تحریک انصاف اور آیندہ منظر نامہ
پی ٹی آئی کے ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری کی پارٹی نے لاہورسے لانگ مارچ تو کیا مگر عمران خان سے الگ رہ کر کیا۔
2013ء کے عام انتخابات میں باری لینے والی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کا طلسم ٹوٹا ۔ نئی تیسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے عمران خان کی قیادت میں بھرپورحصہ لیا اور انتخابات میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ قومی اسمبلی میں تیسری پارلیمانی پارٹی قرار پائی پی ٹی آئی نے پنجاب پر سب سے زیادہ توجہ دی کیونکہ عمران خان کا پہلا جلسہ بھی لاہور میں کامیاب ہوا تھا۔ جس کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت سے بیزارسیاست دانوں نے پی ٹی آئی کا رخ کرنا شروع کیا تھا۔ 2008 کے انتخابات میں ق لیگ کی ناکامی کے بعد مسلم لیگ ن سے جانے والے ق لیگ کو چھوڑکر ن لیگ میں واپس آئے تھے یا انھوں نے پیپلزپارٹی کا رخ کیا تھا۔
پی پی حکومت نے اپنے اقتدارکے 5 سال تو ضرور پورے کیے مگر قوم کو مایوس بھی کیا تھا۔ 2013 کے عام انتخابات سے قبل سیاسی پرندوں نے تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کو اپنا سیاسی سہارا بنایا اور پیپلزپارٹی کو چھوڑنا شروع کردیا تھا اور سندھ واحد صوبہ تھا جہاں سے بہت کم لوگ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے اور سندھ میں پیپلزپارٹی متاثر نہیں ہوئی۔ میاں نواز شریف کو پنجاب میں میاں شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ باقی تین صوبوں کے مقابلے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرکے سیاسی میدان ہموار کردیا تھا جہاں سے پیپلزپارٹی خود پیچھے ہٹ گئی تھی۔ آصف علی زرداری کی صدر مملکت ہوتے ہوئے پوری توجہ سندھ پر تھی جس میں وہ کامیاب رہے، نواز شریف اور عمران خان نے اپنی انتخابی مہم میں بھرپور توجہ پنجاب پر مرکوز کی جہاں دونوں کے بڑے بڑے جلسے بھی ہوئے۔
ان دونوں نے سندھ بلوچستان اور کے پی کے کو نظر انداز کرکے بڑے صوبے پنجاب میں جگہ جگہ جلسے کیے جہاں سے دونوں رہنما بڑی کامیابی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ کے پی کے کے عوام 2008 میں پی پی اور اے این پی کو آزماچکے تھے اس لیے انھوں نے مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کی بجائے عمران خان کو اپنا اعتماد بخشا۔ سندھ حسب توقع پی پی اور متحدہ کے پاس رہا مگر حیرت انگیز طور پر عمران خان کراچی پر خصوصی توجہ دیے بغیر متحدہ کے علاقوں سمیت آٹھ لاکھ سے زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب رہے جس سے متحدہ کا ووٹ بینک متاثر ہوا۔ بلوچستان میں ووٹ زیادہ تر سیاسی پارٹیوں کو نہیں بلکہ سرداروں اور سیاسی شخصیتوں کو ملتے ہیں جہاں پی ٹی آئی نے توجہ دی تھی نہ ان کے پاس مضبوط امیدوار تھے۔ اس لیے پی ٹی آئی بلوچستان میں مکمل ناکام رہی۔
سندھ خصوصاً کراچی میں عمران خان کی مقبولیت تھی اور لوگ پی پی، متحدہ، مسلم لیگ ن اور ف سے مایوس ہوکر پی ٹی آئی کی طرف دیکھ رہے تھے مگر عمران خان نے کراچی پر معمولی توجہ دی تو انھیں مایوس ہوئی جہاں کا عمران خان نے دورہ تک نہیں کیا تھا۔ صرف پنجاب کو اپنی انتخابی مہم کا مرکز بناکر عمران خان وہاں سے مکمل کامیابی کے بعد وزیراعظم بننا چاہتے تھے مگر انتخابی نتائج ان کی توقع کے برعکس آئے تو انھوں نے اپنی کمزوریوں پر نظر ڈالنے کی بجائے دھاندلی کا سب سے زیادہ شور مچایا۔ انھوں نے لاہور کے علاوہ سیالکوٹ اور لودھراں کے چار حلقوں کے انتخابی نتائج چیلنج کیے۔ پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ نجم سیٹھی پر 35 پنکچروں کا بے بنیاد الزام لگایا اور دھاندلی کو بنیاد بنا کر اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کسی غیبی مدد کے آسرے پر کیا مگر لاہور سے اسلام آباد تک لوگوں کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب نہ رہے۔
پی ٹی آئی کے ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری کی پارٹی نے لاہورسے لانگ مارچ تو کیا مگر عمران خان سے الگ رہ کر کیا۔ عوامی تحریک کا لانگ مارچ اور اسلام آباد دھرنا پی ٹی آئی سے موثر تھا جس نے وفاق کو کافی نقصان پہنچایا۔ طاہر القادری گرمی سردی اپنے کنٹینر میں رہے اور عمران خان بنی گالا سے شام کو دھرنے میں آتے جہاں رات گئے موسیقی کی دھنیں بجتیں اور عوام کی تعداد پی ٹی آئی سے زیادہ عوامی تحریک کے دھرنے میں ہوتی۔ طاہر القادری اور عمران خان ایک کنٹینر پر آکر بھائی بھائی بھی بنے مگر ڈاکٹر طاہر القادری نے ان پر اعتماد نہ کیا اور اپنا دھرنا ختم کرکے عمران خان کو اکیلا چھوڑ گئے۔
عمران خان نے اپنا یہ ناکام شو 126 دن دکھایا پھر پشاور پبلک آرمی اسکول دہشت گردی کو بنیاد بناکر دھرنا ختم کردیا۔ عمران خان نے پانچ سال خاموش رہنے کی بجائے وزیراعظم کو ٹارگٹ بناکر ملک بھر میں جلسے جلوسوں کا سلسلہ جاری رکھا اور تان پاناما پر بھی نہ ٹوٹی اور مرضی کا فیصلہ نہ آنے کی صورت میں بھی شاید عمران خان خاموش نہیں رہیںگے اور مسلم لیگ ن کی قیادت کو بدنام کرنے کے لیے ملک بھر میں جلسے جلوس دوبارہ شروع کریںگے کیونکہ ان کے پاس عوام کو بتانے کے لیے کے پی کے حکومت کی کارکردگی کی تفصیلات اتنی نہیں کہ عوام کو متاثر کرسکیں۔ جس طرح شہباز شریف پنجاب میں کارکردگی میں نمبر ون ہیں۔ اس طرح کے پی کے، کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نہیں ہیں جو اب لسانی سیاست پر مائل ہوئے ہیں جس سے پی ٹی آئی کو مزید سیاسی نقصان ہوگا۔
عمران خان کی اپنی پارٹی پر گرفت مضبوط ہے کوئی پارٹی رہنما عمران خان کو ان کی غلطیوں اور حقائق سے آگاہ کرنے کی جرأت نہیں رکھتا یا عمران خان من مانی کے عادی ہوچکے ہیں اور بقول وزیر قانون پنجاب وہ بلا سوچے سمجھے بول پڑتے ہیں جس سے ان کی مقبولیت میں واقعی کمی آرہی ہے۔ عمران خان کے مخالفین آئے دن بیانات اور موقف بدل لینے کے باعث انھیں مختلف ناموں سے پکارنے لگے ہیں اور میڈیا پر بھی انھیں اپنے موقف سے انحراف کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے جس سے عوام متاثر ہو رہے ہیں۔
عمران خان نے حکومت مخالفت کو نواز شریف دشمنی کا رنگ دے رکھا ہے اور انھوں نے حکومت کی ہر خامی اور وحشت گردی کا ذمے دار وزیراعظم کو قرار دینے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے اور وہ اس سلسلے میں اپنے قریبی کے کہنے پر چل رہے ہیں۔ عمران خان کی جارحانہ پالیسی جہاں حکومت کے حق میں جارہی ہے وہیں انھیں پی پی، جے یو آئی، اے این پی کی طرف سے اپوزیشن کے متحد نہ ہونے کا ذمے دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔
عمران خان پیپلزپارٹی پر تنقید کم ہی کرتے ہیں اور ان کا سارا زور نواز شریف کی مخالفت پر مرکوز ہے اور کے پی کے حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے عمران خان توجہ نہیں دے رہے جس کی اشد ضرورت ہے۔عوام اب مخالفانہ تقریروں اور الزامات سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ کارکردگی دیکھنا چاہتے ہیں جب کہ اس سلسلے میں پی پی سندھ میں کچھ عملی طور پر کرسکی ہے نہ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں قابل تعریف کام دکھاسکی ہے، جس کا سارا نقصان 2018 میں عمران خان کو ہوسکتا ہے۔
پی پی حکومت نے اپنے اقتدارکے 5 سال تو ضرور پورے کیے مگر قوم کو مایوس بھی کیا تھا۔ 2013 کے عام انتخابات سے قبل سیاسی پرندوں نے تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کو اپنا سیاسی سہارا بنایا اور پیپلزپارٹی کو چھوڑنا شروع کردیا تھا اور سندھ واحد صوبہ تھا جہاں سے بہت کم لوگ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے اور سندھ میں پیپلزپارٹی متاثر نہیں ہوئی۔ میاں نواز شریف کو پنجاب میں میاں شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ باقی تین صوبوں کے مقابلے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرکے سیاسی میدان ہموار کردیا تھا جہاں سے پیپلزپارٹی خود پیچھے ہٹ گئی تھی۔ آصف علی زرداری کی صدر مملکت ہوتے ہوئے پوری توجہ سندھ پر تھی جس میں وہ کامیاب رہے، نواز شریف اور عمران خان نے اپنی انتخابی مہم میں بھرپور توجہ پنجاب پر مرکوز کی جہاں دونوں کے بڑے بڑے جلسے بھی ہوئے۔
ان دونوں نے سندھ بلوچستان اور کے پی کے کو نظر انداز کرکے بڑے صوبے پنجاب میں جگہ جگہ جلسے کیے جہاں سے دونوں رہنما بڑی کامیابی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ کے پی کے کے عوام 2008 میں پی پی اور اے این پی کو آزماچکے تھے اس لیے انھوں نے مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کی بجائے عمران خان کو اپنا اعتماد بخشا۔ سندھ حسب توقع پی پی اور متحدہ کے پاس رہا مگر حیرت انگیز طور پر عمران خان کراچی پر خصوصی توجہ دیے بغیر متحدہ کے علاقوں سمیت آٹھ لاکھ سے زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب رہے جس سے متحدہ کا ووٹ بینک متاثر ہوا۔ بلوچستان میں ووٹ زیادہ تر سیاسی پارٹیوں کو نہیں بلکہ سرداروں اور سیاسی شخصیتوں کو ملتے ہیں جہاں پی ٹی آئی نے توجہ دی تھی نہ ان کے پاس مضبوط امیدوار تھے۔ اس لیے پی ٹی آئی بلوچستان میں مکمل ناکام رہی۔
سندھ خصوصاً کراچی میں عمران خان کی مقبولیت تھی اور لوگ پی پی، متحدہ، مسلم لیگ ن اور ف سے مایوس ہوکر پی ٹی آئی کی طرف دیکھ رہے تھے مگر عمران خان نے کراچی پر معمولی توجہ دی تو انھیں مایوس ہوئی جہاں کا عمران خان نے دورہ تک نہیں کیا تھا۔ صرف پنجاب کو اپنی انتخابی مہم کا مرکز بناکر عمران خان وہاں سے مکمل کامیابی کے بعد وزیراعظم بننا چاہتے تھے مگر انتخابی نتائج ان کی توقع کے برعکس آئے تو انھوں نے اپنی کمزوریوں پر نظر ڈالنے کی بجائے دھاندلی کا سب سے زیادہ شور مچایا۔ انھوں نے لاہور کے علاوہ سیالکوٹ اور لودھراں کے چار حلقوں کے انتخابی نتائج چیلنج کیے۔ پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ نجم سیٹھی پر 35 پنکچروں کا بے بنیاد الزام لگایا اور دھاندلی کو بنیاد بنا کر اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کسی غیبی مدد کے آسرے پر کیا مگر لاہور سے اسلام آباد تک لوگوں کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب نہ رہے۔
پی ٹی آئی کے ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری کی پارٹی نے لاہورسے لانگ مارچ تو کیا مگر عمران خان سے الگ رہ کر کیا۔ عوامی تحریک کا لانگ مارچ اور اسلام آباد دھرنا پی ٹی آئی سے موثر تھا جس نے وفاق کو کافی نقصان پہنچایا۔ طاہر القادری گرمی سردی اپنے کنٹینر میں رہے اور عمران خان بنی گالا سے شام کو دھرنے میں آتے جہاں رات گئے موسیقی کی دھنیں بجتیں اور عوام کی تعداد پی ٹی آئی سے زیادہ عوامی تحریک کے دھرنے میں ہوتی۔ طاہر القادری اور عمران خان ایک کنٹینر پر آکر بھائی بھائی بھی بنے مگر ڈاکٹر طاہر القادری نے ان پر اعتماد نہ کیا اور اپنا دھرنا ختم کرکے عمران خان کو اکیلا چھوڑ گئے۔
عمران خان نے اپنا یہ ناکام شو 126 دن دکھایا پھر پشاور پبلک آرمی اسکول دہشت گردی کو بنیاد بناکر دھرنا ختم کردیا۔ عمران خان نے پانچ سال خاموش رہنے کی بجائے وزیراعظم کو ٹارگٹ بناکر ملک بھر میں جلسے جلوسوں کا سلسلہ جاری رکھا اور تان پاناما پر بھی نہ ٹوٹی اور مرضی کا فیصلہ نہ آنے کی صورت میں بھی شاید عمران خان خاموش نہیں رہیںگے اور مسلم لیگ ن کی قیادت کو بدنام کرنے کے لیے ملک بھر میں جلسے جلوس دوبارہ شروع کریںگے کیونکہ ان کے پاس عوام کو بتانے کے لیے کے پی کے حکومت کی کارکردگی کی تفصیلات اتنی نہیں کہ عوام کو متاثر کرسکیں۔ جس طرح شہباز شریف پنجاب میں کارکردگی میں نمبر ون ہیں۔ اس طرح کے پی کے، کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نہیں ہیں جو اب لسانی سیاست پر مائل ہوئے ہیں جس سے پی ٹی آئی کو مزید سیاسی نقصان ہوگا۔
عمران خان کی اپنی پارٹی پر گرفت مضبوط ہے کوئی پارٹی رہنما عمران خان کو ان کی غلطیوں اور حقائق سے آگاہ کرنے کی جرأت نہیں رکھتا یا عمران خان من مانی کے عادی ہوچکے ہیں اور بقول وزیر قانون پنجاب وہ بلا سوچے سمجھے بول پڑتے ہیں جس سے ان کی مقبولیت میں واقعی کمی آرہی ہے۔ عمران خان کے مخالفین آئے دن بیانات اور موقف بدل لینے کے باعث انھیں مختلف ناموں سے پکارنے لگے ہیں اور میڈیا پر بھی انھیں اپنے موقف سے انحراف کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے جس سے عوام متاثر ہو رہے ہیں۔
عمران خان نے حکومت مخالفت کو نواز شریف دشمنی کا رنگ دے رکھا ہے اور انھوں نے حکومت کی ہر خامی اور وحشت گردی کا ذمے دار وزیراعظم کو قرار دینے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے اور وہ اس سلسلے میں اپنے قریبی کے کہنے پر چل رہے ہیں۔ عمران خان کی جارحانہ پالیسی جہاں حکومت کے حق میں جارہی ہے وہیں انھیں پی پی، جے یو آئی، اے این پی کی طرف سے اپوزیشن کے متحد نہ ہونے کا ذمے دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔
عمران خان پیپلزپارٹی پر تنقید کم ہی کرتے ہیں اور ان کا سارا زور نواز شریف کی مخالفت پر مرکوز ہے اور کے پی کے حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے عمران خان توجہ نہیں دے رہے جس کی اشد ضرورت ہے۔عوام اب مخالفانہ تقریروں اور الزامات سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ کارکردگی دیکھنا چاہتے ہیں جب کہ اس سلسلے میں پی پی سندھ میں کچھ عملی طور پر کرسکی ہے نہ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں قابل تعریف کام دکھاسکی ہے، جس کا سارا نقصان 2018 میں عمران خان کو ہوسکتا ہے۔