بینکوں کو بین الاقوامی تجارت کے نام پر منی لانڈرنگ روکنے کی ہدایت

بینک تجارتی لین دین میں انڈر اور اوور انوائسنگ کے امکانات کو مدنظررکھ کر ہوشیاری سے کام لیں، ایس بی پی

غیرمجازفاریکس آپریٹرز کوبینکاری خدمات میں احتیاط، صارف کے اندازکاجائزہ،مشتبہ سرگرمیوں کی اطلاع کا حکم۔ فوٹو: فائل

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بین الاقوامی تجارت کی آڑ میں کی جانے والی منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے بینکوں کو تجارتی لین دین میں انڈر انوائسنگ اور اوور انوائسنگ کے امکانات کو مدنظررکھتے ہوئے انتہائی احتیاط سے کام لینے اور جانچ پڑتال کی استعداد کو بہتر بنانے کی ہدایت کردی ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر اشرف محمود وتھرا کے زیر صدارت غیرمعمولی اجلاس گزشتہ روز مرکزی بینک میں منعقد ہوا جس میں کمرشل بینکوں کے سربراہان نے شرکت کی۔ اس موقع پر میڈیا کو بریف کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ اگرچہ منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے پہلے سے موثر قوانین موجود ہیں تاہم موجودہ حالات کے مطابق ان قوانین کی افادیت بڑھانے کے لیے بینکوں سے مشاورت کے بعد نئے فیصلے کیے گئے ہیں جن کے تحت بینکوں کو ٹریڈ بیسڈ منی لانڈرنگ کے سدباب اور غیر لائسنس یافتہ فاریکس آپریٹرز کو بینکاری خدمات کی فراہمی میں احتیاط برتنے اور اپنے عملے کی صلاحیتوں اور نگرانی کے نظام کو بہتر بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ یہ بات اچھی طرح سب کے علم میں ہے کہ تجارتی لین دین میں انڈر انوائسنگ اور اوور انوائسنگ کے امکانات موجود ہوتے ہیں جوکسی مالیت کو بیرون ملک منتقل کرنے میں سہولت فراہم کرتے ہیں، اس سلسلے میں بنیادی ذمے داری پاکستان کسٹمز کی ہے تاہم چونکہ دستاویزات کا لین دین ہوتا ہے اور ایل سیز (لیٹر آف کریڈٹ) کا تصفیہ باقاعدہ بینکوں کے ذریعے ہوتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ بینک بیرونی تجارتی لین دین کی کارروائی کرتے وقت انتہائی احتیاط سے کام لینے اور جانچ پڑتال کرنے کے ضمن میں اپنی استعداد بڑھائیں۔


اجلاس میں غیر مجاز فاریکس آپریٹرز کو بینکاری خدمات کی فراہمی کی روک تھام کا معاملہ بھی زیر غور لایا گیا، اس ضمن میں مرکزی بینک نے امکان ظاہر کیا کہ ہوسکتا ہے کہ غیر مجاز فاریکس آپریٹرز کے بینکوں میں اکاونٹس ہوں جنہیں وہ ترسیلاتِ زر کے غیر قانونی کاروبار کے لیے استعمال کرتے ہوں، بینکوں کو چاہیے کہ اپنے صارفین کے حوالے سے مروجہ طریقہ کار کو بہتر بنائیں تاکہ ایسے روابط کی حوصلہ شکنی کی جا سکے، اس ضمن میں بینکوں کو اپنے صارفین کے لین دین کے انداز کا جائزہ لینا چاہیے اور مشتبہ سرگرمیوں کی اطلاع ایف ایم یو کو دینی چاہیے۔

مرکزی بینک نے بینکوں کو ہدایت کی ہے کہ بینکاری ذرائع سے منی لانڈرنگ کو کم کرنے کے لیے دستاویزات میں اعلان کردہ مالیتوں اور مارکیٹ کی دستیاب قیمتوں کے درمیان فرق معلوم کرنے کے لیے ایک ان ہاوس (in-house) نظام نافذ کیا جائے، علاوہ ازیں بینکوں کو ٹرانزیکشنز کا انتظام کرنے کے لیے اضافے کے طریقے وضع کرنے کی ضرورت ہے جہاں پر قیمتوں میں خاصے فرق کی نشاندہی ہو جائے، جب متعلقہ فریقوں میں بین الاقوامی تجارتی لین دین شامل ہو تو اضافی جانچ پڑتال کی جائے، بینکوں کو چاہیے کہ وہ متعلقہ فریقوں کے تجارتی لین دین کی نشاندہی کے لیے خارجی اور داخلی کنٹرولز نافذ کریں جبکہ ایسے امور میں اگر کوئی انحراف پایا جاتا ہے تو اس سے اسٹیٹ بینک کو آگاہ کیا جانا چاہیے اور/یا ایس ٹی آرز بھیجے جا سکتے ہیں۔ تجارت پر مبنی منی لانڈرنگ کے مجموعی خطرات کو نمٹانے کے لیے زیادہ خصوصی رہنمائی، پالیسیوں اور طریقہ کار کی موجودگی ضروری ہے۔ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ بینکوں کی ٹرانزیکشنز کی نگرانی کا عمل اور نظام اتنا مضبوط ہو کہ مشکوک ٹرانزیکشنز کی نشاندہی کی جاسکے، ایسی ٹرانزیکشنز کی موزوں تحقیقات اور جانچ ہو اور باقاعدگی سے عملدرآمد کے حوالے سے خصوصاً ان ٹرانزیکشنز کے بارے میں جن کی جانچ نہیں کی گئی کوالٹی اشورنس کے مقاصد سے معائنے انجام دیے جائیں، تجارتی فنانسنگ میں پائے جانے والے مالی جرائم کے خطرات اور زرمبادلہ کے آپریشنز کے بارے میں متعلقہ اسٹاف کو مخصوص اور مناسب تربیت فراہم کی جائے۔

آخر میں گورنر نے اسٹیٹ بینک کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ بینکوں کے اسٹاف کو اعلیٰ تربیت، ٹیکنالوجی کی خریداری اور بعض اوقات بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاسوں یا اپنے بیرون ملک نیٹ ورکس کے امور کے انتظام کے لیے بیرون ملک بھیجنے کے لیے بینکوں کی حوصلہ افزائی کرتا رہے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے کے اختتام پر ایک بڑے نجی بینک کی اعلیٰ قیادت کے حوالے سے زیر گردش رہنے والی اطلاعات پر تبصرہ کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والی یہ اطلاعات محض افواہیں تھیں اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ اسٹیٹ بینک نے بینکوں کے عملے کے بیرون ملک سفر سے متعلق بینکوں کو اپنی پالیسی آئندہ 90روز میں مرکزی بینک کو پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
Load Next Story