اقتصادی تعاون تنظیم خطے کے لیے گیم چینجر
یورپی یونین کی طرز پر مصنوعات اور خدمات کو سنگل مارکیٹ فراہم کرنے کے لیے ایکو کے مقاصد یہ بیان کیے جاتے ہیں
DEHRADUN:
مشرق وسطیٰ میں سوویت یونین کی پیش قدمی روکنے کے لیے 1955ء میں ترکی، پاکستان، عراق، برطانیہ اور ایران کو ''بغداد پیکٹ'' میں ایک جگہ جمع کرکے مغرب کی حامی تنظیم قائم کی گئی۔ اس معاہدے کا اصل محرک امریکا تھا جو خود 1959ء میں اس تنظیم کا رکن بنا۔ 1958ء میں جنرل کریم قاسم نے عراق میں قائم بادشاہت کا تختہ الُٹ دیا اور 1959ء میں بغداد معاہدے سے دست برداری کا اعلان کردیا۔ معاہدے کو ''سینٹرل ٹریٹی اورگنائزیشن (سینٹو) کا نام دے دیا گیا اور اس کا صدر مقام ترکی منتقل ہوگیا۔
ارکان کے اجتماعی دفاع کے لیے قائم کیے گیا سینٹو کا پلیٹ فارم فوجی اتحاد سے بڑھ کر رفتہ رفتہ معاشی اور ٹیکنالوجی کے تعاون کا ذریعہ بنتا گیا۔ سینٹو کے مغرب کی جانب جھکاؤ کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں اسے شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ بھارت نے سوویت یونین کے پُرجوش اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے غیروابستہ تحریک (NAM)کے پلیٹ فارم سے سینٹو (اور سیٹو) کی کھل کر مخالفت کی۔ وسیع البنیاد مفادات کے پیش نظر ایران، ترکی اور پاکستان نے باہمی تعاون بڑھانے کے لیے برطانوی اور امریکی رسوخ سے نکل کر آزادانہ کوششوں کا آغاز کیا۔
جولائی 1964ء میں علاقائی تعاون و تعمیر (RCD)کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد خطے میں سماجی و معاشی تعمیر و ترقی کا فروغ تھا۔ اقتصادی، سیاسی اور انتظامی مسائل کی وجہ سے ابتداً تجارتی سرگرمیوں کی رفتار سست رہی۔ تجارت کا مجموعی حجم ارکان کے مجموعی جی ڈی پی کا صرف دو فی صد تک پہنچ سکا۔ 1979ء میں انقلاب کے بعد ایران نے آر سی ڈی سے علیحدگی اختیار کرلی اور یہ فورم تحلیل ہوگیا۔ جنوری 1985ء میں پاکستان، ایران اور ترکی نے اقتصادی تعاون تنظیم (ECO)کی بنا ڈالی۔ 1992ء میں افغانستان، آذربائیجان، قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان نے اس تنظیم میں شمولیت اختیار کرلی۔ تاہم ممالک کے باہمی تنازعات کے سبب مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔
یورپی یونین کی طرز پر مصنوعات اور خدمات کو سنگل مارکیٹ فراہم کرنے کے لیے ایکو کے مقاصد یہ بیان کیے جاتے ہیں۔ 1) رکن ریاستوں میں پائیدار معیشت اور تعمیروترقی کا فروغ اور عوام کے معیارِ زندگی میں بہتری (2خطے میں معاشی، سماجی، ثقافتی، تکنیکی اور سائنسی شعبوں میں باہمی تعاون کا فروغ 3)خطے کی باہمی تجارت میں توسیع اور تجارتی سرگرمیوں میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ 4)رسل و رسائل، نقل و حمل اور ابلاغ کے ذرایع کا قیام 5) آزاد معیشت اور نج کاری وغیرہ۔ ایکو میں شامل ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں، ان کے مابین گہرا ثقافتی اور جغرافیائی ارتباط ہے، ان خصوصیات کی وجہ سے ایکو میں شامل ممالک پورے خطے کے لیے مثبت تبدیلی کے مراکز بن سکتے ہیں۔ تاہم گزشتہ 32سال میں کوئی قابل ذکر پیشرفت نہیں ہوسکی ہے۔
تیرہواں ایکو اجلاس پانج برس بعد اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ مضبوط انفرااسٹرکچر یا ادارتی استحکام نہ ہونے کی وجہ سے پائیدار ترقی ایک چیلنج کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ایکو ممالک کے مابین ہونے والی تجارت، ان ممالک کی مجموعی بیرونی تجارت کا صرف آٹھ فی صد ہے۔ اس ہدف کو 20فی صد کردیا گیا ہے اور آیندہ پانچ برسوں میں تجارتی معاہدات اور دیگر انتظامات کے ذریعے یہ ہدف حاصل کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ پاکستان کی سمیت اس تنظیم کے تمام ہی ارکان مسلم ممالک ہیں، اس لیے اسے ایک اچھا اسلامی اتحاد بھی بنایا جاسکتا ہے۔ ایکو ممالک کا جغرافیائی محل وقوع ایسا ہے کہ یہاں ٹرانسپورٹیشن کے ذرایع کی تعمیر و ترقی کرکے یورپ کو مختصر زمینی تجارتی راستے فراہم کیے جاسکتے ہیں۔ کچھ رکن ممالک کے مابین مسائل اور تنازعات ہیں لیکن یہ سبھی مذاکرات کے ذریعے حل کیے جاسکتے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مسائل کا شکار ہیں لیکن کیا یہ واقعی اس قدر سنجیدہ ہیں کہ ان کی وجہ سے ایکو کو داؤ پر لگا دیا جائے؟ افغانستان کو دوست دشمن کی پہچان کرنا ہوگی۔ افغانستان میں شورش خطے کی کس قوم کے مفاد میں ہے؟ اس پر مستزاد یہ کہ جب داعش افغانستان میں زور پکڑ رہی ہے۔ پاکستان کی مدد کے بغیر داعش کی بیخ کُنی ممکن نہیں، اس میں دونوں ممالک کا مشترکہ مفاد بھی ہے، لیکن کابل کی حکومت اس کے بجائے طالبان کو نشانہ بنانے کی فکر میں ہے۔ افغانستان نے بھارت پر اندھا اعتماد اور ڈکٹیشن قبول کرتے ہوئے، سربراہ مملکت کی سطح پر، ایکو اجلاس میں شرکت نہیں کی، یہ اس کے اپنے مفادات کے خلاف تھا۔
تیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کی موجودگی کے باوجود افغانستان پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور سازشوں میں مصروف ہے، ایسی صورتحال میں پاکستان اپنا دوسرا گال پیش نہیں کرسکتا۔ افغان تجارتی معاہدے میں پاکستان کوئی فیس وصول نہیں کرتا لیکن افغانستان وسطی ایشیا میں پاکستانی مصنوعات کے لیے راستہ فراہم کرنے پر پیشگی فیس کا مطالبہ کررہا ہے۔ کچھ ماہ پہلے نیویارک میں ایک معتبر تھنک ٹینک کے اجلاس میں راقم نے کہا تھا کہ نہ صرف روس، چین اور پاکستان کے مابین گہرے روابط قائم ہورہے ہیں بلکہ اقتصادی تعاون تنظیم کا مستقبل بھی روشن ہے، کابل(اور بھارت) کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے۔ اس بات پر وہاں موجود بھارتی دفتر خارجہ کے ایک سابق اعلیٰ افسر مجھ پر بارہا طنز کرتے رہے۔ حسن اتفاق سے مبصر کے طور پر ایکو اجلاس میں شریک ہونے والے چین کے نائب وزیر خارجہ ژان یاسوئی نے بھی مستقبل کی یہی تصویر پیش کی۔
علاقائی تعاون کا محور صرف معیشت نہیں، اس کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت بھی ہے۔ معاہدۂ اسلام آباد نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کی اہمیت کو خطے کے لیے انقلابی منصوبے کی حیثیت سے منوانے میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔ رکن ممالک کے مابین رابطے اور راستے پہلے ہی موجود ہیں، ان میں بہتری کی ضرورت ہے۔ سمندری اور فضائی راستوں کے ساتھ ساتھ ہائی ویز کی تعمیر، گوادر بندرگاہ اور دیگر منصوبوں کی مدد سے زمینی راستوں کی بہتری سمیت کئی ایسے اقدامات کیے جاسکتے ہیں جن کی مدد سے پیداواری لاگت اور نقل و حمل پر آنے والے اخراجات میں کمی، تجارتی سرگرمیوں کے فروغ اور روزگار کی فراہمی سمیت کئی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اس مرتبہ بالخصوص توانائی کے شعبے کا تذکرہ کیا جس میں باہمی تعاون کے نئے امکانات پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ ایکو اور سی پیک افغانستان میں ترقی اور استحکام کا محرک بن سکتے ہیں، بھارت کا افغانستان میں، پاکستان کے خلاف دوسرا محاذ کھولنے کے علاوہ، کوئی کردار نہیں۔ افغانستان کی مسلسل ہٹ دھرمی چین اور پاکستان کو مشرق وسطی کے لیے کرغزستان کے ذریعے متبادل راستے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرسکتی ہے۔
اسلام آباد اجلاس نے ان قوتوں کی بے چینی میں اضافہ کیا ہے جو پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنا چاہتی تھیں اور پاکستان کا تاثر خراب کرنا ان کا اولین ہدف ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کی حکومت اس کامیاب اقدام پر مبارک باد کی مستحق ہے۔ سرتاج عزیز کی بھی جتنی تحسین کی جائے کم ہے کہ انھوں نے پس منظر میں رہتے ہوئے اجلاس میں قابل عمل اتفاق رائے سامنے لانے کے لیے جاں توڑ محنت کی۔ حالیہ چیلنجز کے باوجود پرامن ماحول میں اجلاس کے انعقاد پر چوہدری نثار کا کردار بھی قابل ستایش رہا۔ فول پروف سیکیورٹی کی فراہمی کے لیے فوج نے قابل تعریف کردار ادا کیا۔
چین اور روس کے اس خطے میں اہم ترین مفادات ہیں، اسی لیے اقتصادی تعاون تنظیم میں ایک مضبوط سیاسی اتحادبننے کی بھرپور صلاحیت ہے۔ اجلاس کی سائڈ لائنز میں، ایرانی صدر روحانی اور وزیر اعظم ترکی طیب اردوان کے مابین ہونے والی ملاقات اہم ترین پیشرفت ہے، اس ملاقات میں پاکستانی سفارت کار خصوصاً سرتاج عزیز نے کلیدی کردار ادا کیا۔
عراق، شام، مصر، یمن اور اس جیسے دیگر اسلامی ممالک کے مقابلے میں ایکو میں شامل ملک مضبوط افواج رکھتے ہیں جو خطرات سے مقابلے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے جب یہ کہا تو ان کا اشارہ واضح تھا ''اجلاس کا کامیاب انعقاد ایکو کو ایک متحرک علاقائی بلاک اور ممکنہ طور پر ایک حقیقی اسلامی فوجی اتحاد بنانے کی خواہش کا مظہر اور عزم کا رکن ممالک کی جانب سے برملا اظہار ہے۔''
مشرق وسطیٰ میں سوویت یونین کی پیش قدمی روکنے کے لیے 1955ء میں ترکی، پاکستان، عراق، برطانیہ اور ایران کو ''بغداد پیکٹ'' میں ایک جگہ جمع کرکے مغرب کی حامی تنظیم قائم کی گئی۔ اس معاہدے کا اصل محرک امریکا تھا جو خود 1959ء میں اس تنظیم کا رکن بنا۔ 1958ء میں جنرل کریم قاسم نے عراق میں قائم بادشاہت کا تختہ الُٹ دیا اور 1959ء میں بغداد معاہدے سے دست برداری کا اعلان کردیا۔ معاہدے کو ''سینٹرل ٹریٹی اورگنائزیشن (سینٹو) کا نام دے دیا گیا اور اس کا صدر مقام ترکی منتقل ہوگیا۔
ارکان کے اجتماعی دفاع کے لیے قائم کیے گیا سینٹو کا پلیٹ فارم فوجی اتحاد سے بڑھ کر رفتہ رفتہ معاشی اور ٹیکنالوجی کے تعاون کا ذریعہ بنتا گیا۔ سینٹو کے مغرب کی جانب جھکاؤ کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں اسے شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ بھارت نے سوویت یونین کے پُرجوش اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے غیروابستہ تحریک (NAM)کے پلیٹ فارم سے سینٹو (اور سیٹو) کی کھل کر مخالفت کی۔ وسیع البنیاد مفادات کے پیش نظر ایران، ترکی اور پاکستان نے باہمی تعاون بڑھانے کے لیے برطانوی اور امریکی رسوخ سے نکل کر آزادانہ کوششوں کا آغاز کیا۔
جولائی 1964ء میں علاقائی تعاون و تعمیر (RCD)کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد خطے میں سماجی و معاشی تعمیر و ترقی کا فروغ تھا۔ اقتصادی، سیاسی اور انتظامی مسائل کی وجہ سے ابتداً تجارتی سرگرمیوں کی رفتار سست رہی۔ تجارت کا مجموعی حجم ارکان کے مجموعی جی ڈی پی کا صرف دو فی صد تک پہنچ سکا۔ 1979ء میں انقلاب کے بعد ایران نے آر سی ڈی سے علیحدگی اختیار کرلی اور یہ فورم تحلیل ہوگیا۔ جنوری 1985ء میں پاکستان، ایران اور ترکی نے اقتصادی تعاون تنظیم (ECO)کی بنا ڈالی۔ 1992ء میں افغانستان، آذربائیجان، قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان نے اس تنظیم میں شمولیت اختیار کرلی۔ تاہم ممالک کے باہمی تنازعات کے سبب مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔
یورپی یونین کی طرز پر مصنوعات اور خدمات کو سنگل مارکیٹ فراہم کرنے کے لیے ایکو کے مقاصد یہ بیان کیے جاتے ہیں۔ 1) رکن ریاستوں میں پائیدار معیشت اور تعمیروترقی کا فروغ اور عوام کے معیارِ زندگی میں بہتری (2خطے میں معاشی، سماجی، ثقافتی، تکنیکی اور سائنسی شعبوں میں باہمی تعاون کا فروغ 3)خطے کی باہمی تجارت میں توسیع اور تجارتی سرگرمیوں میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ 4)رسل و رسائل، نقل و حمل اور ابلاغ کے ذرایع کا قیام 5) آزاد معیشت اور نج کاری وغیرہ۔ ایکو میں شامل ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں، ان کے مابین گہرا ثقافتی اور جغرافیائی ارتباط ہے، ان خصوصیات کی وجہ سے ایکو میں شامل ممالک پورے خطے کے لیے مثبت تبدیلی کے مراکز بن سکتے ہیں۔ تاہم گزشتہ 32سال میں کوئی قابل ذکر پیشرفت نہیں ہوسکی ہے۔
تیرہواں ایکو اجلاس پانج برس بعد اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ مضبوط انفرااسٹرکچر یا ادارتی استحکام نہ ہونے کی وجہ سے پائیدار ترقی ایک چیلنج کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ایکو ممالک کے مابین ہونے والی تجارت، ان ممالک کی مجموعی بیرونی تجارت کا صرف آٹھ فی صد ہے۔ اس ہدف کو 20فی صد کردیا گیا ہے اور آیندہ پانچ برسوں میں تجارتی معاہدات اور دیگر انتظامات کے ذریعے یہ ہدف حاصل کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ پاکستان کی سمیت اس تنظیم کے تمام ہی ارکان مسلم ممالک ہیں، اس لیے اسے ایک اچھا اسلامی اتحاد بھی بنایا جاسکتا ہے۔ ایکو ممالک کا جغرافیائی محل وقوع ایسا ہے کہ یہاں ٹرانسپورٹیشن کے ذرایع کی تعمیر و ترقی کرکے یورپ کو مختصر زمینی تجارتی راستے فراہم کیے جاسکتے ہیں۔ کچھ رکن ممالک کے مابین مسائل اور تنازعات ہیں لیکن یہ سبھی مذاکرات کے ذریعے حل کیے جاسکتے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مسائل کا شکار ہیں لیکن کیا یہ واقعی اس قدر سنجیدہ ہیں کہ ان کی وجہ سے ایکو کو داؤ پر لگا دیا جائے؟ افغانستان کو دوست دشمن کی پہچان کرنا ہوگی۔ افغانستان میں شورش خطے کی کس قوم کے مفاد میں ہے؟ اس پر مستزاد یہ کہ جب داعش افغانستان میں زور پکڑ رہی ہے۔ پاکستان کی مدد کے بغیر داعش کی بیخ کُنی ممکن نہیں، اس میں دونوں ممالک کا مشترکہ مفاد بھی ہے، لیکن کابل کی حکومت اس کے بجائے طالبان کو نشانہ بنانے کی فکر میں ہے۔ افغانستان نے بھارت پر اندھا اعتماد اور ڈکٹیشن قبول کرتے ہوئے، سربراہ مملکت کی سطح پر، ایکو اجلاس میں شرکت نہیں کی، یہ اس کے اپنے مفادات کے خلاف تھا۔
تیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کی موجودگی کے باوجود افغانستان پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور سازشوں میں مصروف ہے، ایسی صورتحال میں پاکستان اپنا دوسرا گال پیش نہیں کرسکتا۔ افغان تجارتی معاہدے میں پاکستان کوئی فیس وصول نہیں کرتا لیکن افغانستان وسطی ایشیا میں پاکستانی مصنوعات کے لیے راستہ فراہم کرنے پر پیشگی فیس کا مطالبہ کررہا ہے۔ کچھ ماہ پہلے نیویارک میں ایک معتبر تھنک ٹینک کے اجلاس میں راقم نے کہا تھا کہ نہ صرف روس، چین اور پاکستان کے مابین گہرے روابط قائم ہورہے ہیں بلکہ اقتصادی تعاون تنظیم کا مستقبل بھی روشن ہے، کابل(اور بھارت) کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے۔ اس بات پر وہاں موجود بھارتی دفتر خارجہ کے ایک سابق اعلیٰ افسر مجھ پر بارہا طنز کرتے رہے۔ حسن اتفاق سے مبصر کے طور پر ایکو اجلاس میں شریک ہونے والے چین کے نائب وزیر خارجہ ژان یاسوئی نے بھی مستقبل کی یہی تصویر پیش کی۔
علاقائی تعاون کا محور صرف معیشت نہیں، اس کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت بھی ہے۔ معاہدۂ اسلام آباد نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کی اہمیت کو خطے کے لیے انقلابی منصوبے کی حیثیت سے منوانے میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔ رکن ممالک کے مابین رابطے اور راستے پہلے ہی موجود ہیں، ان میں بہتری کی ضرورت ہے۔ سمندری اور فضائی راستوں کے ساتھ ساتھ ہائی ویز کی تعمیر، گوادر بندرگاہ اور دیگر منصوبوں کی مدد سے زمینی راستوں کی بہتری سمیت کئی ایسے اقدامات کیے جاسکتے ہیں جن کی مدد سے پیداواری لاگت اور نقل و حمل پر آنے والے اخراجات میں کمی، تجارتی سرگرمیوں کے فروغ اور روزگار کی فراہمی سمیت کئی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اس مرتبہ بالخصوص توانائی کے شعبے کا تذکرہ کیا جس میں باہمی تعاون کے نئے امکانات پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ ایکو اور سی پیک افغانستان میں ترقی اور استحکام کا محرک بن سکتے ہیں، بھارت کا افغانستان میں، پاکستان کے خلاف دوسرا محاذ کھولنے کے علاوہ، کوئی کردار نہیں۔ افغانستان کی مسلسل ہٹ دھرمی چین اور پاکستان کو مشرق وسطی کے لیے کرغزستان کے ذریعے متبادل راستے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرسکتی ہے۔
اسلام آباد اجلاس نے ان قوتوں کی بے چینی میں اضافہ کیا ہے جو پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنا چاہتی تھیں اور پاکستان کا تاثر خراب کرنا ان کا اولین ہدف ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کی حکومت اس کامیاب اقدام پر مبارک باد کی مستحق ہے۔ سرتاج عزیز کی بھی جتنی تحسین کی جائے کم ہے کہ انھوں نے پس منظر میں رہتے ہوئے اجلاس میں قابل عمل اتفاق رائے سامنے لانے کے لیے جاں توڑ محنت کی۔ حالیہ چیلنجز کے باوجود پرامن ماحول میں اجلاس کے انعقاد پر چوہدری نثار کا کردار بھی قابل ستایش رہا۔ فول پروف سیکیورٹی کی فراہمی کے لیے فوج نے قابل تعریف کردار ادا کیا۔
چین اور روس کے اس خطے میں اہم ترین مفادات ہیں، اسی لیے اقتصادی تعاون تنظیم میں ایک مضبوط سیاسی اتحادبننے کی بھرپور صلاحیت ہے۔ اجلاس کی سائڈ لائنز میں، ایرانی صدر روحانی اور وزیر اعظم ترکی طیب اردوان کے مابین ہونے والی ملاقات اہم ترین پیشرفت ہے، اس ملاقات میں پاکستانی سفارت کار خصوصاً سرتاج عزیز نے کلیدی کردار ادا کیا۔
عراق، شام، مصر، یمن اور اس جیسے دیگر اسلامی ممالک کے مقابلے میں ایکو میں شامل ملک مضبوط افواج رکھتے ہیں جو خطرات سے مقابلے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے جب یہ کہا تو ان کا اشارہ واضح تھا ''اجلاس کا کامیاب انعقاد ایکو کو ایک متحرک علاقائی بلاک اور ممکنہ طور پر ایک حقیقی اسلامی فوجی اتحاد بنانے کی خواہش کا مظہر اور عزم کا رکن ممالک کی جانب سے برملا اظہار ہے۔''