4 بدحال ممالک میں بڑے انسانی المیے کے آثار

مشرق وسطیٰ میں جو پراکسی جنگ ہو رہی ہے اس کا سب سے زیادہ اثر غریب ترین عرب ممالک پر پڑا ہے

اقوام متحدہ نے انتباہ دیا ہے کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد دنیا بدترین انسانی بحران کی زد میں آ گئی ہے جس میں چار ممالک کے دو کروڑ سے زیادہ لوگ فاقہ کشی اور قحط سالی کا شکار ہو چکے ہیں۔

عالمی ادارے کے حقوق انسانی کے شعبے کے سربراہ سٹیفن اوبرائن نے جمعہ کو اس سنگین بحران کے مقابلے کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جولائی کے مہینے تک 4.4ارب ڈالر کی رقم اکٹھی ہو جانی چاہیے جو نائیجیریا' صومالیہ' جنوبی سوڈان اور یمن سے یہ ہولناک قحط سالی ختم کرنے کے لیے استعمال کی جائے گی بصورت دیگر فاقہ کشی سے موت کے منہ میں جانے والوں کی تعداد کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکے گا۔ اوبرائن نے یہ خطرناک انتباہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں کیا۔

انھوں نے کہا کہ اگر اس سنگین ترین مسئلہ میں پوری دنیا نے مشترکہ طور پر باہمی تعاون کے ساتھ مدد نہ کی تو پھر ایک بے حد بڑے انسانی المیے کو وقوع پذیر ہونے سے روکا نہ جا سکے گا جب کہ بھوک سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہو گی۔ انھوں نے بتایا کہ فی الوقت 7ملین (یعنی کم از کم ستر لاکھ) لوگ خوراک سے بالکل محروم ہیں جن میں سے چالیس ہزار سے زاید پہلے ہی مر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ اس بحران میں سنگینی 2015 میں عرب ممالک کے باغیوں کے خلاف بے دریغ فوجی کارروائیوں میں نمایاں ہوئی۔

مسٹر اوبرائن نے بتایا کہ مشرق وسطیٰ میں جو پراکسی جنگ ہو رہی ہے اس کا سب سے زیادہ اثر غریب ترین عرب ممالک پر پڑا ہے۔ اوبرائن نے بتایا کہ متذکرہ ممالک کے ساتھ حالیہ ملاقاتوں میں یہ سنگین بحران زیربحث آیا جس کے بارے میں دونوں طرف سے حالات کو بہتر بنانے کے وعدے کیے گئے اور یقین دہانیاں کرائی گئیں کہ ابھی تک ان یقین دہانیوں کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔


اوبرائن نے بتایا کہ اس معاملے میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے متاثرین کو رسائی کی اجازت نہیں دی جا رہی جس وجہ سے صورتحال میں کوئی بہتری پیدا نہیں ہو سکی۔ انھوں نے بتایا کہ فی الوقت اس بحران کا زیادہ اثر یمن میں دیکھا جا رہا ہے مگر وہاں سے متاثرین کو منتقل کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی حالانکہ تمام فریقوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ متاثرین کو محفوظ رسائی دے دیں گے لیکن کئی مواقع پر ایسا بھی ہوا جب لاکھوں کی تعداد میں متاثرین کسی جگہ سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے اندھا دھند فائرنگ کی زد میں آ گئے اور ہزاروں لاشیں گر گئیں۔

مسٹر اوبرائن نے مزید بتایا کہ اب 25اپریل کو جنیوا میں یمن کے مسئلہ پر وزارتی سطح کا اجلاس ہو گا جس میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوئیرز بھی شرکت کریں گے ڈاکٹر اوبرائن نے مزید بتایا کہ یہ ہولناک قحط انسانی پالیسیوں اور انسانی ہاتھوں کا تشکیل کردہ ہے جس وجہ سے یہ اور زیادہ قابل مذمت اور قابل تشویش ہے۔

اوبرائن نے کہا انھوں نے جو صورتحال دیکھی ہے وہ بد سے بدترین ہے۔ جنوبی سوڈان کی قحط سالی بھی انسانی ہاتھوں سے پیدا کی گئی ہے۔ اور متحارب فریق خود اس قحط کے ذمے دار ہیں جب کہ اس کی ذمے داری ان پر بھی عاید ہوتی ہے جو سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے مداخلت نہیں کر رہے اور نہ ہی تشدد کو رکوانے کی کوئی کوشش کی جا رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ 7.5ملین (پچہتر لاکھ) سے زاید لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے۔

اوبرائن نے مزید بتایا کہ 3.4ملین (34لاکھ) سے زائد لوگ گھروں سے بے گھر کر دیے گئے ہیں اور یہ صرف گزشتہ سال کے اعداد و شمار ہیں جب کہ امسال صرف جنوری میں جنوبی سوڈان سے ہجرت کرنے والوں کی تعداد 2لاکھ سے زاید ہے۔ صومالیہ کی آدھی سے زاید آبادی جس کی تعداد 62لاکھ کے لگ بھگ ہے اسے فوری امداد کی ضرورت ہے ورنہ وہ لوگ بھی بال بچوں سمیت ہلاک ہو جائیں گے۔

 
Load Next Story