ساڑھے چار ہزار روپے
’’میں ایف اے کا استاد ہوں‘ میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا‘ تم کوئی پروفیسر تلاش کرو‘‘
وہ صاحب جاتے جاتے کچھ رقم دے گئے' بابے نے وہ لفافہ مجھے پکڑا کر کہا ''پتر پیسے گنو'' میں نے لفافہ کھولا اور نوٹ گننا شروع کر دیے' لفافے سے ساڑھے چار ہزار روپے نکلے۔
وہ سستا زمانہ تھا' میری کل تنخواہ تین ہزار دو سو روپے تھی' میں پرانا موٹر سائیکل چلاتا تھا اور فرش پر سوتا تھا' ہم چھ لڑکوں نے دو کمروں کا چھوٹا سا مکان کرائے پر لے رکھا تھا' ایک باتھ روم تھا اور چھوٹا سا صحن' مجھے اس وقت زندگی الجھی ہوئی بے مقصد سی محسوس ہوتی تھی' میں اپنے ساتھیوں' اپنی جاب اور اپنے ماحول کے ساتھ کمفرٹیبل نہیں تھا' رات کی شفٹ میں کام کرتا تھا' دوپہر تک سوتا تھا' دو بجے ناشتہ کرتا تھا اور موٹر سائیکل پر شہر میں نکل جاتا تھا' میں اکثر ممتاز مفتی صاحب کے گھر چلا جاتا تھا۔
مفتی صاحب ٹینشن میں اپنے سر کے بال کھینچتے رہتے تھے اور میں ان کے سامنے بیٹھ کر بکواس کرتا رہتا تھا' میں وہاں سے ڈاکٹر اشفاق حسین کے پاس آ جاتا تھا' اشفاق صاحب ہومیو پیتھک ڈاکٹر تھے' ممتاز مفتی صاحب کے دوست اور رشتے دار تھے اور کمال شخصیت کے مالک تھے' وہ مریض دیکھتے تھے اور میں انھیں دیکھتا رہتا تھا' میں نے پروفیسر احمد رفیق صاحب کو بھی بے مقصدیت کے اسی زمانے میں دریافت کیا' میں گوجرخان پہنچا' پروفیسر صاحب کا گھر تلاش کیا اور ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گیا' میں ہفتے میں ایک آدھ دن ان کے پاس بھی چلا جاتا تھا' وہ زمانہ بہت طویل تھا' میں اس زمانے میں اقبال قلندر نام کے ایک شخص سے متعارف ہوا۔
وہ صاحب جی سکس کے ایک گھر میں جنوں کے ساتھ رہتے تھے' اسلامی یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے اور شام کا وقت وظائف میں خرچ کر دیتے تھے' میں جنوں کو تسلیم نہیں کرتا تھا لیکن وہ نہ صرف انھیں مانتے تھے بلکہ وہ ان کے ساتھ رہتے بھی تھے' وہ اکثر جنات کے ساتھ ہم کلام ہو جاتے تھے' میں اس دوران جنوں کا مذاق اڑاتا رہتا تھا' جنوں نے دو مرتبہ میری جیب میں ریت بھی ڈال دی مگر میں اس کے باوجود ان سے متاثر نہ ہوا' تاہم آج مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں اقبال قلندر کے گھر میں کچھ نہ کچھ تھا ضرور' وہ چار بیڈروم کا ویران گھر تھا۔
اقبال قلندر گھر میں اکیلا رہتا تھا لیکن میں جب بھی وہاں گیا مجھے وہاں بھیڑ کا احساس ہوا' مجھے محسوس ہوتا تھا ہمارے علاوہ بھی وہاں لوگ موجود ہیں' مجھے گھر کی فضا میں بھاری پن کا احساس بھی ہوتا تھا' میں اپنے جسم پر آنکھوں کی تپش بھی محسوس کرتا تھا لیکن میں کیونکہ انا پرست ضدی انسان ہوں چنانچہ میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔
میری اقبال قلندر کے ساتھ دوستی تھی' وہ میرے ساتھ موٹر سائیکل پر گھومتا رہتا' اسلام آباد میں اس کے دو بڑے ٹھکانے تھے' ایم این اے ہاسٹل کے قریب جنگل میں ایک مجذوب بیٹھتا تھا' وہ خوفناک آدمی تھا' لوگ عقیدت میں اس کے پاس آتے تھے اور وہ انھیں ماں بہن کی ننگی گالیاں دیتا تھا' اقبال قلندر چپ چاپ اس کے پاس بیٹھ جاتا تھا' وہ اسے کچھ نہیں کہتا تھا' میں بھی قلندر کے ساتھ جڑ کر بیٹھ جاتا تھا اور یوں مجذوب کی گالیوں سے محفوظ رہتا تھا' مجھے وہ مجذوب جاسوس سا محسوس ہوتا تھا' میں نے ایک دو مرتبہ اس خدشے کا اظہار بھی کیا لیکن اقبال قلندر نے مجھے ڈانٹ دیا' اس کا دوسرا ٹھکانہ سید پور گاؤں سے آگے پہاڑوں کے درمیان ایک کٹیا تھی۔
ہم سید پور گاؤں میں موٹر سائیکل کھڑی کرتے تھے' پیدل پہاڑ پر چڑھتے تھے اور آخر میں اس کٹیا تک پہنچ جاتے تھے' کٹیا میں ایک معذور بابا رہتا تھا' بابے کے دو عجیب وغریب شوق تھے' وہ ڈیک پر نصرت فتح علی خان کی قوالیاں سنتا تھا' بابے نے یہ شغل پورا کرنے کے لیے کٹیا میں ڈیک اور دو بڑی بڑی بیٹریاں لگا رکھی تھیں' وہ گھنٹہ آدھ گھنٹہ بعد ڈیک میں کیسٹ لگاتا' آواز اونچی کرتا اور قوالی کے ساتھ ساتھ جھومنے لگتا' وہ جھومتے جھومتے وجد میں چلا جاتا تھا' اس کے منہ سے کف نکلنے لگتی تھی' زبان دانتوں تلے دب جاتی تھی اور وہ تشنج کے مریض کی طرح زمین پر لوٹنے لگتا تھا۔
مرید بڑی مشکل سے بابے کو کنٹرول کرتے تھے' چرس بابے کا دوسرا شغل تھا' مرید بابے کو چرس کا سگریٹ جلا کر دیتے تھے اور بابا آخری کش تک اسے کھینچ جاتا تھا' بابا ٹانگوں سے معذور تھا' اس کی دونوں ٹانگیں مرجھائی ہوئی چھلی کی طرح اس کے جسم سے لٹک رہی ہوتی تھیں' وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے مریدوں کے کندھے استعمال کرتا تھا' وہ کسی مرید کی گردن پکڑ کر اس کے کندھوں پر چڑھ جاتا تھا اور جب تک چاہتا تھا اس سواری سے لطف اندوز ہوتا تھا' میں سچی بات ہے اس بابے سے بھی زیادہ متاثر نہیں تھا' مجھے وہ نوسر باز لگتا تھا لیکن میں جب اس کے پاس آنے والے لوگوں کو دیکھتا تھا تو میں حیران رہ جاتا تھا۔
بابے کے مریدوں میں ایک سے بڑھ کر ایک شخص شامل تھا' وہ لوگ پڑھے لکھے' کامیاب اور کائیاں تھے' میں اقبال قلندر سے اکثر پوچھتا تھا ''یہ لوگ اس کے پاس کیا لینے آتے ہیں'' وہ مجھے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش کراتا تھا اور کہتا تھا ''ہم اس دور سے گزر رہے ہیں جس میں کوئی شخص کسی کو زیادہ دیر تک بے وقوف نہیں بنا سکتا' یہ اگر واقعی نوسر باز ہوتا تو یہ اب تک یہاں سے غائب ہو چکا ہوتا' بابے میں کچھ ہے جو لوگوں کو یہاں کھینچ لاتا ہے' مجھے قلندر صاحب سے اتفاق نہیں تھا لیکن میں ان کی دل آزاری نہیں کرنا چاہتا تھا۔
میں ایک دن بہت اداس تھا' میں اقبال قلندر کے گھر گیا' وہ گھر پر نہیں تھا' میں وہاں سے ایم این اے ہاسٹل چلا گیا' مجذوب سی ڈی اے کے واٹر ٹینکر کے نیچے کھڑا ہو کر نہا رہا تھا' وہ مجھے دیکھ کر اونچی اونچی آواز میں چلانے لگا' میری اداسی میں اضافہ ہو گیا' میں سید پور چلا گیا' موٹر سائیکل کیکر کے درخت کے ساتھ باندھی اور پیدل چلتا ہوا پہاڑ پر چلا گیا' بابا کٹیا کے سامنے پتھر پر بیٹھا تھا' اس کے سامنے ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص بیٹھا تھا' میں بھی کٹیا کے سامنے پتھر پر بیٹھ گیا' وہ مارچ کے دن تھے' فضا میں ابھی سردی باقی تھی' وہ صاحب اٹھے' بابے کے گندے ہاتھ کو بوسا دیا اور سفید رنگ کا ایک لفافہ پکڑا کر چلے گئے۔
بابے نے مجھے اشارہ کیا اور وہ لفافہ مجھے پکڑا کر بولا ''پتر پیسے گنو'' میں نے لفافہ کھولا اور نوٹ گننا شروع کر دیے' لفافے سے ساڑھے چار ہزار روپے نکلے' میں نے بابے کو رقم بتا دی' اس نے برا سا منہ بنایا اور بولا ''یہ رشید کی رقم نہیں' تم یہ پیسے اپنے پاس رکھ لو' آج شام تک جو شخص تم سے ساڑھے چار ہزار روپے مانگے تم یہ رقم اسے دے دینا'' بابا رکا' لمبا سانس لیا اور بولا ''لیکن یہ یاد رکھنا یہ اللہ کے پیسے ہیں' ان میں خیانت نہیں ہونی چاہیے' مارے جاؤ گے'' میں نے رقم چپ چاپ جیب میں رکھ لی' بابے نے قوالی لگوائی اور سردھننے لگا' میں خاموشی سے بابے کا وجد دیکھتا رہا' تھوڑی دیر بعد ایک میاں بیوی وہاں آ گئے' بابے نے ڈیک بند کرایا۔
اپنا ہلتا ہوا سر دونوں ہاتھوں میں جکڑ کر بیلنس کیا' گندے دانت نکالے اور میاں بیوی سے کہا ''تم دونوں کے پاس اکاون ہزار روپے ہونے چاہئیں'' میاں بیوی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا' بیگ کھولا' نوٹ نکالے اور بابے کے سامنے رکھ دیے' بابے نے مجھے اشارہ کیا' میں نے نوٹ گنے' وہ واقعی 51 ہزار روپے تھے' میں نے ہاں میں سر ہلا دیا' بابے نے اونچی آواز میں ''اوئے رشید' اوئے رشید'' کا نعرہ لگایا' کٹیا کا دروازہ کھلا اور ایک میلا کچیلا سا شخص باہر آ گیا۔
بابے نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور کہا ''پتر یہ رقم لے اور اسپتال میں جمع کرا دے' اللہ تیرے بیٹے کو لمبی زندگی دے گا'' رشید نے رقم اٹھائی اور دوڑ لگا دی' اس کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا' بابا میاں بیوی کی طرف متوجہ ہو کر بولا ''یہ مستری ہے' بچہ بیمار تھا' علاج کے لیے 51 ہزار روپے چاہیے تھے' میں نے اللہ کے دفتر میں عرضی ڈال رکھی تھی' اللہ نے تم لوگوں کو بھجوا دیا' اب اس کا بچہ ٹھیک ہو جائے گا اور اس کے صدقے تمہارا کام بھی ہو جائے گا'' وہ دونوں میاں بیوی خوش ہو گئے' میں شام تک بابے کے پاس بیٹھا رہا۔
میں سورج ڈوبنے کے وقت نیچے آ گیا' موٹر سائیکل کیکر سے کھولی اور دفتر آ گیا' ریسپشن پر ایک لڑکا کھڑا تھا' لڑکے کی آنکھوں میں آنسو صاف دکھائی دے رہے تھے' میں اس کے ساتھ بیٹھ گیا' پتہ چلا وہ فیس نہ ہونے کی وجہ سے ایف اے کا داخلہ نہیں بھجوا سکا اور اب نوکری تلاش کر رہا ہے' میں نے اس سے لیٹ فیس پوچھی' لڑکے نے بتایا ''مجھے اگر ساڑھے چار ہزار روپے مل جائیں تو میں ایف اے کرلوں گا'' میں نے قہقہہ لگایا' بابے کا لفافہ اسے پکڑایا اور دفتر کے اندر داخل ہو گیا۔
میں اگلے دن دوبارہ بابے کے پاس چلا گیا' بابے نے مجھے دیکھا' آنکھ ماری اور کہا ''میں ایف اے کا استاد ہوں' میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا' تم کوئی پروفیسر تلاش کرو'' اور ساتھ ہی ''اکھیاں اڈیکدیاں دل واجاں ماردا' آ جا پردیسیا واسطہ ای پیار دا'' کی دھن پر سر ہلانا شروع کر دیا۔
وہ سستا زمانہ تھا' میری کل تنخواہ تین ہزار دو سو روپے تھی' میں پرانا موٹر سائیکل چلاتا تھا اور فرش پر سوتا تھا' ہم چھ لڑکوں نے دو کمروں کا چھوٹا سا مکان کرائے پر لے رکھا تھا' ایک باتھ روم تھا اور چھوٹا سا صحن' مجھے اس وقت زندگی الجھی ہوئی بے مقصد سی محسوس ہوتی تھی' میں اپنے ساتھیوں' اپنی جاب اور اپنے ماحول کے ساتھ کمفرٹیبل نہیں تھا' رات کی شفٹ میں کام کرتا تھا' دوپہر تک سوتا تھا' دو بجے ناشتہ کرتا تھا اور موٹر سائیکل پر شہر میں نکل جاتا تھا' میں اکثر ممتاز مفتی صاحب کے گھر چلا جاتا تھا۔
مفتی صاحب ٹینشن میں اپنے سر کے بال کھینچتے رہتے تھے اور میں ان کے سامنے بیٹھ کر بکواس کرتا رہتا تھا' میں وہاں سے ڈاکٹر اشفاق حسین کے پاس آ جاتا تھا' اشفاق صاحب ہومیو پیتھک ڈاکٹر تھے' ممتاز مفتی صاحب کے دوست اور رشتے دار تھے اور کمال شخصیت کے مالک تھے' وہ مریض دیکھتے تھے اور میں انھیں دیکھتا رہتا تھا' میں نے پروفیسر احمد رفیق صاحب کو بھی بے مقصدیت کے اسی زمانے میں دریافت کیا' میں گوجرخان پہنچا' پروفیسر صاحب کا گھر تلاش کیا اور ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گیا' میں ہفتے میں ایک آدھ دن ان کے پاس بھی چلا جاتا تھا' وہ زمانہ بہت طویل تھا' میں اس زمانے میں اقبال قلندر نام کے ایک شخص سے متعارف ہوا۔
وہ صاحب جی سکس کے ایک گھر میں جنوں کے ساتھ رہتے تھے' اسلامی یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے اور شام کا وقت وظائف میں خرچ کر دیتے تھے' میں جنوں کو تسلیم نہیں کرتا تھا لیکن وہ نہ صرف انھیں مانتے تھے بلکہ وہ ان کے ساتھ رہتے بھی تھے' وہ اکثر جنات کے ساتھ ہم کلام ہو جاتے تھے' میں اس دوران جنوں کا مذاق اڑاتا رہتا تھا' جنوں نے دو مرتبہ میری جیب میں ریت بھی ڈال دی مگر میں اس کے باوجود ان سے متاثر نہ ہوا' تاہم آج مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں اقبال قلندر کے گھر میں کچھ نہ کچھ تھا ضرور' وہ چار بیڈروم کا ویران گھر تھا۔
اقبال قلندر گھر میں اکیلا رہتا تھا لیکن میں جب بھی وہاں گیا مجھے وہاں بھیڑ کا احساس ہوا' مجھے محسوس ہوتا تھا ہمارے علاوہ بھی وہاں لوگ موجود ہیں' مجھے گھر کی فضا میں بھاری پن کا احساس بھی ہوتا تھا' میں اپنے جسم پر آنکھوں کی تپش بھی محسوس کرتا تھا لیکن میں کیونکہ انا پرست ضدی انسان ہوں چنانچہ میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔
میری اقبال قلندر کے ساتھ دوستی تھی' وہ میرے ساتھ موٹر سائیکل پر گھومتا رہتا' اسلام آباد میں اس کے دو بڑے ٹھکانے تھے' ایم این اے ہاسٹل کے قریب جنگل میں ایک مجذوب بیٹھتا تھا' وہ خوفناک آدمی تھا' لوگ عقیدت میں اس کے پاس آتے تھے اور وہ انھیں ماں بہن کی ننگی گالیاں دیتا تھا' اقبال قلندر چپ چاپ اس کے پاس بیٹھ جاتا تھا' وہ اسے کچھ نہیں کہتا تھا' میں بھی قلندر کے ساتھ جڑ کر بیٹھ جاتا تھا اور یوں مجذوب کی گالیوں سے محفوظ رہتا تھا' مجھے وہ مجذوب جاسوس سا محسوس ہوتا تھا' میں نے ایک دو مرتبہ اس خدشے کا اظہار بھی کیا لیکن اقبال قلندر نے مجھے ڈانٹ دیا' اس کا دوسرا ٹھکانہ سید پور گاؤں سے آگے پہاڑوں کے درمیان ایک کٹیا تھی۔
ہم سید پور گاؤں میں موٹر سائیکل کھڑی کرتے تھے' پیدل پہاڑ پر چڑھتے تھے اور آخر میں اس کٹیا تک پہنچ جاتے تھے' کٹیا میں ایک معذور بابا رہتا تھا' بابے کے دو عجیب وغریب شوق تھے' وہ ڈیک پر نصرت فتح علی خان کی قوالیاں سنتا تھا' بابے نے یہ شغل پورا کرنے کے لیے کٹیا میں ڈیک اور دو بڑی بڑی بیٹریاں لگا رکھی تھیں' وہ گھنٹہ آدھ گھنٹہ بعد ڈیک میں کیسٹ لگاتا' آواز اونچی کرتا اور قوالی کے ساتھ ساتھ جھومنے لگتا' وہ جھومتے جھومتے وجد میں چلا جاتا تھا' اس کے منہ سے کف نکلنے لگتی تھی' زبان دانتوں تلے دب جاتی تھی اور وہ تشنج کے مریض کی طرح زمین پر لوٹنے لگتا تھا۔
مرید بڑی مشکل سے بابے کو کنٹرول کرتے تھے' چرس بابے کا دوسرا شغل تھا' مرید بابے کو چرس کا سگریٹ جلا کر دیتے تھے اور بابا آخری کش تک اسے کھینچ جاتا تھا' بابا ٹانگوں سے معذور تھا' اس کی دونوں ٹانگیں مرجھائی ہوئی چھلی کی طرح اس کے جسم سے لٹک رہی ہوتی تھیں' وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے مریدوں کے کندھے استعمال کرتا تھا' وہ کسی مرید کی گردن پکڑ کر اس کے کندھوں پر چڑھ جاتا تھا اور جب تک چاہتا تھا اس سواری سے لطف اندوز ہوتا تھا' میں سچی بات ہے اس بابے سے بھی زیادہ متاثر نہیں تھا' مجھے وہ نوسر باز لگتا تھا لیکن میں جب اس کے پاس آنے والے لوگوں کو دیکھتا تھا تو میں حیران رہ جاتا تھا۔
بابے کے مریدوں میں ایک سے بڑھ کر ایک شخص شامل تھا' وہ لوگ پڑھے لکھے' کامیاب اور کائیاں تھے' میں اقبال قلندر سے اکثر پوچھتا تھا ''یہ لوگ اس کے پاس کیا لینے آتے ہیں'' وہ مجھے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش کراتا تھا اور کہتا تھا ''ہم اس دور سے گزر رہے ہیں جس میں کوئی شخص کسی کو زیادہ دیر تک بے وقوف نہیں بنا سکتا' یہ اگر واقعی نوسر باز ہوتا تو یہ اب تک یہاں سے غائب ہو چکا ہوتا' بابے میں کچھ ہے جو لوگوں کو یہاں کھینچ لاتا ہے' مجھے قلندر صاحب سے اتفاق نہیں تھا لیکن میں ان کی دل آزاری نہیں کرنا چاہتا تھا۔
میں ایک دن بہت اداس تھا' میں اقبال قلندر کے گھر گیا' وہ گھر پر نہیں تھا' میں وہاں سے ایم این اے ہاسٹل چلا گیا' مجذوب سی ڈی اے کے واٹر ٹینکر کے نیچے کھڑا ہو کر نہا رہا تھا' وہ مجھے دیکھ کر اونچی اونچی آواز میں چلانے لگا' میری اداسی میں اضافہ ہو گیا' میں سید پور چلا گیا' موٹر سائیکل کیکر کے درخت کے ساتھ باندھی اور پیدل چلتا ہوا پہاڑ پر چلا گیا' بابا کٹیا کے سامنے پتھر پر بیٹھا تھا' اس کے سامنے ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص بیٹھا تھا' میں بھی کٹیا کے سامنے پتھر پر بیٹھ گیا' وہ مارچ کے دن تھے' فضا میں ابھی سردی باقی تھی' وہ صاحب اٹھے' بابے کے گندے ہاتھ کو بوسا دیا اور سفید رنگ کا ایک لفافہ پکڑا کر چلے گئے۔
بابے نے مجھے اشارہ کیا اور وہ لفافہ مجھے پکڑا کر بولا ''پتر پیسے گنو'' میں نے لفافہ کھولا اور نوٹ گننا شروع کر دیے' لفافے سے ساڑھے چار ہزار روپے نکلے' میں نے بابے کو رقم بتا دی' اس نے برا سا منہ بنایا اور بولا ''یہ رشید کی رقم نہیں' تم یہ پیسے اپنے پاس رکھ لو' آج شام تک جو شخص تم سے ساڑھے چار ہزار روپے مانگے تم یہ رقم اسے دے دینا'' بابا رکا' لمبا سانس لیا اور بولا ''لیکن یہ یاد رکھنا یہ اللہ کے پیسے ہیں' ان میں خیانت نہیں ہونی چاہیے' مارے جاؤ گے'' میں نے رقم چپ چاپ جیب میں رکھ لی' بابے نے قوالی لگوائی اور سردھننے لگا' میں خاموشی سے بابے کا وجد دیکھتا رہا' تھوڑی دیر بعد ایک میاں بیوی وہاں آ گئے' بابے نے ڈیک بند کرایا۔
اپنا ہلتا ہوا سر دونوں ہاتھوں میں جکڑ کر بیلنس کیا' گندے دانت نکالے اور میاں بیوی سے کہا ''تم دونوں کے پاس اکاون ہزار روپے ہونے چاہئیں'' میاں بیوی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا' بیگ کھولا' نوٹ نکالے اور بابے کے سامنے رکھ دیے' بابے نے مجھے اشارہ کیا' میں نے نوٹ گنے' وہ واقعی 51 ہزار روپے تھے' میں نے ہاں میں سر ہلا دیا' بابے نے اونچی آواز میں ''اوئے رشید' اوئے رشید'' کا نعرہ لگایا' کٹیا کا دروازہ کھلا اور ایک میلا کچیلا سا شخص باہر آ گیا۔
بابے نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور کہا ''پتر یہ رقم لے اور اسپتال میں جمع کرا دے' اللہ تیرے بیٹے کو لمبی زندگی دے گا'' رشید نے رقم اٹھائی اور دوڑ لگا دی' اس کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا' بابا میاں بیوی کی طرف متوجہ ہو کر بولا ''یہ مستری ہے' بچہ بیمار تھا' علاج کے لیے 51 ہزار روپے چاہیے تھے' میں نے اللہ کے دفتر میں عرضی ڈال رکھی تھی' اللہ نے تم لوگوں کو بھجوا دیا' اب اس کا بچہ ٹھیک ہو جائے گا اور اس کے صدقے تمہارا کام بھی ہو جائے گا'' وہ دونوں میاں بیوی خوش ہو گئے' میں شام تک بابے کے پاس بیٹھا رہا۔
میں سورج ڈوبنے کے وقت نیچے آ گیا' موٹر سائیکل کیکر سے کھولی اور دفتر آ گیا' ریسپشن پر ایک لڑکا کھڑا تھا' لڑکے کی آنکھوں میں آنسو صاف دکھائی دے رہے تھے' میں اس کے ساتھ بیٹھ گیا' پتہ چلا وہ فیس نہ ہونے کی وجہ سے ایف اے کا داخلہ نہیں بھجوا سکا اور اب نوکری تلاش کر رہا ہے' میں نے اس سے لیٹ فیس پوچھی' لڑکے نے بتایا ''مجھے اگر ساڑھے چار ہزار روپے مل جائیں تو میں ایف اے کرلوں گا'' میں نے قہقہہ لگایا' بابے کا لفافہ اسے پکڑایا اور دفتر کے اندر داخل ہو گیا۔
میں اگلے دن دوبارہ بابے کے پاس چلا گیا' بابے نے مجھے دیکھا' آنکھ ماری اور کہا ''میں ایف اے کا استاد ہوں' میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا' تم کوئی پروفیسر تلاش کرو'' اور ساتھ ہی ''اکھیاں اڈیکدیاں دل واجاں ماردا' آ جا پردیسیا واسطہ ای پیار دا'' کی دھن پر سر ہلانا شروع کر دیا۔