مفادات کا ٹکراؤ
اس کھیل میں پاکستان کے حکمران طبقات کے کچھ دھڑے بھی شریک ہیں۔
ہمارے یہاں بہت سے منصوبوں کو غیر ملکی کمپنیاں چلا رہی ہیں۔ اس وقت پاکستان کے معدنی ذرایع کی تلاش میں سب سے زیادہ چینی کمپنیاں پیش پیش ہیں ۔ اس میں حصہ داری کے لیے امریکی سامراج بھی اپنے حمایت یافتہ بلوچ قوم پرست دھڑے کی سرپرستی کر رہا ہے۔ جب کہ یہی سامراج ترکی کے کرد قوم پرستوں اور کمیونسٹوں کی مخالفت کرتا ہے۔ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں اور اب بنگلہ دیش میں چکمہ اور مگ قبیلوں کی جدوجہد کی مخالفت کرتا ہے۔ امریکا بلوچستان میں سونے کی بندربانٹ میں ایک حد تک براہ راست مداخلت نہ کرپانے کی وجہ سے پریشان ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ کینیڈا کے ذریعے طاہر القادری کو پاکستان بھیجا گیا ہے اور اس کھیل میں پاکستان کے حکمران طبقات کے کچھ دھڑے بھی شریک ہیں۔ اس لیے اس کھیل کے پہلے مرحلے میں اچانک ایک ارب روپے کے خرچے سے جلسہ کرنا اوردیگر سیاسی پارٹیوں کی فوراً حمایت حاصل کرنا بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اگر تبدیلی اور انقلاب کی بات ہے تو گزشتہ پانچ برسوں میں پاکستان میں ہونیوالے محنت کشوں (مزدور، کسان، طلبا، مزارع، ڈاکٹروں اور نوجوانوں) کی کسی بھی جدوجہد میں یہ شریک کار نہیں رہے۔
کسی بھی ادارے، فیصل آباد اور کراچی کی پاور لومز کے مزدوروں، لیڈی ہیلتھ ورکرز، نرسوں، اساتذہ، طلبا اور ہاریوں کی کسی بھی جدوجہد میں نظر نہیں آئے بلکہ یہ ان کے برخلاف سرمایہ داروں کا ساتھ دیتے رہے۔ اب بھی کراچی میں پاور کمپنیوں میں بعض افراد ایسے ہیں جن کا تعلق سیاسی پارٹیوں سے ہے اور منظور نظر اور کارکنان ڈاکٹرز لگے ہوئے ہیں۔ جن کی ماہانہ تنخواہ 5 لاکھ سے 30 لاکھ تک ہے۔ اس وقت ملک میں بجلی، گیس، پانی، آٹا، تعلیم اور صحت کے فقدان پر عوام کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج میں شرکت کرنا تو درکنار ان سے مل کر ان کی تکالیف سننا تک گوارا بھی نہیں کرتے۔ پھر وہ کس انقلاب اور کس قسم کی تبدیلی کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ دوسری جانب زرداری، نوازشریف، فضل الرحمن اور اسفند یار ولی وغیرہ اور میڈیا بھی اس پر زمین و آسمان کیوں ایک کررہے ہیں۔
اگر وہ لانگ مارچ کے ذریعے اقتدار پر (جوکہ نہیں کرسکتے) قبضہ کر بھی لیں تو کیا تبدیلی لائیں گے۔ کیا وہ سامراجی سرمایہ کو ضبط کریں گے، کیا دفاعی بجٹ ختم کریں گے، کیا صحت و تعلیم کا بجٹ بھٹو کی طرح 43 فیصد کریں گے؟ عمران خان مسئلے کا حل بیرون ملک سے سرمایہ لاکر کرنا چاہتے ہیں اور ہر کام میں انصاف برتنا چاہتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ انصاف کیسے برتیں گے اور کیا باہر سے سرمایہ لانے سے مسئلہ حل ہوجائے گا؟نیب کے چیئرمین بخاری کہتے ہیں کہ 15 ارب روپے روز کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں۔
ہماری معیشت کا گروتھ ریٹ 1 فیصد ہے جب کہ کالے دھن (اسمگلنگ، رشوت، کمیشن، ہیروئن اور اسلحے کا کاروبار) کی گروتھ ریٹ 9 فیصد ہے۔ ہمارے بجٹ کا 60 فیصد قرض اور سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے اور 30 فیصد فوجی اخراجات میں، باقی بچا 20 فیصد اس کا بیشتر حصہ وزرا اور نوکر شاہی کھا پی کر برابر کر دیتی ہے۔ اگر آپ کرپشن یعنی کالے دھن کو ختم کردیں گے تو اسپتالوں میں مریضوں کو دوائیں نہیں ملیں گی، تمام یونیورسٹیاں بند ہوجائیں گی، پروازیں، نقل و حمل اور رہے سہے کارخانے بھی بند ہوجائیں گے۔
بلکہ یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ کالے دھن کی بندش سے پاکستان کی ہی بندش ہوجائے گی۔ ہاں اگر عمران خان اقتدار میں آجانے کے بعد یہ اعلان کریں کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضے بحق سرکار ضبط کرلیں گے، اس لیے کہ قرض سے زیادہ سود ادا ہوچکا ہے۔ ملک کا دفاع ہم سب کریں گے، سامراجی ملکوں سے لین دین اور حقہ پانی بند۔ اسمبلی میں 75 فیصد مزدور کسان ہوں گے، ملک کا صدر اور وزیر اعظم مزدور اور بے زمین کسان ہوگا؟ ہر وزیر بس میں سفر کرے گا،ایسٹ تیمور کے وزیراعظم کی طرح ضرورت پڑی تو ٹریفک کنٹرول کرلے گا۔
اس کے بچے پیلے اسکول میں پڑھیں گے اور وہ اسکول بھی بس میں جائیں گے، تمام کاروں کو ضبط کرکے بڑی بسیں چلائی جائیں گی، آٹا 5 روپے کلو اور چاول کی برآمدات بند کردی جائی گی۔ گیس، پی آئی اے اور کے ای ایس سی کو عوامی ملکیت میں لے کر توانائی کا مسئلہ حل کردیا جائے گا؟ کیا سب سے پہلے 100 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جائے گا؟دوسری جانب حکومت اور دوسرے طاقتور ادارے اس بات پر بہت خوش ہیں کہ ہم نے پہلی بار جمہوری (سرمایہ دارانہ) دور کے پانچ سال پورے کیے۔
حکومت فوجی ہو یا جمہوری، ہے تو سرمایہ داری، اس لیے کہ سرمایہ داری عوام کی ضرورتوں کے لیے پیداوار نہیں کرتی بلکہ اپنے منافع میں اضافے کے لیے کرتی ہے۔ گندم کی قلت سے لوگ بھوکے مرتے ہیں تو مریں، کینو کی پیداوار اس لیے بڑھائی جاتی ہے کہ منافع کی شرح زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہر روز 1132 بچے بھوک سے مر جاتے ہیں۔ ہزار میں 85 بچے اپنی پانچویں سالگرہ نہیں مناسکتے۔ ایک لاکھ میں 400 خواتین زچگی کے دوران مرجاتی ہیں اور اس کی بڑی وجہ ریڈ ہوموگلوبین کی کمی ہے جو دودھ، انڈے اور گوشت میں دستیاب ہے، 5000 روپے تنخواہ پانے والا مزدور 10 روپے کا انڈا، 400 روپے کلو کا گوشت اور 75روپے کلو دودھ کہاں سے خریدے گا؟ پاکستان کے تقریباً سبھی ادارے ، بینک اور انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹرز، منیجرز اور سیکریٹریز کی تنخواہیں 20 سے 70 لاکھ روپے تک ہیں۔ کیا عمران خان ان کی تنخواہیں لاکھوں کے بجائے ہزاروں میں لاسکتے ہیں؟ اس سرمایہ داری میں رہتے ہوئے اگر عوام کی بھلائی کی جاسکتی تھی تو جنت نظیر آئس لینڈ کا دیوالیہ نہیں ہوتا۔
مثالی ریاست سوئیڈن میں اسکول کے بچوں کو دودھ کی فراہمی بند نہ کی جاتی، لندن میں یونیورسٹی کی فیس 1000 پاؤنڈ نہ ہوتی۔ جاپان کا گروتھ ریٹ 0 فیصد نہ ہوتا اور ترکی کا گروتھ ریٹ 8 فیصد سے گھٹ کر 1 فیصد پر نہ آتا۔ اگر سرمایہ داری کے آقاؤں اور جمہوریت کے دلداداؤں کی یہ صورت حال ہے تو پاکستان کے نو وارد سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالے اپنی اصلاحات کے ذریعے کس طرح سے عوام کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ سرمایہ داروں کی یہ چال ہے کہ وہ مختلف پرکشش نعروں سے سبز باغ دکھا کر عوام سے ووٹ لینے آتے ہیں۔ آیندہ پی پی پی آئے، نواز آئے، عمران آئے یا کوئی اور۔
سرمایہ داری کا حشر مزید قابل رحم ہوگا۔ اس کا حل صرف ایک غیر طبقاتی معاشرے کا قیام ہے۔ جہاں ریاست، اسمبلی اور صدارت کا خاتمہ کرکے پیدا کرنے والی قوتوں کا پیداوار پر قبضہ ہوگا۔ دنیا کی ساری پیداوار کے مالک سارے لوگ ہوں گے۔ ریاست کے بغیر بہت سے قابل ذکر کام عوام کرچکے ہیں اور کر رہے ہیں۔ اسپین میں 1936-39 تک ریاست کے بغیر عوام نے اپنے مسائل حل کیے ہیں۔ پیریس کمیون 1871 میں ایسا کرچکا ہے۔ سب کی وردی ایک جیسی ہوتی تھی۔ ایک ہی ٹیبل پر جنرل اور سپاہی ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ ایک موچی ایک منیجر کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرتا تھا۔ بالشویک انقلاب پر لکھی جانے والی کتاب ''جھنجھوڑ دینے والے دس دن'' کے مصنف جان ریڈ نے نسل انسانی کی مساوات کی بہترین مثالیں دی ہیں۔ اس لیے عالمی پنچایتی اور مقامی سطح کا خودمختار نظام ہی مسئلے کا حل ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کینیڈا کے ذریعے طاہر القادری کو پاکستان بھیجا گیا ہے اور اس کھیل میں پاکستان کے حکمران طبقات کے کچھ دھڑے بھی شریک ہیں۔ اس لیے اس کھیل کے پہلے مرحلے میں اچانک ایک ارب روپے کے خرچے سے جلسہ کرنا اوردیگر سیاسی پارٹیوں کی فوراً حمایت حاصل کرنا بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اگر تبدیلی اور انقلاب کی بات ہے تو گزشتہ پانچ برسوں میں پاکستان میں ہونیوالے محنت کشوں (مزدور، کسان، طلبا، مزارع، ڈاکٹروں اور نوجوانوں) کی کسی بھی جدوجہد میں یہ شریک کار نہیں رہے۔
کسی بھی ادارے، فیصل آباد اور کراچی کی پاور لومز کے مزدوروں، لیڈی ہیلتھ ورکرز، نرسوں، اساتذہ، طلبا اور ہاریوں کی کسی بھی جدوجہد میں نظر نہیں آئے بلکہ یہ ان کے برخلاف سرمایہ داروں کا ساتھ دیتے رہے۔ اب بھی کراچی میں پاور کمپنیوں میں بعض افراد ایسے ہیں جن کا تعلق سیاسی پارٹیوں سے ہے اور منظور نظر اور کارکنان ڈاکٹرز لگے ہوئے ہیں۔ جن کی ماہانہ تنخواہ 5 لاکھ سے 30 لاکھ تک ہے۔ اس وقت ملک میں بجلی، گیس، پانی، آٹا، تعلیم اور صحت کے فقدان پر عوام کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج میں شرکت کرنا تو درکنار ان سے مل کر ان کی تکالیف سننا تک گوارا بھی نہیں کرتے۔ پھر وہ کس انقلاب اور کس قسم کی تبدیلی کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ دوسری جانب زرداری، نوازشریف، فضل الرحمن اور اسفند یار ولی وغیرہ اور میڈیا بھی اس پر زمین و آسمان کیوں ایک کررہے ہیں۔
اگر وہ لانگ مارچ کے ذریعے اقتدار پر (جوکہ نہیں کرسکتے) قبضہ کر بھی لیں تو کیا تبدیلی لائیں گے۔ کیا وہ سامراجی سرمایہ کو ضبط کریں گے، کیا دفاعی بجٹ ختم کریں گے، کیا صحت و تعلیم کا بجٹ بھٹو کی طرح 43 فیصد کریں گے؟ عمران خان مسئلے کا حل بیرون ملک سے سرمایہ لاکر کرنا چاہتے ہیں اور ہر کام میں انصاف برتنا چاہتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ انصاف کیسے برتیں گے اور کیا باہر سے سرمایہ لانے سے مسئلہ حل ہوجائے گا؟نیب کے چیئرمین بخاری کہتے ہیں کہ 15 ارب روپے روز کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں۔
ہماری معیشت کا گروتھ ریٹ 1 فیصد ہے جب کہ کالے دھن (اسمگلنگ، رشوت، کمیشن، ہیروئن اور اسلحے کا کاروبار) کی گروتھ ریٹ 9 فیصد ہے۔ ہمارے بجٹ کا 60 فیصد قرض اور سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے اور 30 فیصد فوجی اخراجات میں، باقی بچا 20 فیصد اس کا بیشتر حصہ وزرا اور نوکر شاہی کھا پی کر برابر کر دیتی ہے۔ اگر آپ کرپشن یعنی کالے دھن کو ختم کردیں گے تو اسپتالوں میں مریضوں کو دوائیں نہیں ملیں گی، تمام یونیورسٹیاں بند ہوجائیں گی، پروازیں، نقل و حمل اور رہے سہے کارخانے بھی بند ہوجائیں گے۔
بلکہ یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ کالے دھن کی بندش سے پاکستان کی ہی بندش ہوجائے گی۔ ہاں اگر عمران خان اقتدار میں آجانے کے بعد یہ اعلان کریں کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضے بحق سرکار ضبط کرلیں گے، اس لیے کہ قرض سے زیادہ سود ادا ہوچکا ہے۔ ملک کا دفاع ہم سب کریں گے، سامراجی ملکوں سے لین دین اور حقہ پانی بند۔ اسمبلی میں 75 فیصد مزدور کسان ہوں گے، ملک کا صدر اور وزیر اعظم مزدور اور بے زمین کسان ہوگا؟ ہر وزیر بس میں سفر کرے گا،ایسٹ تیمور کے وزیراعظم کی طرح ضرورت پڑی تو ٹریفک کنٹرول کرلے گا۔
اس کے بچے پیلے اسکول میں پڑھیں گے اور وہ اسکول بھی بس میں جائیں گے، تمام کاروں کو ضبط کرکے بڑی بسیں چلائی جائیں گی، آٹا 5 روپے کلو اور چاول کی برآمدات بند کردی جائی گی۔ گیس، پی آئی اے اور کے ای ایس سی کو عوامی ملکیت میں لے کر توانائی کا مسئلہ حل کردیا جائے گا؟ کیا سب سے پہلے 100 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جائے گا؟دوسری جانب حکومت اور دوسرے طاقتور ادارے اس بات پر بہت خوش ہیں کہ ہم نے پہلی بار جمہوری (سرمایہ دارانہ) دور کے پانچ سال پورے کیے۔
حکومت فوجی ہو یا جمہوری، ہے تو سرمایہ داری، اس لیے کہ سرمایہ داری عوام کی ضرورتوں کے لیے پیداوار نہیں کرتی بلکہ اپنے منافع میں اضافے کے لیے کرتی ہے۔ گندم کی قلت سے لوگ بھوکے مرتے ہیں تو مریں، کینو کی پیداوار اس لیے بڑھائی جاتی ہے کہ منافع کی شرح زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہر روز 1132 بچے بھوک سے مر جاتے ہیں۔ ہزار میں 85 بچے اپنی پانچویں سالگرہ نہیں مناسکتے۔ ایک لاکھ میں 400 خواتین زچگی کے دوران مرجاتی ہیں اور اس کی بڑی وجہ ریڈ ہوموگلوبین کی کمی ہے جو دودھ، انڈے اور گوشت میں دستیاب ہے، 5000 روپے تنخواہ پانے والا مزدور 10 روپے کا انڈا، 400 روپے کلو کا گوشت اور 75روپے کلو دودھ کہاں سے خریدے گا؟ پاکستان کے تقریباً سبھی ادارے ، بینک اور انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹرز، منیجرز اور سیکریٹریز کی تنخواہیں 20 سے 70 لاکھ روپے تک ہیں۔ کیا عمران خان ان کی تنخواہیں لاکھوں کے بجائے ہزاروں میں لاسکتے ہیں؟ اس سرمایہ داری میں رہتے ہوئے اگر عوام کی بھلائی کی جاسکتی تھی تو جنت نظیر آئس لینڈ کا دیوالیہ نہیں ہوتا۔
مثالی ریاست سوئیڈن میں اسکول کے بچوں کو دودھ کی فراہمی بند نہ کی جاتی، لندن میں یونیورسٹی کی فیس 1000 پاؤنڈ نہ ہوتی۔ جاپان کا گروتھ ریٹ 0 فیصد نہ ہوتا اور ترکی کا گروتھ ریٹ 8 فیصد سے گھٹ کر 1 فیصد پر نہ آتا۔ اگر سرمایہ داری کے آقاؤں اور جمہوریت کے دلداداؤں کی یہ صورت حال ہے تو پاکستان کے نو وارد سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالے اپنی اصلاحات کے ذریعے کس طرح سے عوام کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ سرمایہ داروں کی یہ چال ہے کہ وہ مختلف پرکشش نعروں سے سبز باغ دکھا کر عوام سے ووٹ لینے آتے ہیں۔ آیندہ پی پی پی آئے، نواز آئے، عمران آئے یا کوئی اور۔
سرمایہ داری کا حشر مزید قابل رحم ہوگا۔ اس کا حل صرف ایک غیر طبقاتی معاشرے کا قیام ہے۔ جہاں ریاست، اسمبلی اور صدارت کا خاتمہ کرکے پیدا کرنے والی قوتوں کا پیداوار پر قبضہ ہوگا۔ دنیا کی ساری پیداوار کے مالک سارے لوگ ہوں گے۔ ریاست کے بغیر بہت سے قابل ذکر کام عوام کرچکے ہیں اور کر رہے ہیں۔ اسپین میں 1936-39 تک ریاست کے بغیر عوام نے اپنے مسائل حل کیے ہیں۔ پیریس کمیون 1871 میں ایسا کرچکا ہے۔ سب کی وردی ایک جیسی ہوتی تھی۔ ایک ہی ٹیبل پر جنرل اور سپاہی ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ ایک موچی ایک منیجر کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرتا تھا۔ بالشویک انقلاب پر لکھی جانے والی کتاب ''جھنجھوڑ دینے والے دس دن'' کے مصنف جان ریڈ نے نسل انسانی کی مساوات کی بہترین مثالیں دی ہیں۔ اس لیے عالمی پنچایتی اور مقامی سطح کا خودمختار نظام ہی مسئلے کا حل ہے۔