افغان بارڈر کی بندش نے ڈالر کی قدر 240 روپے گرا دی
سرحد پار آمدورفت معطل ہونے سے ڈالر کی طلب گھٹ کررسدکے برابر آگئی، ملک بوستان
MULTAN:
پاکستان سے ملحقہ افغان سرحدوں کی بندش پاکستانی مارکیٹوں میں امریکی ڈالرکی تنزلی کا باعث بن گئی ہے جبکہ اسٹیٹ بینک ایکس چینج پالیسی ڈپارٹمنٹ کے اقدامات اورگزشتہ 5 سال میں کرنسی کا لین دین کرنے والوں کا ڈیٹا طلب کرنے سے متعلق ایف بی آرکے نوٹسزسے متعلق وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار کی فوری مداخلت جیسے عوامل بھی ڈالرکی نسبت پاکستانی روپے کی قدرمیں استحکام کا باعث بنے اورگزشتہ 2ماہ کے دوران امریکی ڈالر کی قدر میں مجموعی طور پر2.40 روپے کی کمی ہوئی۔
فاریکس ایسوسی ایشن کے چیئرمین ملک محمد بوستان نے 'ایکسپریس' کے استفسار پربتایا کہ افغانستان سے ملحقہ سرحدوں سے یومیہ30 ہزارافراد کی آمدورفت ہوتی تھی جن کی یومیہ 2 سے3 ملین ڈالر کے مساوی کرنسیوں کی ڈیمانڈ ہوتی تھی اور وہ لوگ یہ کرنسی اوپن مارکیٹ سے ہی حاصل کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ پہلے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی یومیہ ڈیمانڈ7 تا8 ملین ڈالر تھی جبکہ اس کے برعکس مارکیٹ میں ڈالر کی سپلائی کا حجم 3 سے5 ملین ڈالر یومیہ تھا جس کی وجہ سے ڈالر کی قدرمیں بتدریج اضافے کا رحجان غالب تھا جس پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے تشویش کا اظہارکرتے ہوئے فوری طور پرفاریکس ایسوسی ایشن سے وجوہ طلب کیں توانہیں بتایا گیا کہ کمرشل بینکوں کی جانب سے ورکرز ریمیٹنسز بھیجنے والوں کو فزیکلی ڈالر کی عدم فراہمی نے مسائل بڑھادیے ہیں تاہم ایگزیکٹوڈائریکٹراسٹیٹ بینک عرفان شاہ کے سخت اقدامات نے ڈالر کی نسبت پاکستانی روپے کی قدرکومزید تنزلی سے بچالیا۔
بعد ازاں ایف بی آرکی جانب سے تمام ایکس چینج کمپنیوں کوسال2013 سے2017 کی مد میں زرمبادلہ کے لین دین کرنے والوں کی فہرست طلب کرنے کے نوٹسز جاری ہونے سے اوپن مارکیٹ میں دوبارہ خوف وہراس پھیل گیا تھا اور ڈالر کی قدر میں اضافے کے خطرات پیدا ہوگئے تھے لیکن فاریکس ایسوسی ایشن نے وفاقی وزیرخزانہ اسحق ڈارسے رابطہ کرکے انہیں حقائق سے آگاہ کیا کہ تمام ایکس چینج کمپنیاں زرمبادلہ کے لین دین کا تمام ڈیٹا پہلے ہی اسٹیٹ بینک کو باقاعدگی کے ساتھ ارسال کرتی ہیں جس پر وزیرخزانہ نے فوری مداخلت کی اور بعدازاں ایف بی آرکی جانب سے نوٹسز کے اجرا کا سلسلہ رک گیا، ان عوامل کے باعث اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی یومیہ ڈیمانڈ3 تا4 ملین ڈالر گھٹ کر4 تا5 ملین ڈالر رہ گئی ہے جبکہ سپلائی بدستور4 تا5 ملین ڈالر پرمستحکم ہے، یہی وجہ ہے کہ اوپن مارکیٹ میں پیرکوامریکی ڈالرمزید گھٹ کر106.60 روپے کی سطح پر آگئی ہے جبکہ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالرکی قدر104.85 روپے ہے۔
واضح رہے کہ مقامی اوپن مارکیٹ میں 20 جنوری کو ڈالر کی قدر109 روپے کی بلند سطح پر موجود تھی جواسٹیٹ بینک اورایکس چینج کمپنیوں کے درمیان طے پانے والے مختلف اقدامات کے نتیجے میں وقفے وقفے سے گھٹتی جا رہی تھی جبکہ افغان سرحدوں طورخم اور چمن کی بندش کے نتیجے میں ڈالر کی قدر مزید تنزلی کا شکار ہوگئی ہے۔
پاکستان سے ملحقہ افغان سرحدوں کی بندش پاکستانی مارکیٹوں میں امریکی ڈالرکی تنزلی کا باعث بن گئی ہے جبکہ اسٹیٹ بینک ایکس چینج پالیسی ڈپارٹمنٹ کے اقدامات اورگزشتہ 5 سال میں کرنسی کا لین دین کرنے والوں کا ڈیٹا طلب کرنے سے متعلق ایف بی آرکے نوٹسزسے متعلق وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار کی فوری مداخلت جیسے عوامل بھی ڈالرکی نسبت پاکستانی روپے کی قدرمیں استحکام کا باعث بنے اورگزشتہ 2ماہ کے دوران امریکی ڈالر کی قدر میں مجموعی طور پر2.40 روپے کی کمی ہوئی۔
فاریکس ایسوسی ایشن کے چیئرمین ملک محمد بوستان نے 'ایکسپریس' کے استفسار پربتایا کہ افغانستان سے ملحقہ سرحدوں سے یومیہ30 ہزارافراد کی آمدورفت ہوتی تھی جن کی یومیہ 2 سے3 ملین ڈالر کے مساوی کرنسیوں کی ڈیمانڈ ہوتی تھی اور وہ لوگ یہ کرنسی اوپن مارکیٹ سے ہی حاصل کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ پہلے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی یومیہ ڈیمانڈ7 تا8 ملین ڈالر تھی جبکہ اس کے برعکس مارکیٹ میں ڈالر کی سپلائی کا حجم 3 سے5 ملین ڈالر یومیہ تھا جس کی وجہ سے ڈالر کی قدرمیں بتدریج اضافے کا رحجان غالب تھا جس پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے تشویش کا اظہارکرتے ہوئے فوری طور پرفاریکس ایسوسی ایشن سے وجوہ طلب کیں توانہیں بتایا گیا کہ کمرشل بینکوں کی جانب سے ورکرز ریمیٹنسز بھیجنے والوں کو فزیکلی ڈالر کی عدم فراہمی نے مسائل بڑھادیے ہیں تاہم ایگزیکٹوڈائریکٹراسٹیٹ بینک عرفان شاہ کے سخت اقدامات نے ڈالر کی نسبت پاکستانی روپے کی قدرکومزید تنزلی سے بچالیا۔
بعد ازاں ایف بی آرکی جانب سے تمام ایکس چینج کمپنیوں کوسال2013 سے2017 کی مد میں زرمبادلہ کے لین دین کرنے والوں کی فہرست طلب کرنے کے نوٹسز جاری ہونے سے اوپن مارکیٹ میں دوبارہ خوف وہراس پھیل گیا تھا اور ڈالر کی قدر میں اضافے کے خطرات پیدا ہوگئے تھے لیکن فاریکس ایسوسی ایشن نے وفاقی وزیرخزانہ اسحق ڈارسے رابطہ کرکے انہیں حقائق سے آگاہ کیا کہ تمام ایکس چینج کمپنیاں زرمبادلہ کے لین دین کا تمام ڈیٹا پہلے ہی اسٹیٹ بینک کو باقاعدگی کے ساتھ ارسال کرتی ہیں جس پر وزیرخزانہ نے فوری مداخلت کی اور بعدازاں ایف بی آرکی جانب سے نوٹسز کے اجرا کا سلسلہ رک گیا، ان عوامل کے باعث اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی یومیہ ڈیمانڈ3 تا4 ملین ڈالر گھٹ کر4 تا5 ملین ڈالر رہ گئی ہے جبکہ سپلائی بدستور4 تا5 ملین ڈالر پرمستحکم ہے، یہی وجہ ہے کہ اوپن مارکیٹ میں پیرکوامریکی ڈالرمزید گھٹ کر106.60 روپے کی سطح پر آگئی ہے جبکہ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالرکی قدر104.85 روپے ہے۔
واضح رہے کہ مقامی اوپن مارکیٹ میں 20 جنوری کو ڈالر کی قدر109 روپے کی بلند سطح پر موجود تھی جواسٹیٹ بینک اورایکس چینج کمپنیوں کے درمیان طے پانے والے مختلف اقدامات کے نتیجے میں وقفے وقفے سے گھٹتی جا رہی تھی جبکہ افغان سرحدوں طورخم اور چمن کی بندش کے نتیجے میں ڈالر کی قدر مزید تنزلی کا شکار ہوگئی ہے۔