پاکستان اور پاکستانیوں کی قسمت

ملک میں انصاف کا یہ حال ہے کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں لیکن یہ دیکھنے کیلئے آپ کو چڑیا گھر جانا پڑتا ہے.

لوگ سوگ اور جشن سڑکوں پر منانا اپنا حق سمجھتے ہیں اور جب تک دوسروں کے لئے سڑکیں بند نہ کریں اُن کی خوشی دوبالا نہیں ہوتی اور غم ہلکا نہیں ہوتا۔

KARACHI:
2017ء میں دنیا میں ایک ایسی قوم آباد تھی، جو خود کو سب سے زیادہ مسلمان سمجھتی تھی۔ ملک میں اسلام نافذ ہے لیکن تعجب کی بات ہے کہ اِس کے باوجود سود پر کاروبار بھی چل رہا ہے اور شراب کا کاروبار بھی عام ہے۔ لوگ ذاتوں، قبیلوں، برادریوں اور مذہبی فرقوں اور مسلکوں میں اِس قدر تقسیم ہیں کہ قومیت اور مذہب کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

عوام کو تعلیم یافتہ تو کہا جاسکتا ہے لیکن عملاً تعلیم کا یہاں دور دور تک گزر نظر نہیں آتا۔ لوگ سوگ اور جشن سڑکوں پر منانا اپنا حق سمجھتے ہیں اور جب تک دوسروں کے لئے سڑکیں بند نہ کریں اُن کی خوشی دوبالا نہیں ہوتی اور غم ہلکا نہیں ہوتا۔ گلیوں کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں لیکن اِس کے باوجود ہر شخص کی خواہش ہے کہ اُس کے گھر کے سامنے اسپیڈ بریکر ضرور بنے۔

توانائی کی کمی کے باوجود یہ قوم راتوں میں کام کرتی ہے اور دن میں آرام کرتی ہے۔ دوپہر بارہ بجے کے بعد یہاں بازار اور دکانیں کھلتی ہیں جن میں جھاڑو لگا کر کچرا سڑک پر پھینک دیا جاتا ہے، جو اُڑ کر شام تک دوبارہ دکانوں کے اندر واپس چلا جاتا ہے۔ شہر میں کچرا تقسیم کرنے والا ٹرک بھی سڑکوں پر گشت کرتا ہے جو دن دھاڑے اِنہی سڑکوں پر کچرا گراتا ہوا جاتا ہے، جہاں غلطی سے صفائی ہوگئی ہو۔ کچرا کنڈی کو لوگ پسند نہیں کرتے کیونکہ اُس سے بدبو پیدا ہوتی ہے، اِس لئے اُس کا کوئی رواج نہیں۔ لوگ کچرا پھینکنے میں دیر نہیں کرتے کیونکہ وہ خود کو صفائی پسند سمجھتے ہیں، اِس لئے جہاں جگہ ملے جلد از جلد کچرے سے خود کو آزاد کرلیا جاتا ہے۔

ملک میں کہنے کو جمہوریت ہے لیکن نظام بادشاہت کا ہے۔ بادشاہ اپنا خزانہ ملک میں نہیں رکھتے کیونکہ اُنہیں ڈر ہے کہ اُن کی طرح اُن کا لوٹا ہوا خزانہ کوئی اور نہ لوٹ لے۔ بادشاہوں نے یہاں 5 سال کی باریاں لگا رکھی ہیں۔ یہاں چھوٹے چوروں کو عوام سخت سزا دیتی ہے اور بڑے چوروں کو وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ عزت دی جاتی ہے۔ چھوٹی کرپشن پر سزا اور بڑی کرپشن پر عام معافی ہے۔

ملک میں انصاف کا یہ حال ہے کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں لیکن یہ سب کچھ دیکھنے کے لیے آپ کو چڑیا گھر جانا پڑتا ہے۔ بادشاہوں کے انصاف کے گھنٹہ گھر کی جگہ میڈیا کی بریکنگ نیوز نے لے لی ہے، جو روز گھنٹے کے گھنٹے بجتی رہتی ہے۔ جب تک فریادی بریکنگ نیوز نہ بنے، اُس کا نوٹس نہیں لیا جاتا۔ لوگ کسی بھی بڑے کام سے پہلے کسی بڑے حادثہ کا انتظار کرتے ہیں۔ اِس قوم کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ یہ حادثات کو بہت جلد بھول جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حادثات آئے روز پیش آتے ہیں جسے قوم نے اپنا نصیب سمجھ لیا ہے۔


یہاں کے لوگ اپنا کام اور کاروبار کرنے کے بجائے نوکر بننا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اِسی لئے ہر کوئی نوکری کی تلاش میں دکھائی دیتا ہے۔ ہر ایک کو کسی ایسی نوکری کی تلاش ہوتی ہے جس میں انہیں کوئی کام نہ کرنا پڑے اور تنخواہ پوری ملے۔ نوکر مالک سے اور مالک نوکر سے خوش دکھائی نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر طبقے نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے تنظیمیں بنا رکھی ہیں جس کا کام ہڑتالیں کرنا ہوتا ہے۔ ہر کوئی اپنی من مانی کے لئے ہڑتال کرنا فرض سمجھتا ہے۔ کبھی ڈاکٹر ہڑتال کرتے ہیں تو کبھی نرسیں ہڑتال کرتی ہیں، کبھی وکیل ہڑتال کرتے ہیں تو کبھی تاجر ہڑتال کرتے ہیں، غرض یہاں ہر کوئی ہڑتال پر دکھائی دیتا ہے۔ اِس کی خاص وجہ یہ بھی ہے کہ ہڑتال کے بغیر کسی کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا جاتا۔

یہاں کے لوگوں کی دلچسپی کھیل میں کچھ اِس قدر ہے کہ لوگوں نے زندگی کو بھی کھیل سمجھ لیا ہے۔ سیاستدان بھی یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں اِس لئے وہ میڈیا پر اپنا کھیل جاری رکھتے ہیں جسے دیکھ کر لوگ محظوظ بھی ہوتے ہیں اور داد بھی دیتے ہیں۔ لوگ اِس کھیل کو دیکھنے میں کچھ اِس قدر مگن ہیں کہ ملک میں کرپشن، مہنگائی اور ظلم و ستم پر کسی کی نظر نہیں جاتی۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ عوام کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے، پہننے کو کچھ نہیں ہے، رہنے کو گھر نہیں ہے لیکن ہاتھ میں موبائل اور جھونپڑیوں میں ڈش اور کیبل موجود ہے۔

لوگ حکمرانوں کو الیکشن میں دل کھول کر ووٹ دیتے ہیں اور پھر پانچ سال تک انہیں دل کھول کر بددعائیں بھی دیتے ہیں۔ یہاں کے لوگ کسی ایسے مسیحا کی تلاش میں ہیں جو اُنہیں ظلم و ستم سے نجات دلائے لیکن اُنہیں اِس کے لیے کچھ نہ کرنا پڑے۔ وہ خود اِس کے لیے سڑکوں پر آنے کے لیے بالکل تیار نہیں کیونکہ اِس سے ملک کی ترقی کا پہیہ نہ رک جائے۔

ترقی کا پہیہ تو معلوم نہیں چل رہا ہے کہ نہیں لیکن وقت کا پہیہ نہیں رکا۔ وقت ہماری تاریخ رقم کررہا ہے۔ ویسے تو ہمیں اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تاریخ ہمیں کن الفاظ میں یاد رکھے گی لیکن تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے ایک تاریخ لکھی ہے جسے شاید آپ پڑھنے میں دلچسپی نہ لیں لیکن آنے والوں کے لیے یقیناً ہم سبق حاصل کرنے کا باعث ہوں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story