عوام کو صاف پانی کے منصوبوں کے نام پر اربوں روپے ہڑپ
کلین ڈرنکنگ واٹرفال آل منصوبے میں غیر معروف کمپنیوں کو ٹھیکے نوازے گئے
وفاقی اورصوبائی حکمرانوں نے بیوروکریسی کی ملی بھگت سے عوام کے نام پرصاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر اربوں خرچ کرنے کے بجائے خودہی ہضم کرلیے اور بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت پر تشکیل دیے جانے والے واٹر کمیشن کو بھی حقائق سے دور رکھا گیا۔
پاکستان میں مجموعی طور پر 2 بڑے کے پانی کے منصوبوں کے نام پر 26 ارب روپے کی خورد برد کی گئی، پہلے مرحلے میں ایک روپے ارب مالیت سے کلین ڈرنکنگ واٹراینیشیٹف (CDWI )کے نام سے منصوبے کا آغاز کیا گیاجس کے تحت ہر تحصیل میں ایک آر او فلٹر پلانٹ نصب کرنا تھا جس کا ٹھیکہ ( سو سیف) اور( رین ڈراپ ) نامی کمپنیوں کودیا گیا۔
مذکورہ منصوبے کی ناکامی کے بعدکلین ڈرنکنگ واٹر فار آل ( CDWA)کے نام سے25 ارب روپے کے دوسرے منصوبے کاآغاز کیا گیا جس کے تحت ملک بھر کی 6035 یونین کونسلز میں آر او پلانٹ اور فلٹریشن پلانٹ نصب کیے جانے تھے جن کے ٹھیکے غیرمعروف کمپنیوں کو نواز دیے گئے جن میں ایورگرین، توصیف انٹر پرائز، گرین پاور، کے ایس بی پمپز، امین برادرز، سید بھائی، اے اے تھلیو میٹک اور آئیڈیل ہائیڈروں ٹیک نامی کمپنیاں شامل ہے، مذکورہ کمپنیوں نے صرف دکھاوے کے لیے چند پلانٹ منصوبے کے آغازمیں نصب کیے جو بعدازاں تمام غیر فعال ہوگئے۔
وفاقی اور سندھ کی بیوروکریسی نے ملی بھگت کرکے اربوں روپے کے بند پروجیکٹ کا معاملہ دبا دیا اور حیرت انگیز طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے بنائے گئے واٹر کمیشن کے سامنے بھی معاملے کو اوجھل رکھا اور حقائق سے دور رکھا گیا۔ مذکورہ کسی بھی کمپنی اور منصوبے کا تذکرہ واٹرکمیشن رپورٹ میں نہیں کیا گیا، واٹر کمیشن کے اراکین جب میر پورخاص میں آراو پلانٹ کے دورے پر پہنچے تو وہاں پانی کے ٹینک سے چھپکلی ملی اورپلانٹ غیرفعال تھالیکن مذکورہ پلانٹ لگانے والی کمپنی سوسیف کے بارے میں کمیشن کو آگاہ نہیں کیا گیا۔
علاوہ ازیں بدین کے علاقے گولارچی میں سی مینز نامی کمپنی کی جانب سے نصب کیے جانے والے 10 کروڑروپے مالیت کے بند آر او پلانٹ کے حوالے سے بھی آڈیٹرجنرل سندھ نے اپنی رپورٹ میں کوئی تذکرہ نہیں کیا۔
پاکستان میں مجموعی طور پر 2 بڑے کے پانی کے منصوبوں کے نام پر 26 ارب روپے کی خورد برد کی گئی، پہلے مرحلے میں ایک روپے ارب مالیت سے کلین ڈرنکنگ واٹراینیشیٹف (CDWI )کے نام سے منصوبے کا آغاز کیا گیاجس کے تحت ہر تحصیل میں ایک آر او فلٹر پلانٹ نصب کرنا تھا جس کا ٹھیکہ ( سو سیف) اور( رین ڈراپ ) نامی کمپنیوں کودیا گیا۔
مذکورہ منصوبے کی ناکامی کے بعدکلین ڈرنکنگ واٹر فار آل ( CDWA)کے نام سے25 ارب روپے کے دوسرے منصوبے کاآغاز کیا گیا جس کے تحت ملک بھر کی 6035 یونین کونسلز میں آر او پلانٹ اور فلٹریشن پلانٹ نصب کیے جانے تھے جن کے ٹھیکے غیرمعروف کمپنیوں کو نواز دیے گئے جن میں ایورگرین، توصیف انٹر پرائز، گرین پاور، کے ایس بی پمپز، امین برادرز، سید بھائی، اے اے تھلیو میٹک اور آئیڈیل ہائیڈروں ٹیک نامی کمپنیاں شامل ہے، مذکورہ کمپنیوں نے صرف دکھاوے کے لیے چند پلانٹ منصوبے کے آغازمیں نصب کیے جو بعدازاں تمام غیر فعال ہوگئے۔
وفاقی اور سندھ کی بیوروکریسی نے ملی بھگت کرکے اربوں روپے کے بند پروجیکٹ کا معاملہ دبا دیا اور حیرت انگیز طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے بنائے گئے واٹر کمیشن کے سامنے بھی معاملے کو اوجھل رکھا اور حقائق سے دور رکھا گیا۔ مذکورہ کسی بھی کمپنی اور منصوبے کا تذکرہ واٹرکمیشن رپورٹ میں نہیں کیا گیا، واٹر کمیشن کے اراکین جب میر پورخاص میں آراو پلانٹ کے دورے پر پہنچے تو وہاں پانی کے ٹینک سے چھپکلی ملی اورپلانٹ غیرفعال تھالیکن مذکورہ پلانٹ لگانے والی کمپنی سوسیف کے بارے میں کمیشن کو آگاہ نہیں کیا گیا۔
علاوہ ازیں بدین کے علاقے گولارچی میں سی مینز نامی کمپنی کی جانب سے نصب کیے جانے والے 10 کروڑروپے مالیت کے بند آر او پلانٹ کے حوالے سے بھی آڈیٹرجنرل سندھ نے اپنی رپورٹ میں کوئی تذکرہ نہیں کیا۔