واضح افغان پالیسی وقت کا تقاضا

اپنے بھارتی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے افغان حکمران نفرت کی فضاء کو فروغ دے رہے ہیں

کسی پاکستانی کی طرف سے افغانستان کے لیے اس سے اچھا اشارہ کیا ہو سکتا ہے جو جاوید آفریدی نے پی ایس ایل میچ کے دوران افغانستان کے جھنڈے کو چوم کر دیا۔ لیکن دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ پرچمِ پاکستان کی جس قدر توہین افغانستان میں ہوتی ہے ایسی نفرت کی کہیں مثال نہیں ملتی بالخصوص ایسے ملک وقوم کے لیے جس نے سالہا سال تک افغانوں کے لیے اپنے دروازے وا کیے رکھے۔

صرف اپنے بھارتی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے افغان حکمران نفرت کی فضاء کو فروغ دے رہے ہیں جس کے نتائج خراب سے خراب تر ہی نکلنے کا خدشہ ہے۔ افغان صدر ہی نہیں بلکہ اسلام آباد میں متعین افغان سفیر کے نفرت اور دھمکی آمیز ٹویٹر بھی انتہائی افسوسناک اور سفارتی آداب کے برعکس ہیں۔افغان قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ ان کا ملک ایک ڈبل لینڈ لاک ملک ہے اس کی معیشت کا انحصار پاکستان پر ہے۔ لیکن ذاتی مفاد اور بھارتی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے افغان حکمران یہ تک نہیں سوچتے کہ ان کی اس پالیسی سے عام افغان کس قدر مسائل کا شکار ہے اوراس پر کیا گزر رہی ہے۔

بیس روز سے بند پاک افغان بارڈر جب دو دن کے لیے کھولا گیا تو دونوں طرف کس قدر آمدورفت ہوئی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ جب سے بارڈر بند ہوا ہے پاکستان کے مسائل کم اور افغانستان بالخصوص افغان عوام کے مسائل میں اضافہ ہی دیکھا گیا۔ بارڈر بند ہونے سے پشاور میں اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں واضح کمی دیکھنے میں آئی۔ ٹرانزٹ کے کاروبار سے منسلک افغانوں کی حالت انتہائی قابلِ رحم ہے۔ وہ پاکستانی حکام کی منتیں کر رہے ہیں کہ کسی طرح بارڈر کھول دیا جائے۔

موجودہ افغان صدر اشرف غنی سے توقع تھی کہ وہ حقیقت پسندانہ فیصلے کرتے ہوئے پاکستان اور افغانستان کے مابین مسائل کو کم کریں گے لیکن انھوں نے تو پاکستان دشمنی میں سابق افغان صدور کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور اب حالت یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان برادر نہیں بلکہ دو دشمن ملک لگتے ہیں۔

بھارت امریکا اور افغانستان کا گٹھ جوڑ آج کا نہیں اس اتحاد ثلاثہ سے پاکستان کی ترقی اور خطے میں چین کے اثرونفوس میں اضافہ برداشت نہیں ہو رہا۔ سی پیک ان کی آنکھوں کا شہتیر ہے۔ لیکن یہ تینوں ممالک اور ان کے دیگر پس پردہ حمایتی اس بات کو نہیں سمجھ رہے کہ اس قسم کی مہم جوئی خطے کو ایک اور بڑی جنگ کی طرف لے جا رہی ہے۔

اگر یہ سلسلہ نہ رُکا تو یہ نوشتہ دیوار ہے کہ نہ صرف چین اور روس اس جنگ میں کُود پڑیں گے بلکہ خطے کے دیگر ممالک جس میں ایران اور وسط ایشیائی ریاستیں بھی شامل ہیں کو بھی اسی جنگ میں کودنا پڑے گا، اس جنگ کا ایندھن بدقسمت افغان بنیں گے اور میدانِ کارزار ایک بار پھر افغانستان ہو گا۔ بھارت دوستی میں اندھے افغان حکمران یا تو اس صورتحال کو نہیں سمجھ رہے اور اگر سمجھ بھی رہے ہیں تو انھیں اس بات کی پرواہ ہی نہیں کہ افغان عوام کا کیا بنے گا۔

ای سی او اجلاس میں خطے کے تمام ممالک کے سربراہوں نے شرکت کرکے ایک طرح سے پاکستان پر اعتماد کا اظہار کیاہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی کی تقریر پاکستان پر ایران کے اعتماد کا مظہر ہے۔

افغانستان میں تعینات بعض غیر ملکی سفارت کاروں جن کے اسلام آباد میں بھی روابط ہیں کے مطابق آج نہیں تو کل پاکستان کو نہ صرف بارڈر مینجمنٹ مزید موثر کرنا پڑے گا بلکہ ڈیورنڈ لائن کے مسئلے سے بھی نبرد آزما ہونا ہی پڑے گا۔


پاکستان افغانستان تعلقات کی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ سرکاری سطح پر دونوں ممالک کے تعلقات میں کبھی گرمجوشی نہیں رہی ۔ قیام پاکستان کی مخالفت صرف افغانستان نے کی اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف ووٹ ڈالا جب کہ ایران پہلا اسلامی ملک تھا جس نے قیامِ پاکستان کا خیرمقدم کیا۔بدنیتی اور بد اعتمادی کے جو بیج 1947ء میں افغان حکمرانوں نے بوئے تھے وہ اب ایک فصل بن چکا ہے۔

پاکستان نے کئی مواقع پر افغانستان کو مسائل سے نکالنے کی سنجیدہ کوششیں کی لیکن افغانستان کی سرزمین پاکستان دشمنوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن چکی ہے۔ پاکستان کی ہر مثبت کوشش کا منفی جواب دیا گیا۔ پاکستان دشمنی میں افغانستان میں بھارت کے 29 قونصلیٹ قائم کیے گئے اور بھارت کو پاکستان کے خلاف کھل کر کام کرنے کے مواقع فراہم کیے گئے ہیں۔

مہمند ایجنسی پر حالیہ حملوں میں جن میں پانچ فوجی شہید ہوئے، کے بارے میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ ان حملوں کے پیچھے افغان نیشنل آرمی کی پلاننگ تھی۔ اب پاکستان کو بھی فیصلہ کر لینا چاہیے کہ افغانستان کو ''منانے'' اور ''لاڈپیار'' کی پالیسی تبدیل کر دی جائے۔

پاکستان نے افغان مہاجرین کے قیام میں توسیع بھی کی جس کے بعد توقع تھی کہ افغان قیادت پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے گی لیکن ایسا نہ ہو سکا اس لیے اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ افغان مہاجرین کو باعزت طور پر واپس افغانستان بھیجا جائے۔ افغان صدر اشرف غنی کی غلط پالیسی اس سے زیادہ کیا ہو گی کہ ان کے اپنے شہری لاکھوں کی تعداد میں پاکستان میں پناہ گزین ہیں اور وہ ان کا واپس آباد کاری کا کوئی سدباب نہیں کر رہے بلکہ قیام کے توسیع کے لیے کہتے رہے ہیں۔

اسی طرح افغانستان کے ساتھ مشورے سے جن چودہ مقامات پر انٹری پوسٹس تعمیر کرنے کا فیصلہ ہوا تھا اس پر ہنگامی طور پر کام شروع کرنا ہو گا۔ افغانستان کو پاکستان پر الزام تراشی کی بجائے اپنے معاملات درست کرنے چاہئیں۔

کابل انتظامیہ کو بات سمجھ لینی چاہیے کہ حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد پاکستان میں رائے عامہ تبدیل ہو چکی ہے۔ پاکستانی عوام ٗ سیاست دان اور فوج ایک صفحے پر ہیں۔یہ رائے فروغ پا رہی ہے کہ افغانستان کے ساتھ جو بھی معاملات کرنے ہیں ایک ہی بار طے کر لینے چاہئیں اس سے زیادہ افغانستان کیا بُرا کر سکتا ہے جو آج کل ہو رہا ہے ۔ پاکستانی معیشت اب مزید افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنے کی متحمل نہیں بالخصوص اس صورت میں جب پاکستان کے خلاف ہر طرح کے مسائل کھڑے کرنے کی پلاننگ افغان سرزمین پر ہور ہی ہے۔

افغانستان کی سرحد ترکمانستان ٗ ازبکستان اور تاجکستان اورایران کے ساتھ بھی لگتی ہے ۔ کیا مجال کہ کوئی افغان بغیر ویزہ اور ضروری دستاویزات کے وہاں داخل ہو جائے ۔ یہ پاکستان ہی ہے جہاں افغانوں کو اتنی آزادی حاصل ہے کہ اسلام آباد ٗ لاہور ٗ پشاور اور کراچی میں یہ کاروبار بھی کرتے ہیں اور پُرسکون زندگی بسر کرتے ہیں جب کہ ان کے حکمران پاکستان کے خلاف زہر اُگلتے اور سازشیں کرتے نہیں تھکتے۔

اب وقت آگیا ہے کہ جب تک کابل انتظامیہ پاکستان کے حوالے سے اپنی بھارت نواز پالیسی تبدیل نہیں کرتی پاکستان بھی افغانستان کو کسی بھی طرح کی رعایت نہ دے۔ اس وقت تک بارڈر نہ کھولا جائے جب تک افغانستان کے اندر اس بات کا ادراک نہ ہو جائے کہ پاکستان کے ساتھ اس طرح مزید معاملات نہیں چل سکتے۔
Load Next Story