دو آدمیوں کے دو فیصلے
کبھی کبھی کوئی تدبیر اختیار کی جاتی ہے
خوش قسمتی کیا ہے؟ تقدیر کسے کہتے ہیں؟ کبھی کبھی کوئی تدبیر اختیار کی جاتی ہے اور دو آدمی جب اپنے اپنے فیصلے کرتے ہیں تو اس کا اثر دس سال یا کئی برسوں بعد بھی دکھائی دیتا ہے۔ ان کی اپنی زندگی میں بھی اور دوسروں کی زندگی میں بھی۔
مارچ 2007 میں جنرل پرویز مشرف اور جسٹس افتخار چوہدری نے اپنے اپنے فیصلے کیے۔ ایک عشرہ گزرنے پر سندھ ہائی کورٹ کی عدالت نمبر ایک میں اس کے اثرات محسوس کیے گئے۔ مشرف کے غیر آئینی اقدامات کے حامی نقصان میں رہے اور افتخار چوہدری کی حمایت کرنے والے فائدے میں رہے۔ کیسے؟
یہ فل کورٹ ریفرنس جسٹس سجاد علی شاہ کے سپریم کورٹ کا جج بننے کے موقع پر تھا۔ کمرہ عدالت وکلا سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ صوبے کی عدالت کی سربراہی کے بعد ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کا جج بننا ایک اعزاز کی بات تھی۔ محنت، صلاحیت اور جانفشانی کے ساتھ ساتھ قسمت کے دخل کو بھی یاد رکھا جائے گا۔ اس موقع پر ہم صدر زرداری اور گورنر سلمان تاثیر کے فیصلوں کو بھی نظرانداز نہیں کرسکیں گے۔
دو آدمیوں کے دو فیصلوں کی بات ہو رہی ہے تو نواز شریف اور شہباز شریف کا بھی تذکرہ ہوگا اور قاضی حسین احمد اور عمران خان کے فیصلوں کو بھی نہیں بھلایا جاسکے گا۔ دلچسپ اتار چڑھاؤ اور سیاسی کشمکش میں کیے گئے فیصلوں نے دور دراز کے انسانوں کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ تقدیر اور تدبیر کی اس داستان کی ابتدا کہاں سے ہوتی ہے اور اس کا بظاہر اختتام کہاں ہوتا ہے؟
آرمی ہاؤس راولپنڈی سے شروع ہونے والی کہانی سندھ ہائی کورٹ کی عدالت کے کمرہ نمبر ایک پر آکر وقتی طور پر ٹھہرے گی۔ انسانوں کے فیصلے کس طرح دوسروں کے فیصلوں کی بدولت کامیابی سے ناکامی یا زوال سے عروج کی جانب بڑھتے ہیں۔ ایک فیصلہ ایک وقت میں بڑا کامیاب دکھائی دیتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھانے والے اپنی تدبیر پر نازاں ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے کیے گئے فیصلے بازی پلٹ دیتے ہیں۔ ہارنے والے کامیاب ہوجاتے ہیں اور جیتنے والوں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ یہی کچھ دلچسپ داستان پنڈی سے کراچی تک دس برسوں میں پہنچی ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے جسٹس افتخار چوہدری کو برطرف کردیا۔ چار دن بعد سپریم کورٹ نے اپنے چیف کو طلب کیا۔ یہ 13 مارچ کی بات تھی۔ آج سے پورے دس سال پہلے جسٹس چوہدری کے بال کھینچے گئے۔ وکلا میں اشتعال پیدا ہوا۔ بار متحد ہوگئی لیکن پاکستان کی عدلیہ دو حصوں میں بٹ گئی۔ اس نازک مرحلے پر کچھ ججوں نے کام جاری رکھا اور کچھ نے انکار کردیا۔ یہیں سے تقدیر اور تدبیر کا کھیل شروع ہوتا ہے۔ وکلا تحریک چوتھے مہینے میں داخل ہوئی تو پرویز مشرف نے افتخار چوہدری اور دیگر ججوں کو بحال کردیا۔ ابھی جج اور جنرل کی کشمکش ختم نہیں ہوئی تھی۔
مشرف کے سر پر ایک تلوار لٹک رہی تھی۔ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی تلوار۔ اگلے پانچ سال کے لیے صدر پاکستان منتخب ہونے کی اور وہ بھی باوردی۔ یقینی طور پر معاملہ سپریم کورٹ میں جانا تھا اور مشرف کی قسمت کا فیصلہ افتخار چوہدری کو کرنا تھا۔ بازی پلٹنے کی خاطر مشرف نے 3 نومبر کو ایمرجنسی پلس نافذ کردی اور ساٹھ سے زیادہ ججوں کو برطرف کردیا۔ پاکستان میں ایک بار پھر بحران پیدا ہوگیا اور عدلیہ دو حصوں میں بٹ گئی۔ پرو مشرف اور پرو چوہدری۔
بے نظیر کی شہادت، زرداری کی صدارت، پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت، عمران خان اور قاضی حسین کا انتخابات کا بائیکاٹ تاریخ کے صفحات پر نقش ہیں۔ دو ہزار آٹھ کا پورا سال گزر گیا لیکن زرداری ججوں کو بحال کرنے پر تیار نہ تھے۔ وکلا تحریک دو سال پورے کرنے جا رہی تھی اور بظاہر اس کی کامیابی کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ ایسے موقع پر کام جاری رکھنے والے جج صاحبان اپنے فیصلوں پر خوش تھے۔ وہ اپنی تدبیر کو دانش سمجھ رہے تھے۔ دوسری طرف حلف نہ اٹھانے والے اکثر ججز اپنے فیصلوں کو غلط قرار دے رہے تھے۔ یہی کچھ اس دور کے حالات بیان کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ''ہم افتخار چوہدری کی برطرفی کے بعد نہ جج رہے کہ تنخواہ ملتی اور نہ ہم بطور وکیل عدالت میں پریکٹس کرسکتے تھے۔ اب کریں تو کیا کریں اور کھائیں تو کہاں سے؟ عمر پچاس'' یہ وہ زمانہ تھا جب سوچ رہے تھے کہ جج بننا ہی نہیں چاہیے تھا۔
پرویز مشرف اور افتخار چوہدری جیسے دو آدمیوں کے دو الگ الگ فیصلے دو قسم کے لوگوں پر اثرانداز ہو رہے تھے۔ اس دور کی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی زندگی میں بحران پیدا ہوچکا تھا۔ کس کا فیصلہ صحیح اور کس کا غلط؟ کون حقیقت پسند اور کون رومان پرور؟ ایسے میں ایک بار پھر بازی پلٹی اور فیصلہ کرنے والے کوئی اور لوگ تھے۔ ایوان صدر اسلام آباد اور گورنر ہاؤس پنجاب میں مقیم دو لوگوں نے فیصلے کیے۔
صدر آصف علی زرداری اور گورنر سلمان تاثیر نے پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت کو ختم کرکے گورنر راج نافذ کردیا۔ وکلا، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے ساتھ اب رائے ونڈ کی تلخی بھی شامل ہوگئی۔ مارچ 2009 میں آزاد عدلیہ کی بحالی کے علم داروں کو اسلام آباد پہنچنا تھا۔ وکلا کی دانش، جماعت کی تنظیم، عمران کی کرشماتی شخصیت کے ساتھ ساتھ نواز شریف کی مقبولیت بھی شامل ہوگئی۔
لاہور سے نکلنے والا جلوس بہاولپور تک ہی پہنچا تھا کہ آرمی چیف جنرل کیانی نے اعتزاز احسن کو فون کیا۔ وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے صبح چھ بجے قوم سے خطاب میں عدلیہ کی بحالی کا مطالبہ تسلیم کرلیا۔ چار دن بعد جسٹس ڈوگر ریٹائرڈ ہوگئے اور افتخار چوہدری پاکستان کے منصف اعلیٰ کے منصب پر بحال ہوگئے۔
بازی واقعتاً پلٹ گئی۔ جسٹس افتخار چوہدری نے چار مختلف فیصلوں کے ذریعے غیر آئینی احکامات پر حلف اٹھانے والے ایک سو ججوں کو فارغ کردیا۔ دو سال تک اپنے فیصلوں پر نازاں جج صاحبان برطرف ہوگئے۔ مشرف کے غیر آئینی اقدام کے مخالف سندھ سے حلف نہ اٹھانے والے جسٹس مشیر عالم، جسٹس مقبول باقر، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ صوبے کی عدلیہ کی سربراہی کے بعد اب سپریم کورٹ کے جج ہیں۔ یہ مقام و مرتبہ دیگر ججز کو بھی مل سکتا تھا اگر۔۔۔۔۔ایک بہت بڑا اگر ہے کہ اگر پرویز مشرف اور افتخار چوہدری میں کشمکش نہ ہوتی۔
اگر آصف علی زرداری اور سلمان تاثیر پنجاب حکومت کی برطرفی کا فیصلہ نہ کرتے۔ اگر عمران خان اور قاضی حسین نے وکلا تحریک کی حمایت جاری نہ رکھی ہوتی۔ اگر نواز شریف اور شہباز شریف میدان میں نکلنے کا فیصلہ نہ کرتے۔ کالم کا پہلا پیراگراف پھر پڑھ لیں۔ وہ یہی کہہ رہا ہے کہ کبھی تدبیر الٹ جاتی ہے اور تقدیر پلٹ بھی جاتی ہے۔ دوسروں کی زندگیوں پر بھی اثر انداز ہوئے ہیں اکثر دوسروں کے فیصلے۔ دس سال قبل کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایک سو سے زیادہ ججوں کی زندگیوں کا رخ بدل گیا ہے جب کیے تھے دو آدمیوں نے دو فیصلے۔
مارچ 2007 میں جنرل پرویز مشرف اور جسٹس افتخار چوہدری نے اپنے اپنے فیصلے کیے۔ ایک عشرہ گزرنے پر سندھ ہائی کورٹ کی عدالت نمبر ایک میں اس کے اثرات محسوس کیے گئے۔ مشرف کے غیر آئینی اقدامات کے حامی نقصان میں رہے اور افتخار چوہدری کی حمایت کرنے والے فائدے میں رہے۔ کیسے؟
یہ فل کورٹ ریفرنس جسٹس سجاد علی شاہ کے سپریم کورٹ کا جج بننے کے موقع پر تھا۔ کمرہ عدالت وکلا سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ صوبے کی عدالت کی سربراہی کے بعد ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کا جج بننا ایک اعزاز کی بات تھی۔ محنت، صلاحیت اور جانفشانی کے ساتھ ساتھ قسمت کے دخل کو بھی یاد رکھا جائے گا۔ اس موقع پر ہم صدر زرداری اور گورنر سلمان تاثیر کے فیصلوں کو بھی نظرانداز نہیں کرسکیں گے۔
دو آدمیوں کے دو فیصلوں کی بات ہو رہی ہے تو نواز شریف اور شہباز شریف کا بھی تذکرہ ہوگا اور قاضی حسین احمد اور عمران خان کے فیصلوں کو بھی نہیں بھلایا جاسکے گا۔ دلچسپ اتار چڑھاؤ اور سیاسی کشمکش میں کیے گئے فیصلوں نے دور دراز کے انسانوں کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ تقدیر اور تدبیر کی اس داستان کی ابتدا کہاں سے ہوتی ہے اور اس کا بظاہر اختتام کہاں ہوتا ہے؟
آرمی ہاؤس راولپنڈی سے شروع ہونے والی کہانی سندھ ہائی کورٹ کی عدالت کے کمرہ نمبر ایک پر آکر وقتی طور پر ٹھہرے گی۔ انسانوں کے فیصلے کس طرح دوسروں کے فیصلوں کی بدولت کامیابی سے ناکامی یا زوال سے عروج کی جانب بڑھتے ہیں۔ ایک فیصلہ ایک وقت میں بڑا کامیاب دکھائی دیتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھانے والے اپنی تدبیر پر نازاں ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے کیے گئے فیصلے بازی پلٹ دیتے ہیں۔ ہارنے والے کامیاب ہوجاتے ہیں اور جیتنے والوں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ یہی کچھ دلچسپ داستان پنڈی سے کراچی تک دس برسوں میں پہنچی ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے جسٹس افتخار چوہدری کو برطرف کردیا۔ چار دن بعد سپریم کورٹ نے اپنے چیف کو طلب کیا۔ یہ 13 مارچ کی بات تھی۔ آج سے پورے دس سال پہلے جسٹس چوہدری کے بال کھینچے گئے۔ وکلا میں اشتعال پیدا ہوا۔ بار متحد ہوگئی لیکن پاکستان کی عدلیہ دو حصوں میں بٹ گئی۔ اس نازک مرحلے پر کچھ ججوں نے کام جاری رکھا اور کچھ نے انکار کردیا۔ یہیں سے تقدیر اور تدبیر کا کھیل شروع ہوتا ہے۔ وکلا تحریک چوتھے مہینے میں داخل ہوئی تو پرویز مشرف نے افتخار چوہدری اور دیگر ججوں کو بحال کردیا۔ ابھی جج اور جنرل کی کشمکش ختم نہیں ہوئی تھی۔
مشرف کے سر پر ایک تلوار لٹک رہی تھی۔ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی تلوار۔ اگلے پانچ سال کے لیے صدر پاکستان منتخب ہونے کی اور وہ بھی باوردی۔ یقینی طور پر معاملہ سپریم کورٹ میں جانا تھا اور مشرف کی قسمت کا فیصلہ افتخار چوہدری کو کرنا تھا۔ بازی پلٹنے کی خاطر مشرف نے 3 نومبر کو ایمرجنسی پلس نافذ کردی اور ساٹھ سے زیادہ ججوں کو برطرف کردیا۔ پاکستان میں ایک بار پھر بحران پیدا ہوگیا اور عدلیہ دو حصوں میں بٹ گئی۔ پرو مشرف اور پرو چوہدری۔
بے نظیر کی شہادت، زرداری کی صدارت، پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت، عمران خان اور قاضی حسین کا انتخابات کا بائیکاٹ تاریخ کے صفحات پر نقش ہیں۔ دو ہزار آٹھ کا پورا سال گزر گیا لیکن زرداری ججوں کو بحال کرنے پر تیار نہ تھے۔ وکلا تحریک دو سال پورے کرنے جا رہی تھی اور بظاہر اس کی کامیابی کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ ایسے موقع پر کام جاری رکھنے والے جج صاحبان اپنے فیصلوں پر خوش تھے۔ وہ اپنی تدبیر کو دانش سمجھ رہے تھے۔ دوسری طرف حلف نہ اٹھانے والے اکثر ججز اپنے فیصلوں کو غلط قرار دے رہے تھے۔ یہی کچھ اس دور کے حالات بیان کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ''ہم افتخار چوہدری کی برطرفی کے بعد نہ جج رہے کہ تنخواہ ملتی اور نہ ہم بطور وکیل عدالت میں پریکٹس کرسکتے تھے۔ اب کریں تو کیا کریں اور کھائیں تو کہاں سے؟ عمر پچاس'' یہ وہ زمانہ تھا جب سوچ رہے تھے کہ جج بننا ہی نہیں چاہیے تھا۔
پرویز مشرف اور افتخار چوہدری جیسے دو آدمیوں کے دو الگ الگ فیصلے دو قسم کے لوگوں پر اثرانداز ہو رہے تھے۔ اس دور کی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی زندگی میں بحران پیدا ہوچکا تھا۔ کس کا فیصلہ صحیح اور کس کا غلط؟ کون حقیقت پسند اور کون رومان پرور؟ ایسے میں ایک بار پھر بازی پلٹی اور فیصلہ کرنے والے کوئی اور لوگ تھے۔ ایوان صدر اسلام آباد اور گورنر ہاؤس پنجاب میں مقیم دو لوگوں نے فیصلے کیے۔
صدر آصف علی زرداری اور گورنر سلمان تاثیر نے پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت کو ختم کرکے گورنر راج نافذ کردیا۔ وکلا، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے ساتھ اب رائے ونڈ کی تلخی بھی شامل ہوگئی۔ مارچ 2009 میں آزاد عدلیہ کی بحالی کے علم داروں کو اسلام آباد پہنچنا تھا۔ وکلا کی دانش، جماعت کی تنظیم، عمران کی کرشماتی شخصیت کے ساتھ ساتھ نواز شریف کی مقبولیت بھی شامل ہوگئی۔
لاہور سے نکلنے والا جلوس بہاولپور تک ہی پہنچا تھا کہ آرمی چیف جنرل کیانی نے اعتزاز احسن کو فون کیا۔ وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے صبح چھ بجے قوم سے خطاب میں عدلیہ کی بحالی کا مطالبہ تسلیم کرلیا۔ چار دن بعد جسٹس ڈوگر ریٹائرڈ ہوگئے اور افتخار چوہدری پاکستان کے منصف اعلیٰ کے منصب پر بحال ہوگئے۔
بازی واقعتاً پلٹ گئی۔ جسٹس افتخار چوہدری نے چار مختلف فیصلوں کے ذریعے غیر آئینی احکامات پر حلف اٹھانے والے ایک سو ججوں کو فارغ کردیا۔ دو سال تک اپنے فیصلوں پر نازاں جج صاحبان برطرف ہوگئے۔ مشرف کے غیر آئینی اقدام کے مخالف سندھ سے حلف نہ اٹھانے والے جسٹس مشیر عالم، جسٹس مقبول باقر، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ صوبے کی عدلیہ کی سربراہی کے بعد اب سپریم کورٹ کے جج ہیں۔ یہ مقام و مرتبہ دیگر ججز کو بھی مل سکتا تھا اگر۔۔۔۔۔ایک بہت بڑا اگر ہے کہ اگر پرویز مشرف اور افتخار چوہدری میں کشمکش نہ ہوتی۔
اگر آصف علی زرداری اور سلمان تاثیر پنجاب حکومت کی برطرفی کا فیصلہ نہ کرتے۔ اگر عمران خان اور قاضی حسین نے وکلا تحریک کی حمایت جاری نہ رکھی ہوتی۔ اگر نواز شریف اور شہباز شریف میدان میں نکلنے کا فیصلہ نہ کرتے۔ کالم کا پہلا پیراگراف پھر پڑھ لیں۔ وہ یہی کہہ رہا ہے کہ کبھی تدبیر الٹ جاتی ہے اور تقدیر پلٹ بھی جاتی ہے۔ دوسروں کی زندگیوں پر بھی اثر انداز ہوئے ہیں اکثر دوسروں کے فیصلے۔ دس سال قبل کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایک سو سے زیادہ ججوں کی زندگیوں کا رخ بدل گیا ہے جب کیے تھے دو آدمیوں نے دو فیصلے۔