سفر در سفر
دنیا کا وہ واحد علاقہ جو انٹرنیشنل ڈیٹ لائن پر واقع ہے اور جہاں ہر روز دنیا میں سب سے پہلے سورج طلوع ہوتا ہے فیجی ہے۔
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ہمہ پہلو شخصیت ہیں۔ وہ جہاں گشت ہیں، ساری دنیا گھومے ہوئے ہیں، مقصد گو اشاعت دین ہے لیکن شوق سیاحت کا بھی کچھ کم نہیں ہے، جہاں جاتے ہیں وہاں یا تو پہلے سے ان کے چاہنے والے ہوتے ہیں یا وہ پیدا کردیتے ہیں۔ ان کی دوستیاں فی سبیل اللہ ہوتی ہیں۔ قانون شریعت اور رومن لاء دونوں کے ماہر ہیں جب ہی تو مفتی اور جسٹس کہلاتے ہیں۔ اپنے سفر ناموں میں جہاں انھوں نے مسلمانوں کے بالعموم اور مقامی مسلم آبادی کے خصوصی سلوک کا ذکر کیا ہے وہاں ان مقامات کی جہاں سے ان کا گزر ہوا ہے منظرکشی بھی خوب کی ہے۔ تاریخ کے حوالے بھی کم نہیں ہیں اور جغرافیائی حقیقتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔
دنیا کا وہ واحد علاقہ جو انٹرنیشنل ڈیٹ لائن پر واقع ہے اور جہاں ہر روز دنیا میں سب سے پہلے سورج طلوع ہوتا ہے فیجی ہے۔ تقی عثمانی کہتے ہیں ''بحرالکاہل کا یہ علاقہ چھوٹے چھوٹے سرسبز جزیروں سے بھرا ہوا ہے۔ اس کے حسن میں ان زیر آب سمندری چٹانوں (Reegs) نے چار چاند لگا دیے ہیں جو رنگ برنگ کے پتھروں پر مشتمل ہیں۔ ان چٹانوں میں قیمتی پتھر بھی پائے جاتے ہیں جو فیجی کی صنعت و تجارت کا ایک اہم عنصر ہیں''۔اس جزیرے کے ایک شہر سابوسابو پہنچے تو پورا راستہ انتہائی سرسبز و شاداب حسین پہاڑوں پر سے اترتا چڑھتا نظر آیا جہاں حد نگاہ تک سبزہ و گل سے لدے ہوئے جنگلات پھیلے ہوئے تھے، یہاں آم کے درخت خود رو تھے، جنوری کا مہینہ یہاں گرمیوں کا مہینہ ہوتا ہے اور تقی عثمانی کا یہ سفر جنوری ہی میں ہوا تھا۔ انھوں نے دیکھا درخت آموں سے لدے تھے، ناریل اور دیودار کے درختوں سے پہاڑوں پر زینہ سا بنا ہوا تھا اور پہاڑوں کی درمیانی وادیاں انواع و اقسام کے پھلوں اور پھولوں سے لبریز تھیں، ہلکی ہلکی بارش نے ماحول کے حسن میں مزید اضافہ کردیا تھا۔
فیجی کے ایک جزیرے کا نام تیوونی ہے، یہاں ساحل سمندر پر وہ جگہ ہے جو ٹھیک انٹرنیشنل ڈیٹ لائن (180 طول البلد) پر واقع ہے۔ یہاں دو بورڈ اس طرح لگے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان آدھے انچ کا خلاء ہے۔ یہ خلا ہی ڈیٹ لائن ہے۔ بورڈ پر لکھا ہوا ہے کہ اگر آپ اس طرح کھڑے ہوں کہ آپ کا دایاں پاؤں دائیں بورڈ کی طرف اور بایاں پاؤں بائیں بورڈ کی طرف ہو تو آپ بیک وقت دو دنوں میں کھڑے ہوئے ہوں گے۔ دائیں طرف پاؤں اس دن میں ہوگا جو کل تھا اور بایاں پاؤں آج میں۔ اس جگہ تقی عثمانی نے کھڑے ہوکر جب اس طرح پاؤں رکھے تو ایک پاؤں ان کا سنیچر میں اور دوسرا اتوار میں۔
مفتی تقی عثمانی کا فیجی میں قیام ایک ہفتہ رہا۔ اپنے سفر نامے ''سفر در سفر'' میں فیجی کے سفر کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''اپنے قیام کے دوران ملک کے بڑے بڑے شہروں میں حاضری، ملاقاتوں اور تقریروں کا موقع ملا، میں نے اس ملک کے مسلمانوں کو نہایت سادہ، مرنجان مرنج اور مسکین پایا۔ان لوگوں پر ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جس میں یہ دینی رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے عملی زندگی سے دور ہوگئے تھے۔ تاہم جب سے ملک میں تبلیغی جماعت کا کام شروع ہوا ہے، صورت حال میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ فیجی کی حکومت دینی سرگرمیوں پر کوئی قدغن نہیں لگاتی۔ یہاں تبلیغ و تعلیم پر کوئی ایسی پابندی نہیں ہے جو ان کاموں میں رکاوٹ ڈالے چونکہ یہاں کے مسلمان سادہ طبیعت کے مالک ہیں، لڑائی جھگڑے اور بحث و مباحثہ ان کے مزاج میں نہیں ہے اور ان کی طبیعت میں قبول کا مادہ ہے اس لیے ان تک دین کی باتیں پہنچانا نسبتاً آسان ہے''۔
تقی عثمانی وسطی ایشیا کی مسلم ریاست کرغیزستان کے دارالحکومت بشکیک پہنچے تو ان کے میزبانوں نے انھیں شہر کے ایک مضافاتی تفریحی مقام پر ایک بنگلے میں ٹھہرایا جو ایک پہاڑ کے دامن میں واقع تھا۔ رات انھوں نے یہاں گزاری۔ لکھتے ہیں''راستے کے اندھیرے میں تو اس علاقے کے جوہر نہ کھلے لیکن جب نماز فجر کے بعد ہم چہل قدمی کے لیے نکلے تو یہ ایک نہایت خوبصورت منظر تھا۔ ایک سر بفلک پہاڑ کے دامن میں پتھروں سے ٹکراتی ہوئی ایک پرشور ندی بہہ رہی تھی اور اس کے کنارے دور تک پھلوں کے باغات چلے گئے تھے جن کے درخت سیب، ناشپاتی اور آلوچوں سے لدے ہوئے تھے۔ مرکزی ندی سے کئی چھوٹی چھوٹی شاخیں اطراف میں پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کا پانی بہت ٹھنڈا، میٹھا، شفاف اور نشاط انگیز تھا۔ یہاں کے تمام پھل شیریں اور لذیذ ہیں۔ یہاں ہر دستر خوان پر جو گرما نظر آیا وہ اتنا رسیلا اور شیریں تھا کہ میں نے کہیںاور نہیں دیکھا۔ اس کے علاوہ تربوز، ناشپاتی، انجیر اور شفتالو بھی غیر معمولی طور پر لذیذ اور رسیلے ہیں۔ یہاں رواج یہ ہے کہ ہر کھانے کا آغاز پھلوں سے کیا جاتا ہے۔ بادام، پستہ اور کاجو بھی وافر مقدار میں پایا جاتا ہے''۔
البانیہ کا ایک شہر بیلیش ہے یہاں مسلم ویلفیئر انسٹیٹیوٹ نے ایک دارالعلوم کی بنیاد ڈالی ہے۔ یہ دارالعلوم ایک پرانی مسجد کی جو سوویت یونین کے زمانے میں ایک کھنڈر میں تبدیل ہوگئی تھی، تجدید کرکے اس میں قائم کیا گیا ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کچھ اس طرح ہوئی ہے اس میں ایک رہائشی مدرسے کی گنجائش بھی پیدا ہوگئی ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے یہ مدرسہ جاکر دیکھا۔ وہ البانیہ میں دارالحکومت ترانا اور ملک کے کئی دوسرے شہروں میں بھی گئے۔ البانیہ یورپ کا واحد ملک ہے جس کی اکثر آبادی مسلمان ہے لیکن نصف صدی کے جبرو استبداد نے ان کے لیے اپنے دین کی تعلیم حاصل کرنا اور اپنی زندگی میں اس پر عمل کرنے کی راہیں بند کردی تھیں۔ اب مسلم ویلفیئر انسٹیٹیوٹ نے البانیہ میں سماجی، تعلیمی اور تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز کیا ہے۔ مفتی تقی عثمانی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو قدرتی حسن عطا کیا ہے اور اس کے باشندوں میں بھی ظاہری حسن کے علاوہ خوش اخلاقی اور نرم خوئی نمایاں ہے۔
مفتی عثمانی روس کے سفر میں داغستان گئے تو انھوں نے دربند کا تاریخی شہر دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ یہ شہر ایک پہاڑ کے دامن میں واقع ہے اور پہاڑ پر دربند کا مشہور تاریخی قلعہ ہے جو صدیاں گزر جانے کے بعد اب بھی شان و شکوہ کی تصویر ہے۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں ''ایک وجہ جس کی بنا پر میں دربند کا قلعہ دیکھناچاہتا تھا یہ تھی کہ بعض معاصر علماء نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ قرآن کریم نے ذوالقرنین کی تعمیر کی ہوئی جس دیوار کا ذکر کیا ہے اور جو یاجوج ماجوج کی قتل و غارت گری سے بچاؤ کے لیے تعمیر کی گئی تھی وہ دربند میں واقع تھی اور اس کے آثار اب بھی باقی ہیں۔ چنانچہ میں نے اس قلعے کے برج پر پہنچنے کے بعد اس علاقے کے علماء سے دربند کی اس دیوار کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو انھوں نے ایک شکستہ فصیل کی طرف اشارہ کیا جو قلعے کے دامن میں نظر آرہی تھی لیکن اس دیوار سے سد ِذوالقرنین ہونے کا قرینہ دور دور تک محسوس نہیں ہوتا۔ یہاں پہنچنے کے بعد تقریباً اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ دربند کی اس دیوار کو سدِ ذوالقرنین قرار دینا کسی طرح درست نہیں ہے''۔
دنیا کا وہ واحد علاقہ جو انٹرنیشنل ڈیٹ لائن پر واقع ہے اور جہاں ہر روز دنیا میں سب سے پہلے سورج طلوع ہوتا ہے فیجی ہے۔ تقی عثمانی کہتے ہیں ''بحرالکاہل کا یہ علاقہ چھوٹے چھوٹے سرسبز جزیروں سے بھرا ہوا ہے۔ اس کے حسن میں ان زیر آب سمندری چٹانوں (Reegs) نے چار چاند لگا دیے ہیں جو رنگ برنگ کے پتھروں پر مشتمل ہیں۔ ان چٹانوں میں قیمتی پتھر بھی پائے جاتے ہیں جو فیجی کی صنعت و تجارت کا ایک اہم عنصر ہیں''۔اس جزیرے کے ایک شہر سابوسابو پہنچے تو پورا راستہ انتہائی سرسبز و شاداب حسین پہاڑوں پر سے اترتا چڑھتا نظر آیا جہاں حد نگاہ تک سبزہ و گل سے لدے ہوئے جنگلات پھیلے ہوئے تھے، یہاں آم کے درخت خود رو تھے، جنوری کا مہینہ یہاں گرمیوں کا مہینہ ہوتا ہے اور تقی عثمانی کا یہ سفر جنوری ہی میں ہوا تھا۔ انھوں نے دیکھا درخت آموں سے لدے تھے، ناریل اور دیودار کے درختوں سے پہاڑوں پر زینہ سا بنا ہوا تھا اور پہاڑوں کی درمیانی وادیاں انواع و اقسام کے پھلوں اور پھولوں سے لبریز تھیں، ہلکی ہلکی بارش نے ماحول کے حسن میں مزید اضافہ کردیا تھا۔
فیجی کے ایک جزیرے کا نام تیوونی ہے، یہاں ساحل سمندر پر وہ جگہ ہے جو ٹھیک انٹرنیشنل ڈیٹ لائن (180 طول البلد) پر واقع ہے۔ یہاں دو بورڈ اس طرح لگے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان آدھے انچ کا خلاء ہے۔ یہ خلا ہی ڈیٹ لائن ہے۔ بورڈ پر لکھا ہوا ہے کہ اگر آپ اس طرح کھڑے ہوں کہ آپ کا دایاں پاؤں دائیں بورڈ کی طرف اور بایاں پاؤں بائیں بورڈ کی طرف ہو تو آپ بیک وقت دو دنوں میں کھڑے ہوئے ہوں گے۔ دائیں طرف پاؤں اس دن میں ہوگا جو کل تھا اور بایاں پاؤں آج میں۔ اس جگہ تقی عثمانی نے کھڑے ہوکر جب اس طرح پاؤں رکھے تو ایک پاؤں ان کا سنیچر میں اور دوسرا اتوار میں۔
مفتی تقی عثمانی کا فیجی میں قیام ایک ہفتہ رہا۔ اپنے سفر نامے ''سفر در سفر'' میں فیجی کے سفر کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''اپنے قیام کے دوران ملک کے بڑے بڑے شہروں میں حاضری، ملاقاتوں اور تقریروں کا موقع ملا، میں نے اس ملک کے مسلمانوں کو نہایت سادہ، مرنجان مرنج اور مسکین پایا۔ان لوگوں پر ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جس میں یہ دینی رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے عملی زندگی سے دور ہوگئے تھے۔ تاہم جب سے ملک میں تبلیغی جماعت کا کام شروع ہوا ہے، صورت حال میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ فیجی کی حکومت دینی سرگرمیوں پر کوئی قدغن نہیں لگاتی۔ یہاں تبلیغ و تعلیم پر کوئی ایسی پابندی نہیں ہے جو ان کاموں میں رکاوٹ ڈالے چونکہ یہاں کے مسلمان سادہ طبیعت کے مالک ہیں، لڑائی جھگڑے اور بحث و مباحثہ ان کے مزاج میں نہیں ہے اور ان کی طبیعت میں قبول کا مادہ ہے اس لیے ان تک دین کی باتیں پہنچانا نسبتاً آسان ہے''۔
تقی عثمانی وسطی ایشیا کی مسلم ریاست کرغیزستان کے دارالحکومت بشکیک پہنچے تو ان کے میزبانوں نے انھیں شہر کے ایک مضافاتی تفریحی مقام پر ایک بنگلے میں ٹھہرایا جو ایک پہاڑ کے دامن میں واقع تھا۔ رات انھوں نے یہاں گزاری۔ لکھتے ہیں''راستے کے اندھیرے میں تو اس علاقے کے جوہر نہ کھلے لیکن جب نماز فجر کے بعد ہم چہل قدمی کے لیے نکلے تو یہ ایک نہایت خوبصورت منظر تھا۔ ایک سر بفلک پہاڑ کے دامن میں پتھروں سے ٹکراتی ہوئی ایک پرشور ندی بہہ رہی تھی اور اس کے کنارے دور تک پھلوں کے باغات چلے گئے تھے جن کے درخت سیب، ناشپاتی اور آلوچوں سے لدے ہوئے تھے۔ مرکزی ندی سے کئی چھوٹی چھوٹی شاخیں اطراف میں پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کا پانی بہت ٹھنڈا، میٹھا، شفاف اور نشاط انگیز تھا۔ یہاں کے تمام پھل شیریں اور لذیذ ہیں۔ یہاں ہر دستر خوان پر جو گرما نظر آیا وہ اتنا رسیلا اور شیریں تھا کہ میں نے کہیںاور نہیں دیکھا۔ اس کے علاوہ تربوز، ناشپاتی، انجیر اور شفتالو بھی غیر معمولی طور پر لذیذ اور رسیلے ہیں۔ یہاں رواج یہ ہے کہ ہر کھانے کا آغاز پھلوں سے کیا جاتا ہے۔ بادام، پستہ اور کاجو بھی وافر مقدار میں پایا جاتا ہے''۔
البانیہ کا ایک شہر بیلیش ہے یہاں مسلم ویلفیئر انسٹیٹیوٹ نے ایک دارالعلوم کی بنیاد ڈالی ہے۔ یہ دارالعلوم ایک پرانی مسجد کی جو سوویت یونین کے زمانے میں ایک کھنڈر میں تبدیل ہوگئی تھی، تجدید کرکے اس میں قائم کیا گیا ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کچھ اس طرح ہوئی ہے اس میں ایک رہائشی مدرسے کی گنجائش بھی پیدا ہوگئی ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے یہ مدرسہ جاکر دیکھا۔ وہ البانیہ میں دارالحکومت ترانا اور ملک کے کئی دوسرے شہروں میں بھی گئے۔ البانیہ یورپ کا واحد ملک ہے جس کی اکثر آبادی مسلمان ہے لیکن نصف صدی کے جبرو استبداد نے ان کے لیے اپنے دین کی تعلیم حاصل کرنا اور اپنی زندگی میں اس پر عمل کرنے کی راہیں بند کردی تھیں۔ اب مسلم ویلفیئر انسٹیٹیوٹ نے البانیہ میں سماجی، تعلیمی اور تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز کیا ہے۔ مفتی تقی عثمانی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو قدرتی حسن عطا کیا ہے اور اس کے باشندوں میں بھی ظاہری حسن کے علاوہ خوش اخلاقی اور نرم خوئی نمایاں ہے۔
مفتی عثمانی روس کے سفر میں داغستان گئے تو انھوں نے دربند کا تاریخی شہر دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ یہ شہر ایک پہاڑ کے دامن میں واقع ہے اور پہاڑ پر دربند کا مشہور تاریخی قلعہ ہے جو صدیاں گزر جانے کے بعد اب بھی شان و شکوہ کی تصویر ہے۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں ''ایک وجہ جس کی بنا پر میں دربند کا قلعہ دیکھناچاہتا تھا یہ تھی کہ بعض معاصر علماء نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ قرآن کریم نے ذوالقرنین کی تعمیر کی ہوئی جس دیوار کا ذکر کیا ہے اور جو یاجوج ماجوج کی قتل و غارت گری سے بچاؤ کے لیے تعمیر کی گئی تھی وہ دربند میں واقع تھی اور اس کے آثار اب بھی باقی ہیں۔ چنانچہ میں نے اس قلعے کے برج پر پہنچنے کے بعد اس علاقے کے علماء سے دربند کی اس دیوار کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو انھوں نے ایک شکستہ فصیل کی طرف اشارہ کیا جو قلعے کے دامن میں نظر آرہی تھی لیکن اس دیوار سے سد ِذوالقرنین ہونے کا قرینہ دور دور تک محسوس نہیں ہوتا۔ یہاں پہنچنے کے بعد تقریباً اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ دربند کی اس دیوار کو سدِ ذوالقرنین قرار دینا کسی طرح درست نہیں ہے''۔