دہری شہریت یا دو کشتیوں کی سواری…
18 کروڑ آبادی کا صرف ایک فیصد یعنی ایک لاکھ اسّی ہزار افراد کا...
پاکستان ان دنوں جہاں گرم موسم کی لپیٹ میں ہے، وہیں ان گنت غیر مفید اور غیر عقلی مسائل میں الجھا ہوا ہے، جس کے لیے عوام اور سیاست دانوں کی اپنی اپنی رائے اور اپنی اپنی دلیل ہے۔ عام پڑھے لکھے اور اہلِ دانش کا کہنا ہے کہ پورا ملک معاشی بدحالی، قانونی تنزلی، مذہبی منافرت، غیر معیاری روزمرّہ زندگی، غیر محفوظ شب و روز اور ہر دن نئی نئی موشگافیوں میں مبتلا ہے۔
عوام پریشان ہیں کہ تین بار تین عشروں کی طاقتور فوجی حکومتیں بھی یکجا اور متحد قوم کو بتدریج انتشار کا شکار ہونے سے نہیں روک سکیں۔ اب جب سیاست دانوں کو موقع ملا تو جمہوریت جس سے پوری قوم کو بے پناہ امیدیں وابستہ تھیں، خاک میں ملتی نظر آرہی ہیں۔ سیاست دانوں اور ارباب حکومت کے بڑے بڑے نام اپنے بیانات اور عمل میں اس قدر تضاد کا شکار ہیں کہ قوم جمہوریت کو اب اقبال کے اس شعر پر تول رہی ہے کہ
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
کاروباری افراد ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہیں۔ سرکاری ملازم رشوت کو اپنا جائز حق سمجھتے ہیں۔ سیاست دان زبان سے زیادہ بندوق کی گولیوں کی آواز پر اپنا زور دِکھانا چاہتے ہیں۔ لیکن آج کا یہ کالم دراصل دہری قومیت یا دہری شہریت پر ہے، پوری قوم کو اس نہایت غیر اہم معاملے میں الجھایا جارہا ہے۔ 18 کروڑ آبادی کا صرف ایک فیصد یعنی ایک لاکھ اسّی ہزار افراد کا بھی یہ مسئلہ نہیں ہے۔ پاکستانی عوام اور آبادی تقریباً دنیا کے ہر ملک میں آباد ہیں، دوسری جنگِ عظیم کے بعد پوری دنیا میں ہجرت کا سلسلہ مشرقی یورپ، افریقہ اور ایشیا کے بیشتر ممالک میں شروع ہوا، ان کی خاص وجوہات معاشی مسائل رہے ہیں اور آج تک اصل وجہ یہی ہیں۔
پاکستانی عوام جو پاکستان سے باہر رہ رہے ہیں، انھیں بنیادی طور پر تین اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا طبقہ وہ جفاکش اور محنت کشوں کا ہے جو مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک میں برسوں سے محنت مزدوری کرتے ہیں اور اپنی آمدنی کا بیشتر حصّہ پاکستان میں اپنے لواحقین کو بھیجتے ہیں، جس کا مقصد پاکستان میں اپنے خاندان کے معیارِ زندگی کو بہتر کرنا ہے اور یہ عمل اس یقین کے ساتھ ہے کہ آج نہیں تو کل اپنی عمر کا آخری حصّہ یہاں اپنی سرزمین پر گزاریں گے۔
یہ صرف پاکستانی پاسپورٹ رکھتے ہیں اور پوری دنیا میں صرف اس پاسپورٹ کے حوالے سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ایک دوسرا طبقہ طالب علموں کا ہے جو پوری دنیا تعلیم کے حصول کے لیے جاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر غیر ممالک خاص کر یورپ اور امریکا میں بہتر معیارِ زندگی کے حوالے سے وہیں بسنے کی کوشش کرتے ہیں اور بس جاتے ہیں۔ تیسرا طبقہ ان پاکستانیوں کا ہے جو کسی نہ کسی طرح مغربی ممالک پہنچ جاتے ہیں اور دن رات محنت مزدوری کرکے چھوٹے موٹے کاروبار کرتے کرتے اپنے پیر جمالیتے ہیں۔
اِن میں تعلیم یافتہ افراد اپنے اپنے شعبوں میں بڑے بڑے عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہی طبقہ اپنے آپ کو بہتر اور مستحکم کرنے کے لیے ان ممالک میں اپنے مکمل حقوق کے حصول کے لیے پہلے لیگل اسٹیٹس یا ورک پرمٹ پھر گرین کارڈ اور پھر مکمل شہریت اور پاسپورٹ حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں، یہ پورا طبقہ نہ صرف اپنے دل کی گہرائیوں سے پاکستان سے محبت کرتا ہے بلکہ دامے درمے سخنے کسی نہ کسی حوالے سے سیاسی، معاشی اور ثقافتی طور پر پاکستان کو ایک مضبوط اور باوقار ملک دیکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہاں ہر لمحے کوشاں رہتا ہے۔
یہ طبقہ ہر شب اپنے ملک کے لیے ٹھنڈی آہیں بھرتا ہے لیکن وہاں کے مصروف معاشرے میں ضم ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر جب وہاں ان کی نئی نسل وجود پاتی ہے تو پھر تقریباً وہیں کا ہو رہتا ہے، سوائے اس کے کہ ہر سانس میں اپنے وطن کی مٹی کی خوشبو ضرور محسوس کرتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہاں کی شہریت کے حصول کے بعد تمام تر احساسات اپنی جگہ پر وہاں کی قانونی ذمے داریاں بھی بڑھ جاتی ہے۔ ان دنوں پاکستان میں اس موضوع پر بحث نہ صرف وقت کا ضیاع بلکہ لاحاصل ہے۔ہمارا برادر مسلم ملک ملائیشیا اس معاملے میں بہت سخت ہے، دہری قومیت کو بڑا جرم گردانتا ہے۔
ہمارا پڑوسی ملک بھارت اس سلسلے میں باقاعدہ قانون رکھتا ہے۔ غیر ممالک بسنے والے ہندوستانیوں کے لیے بھارتی حکومت نے 2006 میں OCI کارڈ کا اجرا کیا جس کا مقصد غیر ممالک میں بسنے والے اور دوسرے ملک کی شہریت رکھنے والے ہندوستانیوں کے لیے سفری آسانیاں فراہم کرنا ہے، ایسے ہندوستانی جو یورپ اور امریکا میں رہتے ہیں اور وہاں کی شہریت حاصل کرچکے ہیں، وہ اپنے وطن آسکتے ہیں۔ میڈیکل اور تعلیم کی آسانیاں ان کا حق ہے۔
جائیداد کی خرید و فروخت کرسکتے ہیں، لیکن انھیں ہندوستانی پاسپورٹ رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی، نہ وہ ووٹ دے سکتے ہیں، نہ وہ انتخابات میں حصّہ لے سکتے ہیں، نہ سرکاری یا نیم سرکاری ملازمت حاصل کرسکتے ہیں۔ اب اگر ان مثالوں کو سامنے رکھا جائے تو پاکستان میں آسان قانون بنایا جاسکتا ہے، جس میںکوئی ابہام نہ ہو۔وہ پاکستانی جو دنیا میں کہیں بھی رہ رہے ہوں، کام کررہے ہوں، کاروبار کررہے ہوں، لیکن ان کے پاس صرف پاکستانی پاسپورٹ اور شہریت ہے، انھیں پاکستانی قوانین کی آسانیاں پاکستان میں رہنے والوں کی طرح حاصل ہوں گی۔
وہ پاکستانی جو باہر تعلیم حاصل کررہے ہیں یا کاروبار یا نوکری کررہے ہیں، ان کے پاس ورک پرمٹ ہے یا گرین کارڈ ہے لیکن مکمل شہریت حاصل نہیں ہے اور صرف پاکستانی پاسپورٹ کے حامل ہیں، انھیں پاکستان میں سوائے سرکاری ملازمت یا انتخابات میں حصّہ لینے کے سوا تمام سہولتیں ملنی چاہئیں۔ایک آخری طبقہ جو بیرونِ ممالک آباد ہے، ان کے پاس وہاں کی شہریت اور پاسپورٹ موجود ہے۔
انھیں پاکستان میں رہنے، جائیداد کی خرید و فروخت کرنے یا کاروبار کی مکمل اجازت کے باوجود نہ تو پاسپورٹ ملنا چاہیے، نہ سرکاری یا نیم سرکاری ملازمت یا حکومتی اداروں میں کوئی عہدہ یا انتخابات میں حصّہ لینا اور ووٹ دینا نہ صرف ممانعت بلکہ قابل جرم قرار پانا چاہیے۔اگر سفری سہولتیں دینا بہت ضروری ہو تو بھی زیادہ سے زیادہ پاسپورٹ حاصل کرنے اور رکھنے کی اجازت دی جاسکتی ہے لیکن یہ بھی غیر ضروری ہے کیوں کہ اپنی شہریت اور اپنا پاسپورٹ سفر کے لیے کافی ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب نو آبادیاتی نظام نے دم توڑا اور امریکی برطانوی اور فرانسیسی کالونیاں ختم ہوئیں اور چھوٹے چھوٹے آزاد ممالک وجود میں آئے تو طویل عرصے تک ہر آزاد ملک ذہنی طور پر اپنے آقا اور اس کی زبان اور کلچر سے نہ صرف متاثر رہا بلکہ کسی نہ کسی طور پر تعلق رکھنے کا خواہاں بھی رہا اور اس وقت کامن ویلتھ اور اس طرح کے ممالک دہری شہریت کے معاملے میں خاموش رہے۔
اب وقت بہت آگے نکل چکا ہے۔آپ کسی ملک کے باشندے ہیں، اپنے پاسپورٹ پر دنیا کے 99 فیصد ممالک میں جاسکتے ہیں، رہ سکتے ہیں، کاروبار کرسکتے ہیں، مقامی قوانین کے ماتحت رہتے ہوئے تفریح کرسکتے ہیں، تعلیم حاصل کرسکتے، میڈیکل کی آسانیاں حاصل کرسکتے۔ اس لیے بہتر ہے کہ صرف ایک قومیت اور ایک پاسپورٹ رکھا جائے تاکہ اپنے لیے بھی اور ملکوں کے لیے قانونی دشواریاں کم ہوجائیں۔
ہمارے یہاں چونکہ طویل معاشی بدحالی نے پوری قوم کو احساس محرومی کا شکار کردیا ہے اور چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر شخص دو کشتیوں میں ایک ساتھ سفر کرنا چاہتا ہے اور ایک پراعتبار نہیں کرتا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دو کشتیوں پر سوار صرف ڈوب سکتا ہے، ساحل تک کبھی نہیں پہنچتا۔
عوام پریشان ہیں کہ تین بار تین عشروں کی طاقتور فوجی حکومتیں بھی یکجا اور متحد قوم کو بتدریج انتشار کا شکار ہونے سے نہیں روک سکیں۔ اب جب سیاست دانوں کو موقع ملا تو جمہوریت جس سے پوری قوم کو بے پناہ امیدیں وابستہ تھیں، خاک میں ملتی نظر آرہی ہیں۔ سیاست دانوں اور ارباب حکومت کے بڑے بڑے نام اپنے بیانات اور عمل میں اس قدر تضاد کا شکار ہیں کہ قوم جمہوریت کو اب اقبال کے اس شعر پر تول رہی ہے کہ
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
کاروباری افراد ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہیں۔ سرکاری ملازم رشوت کو اپنا جائز حق سمجھتے ہیں۔ سیاست دان زبان سے زیادہ بندوق کی گولیوں کی آواز پر اپنا زور دِکھانا چاہتے ہیں۔ لیکن آج کا یہ کالم دراصل دہری قومیت یا دہری شہریت پر ہے، پوری قوم کو اس نہایت غیر اہم معاملے میں الجھایا جارہا ہے۔ 18 کروڑ آبادی کا صرف ایک فیصد یعنی ایک لاکھ اسّی ہزار افراد کا بھی یہ مسئلہ نہیں ہے۔ پاکستانی عوام اور آبادی تقریباً دنیا کے ہر ملک میں آباد ہیں، دوسری جنگِ عظیم کے بعد پوری دنیا میں ہجرت کا سلسلہ مشرقی یورپ، افریقہ اور ایشیا کے بیشتر ممالک میں شروع ہوا، ان کی خاص وجوہات معاشی مسائل رہے ہیں اور آج تک اصل وجہ یہی ہیں۔
پاکستانی عوام جو پاکستان سے باہر رہ رہے ہیں، انھیں بنیادی طور پر تین اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا طبقہ وہ جفاکش اور محنت کشوں کا ہے جو مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک میں برسوں سے محنت مزدوری کرتے ہیں اور اپنی آمدنی کا بیشتر حصّہ پاکستان میں اپنے لواحقین کو بھیجتے ہیں، جس کا مقصد پاکستان میں اپنے خاندان کے معیارِ زندگی کو بہتر کرنا ہے اور یہ عمل اس یقین کے ساتھ ہے کہ آج نہیں تو کل اپنی عمر کا آخری حصّہ یہاں اپنی سرزمین پر گزاریں گے۔
یہ صرف پاکستانی پاسپورٹ رکھتے ہیں اور پوری دنیا میں صرف اس پاسپورٹ کے حوالے سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ایک دوسرا طبقہ طالب علموں کا ہے جو پوری دنیا تعلیم کے حصول کے لیے جاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر غیر ممالک خاص کر یورپ اور امریکا میں بہتر معیارِ زندگی کے حوالے سے وہیں بسنے کی کوشش کرتے ہیں اور بس جاتے ہیں۔ تیسرا طبقہ ان پاکستانیوں کا ہے جو کسی نہ کسی طرح مغربی ممالک پہنچ جاتے ہیں اور دن رات محنت مزدوری کرکے چھوٹے موٹے کاروبار کرتے کرتے اپنے پیر جمالیتے ہیں۔
اِن میں تعلیم یافتہ افراد اپنے اپنے شعبوں میں بڑے بڑے عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہی طبقہ اپنے آپ کو بہتر اور مستحکم کرنے کے لیے ان ممالک میں اپنے مکمل حقوق کے حصول کے لیے پہلے لیگل اسٹیٹس یا ورک پرمٹ پھر گرین کارڈ اور پھر مکمل شہریت اور پاسپورٹ حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں، یہ پورا طبقہ نہ صرف اپنے دل کی گہرائیوں سے پاکستان سے محبت کرتا ہے بلکہ دامے درمے سخنے کسی نہ کسی حوالے سے سیاسی، معاشی اور ثقافتی طور پر پاکستان کو ایک مضبوط اور باوقار ملک دیکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہاں ہر لمحے کوشاں رہتا ہے۔
یہ طبقہ ہر شب اپنے ملک کے لیے ٹھنڈی آہیں بھرتا ہے لیکن وہاں کے مصروف معاشرے میں ضم ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر جب وہاں ان کی نئی نسل وجود پاتی ہے تو پھر تقریباً وہیں کا ہو رہتا ہے، سوائے اس کے کہ ہر سانس میں اپنے وطن کی مٹی کی خوشبو ضرور محسوس کرتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہاں کی شہریت کے حصول کے بعد تمام تر احساسات اپنی جگہ پر وہاں کی قانونی ذمے داریاں بھی بڑھ جاتی ہے۔ ان دنوں پاکستان میں اس موضوع پر بحث نہ صرف وقت کا ضیاع بلکہ لاحاصل ہے۔ہمارا برادر مسلم ملک ملائیشیا اس معاملے میں بہت سخت ہے، دہری قومیت کو بڑا جرم گردانتا ہے۔
ہمارا پڑوسی ملک بھارت اس سلسلے میں باقاعدہ قانون رکھتا ہے۔ غیر ممالک بسنے والے ہندوستانیوں کے لیے بھارتی حکومت نے 2006 میں OCI کارڈ کا اجرا کیا جس کا مقصد غیر ممالک میں بسنے والے اور دوسرے ملک کی شہریت رکھنے والے ہندوستانیوں کے لیے سفری آسانیاں فراہم کرنا ہے، ایسے ہندوستانی جو یورپ اور امریکا میں رہتے ہیں اور وہاں کی شہریت حاصل کرچکے ہیں، وہ اپنے وطن آسکتے ہیں۔ میڈیکل اور تعلیم کی آسانیاں ان کا حق ہے۔
جائیداد کی خرید و فروخت کرسکتے ہیں، لیکن انھیں ہندوستانی پاسپورٹ رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی، نہ وہ ووٹ دے سکتے ہیں، نہ وہ انتخابات میں حصّہ لے سکتے ہیں، نہ سرکاری یا نیم سرکاری ملازمت حاصل کرسکتے ہیں۔ اب اگر ان مثالوں کو سامنے رکھا جائے تو پاکستان میں آسان قانون بنایا جاسکتا ہے، جس میںکوئی ابہام نہ ہو۔وہ پاکستانی جو دنیا میں کہیں بھی رہ رہے ہوں، کام کررہے ہوں، کاروبار کررہے ہوں، لیکن ان کے پاس صرف پاکستانی پاسپورٹ اور شہریت ہے، انھیں پاکستانی قوانین کی آسانیاں پاکستان میں رہنے والوں کی طرح حاصل ہوں گی۔
وہ پاکستانی جو باہر تعلیم حاصل کررہے ہیں یا کاروبار یا نوکری کررہے ہیں، ان کے پاس ورک پرمٹ ہے یا گرین کارڈ ہے لیکن مکمل شہریت حاصل نہیں ہے اور صرف پاکستانی پاسپورٹ کے حامل ہیں، انھیں پاکستان میں سوائے سرکاری ملازمت یا انتخابات میں حصّہ لینے کے سوا تمام سہولتیں ملنی چاہئیں۔ایک آخری طبقہ جو بیرونِ ممالک آباد ہے، ان کے پاس وہاں کی شہریت اور پاسپورٹ موجود ہے۔
انھیں پاکستان میں رہنے، جائیداد کی خرید و فروخت کرنے یا کاروبار کی مکمل اجازت کے باوجود نہ تو پاسپورٹ ملنا چاہیے، نہ سرکاری یا نیم سرکاری ملازمت یا حکومتی اداروں میں کوئی عہدہ یا انتخابات میں حصّہ لینا اور ووٹ دینا نہ صرف ممانعت بلکہ قابل جرم قرار پانا چاہیے۔اگر سفری سہولتیں دینا بہت ضروری ہو تو بھی زیادہ سے زیادہ پاسپورٹ حاصل کرنے اور رکھنے کی اجازت دی جاسکتی ہے لیکن یہ بھی غیر ضروری ہے کیوں کہ اپنی شہریت اور اپنا پاسپورٹ سفر کے لیے کافی ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب نو آبادیاتی نظام نے دم توڑا اور امریکی برطانوی اور فرانسیسی کالونیاں ختم ہوئیں اور چھوٹے چھوٹے آزاد ممالک وجود میں آئے تو طویل عرصے تک ہر آزاد ملک ذہنی طور پر اپنے آقا اور اس کی زبان اور کلچر سے نہ صرف متاثر رہا بلکہ کسی نہ کسی طور پر تعلق رکھنے کا خواہاں بھی رہا اور اس وقت کامن ویلتھ اور اس طرح کے ممالک دہری شہریت کے معاملے میں خاموش رہے۔
اب وقت بہت آگے نکل چکا ہے۔آپ کسی ملک کے باشندے ہیں، اپنے پاسپورٹ پر دنیا کے 99 فیصد ممالک میں جاسکتے ہیں، رہ سکتے ہیں، کاروبار کرسکتے ہیں، مقامی قوانین کے ماتحت رہتے ہوئے تفریح کرسکتے ہیں، تعلیم حاصل کرسکتے، میڈیکل کی آسانیاں حاصل کرسکتے۔ اس لیے بہتر ہے کہ صرف ایک قومیت اور ایک پاسپورٹ رکھا جائے تاکہ اپنے لیے بھی اور ملکوں کے لیے قانونی دشواریاں کم ہوجائیں۔
ہمارے یہاں چونکہ طویل معاشی بدحالی نے پوری قوم کو احساس محرومی کا شکار کردیا ہے اور چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر شخص دو کشتیوں میں ایک ساتھ سفر کرنا چاہتا ہے اور ایک پراعتبار نہیں کرتا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دو کشتیوں پر سوار صرف ڈوب سکتا ہے، ساحل تک کبھی نہیں پہنچتا۔