پیپلزپارٹی اور فوجی عدالتیں
پیپلز پارٹی نے فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے 9 نکات پیش کیے
فوجی عدالتوں کے قیام کی راہ میں رکاوٹیں دور ہوگئیں۔ پیپلز پارٹی نے فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے 9 نکات پیش کیے۔ سابق صدرآصف زرداری نے پہلے آل پارٹیزکانفرنس کے ذریعے فوجی عدالتوں کی حمایت نہ کرنے کے حق میں فضاء ہموار کرنے کی کوشش کی مگر اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف حکومت سے مل گئی۔ زرداری کے حلیف چوہدری شجاعت حسین نے مذہبی جماعتوں کو ملا کرایک کانفرنس میں فوجی عدالتوں کے قیام کی غیر مشروط حمایت کر دی۔ تو آصف زرداری نے فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے 9 نکات پیش کیے۔
ان نکات میں فوجی افسروں کے ساتھ ایڈیشنل سیشن جج کی شمولیت، ہائی کورٹس کو نظرثانی کا اختیار، قانون شہادت کی شقوں کا اطلاق، ملزم کی گرفتاری کے 24 گھنٹوں کے اندرمتعلقہ عدالت میں پیشی، ملزم کو گرفتاری کی وجہ سے آگاہی، اپنا وکیل کرنے کا حق، قانون شہادت مجریہ 1984ء کا اطلاق اور فوجی عدالتوں کی مدت ایک سال کرنے کے مطالبے شامل ہیں۔ اگرچہ جمہوری حکومت میں فوجی عدالتوں کا قیام ایک اہم سوال ہے مگر نائن الیون کے بعد ملک میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی کے تدارک کے لیے ایسی عدالتوں کے قیام کا معاملہ اہم بن گیا ہے۔
دہشتگردوں کے خلاف مختلف نوعیت کے آپریشن برسوں سے جاری ہیں۔ آپریشنوں کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں مگر دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کر نے والے فوجی اورپولیس افسران کو یہ شکوہ رہا ہے کہ روایتی نظام ان ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے میں ناکام رہا ہے' یہ کہا جاتا ہے کہ پولیس کا تفتیشی نظام بہت کمزور ہے۔ پولیس کے محکمے کو ملزمان کی گرفتاری میں مدد مل جاتی ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں خواہ ان کا تعلق وفاق سے ہو یا صوبوں سے مربوط طور پر آپریشن کرتی ہیں مگر جب ملزمان گرفتار ہوتے ہیں تو پھر تحقیقات اور سزا دینے کا معاملہ کمزور پڑ جاتا ہے۔
مذہبی انتہاپسندی کے خلاف تحقیقات کرنے والے افسران عموماً دھمکیوں کی زد میں ہوتے ہیں۔ وفاق اور صوبائی حکومتیں فنڈز کی کمی کی بناء پر ان افسروں کو تحفظ فراہم نہیں کرتیں۔ تحقیقات اور چارج شیٹ کی تیاری کے مراحل میں کسی قسم کا فنڈ میسر نہیں ہوتا۔ متعلقہ افسروں کو دھمکیوں کے ماحول میں تفتیش کرنی پڑتی ہے۔ افسران ان مراحل میں قتل بھی ہوئے اور پولیس حکام ملزمان کو گرفتار نہیں کر پائے۔ اس کے علاوہ دہشتگردوں کے خوف سے کوئی شخص گواہ بننے کو تیار نہیں ہوتا۔ جو لوگ گواہی کے لیے تیار ہوتے ہیں ان کے تحفظ کے لیے کوئی اقدامات نہیں ہوتے۔ بعض دفعہ گواہ ہی قتل کر دیے جاتے ہیں تو ان کے لواحقین کو معاوضہ اور ان کی دادرسی کا کوئی تصور نہیں ہے۔
کراچی کے صحافی ولی بابر کے قتل کے عینی گواہ ایک ایک کرکے قتل کر دیے گئے مگر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے کچھ نہیں کر پائے۔ اسی طرح گواہوں کو معاوضے کی ادائیگی کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ استغاثہ کے گواہ کئی دن تک عدالتوں کے چکر لگاتے ہیں مگر ان کی گواہی نہیں ہوتی لہٰذا ان کا اپنے کام سے غیرحاضری کی وجہ سے جو نقصان ہوتا ہے وہ نقصان تک پورا نہیں ہوتا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ابھی تک گواہوںکے تحفظ کے لیے قانون سازی نہیں کی۔ اسی طرح پبلک پراسیکیوٹر معاوضے کی ادائیگی اور سیکیورٹی کے لیے پریشان رہتے ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں میں پبلک پراسیکیوٹر قتل کر دیے گئے۔ ان کے لواحقین کو تحفظ اور معاوضہ نہیں ملا۔ پھر ججوں کی سیکیورٹی کی صورتحال بھی کوئی اچھی نہیں ہے۔
ججوں کے عدم تحفظ کی بناء پر انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر مذہبی دہشتگردوں کے حملے کے بعد ایک آئینی ترمیم کے ذریعے فوج کو عدالتیں قائم کرنے کا اختیار حاصل ہوا مگر ان عدالتوں کا دائرہ محدود رہا۔ پھر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں سراپا احتجاج بن گئیں۔ اس بناء پر حکومت کو دیگر عوامل کا جائزہ لینا پڑا۔ آصف زرداری نے اپنی پریس کانفرنس میں فوجی عدالتوں کے قیام کے جو نکات پیش کیے ہیں وہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے متشابہ ہیں۔ زرداری صاحب کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں میں فوجی افسران کے ساتھ ایڈیشنل سیشن ججوں کی شرکت سے تعزیرات پاکستان کی مختلف دفعات پر عمل ہو سکے گا۔ ملزمان کو ایک سول جج کے سامنے پیش کرنے سے بہت سے انصاف کے بنیادی تقاضے پورے ہونگے اور قانونی تقاضوں پر عملدرآمد ہو گا۔
اسی طرح ملزم کو اپنی گرفتاری کی وجوہات سے آگاہی اور اپنے دفاع کے لیے وکیل کا انتخاب کا حق ضروری ہے۔ اسی طرح قانون شہادت کی دفعات کے اطلاق سے ملزمان کو اپنے دفاع کے لیے گواہوں کو پیش کرنے کا حق ملنے سے بے گناہوں کو انصاف مل سکے گا۔ آصف زرداری نے اپنی پریس کانفرنس میں رینجرز کے سندھ اور پنجاب میں کردار میں تضادات کا بھی ذکر کیا ہے۔ سندھ میں رینجرز برسوں سے خصوصی اختیارات کے ساتھ فرائض انجام دے رہی ہے۔ رینجرز کے آپریشن کے نتیجے میں کراچی کے حالات میں بہت حد تک بہتری آئی۔ پولیس اور رینجرز کے آپریشن کے نتیجے میں کراچی کے مضافاتی پٹی سے طالبان اور مذہبی دہشتگردوں کی کمین گاہوں کا خاتمہ ہوا۔ شہر میں کام کرنے والے کئی گروہوں کے اراکین گرفتار ہوئے۔ اسی طرح رینجرز نے لیاری میں امن و امان کو نقصان پہنچانے والے گروہوں کی سرکوبی کی۔
رینجرز نے لسانی، مذہبی اور سیاسی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کرنے والوں کو پکڑ لیا یا وہ مقابلوں میں مارے گئے۔ رینجرز کے افسروں نے مذہبی دہشتگردوں کی مالیاتی پائپ لائن کو ختم کرنے کے لیے کئی آپریشن کیے اور حکومت سندھ کے کئی افسروں کو مالیاتی پائپ لائن کو سرمایہ فراہم کرنے کے الزام میں پکڑا ہے۔ رینجرز نے واٹر بورڈ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ڈی اے، کے ایم سی، فشریز اور دیگر اداروں میں موجود بدعنوان افراد کا بھی گھیرا تنگ کیا ہے مگر پنجاب میں دہشتگردی کی مستقل وارداتوں میں وسطی اور جنوبی پنجاب میں دہشتگردی کی کمین گاہوں کے جڑیں پکڑنے کی مصدقہ خبروں کے باوجود رینجرز کو آپریشن کی اجازت نہیں دی گئی۔ گزشتہ سال گلشن اقبال پارک میں خودکش حملہ کے بعد جنوبی پنجاب میں محدود آپریشن ہوا تھا مگر دہشتگرد پھر منظم ہو گئے۔ گزشتہ ماہ لاہور کے قلب میں چیئرنگ کراس پر خودکش حملے میں پولیس افسروں کی ہلاکت کے بعد رینجرز کو محدود مدت کے لیے آپریشن کی اجازت دی گئی۔
اس تناظر میں زرداری صاحب کی باتوں میں خاصا وزن نظر آتا ہے۔ دو سال قبل پیپلز پارٹی کے اراکین مشکل سے آئین میں کی جانے والی 21 ویں ترمیم کی حمایت کے لیے تیار ہوئے تھے۔ اس ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کو آئینی تحفظ حاصل ہوا تھا۔ سینیٹر رضا ربانی نے آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ اس ترمیم کی حمایت کی تھی۔ اب پیپلز پارٹی کے لیے فوجی عدالتوں کو قبول کرنا بڑا چیلنج ہے۔ پیپلز پارٹی ایک سال کے لیے کچھ شرائط کے ساتھ فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے تیار ہے۔ وفاقی حکومت دو سال کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کی تجویز پر زور دے رہی ہے۔ ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں اس وقت پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے۔
اس بناء پر پیپلز پارٹی کی حمایت سے آئین میں اس بارے میں آئینی ترمیم ہو سکتی ہے، دوسری صورت میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں فیصلہ ہو گا مگر وفاقی حکومت، پیپلز پارٹی اور دیگر تمام فریقین اس بات سے آگاہ ہیں کہ فوج کا کام عدالتیں چلانا نہیں ہے، یہ عارضی انتظام ہے۔ فوجی عدالتوں سے انسانی حقوق کی پاسداری نہ ہونے کا تاثر ابھرتا ہے۔ ایک سینئر تجزیہ نگار کا مفروضہ ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام سے لاپتہ افراد کا معاملہ حل ہو سکتا ہے۔ مستقل حل عدالتی نظام میں ہی مضمر ہے۔ عدالتی نظام کی خرابیوں کو دور کر کے اور جلد اور فوری انصاف کے مقصد کو پورا کر کے ہی دہشتگردوں کو جڑوں سے ختم کیا جا سکتا ہے۔
ان نکات میں فوجی افسروں کے ساتھ ایڈیشنل سیشن جج کی شمولیت، ہائی کورٹس کو نظرثانی کا اختیار، قانون شہادت کی شقوں کا اطلاق، ملزم کی گرفتاری کے 24 گھنٹوں کے اندرمتعلقہ عدالت میں پیشی، ملزم کو گرفتاری کی وجہ سے آگاہی، اپنا وکیل کرنے کا حق، قانون شہادت مجریہ 1984ء کا اطلاق اور فوجی عدالتوں کی مدت ایک سال کرنے کے مطالبے شامل ہیں۔ اگرچہ جمہوری حکومت میں فوجی عدالتوں کا قیام ایک اہم سوال ہے مگر نائن الیون کے بعد ملک میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی کے تدارک کے لیے ایسی عدالتوں کے قیام کا معاملہ اہم بن گیا ہے۔
دہشتگردوں کے خلاف مختلف نوعیت کے آپریشن برسوں سے جاری ہیں۔ آپریشنوں کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں مگر دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کر نے والے فوجی اورپولیس افسران کو یہ شکوہ رہا ہے کہ روایتی نظام ان ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے میں ناکام رہا ہے' یہ کہا جاتا ہے کہ پولیس کا تفتیشی نظام بہت کمزور ہے۔ پولیس کے محکمے کو ملزمان کی گرفتاری میں مدد مل جاتی ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں خواہ ان کا تعلق وفاق سے ہو یا صوبوں سے مربوط طور پر آپریشن کرتی ہیں مگر جب ملزمان گرفتار ہوتے ہیں تو پھر تحقیقات اور سزا دینے کا معاملہ کمزور پڑ جاتا ہے۔
مذہبی انتہاپسندی کے خلاف تحقیقات کرنے والے افسران عموماً دھمکیوں کی زد میں ہوتے ہیں۔ وفاق اور صوبائی حکومتیں فنڈز کی کمی کی بناء پر ان افسروں کو تحفظ فراہم نہیں کرتیں۔ تحقیقات اور چارج شیٹ کی تیاری کے مراحل میں کسی قسم کا فنڈ میسر نہیں ہوتا۔ متعلقہ افسروں کو دھمکیوں کے ماحول میں تفتیش کرنی پڑتی ہے۔ افسران ان مراحل میں قتل بھی ہوئے اور پولیس حکام ملزمان کو گرفتار نہیں کر پائے۔ اس کے علاوہ دہشتگردوں کے خوف سے کوئی شخص گواہ بننے کو تیار نہیں ہوتا۔ جو لوگ گواہی کے لیے تیار ہوتے ہیں ان کے تحفظ کے لیے کوئی اقدامات نہیں ہوتے۔ بعض دفعہ گواہ ہی قتل کر دیے جاتے ہیں تو ان کے لواحقین کو معاوضہ اور ان کی دادرسی کا کوئی تصور نہیں ہے۔
کراچی کے صحافی ولی بابر کے قتل کے عینی گواہ ایک ایک کرکے قتل کر دیے گئے مگر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے کچھ نہیں کر پائے۔ اسی طرح گواہوں کو معاوضے کی ادائیگی کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ استغاثہ کے گواہ کئی دن تک عدالتوں کے چکر لگاتے ہیں مگر ان کی گواہی نہیں ہوتی لہٰذا ان کا اپنے کام سے غیرحاضری کی وجہ سے جو نقصان ہوتا ہے وہ نقصان تک پورا نہیں ہوتا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ابھی تک گواہوںکے تحفظ کے لیے قانون سازی نہیں کی۔ اسی طرح پبلک پراسیکیوٹر معاوضے کی ادائیگی اور سیکیورٹی کے لیے پریشان رہتے ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں میں پبلک پراسیکیوٹر قتل کر دیے گئے۔ ان کے لواحقین کو تحفظ اور معاوضہ نہیں ملا۔ پھر ججوں کی سیکیورٹی کی صورتحال بھی کوئی اچھی نہیں ہے۔
ججوں کے عدم تحفظ کی بناء پر انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر مذہبی دہشتگردوں کے حملے کے بعد ایک آئینی ترمیم کے ذریعے فوج کو عدالتیں قائم کرنے کا اختیار حاصل ہوا مگر ان عدالتوں کا دائرہ محدود رہا۔ پھر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں سراپا احتجاج بن گئیں۔ اس بناء پر حکومت کو دیگر عوامل کا جائزہ لینا پڑا۔ آصف زرداری نے اپنی پریس کانفرنس میں فوجی عدالتوں کے قیام کے جو نکات پیش کیے ہیں وہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے متشابہ ہیں۔ زرداری صاحب کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں میں فوجی افسران کے ساتھ ایڈیشنل سیشن ججوں کی شرکت سے تعزیرات پاکستان کی مختلف دفعات پر عمل ہو سکے گا۔ ملزمان کو ایک سول جج کے سامنے پیش کرنے سے بہت سے انصاف کے بنیادی تقاضے پورے ہونگے اور قانونی تقاضوں پر عملدرآمد ہو گا۔
اسی طرح ملزم کو اپنی گرفتاری کی وجوہات سے آگاہی اور اپنے دفاع کے لیے وکیل کا انتخاب کا حق ضروری ہے۔ اسی طرح قانون شہادت کی دفعات کے اطلاق سے ملزمان کو اپنے دفاع کے لیے گواہوں کو پیش کرنے کا حق ملنے سے بے گناہوں کو انصاف مل سکے گا۔ آصف زرداری نے اپنی پریس کانفرنس میں رینجرز کے سندھ اور پنجاب میں کردار میں تضادات کا بھی ذکر کیا ہے۔ سندھ میں رینجرز برسوں سے خصوصی اختیارات کے ساتھ فرائض انجام دے رہی ہے۔ رینجرز کے آپریشن کے نتیجے میں کراچی کے حالات میں بہت حد تک بہتری آئی۔ پولیس اور رینجرز کے آپریشن کے نتیجے میں کراچی کے مضافاتی پٹی سے طالبان اور مذہبی دہشتگردوں کی کمین گاہوں کا خاتمہ ہوا۔ شہر میں کام کرنے والے کئی گروہوں کے اراکین گرفتار ہوئے۔ اسی طرح رینجرز نے لیاری میں امن و امان کو نقصان پہنچانے والے گروہوں کی سرکوبی کی۔
رینجرز نے لسانی، مذہبی اور سیاسی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کرنے والوں کو پکڑ لیا یا وہ مقابلوں میں مارے گئے۔ رینجرز کے افسروں نے مذہبی دہشتگردوں کی مالیاتی پائپ لائن کو ختم کرنے کے لیے کئی آپریشن کیے اور حکومت سندھ کے کئی افسروں کو مالیاتی پائپ لائن کو سرمایہ فراہم کرنے کے الزام میں پکڑا ہے۔ رینجرز نے واٹر بورڈ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ڈی اے، کے ایم سی، فشریز اور دیگر اداروں میں موجود بدعنوان افراد کا بھی گھیرا تنگ کیا ہے مگر پنجاب میں دہشتگردی کی مستقل وارداتوں میں وسطی اور جنوبی پنجاب میں دہشتگردی کی کمین گاہوں کے جڑیں پکڑنے کی مصدقہ خبروں کے باوجود رینجرز کو آپریشن کی اجازت نہیں دی گئی۔ گزشتہ سال گلشن اقبال پارک میں خودکش حملہ کے بعد جنوبی پنجاب میں محدود آپریشن ہوا تھا مگر دہشتگرد پھر منظم ہو گئے۔ گزشتہ ماہ لاہور کے قلب میں چیئرنگ کراس پر خودکش حملے میں پولیس افسروں کی ہلاکت کے بعد رینجرز کو محدود مدت کے لیے آپریشن کی اجازت دی گئی۔
اس تناظر میں زرداری صاحب کی باتوں میں خاصا وزن نظر آتا ہے۔ دو سال قبل پیپلز پارٹی کے اراکین مشکل سے آئین میں کی جانے والی 21 ویں ترمیم کی حمایت کے لیے تیار ہوئے تھے۔ اس ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کو آئینی تحفظ حاصل ہوا تھا۔ سینیٹر رضا ربانی نے آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ اس ترمیم کی حمایت کی تھی۔ اب پیپلز پارٹی کے لیے فوجی عدالتوں کو قبول کرنا بڑا چیلنج ہے۔ پیپلز پارٹی ایک سال کے لیے کچھ شرائط کے ساتھ فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے تیار ہے۔ وفاقی حکومت دو سال کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کی تجویز پر زور دے رہی ہے۔ ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں اس وقت پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے۔
اس بناء پر پیپلز پارٹی کی حمایت سے آئین میں اس بارے میں آئینی ترمیم ہو سکتی ہے، دوسری صورت میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں فیصلہ ہو گا مگر وفاقی حکومت، پیپلز پارٹی اور دیگر تمام فریقین اس بات سے آگاہ ہیں کہ فوج کا کام عدالتیں چلانا نہیں ہے، یہ عارضی انتظام ہے۔ فوجی عدالتوں سے انسانی حقوق کی پاسداری نہ ہونے کا تاثر ابھرتا ہے۔ ایک سینئر تجزیہ نگار کا مفروضہ ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام سے لاپتہ افراد کا معاملہ حل ہو سکتا ہے۔ مستقل حل عدالتی نظام میں ہی مضمر ہے۔ عدالتی نظام کی خرابیوں کو دور کر کے اور جلد اور فوری انصاف کے مقصد کو پورا کر کے ہی دہشتگردوں کو جڑوں سے ختم کیا جا سکتا ہے۔