شہریوں کی زمین دہشت گردوں کی آماجگاہ
کراچی شہر میں زمینوں پر قبضہ کرنے کی ایک پرانی روایت رہی ہے
راقم کا گزشتہ کالم ذاتی رہائش گاہ کے حصول سے متعلق تھا۔ قارئین کی ایک بڑی تعداد نے اس کالم کی اشاعت پر خوشی کا اظہارکیا اور توقع ظاہر کی کہ اہل ارباب واختیاراس مسئلے کے حل کے لیے دی گئی تجاویز پرغورکریں گے۔ رہائش سے ہی متعلق ایک صاحب نے اس مسئلے سے منسلک ایک اور مسئلہ کے بارے میں بتایا کہ کراچی شہر میں بہت ساری ایسی سوسائٹیز ہیں کہ جن کی زمین پر قابضین بیٹھے ہیں اور یہ جگہیں دہشت گردوں کے لیے ایک بڑی سہولت ہیں جب کہ غریب شہری اپنی زمین ہونے کے باوجود بے زمین ہیں۔
گزشتہ ہفتے ایک ایسی ہی سوسائٹی کی زمین دیکھنے کا اتفاق ہوا تو اندازہ ہوا کہ یہ زمین تو سماج دشمن اور دہشت گردوں کی بہترین آماج گاہ ہوسکتی یعنی یہاں دہشت گردوں کی شناخت با آسانی چھپ سکتی ہے۔ یہ علاقہ کراچی شہر کے سہراب گوٹھ سے آگے سپرہائی وے کی جانب جاتے ہوئے الٹے ہاتھ پر ہے جو اسکیم نمبر 33 کے نام سے مشہور ہے، اس اسکیم میں کئی سوسائیٹز کی زمینیں ہیں جن پر باہر سے آئے ہوئے لوگوں نے قبضہ کرکے پہلے جھونپڑیاں قائم کیں تھیں پھرکچے پکے مکانات بنا لیے۔
قبضہ کرنے والے یہ لوگ افغانی ہیں تاہم ان میں سے اکثر نے یہاں کے شناختی کارڈ بھی بنوالیے ہیں۔ایک صاحب نے ہمیں اس جگہ کا دورہ کرایا اور بتایا کہ اس اسکیم 33 میں بجنورہاؤ سنگ سوسائٹی کی تمام زمین پر افغانی قبضہ کر چکے ہیں، سوسائٹی کی جانب سے یہاں باڑ لگا کر ایک چوکیدار بھی بٹھایا گیا تھا مگر یہاں کے جرائم پیشہ افراد نے ڈرا دھمکا کر اسے بھگا دیا اور اب یہاں جرائم پیشہ افرادکا مکمل کنٹرول ہے اور یہ ساری آبادی افغانیوں پر مشتمل ہے اب اگر کوئی اپنا پلاٹ یہاں دیکھنے کی نیت سے آتا بھی ہے تو یہ لوگ موبائل فون اور نقدی چھین کر مار بھگا دیتے ہیں۔
یہی لوگ شہر میں جب کبھی بھی حالات خراب دیکھتے ہیں تو اپنی آبادی سے سپر ہائی وے کے روڈ پر آکر اسے بند کردیتے ہیں اور آنے جانے والوں سے لوٹ مار بھی کرتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ایک آدھ بار یہاں آپریشن بھی ہو چکا ہے مگر یہاں کی آبادیاں بدستور قائم ہیں جس کی وجہ سے یہ جگہ کرمنل لوگوں کے لیے مستقل ٹھکانہ بنی ہوئی ہے۔
مذ کورہ بالا بات غلط نہیں ہے اس قسم کی خبریں اخبارات کی زینت بھی بنتی رہی ہیں ۔ بلاشبہ کراچی شہر میں زمینوں پر قبضہ کرنے کی ایک پرانی روایت رہی ہے، پہلے تو صرف سرکاری زمینوں پر ہی قبضے ہوا کرتے تھے مگر وقت کے ساتھ اس کراچی شہر میںبڑی بڑی مافیاؤں نے صرف خالی زمینوں پر ہی نہیں، مختلف اسکیموں اورسوسائٹیز کی زمینوں پر بھی قبضے شروع کردیے۔
ان قابضین میں ایک تعداد ایسی بھی تھی جو کراچی شہر سے تعلق نہ رکھتی تھی اور کسی سبب اس شہرمیں آ بسی تھی۔ ایک ایسی ہی بڑی تعداد افغانیوں کی بھی ہے جو ضیا الحق کے دور میں افغانستان سے ہجرت کرکے وقتی طور پر پا کستان اور خاص کر اس کراچی شہر میں آبسی۔ اس وقت چونکہ افغانستان میں جہاد چل رہا تھا چنانچہ جہاد کے نام پر ہمدردی کے طور پر پاکستان نے افغانیوں کی خوب مدد کی،اس مدد کا ایک حصہ ان مہاجرین کی کراچی جیسے شہر میں آباد ہونے پر مدد کرنا بھی تھا۔
یقیناً یہ مدد اس وقت کے حالات کے تناظر میں تو درست تھی مگر بعد میں حالات تبدیل ہونے کے با وجود یہ افغان مہاجرین یہی رہے اور انھوں نے کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ اور اسکیم نمبر 33 کے وسیع وعریض علاقے پر ناجائز قبضہ بھی کرلیا۔ ناجائز اس لحاظ سے کہ پہلے تو یہ لوگ خالی زمین اور میدانوں میں آباد ہوئے مگر پھر ان کی آبادی اور قبضے کی حدود بڑھتی چلی گئی حتیٰ کہ اسکیم نمبر 33 میں مختلف اسکیموں کی زمینوں پر انھوں نے قبضہ کرنا شروع کردیا۔
بات صرف ان افغانیوں کی یہاں رہائش تک ہوتی تو قابل قبول ہوتی مگر ان کی جانب سے مختلف سوسائیٹز کی زمینوں پر قبضے کی صورتحال نے ایک نیا مسئلہ کھڑا کردیا۔ یعنی جن سوسائیٹز کی زمینوں پر انھوں نے قبضہ کیا وہ کراچی کے غریب اور لوئر مڈل کلاس کے لوگوں کی زمینیں تھیں جو ان شہریوں نے قسطوں میں رقم دے کر مستقبل میں اپنا گھر بنانے کے لیے حاصل کی تھیں مگر افسوس کہ چالیس برس سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ مڈل کلاس اور غریب شہری اپنی ہی زمینوں کے قبضے حاصل کرنے سے محروم ہیں۔
اسکیم 33 میں بجنور سوسائٹی کے ایک الاٹی نے اپنی دکھ بھری داستان سناتے ہوئے بتایا کہ وہ گزشتہ چالیس برسوں سے اس سوسائٹی والوں کو اپنے پلاٹ کی رقم قسطوں میں ادا کرتے ہوئے آرہا تھا مگر جب زمین لینے کا وقت آیا تو سو سائٹی نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے، افغانیوں نے آپ کی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے، کورٹ سے ہم کیس جیت چکے ہیں، فیصلہ ہمارے حق میں آگیا ہے مگر ان قابضین کو کیسے بھگائیں؟ پولیس یا رینجز سے مدد کے لیے انھیں نذرانہ دینے کی ضرورت ہے بغیر نذرانے کے کوئی بھی عدالت کے حکم کے باوجود قبضہ خالی کرانے کو تیار نہیں ہے۔ لہذا اب سوسائٹی مزید رقم کی ڈیمانڈکر رہی ہے کہ الاٹیز پیسہ دیں تو پھر قبضہ خالی کرایا جا سکے۔
راقم کے خیال میں یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ کراچی شہر میں امن وامان کا مسئلہ پہلے ہی مشکل سے قدرے قابو میں آیا ہے تاہم ملک بھر میں دہشت گردی کا مسئلہ اب بھی ختم نہیں ہوا ہے ایسے میں کراچی جیسے بڑے شہر میں غیرملکیوں کی کچی پکی ایسی آبادیاں کہ جہاں جرائم پیشہ عناصر کو چھپنے اور خفیہ سرگرمیاں کرنے کی آسانی ہو، ایک انتہائی خطرناک معاملہ ہے۔ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ آخر کیوں ایک عرصے سے اس جگہ کو ناجائز قابضین سے خالی نہیں کرایا گیا ہے؟ کیا ان کچی اورخطرناک آبادیوں کو یہاں سے ہٹانا ہماری فورسز کے لیے بھی مشکل ہے؟ آخر اس غفلت کے پیچھے کیا مصلحت ہے؟ خدانخواستہ کل کوئی بڑا واقعہ ہوگیا تو کیا ہوگا؟ یہ مسئلہ حکومتی رٹ کے لیے بھی چیلنج ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے موٹر وے بنانے کا اعلان کیا گیا تھا جس کے بعد توقع تھی کہ کراچی شہر میں واقع یہ کچی آبادیاں بھی ہٹا دی جائیں گی کیونکہ یہ آبادیاں نہ صرف یہ کہ موٹروے کے راستے میں آرہی تھیں بلکہ یہ خطرہ بھی تھا کہ جرائم کی یہ آبادیاں مستقبل میں موٹروے پر امن وامان کا مسئلہ کھڑا کر سکتی ہیں۔ لیکن یہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ کراچی شہر میں موٹروے کا یہ منصوبہ صرف خبروں میں آکر ختم ہوگیا اور آج کراچی شہر میں آپ سہراب گوٹھ سے الآصف سے ہوتے ہوئے سپر ہائی وے سے گزریں تو آپ کو الٹے ہاتھ پر وہی پرانا منظر نظر آئے گا جہاں تجاویزات اورکچی آبادیوں کی بھر مار ہے، جہاں وہی ٹوٹی پھوٹی مین سپر ہائی وے اور اس سے منسلک کچی پکی سروس روڈ ہے جس پر بیرون شہر سے آنے جانے والا ہیوی ٹریفک دن رات گزرتا ہے۔
نہیں معلوم کہ یہ سب کچھ کیوں ہے؟ کیا کراچی کو نظرانداز کرنے کی بات ہے؟ یا کہ کوئی منصوبہ عنقریب یہ تمام معاملات درست کردے گا یا پھر کوئی اور سسٹم کی خرابی ہے! بہرکیف راقم کے خیال میں یہ مسئلہ صرف ڈیویلپمنٹ یا کچی آبادیوں کا نہیں بلکہ غریب شہریوں کی زمین پر قبضے کا اور دہشت گردوں کی ممکنہ پناہ گاہوں کا ہے۔ امید ہے کہ اعلیٰ حکام کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جاری مہم میں اس مسئلے کو بھی مد نظر رکھا جائے گا۔
گزشتہ ہفتے ایک ایسی ہی سوسائٹی کی زمین دیکھنے کا اتفاق ہوا تو اندازہ ہوا کہ یہ زمین تو سماج دشمن اور دہشت گردوں کی بہترین آماج گاہ ہوسکتی یعنی یہاں دہشت گردوں کی شناخت با آسانی چھپ سکتی ہے۔ یہ علاقہ کراچی شہر کے سہراب گوٹھ سے آگے سپرہائی وے کی جانب جاتے ہوئے الٹے ہاتھ پر ہے جو اسکیم نمبر 33 کے نام سے مشہور ہے، اس اسکیم میں کئی سوسائیٹز کی زمینیں ہیں جن پر باہر سے آئے ہوئے لوگوں نے قبضہ کرکے پہلے جھونپڑیاں قائم کیں تھیں پھرکچے پکے مکانات بنا لیے۔
قبضہ کرنے والے یہ لوگ افغانی ہیں تاہم ان میں سے اکثر نے یہاں کے شناختی کارڈ بھی بنوالیے ہیں۔ایک صاحب نے ہمیں اس جگہ کا دورہ کرایا اور بتایا کہ اس اسکیم 33 میں بجنورہاؤ سنگ سوسائٹی کی تمام زمین پر افغانی قبضہ کر چکے ہیں، سوسائٹی کی جانب سے یہاں باڑ لگا کر ایک چوکیدار بھی بٹھایا گیا تھا مگر یہاں کے جرائم پیشہ افراد نے ڈرا دھمکا کر اسے بھگا دیا اور اب یہاں جرائم پیشہ افرادکا مکمل کنٹرول ہے اور یہ ساری آبادی افغانیوں پر مشتمل ہے اب اگر کوئی اپنا پلاٹ یہاں دیکھنے کی نیت سے آتا بھی ہے تو یہ لوگ موبائل فون اور نقدی چھین کر مار بھگا دیتے ہیں۔
یہی لوگ شہر میں جب کبھی بھی حالات خراب دیکھتے ہیں تو اپنی آبادی سے سپر ہائی وے کے روڈ پر آکر اسے بند کردیتے ہیں اور آنے جانے والوں سے لوٹ مار بھی کرتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ایک آدھ بار یہاں آپریشن بھی ہو چکا ہے مگر یہاں کی آبادیاں بدستور قائم ہیں جس کی وجہ سے یہ جگہ کرمنل لوگوں کے لیے مستقل ٹھکانہ بنی ہوئی ہے۔
مذ کورہ بالا بات غلط نہیں ہے اس قسم کی خبریں اخبارات کی زینت بھی بنتی رہی ہیں ۔ بلاشبہ کراچی شہر میں زمینوں پر قبضہ کرنے کی ایک پرانی روایت رہی ہے، پہلے تو صرف سرکاری زمینوں پر ہی قبضے ہوا کرتے تھے مگر وقت کے ساتھ اس کراچی شہر میںبڑی بڑی مافیاؤں نے صرف خالی زمینوں پر ہی نہیں، مختلف اسکیموں اورسوسائٹیز کی زمینوں پر بھی قبضے شروع کردیے۔
ان قابضین میں ایک تعداد ایسی بھی تھی جو کراچی شہر سے تعلق نہ رکھتی تھی اور کسی سبب اس شہرمیں آ بسی تھی۔ ایک ایسی ہی بڑی تعداد افغانیوں کی بھی ہے جو ضیا الحق کے دور میں افغانستان سے ہجرت کرکے وقتی طور پر پا کستان اور خاص کر اس کراچی شہر میں آبسی۔ اس وقت چونکہ افغانستان میں جہاد چل رہا تھا چنانچہ جہاد کے نام پر ہمدردی کے طور پر پاکستان نے افغانیوں کی خوب مدد کی،اس مدد کا ایک حصہ ان مہاجرین کی کراچی جیسے شہر میں آباد ہونے پر مدد کرنا بھی تھا۔
یقیناً یہ مدد اس وقت کے حالات کے تناظر میں تو درست تھی مگر بعد میں حالات تبدیل ہونے کے با وجود یہ افغان مہاجرین یہی رہے اور انھوں نے کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ اور اسکیم نمبر 33 کے وسیع وعریض علاقے پر ناجائز قبضہ بھی کرلیا۔ ناجائز اس لحاظ سے کہ پہلے تو یہ لوگ خالی زمین اور میدانوں میں آباد ہوئے مگر پھر ان کی آبادی اور قبضے کی حدود بڑھتی چلی گئی حتیٰ کہ اسکیم نمبر 33 میں مختلف اسکیموں کی زمینوں پر انھوں نے قبضہ کرنا شروع کردیا۔
بات صرف ان افغانیوں کی یہاں رہائش تک ہوتی تو قابل قبول ہوتی مگر ان کی جانب سے مختلف سوسائیٹز کی زمینوں پر قبضے کی صورتحال نے ایک نیا مسئلہ کھڑا کردیا۔ یعنی جن سوسائیٹز کی زمینوں پر انھوں نے قبضہ کیا وہ کراچی کے غریب اور لوئر مڈل کلاس کے لوگوں کی زمینیں تھیں جو ان شہریوں نے قسطوں میں رقم دے کر مستقبل میں اپنا گھر بنانے کے لیے حاصل کی تھیں مگر افسوس کہ چالیس برس سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ مڈل کلاس اور غریب شہری اپنی ہی زمینوں کے قبضے حاصل کرنے سے محروم ہیں۔
اسکیم 33 میں بجنور سوسائٹی کے ایک الاٹی نے اپنی دکھ بھری داستان سناتے ہوئے بتایا کہ وہ گزشتہ چالیس برسوں سے اس سوسائٹی والوں کو اپنے پلاٹ کی رقم قسطوں میں ادا کرتے ہوئے آرہا تھا مگر جب زمین لینے کا وقت آیا تو سو سائٹی نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے، افغانیوں نے آپ کی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے، کورٹ سے ہم کیس جیت چکے ہیں، فیصلہ ہمارے حق میں آگیا ہے مگر ان قابضین کو کیسے بھگائیں؟ پولیس یا رینجز سے مدد کے لیے انھیں نذرانہ دینے کی ضرورت ہے بغیر نذرانے کے کوئی بھی عدالت کے حکم کے باوجود قبضہ خالی کرانے کو تیار نہیں ہے۔ لہذا اب سوسائٹی مزید رقم کی ڈیمانڈکر رہی ہے کہ الاٹیز پیسہ دیں تو پھر قبضہ خالی کرایا جا سکے۔
راقم کے خیال میں یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ کراچی شہر میں امن وامان کا مسئلہ پہلے ہی مشکل سے قدرے قابو میں آیا ہے تاہم ملک بھر میں دہشت گردی کا مسئلہ اب بھی ختم نہیں ہوا ہے ایسے میں کراچی جیسے بڑے شہر میں غیرملکیوں کی کچی پکی ایسی آبادیاں کہ جہاں جرائم پیشہ عناصر کو چھپنے اور خفیہ سرگرمیاں کرنے کی آسانی ہو، ایک انتہائی خطرناک معاملہ ہے۔ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ آخر کیوں ایک عرصے سے اس جگہ کو ناجائز قابضین سے خالی نہیں کرایا گیا ہے؟ کیا ان کچی اورخطرناک آبادیوں کو یہاں سے ہٹانا ہماری فورسز کے لیے بھی مشکل ہے؟ آخر اس غفلت کے پیچھے کیا مصلحت ہے؟ خدانخواستہ کل کوئی بڑا واقعہ ہوگیا تو کیا ہوگا؟ یہ مسئلہ حکومتی رٹ کے لیے بھی چیلنج ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے موٹر وے بنانے کا اعلان کیا گیا تھا جس کے بعد توقع تھی کہ کراچی شہر میں واقع یہ کچی آبادیاں بھی ہٹا دی جائیں گی کیونکہ یہ آبادیاں نہ صرف یہ کہ موٹروے کے راستے میں آرہی تھیں بلکہ یہ خطرہ بھی تھا کہ جرائم کی یہ آبادیاں مستقبل میں موٹروے پر امن وامان کا مسئلہ کھڑا کر سکتی ہیں۔ لیکن یہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ کراچی شہر میں موٹروے کا یہ منصوبہ صرف خبروں میں آکر ختم ہوگیا اور آج کراچی شہر میں آپ سہراب گوٹھ سے الآصف سے ہوتے ہوئے سپر ہائی وے سے گزریں تو آپ کو الٹے ہاتھ پر وہی پرانا منظر نظر آئے گا جہاں تجاویزات اورکچی آبادیوں کی بھر مار ہے، جہاں وہی ٹوٹی پھوٹی مین سپر ہائی وے اور اس سے منسلک کچی پکی سروس روڈ ہے جس پر بیرون شہر سے آنے جانے والا ہیوی ٹریفک دن رات گزرتا ہے۔
نہیں معلوم کہ یہ سب کچھ کیوں ہے؟ کیا کراچی کو نظرانداز کرنے کی بات ہے؟ یا کہ کوئی منصوبہ عنقریب یہ تمام معاملات درست کردے گا یا پھر کوئی اور سسٹم کی خرابی ہے! بہرکیف راقم کے خیال میں یہ مسئلہ صرف ڈیویلپمنٹ یا کچی آبادیوں کا نہیں بلکہ غریب شہریوں کی زمین پر قبضے کا اور دہشت گردوں کی ممکنہ پناہ گاہوں کا ہے۔ امید ہے کہ اعلیٰ حکام کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جاری مہم میں اس مسئلے کو بھی مد نظر رکھا جائے گا۔