس آرائیاں ختم ہوں جس پر اٹارنی جنرل نے یقین دہائی کرائی کہ معاملہ کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے گی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ صدر مملکت کو بین الاقوامی استثنیٰ حاصل ہے تو ہم یہ لکھ کر دینے کے لیے تیار ہیں کہ ان کو بین الاقوامی قانون کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔ ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ ان کو پراسیکیوٹ کریں۔ وہ ہمارے بھی صدر ہیں۔ ان کے عہدے کا ایک وقار ہے۔
بعدازاں عدالتی حکم میں کہا گیا کہ امید ہے، دو اداروں کے درمیان دوری ختم کرنا ناممکن نہیں۔ اٹارنی جنرل نے معاملے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ملک کے اہم اداروں میں نام نہاد تناؤ ہے۔ عدالت توقع کرتی ہے کہ آیندہ سماعت تک ''قابل قبول حل ''نکال لیا جائے گا۔
دوسری طرف توہین عدالت قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ میں اس بل پر کیا غور وفکر ہوا۔ وکیل نے کہا کہ بل پر بحث نہ ہونے پر اپوزیشن نے واک آؤٹ کیا۔ چیف جسٹس نے کہا، کیا واک آؤٹ حل ہے؟ ادھر قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی نے کہا کہ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ 342 رکنی ایوان میں 90 ارکان پر مشتمل اپوزیشن کیسے بل کی منظوری روک سکتی ہے سوائے اس کے کہ وزیروں کے ہاتھ سے بل چھین کر پھاڑ دیے جاتے اور پارلیمنٹ میں ایک تشدد آمیز منظر پیدا کرا دیا جاتا۔
پارلیمنٹ ہاؤس سے جاری ایک بیان میں قائد حزب اختلاف نے کہا کہ ن لیگ نے توہین عدالت قانون کی منظوری کے حکومتی اقدامات کے خلاف پارلیمانی' سیاسی اور قانونی سطح پر بھرپور مزاحمتی آواز بلند کی اور حکومتی رویے کے خلاف اسمبلی میں بھرپور احتجاج کیا۔ اس سے زیادہ اور کیا ہم کر سکتے تھے اور کیا ہم اسمبلی میں ڈنڈے لے کر چلے جاتے۔
ملک اور قوم کے لیے یہ بڑی خوش آیند بات ہے کہ اعلیٰ عدلیہ ''درمیانی حل'' نکلنے کی بات کر رہی ہے۔ یہ بات تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھی جائے گی کہ پیپلزپارٹی اور اس کی اعلیٰ لیڈرشپ نے سابق وزیراعظم گیلانی کی نااہلی کے فیصلے کو قبول کر کے عدلیہ کی عزت ووقار اور طاقت میں اضافہ کیا۔ اپنے وزیروں کی نااہلی سمیت اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کو قبول کیا۔ مستقبل میں پیپلزپارٹی کی طرف سے قائم کی گئی یہ نظیر اعلیٰ عدلیہ کو ایسی قوت وطاقت فراہم کرے گی کہ کسی کو یہ جرأت نہیں ہو گی کہ ماضی کی طرح سپریم کورٹ پرحملہ کر سکے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ دو تو کیا دس وزیراعظم بھی نااہل قرار دے دیے جائیں تو کوئی بات نہیں۔ اس کے پیچھے (سوچ) سازش یہ ہے کہ سپریم کورٹ کو پاکستانی عوام کی نظروں میں اتنا متنازعہ اور کمزور بنا دیا جائے کہ جب ان کا دور حکومت آئے تو ماضی کی طرح عدلیہ کو پھر اپنے قدموں میں جھکا سکیں۔
اعلیٰ عدلیہ کا مستقبل کیا ہے اس کا پتہ 2013ء کے شروع میں چلے گا لیکن اس سے پہلے اگست اور نومبر بھی اہم مہینے ہیں۔
لگتا ہے کہ عدالتی فعالیت کی وجہ سے کلاک کا پنڈولم جو ماضی کے برعکس ایک انتہا (نظریہ ضرورت) سے دوسری انتہا پر چلا گیا تھا واپس اپنی جگہ پر آنے والا ہے۔
ماضی قریب میں پیپلزپارٹی کے بدترین دور کا آغاز اس وقت ہو گیا تھا جب بے نظیر کا قتل ہوا۔ اس دور کا تسلسل آج بھی جاری ہے حالانکہ بظاہر 2008ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت بھی قائم ہو گئی لیکن یہ حکومت نہیں کانٹوں کی سیج تھی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت اور اس کی اعلیٰ قیادت جو دن رات کردار کشی کی گئی اس کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
بے نظیر کے قتل سے پیپلزپارٹی کا جو ''نیگیٹو فیز'' شروع ہوا تھا کیا اس کا خاتمہ ہو گیا ہے یا نہیں اس کا پتہ اگست کے مہینے خاص طور پر 4' 7' 8 اور 9 اور 16' 17 اور 18 اگست اور اس کے درمیان کے عرصے میں چلے گا۔ یہ وقت صرف عدلیہ اور سیاسی حوالے سے ہی اہم نہیں ہے بلکہ خطے کے حوالے سے بھی اس کی بڑی اہمیت ہے۔ شام اور اس کے صدر بشار الاسد کے حوالے سے بھی کہ ان کے مقدر کا فیصلہ بھی انھی تاریخوں میں ہو گا۔
حرف آخر: دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے محترم قارئین سے ایک مرتبہ پھر عاجزانہ گزارش ہے کہ براہ کرم کال مختصر کریں۔ کال کرتے ہوئے دوسروں کا خیال رکھیں۔ طویل گفتگو دوسروں کی حق تلفی کا باعث بن سکتی ہے اور میں عاجز' کمزور انسان بے شمار کالوں میں ایک وقت میں صرف ایک کال ہی اٹینڈ کر سکتا ہوں۔ آپ کا تعاون ہی ہم سب کی آسانی کا باعث بن سکتا ہے۔ آپ کی سہولت کے لیے ہفتے میں دن بڑھا کر پانچ یعنی پیر تا جمعہ اور اوقات رابطہ رمضان المبارک کے پیش نظر دوپہر 2 تا شام 6 بجے کر دیے ہیں۔ براہ کرم نئے اوقات نوٹ کر لیں۔ سیل فون نمبر: 0346-4527997۔