کوئٹہ اورمینگورہ میں دہشت گردی
صوبہ خیبر پختونخوا‘ بلوچستان اور کراچی دہشت گردوں کے خاص نشانے پر ہیں۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور خیبر پختونخوا کے شہر مینگورہ میں بم دھماکوں کے چار واقعات میں مجموعی طور پر 105 افراد جان بحق اور 360 زخمی ہو گئے۔ کوئٹہ میں 3 بم دھماکے ہوئے جس میں 83 افراد جاں بحق اور 250 سے زائد زخمی ہو گئے۔ پہلا دھماکا باچا خان چوک میں ایف سی کی چیک پوسٹ کے قریب ہوا جس میں تین اہلکاروں' ایک بچے سمیت 12 افراد جاں بحق اور 40 زخمی ہو گئے۔
اس کے بعد علمدار روڈ کوئٹہ پر یکے بعد دیگر دو دھماکے ہوئے جن میں ایس پی قائد آباد طارق مسعود، ڈی ایس پی مجاہد حسین، ایس ایچ او ظفر علی،پانچ پولیس اہلکار، ایک نجی ٹی وی کے کیمرہ مین، مقامی رپورٹر، ایدھی کے چار رضاکاروں سمیت 71 افراد جاں بحق ہوئے اور دو سو کے قریب زخمی ہوئے۔مینگورہ کے نواحی علاقے تختہ بند میں مسجد میں نماز مغرب کے بعد خود کش حملے میں 22 افراد جاں بحق ہوئے ۔
دہشت گردی کے عفریت نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بم دھماکے اور فائرنگ کے واقعات روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں' کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ملک میں دہشت گردی کی کوئی نہ کوئی واردات نہ ہوتی ہو۔ صوبہ خیبر پختونخوا' بلوچستان اور کراچی دہشت گردوں کے خاص نشانے پر ہیں۔ دہشت گرد اس قدر تربیت یافتہ اور منظم ہیں کہ وہ بے باکی سے سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنا رہےہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گرد اپنی ان امن دشمن کارروائیوں سے شاید یہ عندیہ دینا چاہتے ہیں کہ وہ حکومتی اداروں سے زیادہ مضبوط اور متحرک ہیں اور وہ جب چاہیں عوام کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی اہلکاروں کو بھی اپنا نشانہ بنا سکتے ہیں۔
دوسرا ان کا مقصد عوام میں خوف و ہراس اور مایوسی پھیلانا ہو سکتا ہے تاکہ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ جب سیکیورٹی ادارے اور اہلکار ہی محفوظ نہیں تو عوام جو نہتے ہیں اور اپنی سیکیورٹی کے لیے انھی اہلکاروں پر بھروسہ کرتے ہیں' کی حفاظت کون کرے گا۔ اس طرح پورے معاشرے میں خوف و ہراس کی فضا چھا جائے گی اور شہریوں میں حکومت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو گا۔ ملک بدامنی، انتشار اور خلفشار کا شکار ہو کر کمزور ہو جائے گا۔ اپنے ان گھنائونے مقاصد کے حصول کے لیے دہشت گرد پورے ملک میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔علاوہ ازیں فرقہ واریت نے بھی دہشت گردی کو بڑھاوا دیاہے۔
کوئٹہ میں علمدار روڈ پر جو دو بم دھماکے ہوئے ہیں ان کی ذمے داری لشکر جھنگوی نے قبول کر لی ہے۔ دھماکوں کے بعد کوئٹہ میں سوگ کی فضا قائم ہے۔ جمعے کو شہر میں ہڑتال کے باعث ٹریفک نہ ہونے کے برابر رہی۔ہفتے کو بھی کوئٹہ شہر میں صورتحال خراب رہی۔ دوسری جانب مینگورہ کے نواحی علاقے تختہ بند میں تبلیغی جماعت کی مکی مسجد میں خود کش دھماکے بھی کئی پہلو لیے ہوئے ہے۔ دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ ہے جس میں تبلیغی جماعت کی مسجد کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس سے قبل اس کے تمام مراکز کو محفوظ تصور کیا جاتا تھا۔ اب تبلیغی جماعت کے ذمے داروں کو بھی اپنے مراکز میں حفاظتی انتظامات کا جدید نظام قائم کرنا ہو گا کیونکہ تبلیغی مراکز میں ہر وقت سیکڑوں افراد موجود ہوتے ہیں، اس لیے دہشت گردوں کے لیے ان مراکز کو نشانہ بنانا قدرے آسان ہے۔
کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکوں کے بارے میں گورنر بلوچستان کا کہنا ہے کہ صوبے کے حالات خراب کرنے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔ ملک میں جس بڑے پیمانے پر دہشت گردی کی کارروائیاں ہو رہی ہیں، اس میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ذمے دار حکام کئی بار اس امر کی جانب اشارہ کر چکے ہیں کہ بیرونی ہاتھ دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ جب بیرونی قوتیں دہشت گردی میں ملوث ہو چکی ہیں تو ہمارے ارباب اختیار کواس مسئلے سے نمٹنے کے لیے روایتی پالیسی اور طریقہ کار میں تبدیلی لانا ہو گی۔ پولیس' خاصہ دار فورس' ایف سی اور دیگر مسلح اداروں کے اہلکاروں کو جدید تربیت اور ہتھیاروں سے لیس کرنا ہو گا۔ روایتی تربیت یافتہ فورس دہشت گردی پر قابو نہیں پا سکتی۔ شہروں میں جدید کیمرے نصب کیے جائیں تاکہ شہر کے تمام معاملات پر کڑی نظر رکھی جا سکے۔
اس کی واضح مثال لندن میں ہونے والے ہنگامے ہیں۔وہاں سیکیورٹی اداروں نے نہ صرف ہنگاموں پر قابو پایا بلکہ بازاروں میں نصب سیکیورٹی کیمروں کی مدد سے شرپسندوں کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی طویل سرحد کافی مشکل علاقہ ہے، دہشت گرد خفیہ سرحدی علاقوں سے داخل ہو کر اپنی مذموم کارروائیاں کرتے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے داخلے کو روکنے کے لیے جدید آلات کی مدد سے سرحدی نگرانی کا نظام موثر بنایا جائے۔ بعض حلقے یہ رائے بھی دیتے ہیں کہ سرحد کے ساتھ ساتھ خاردارتار لگائی جائے تاکہ دہشت گردوں کے داخلہ کو نا ممکن بنایا جا سکے۔
بہرحال پاکستان میں دہشت گرد مختلف روپ اور بہروپ میں کارروائیاں کررہے ہیں۔کوئٹہ میں ایف سی چیک پوسٹ کو نشانہ بنانے والے گروپ کے مقاصد اور ہیں جب کہ علمدار روڈ پر بے گناہوں کی زندگی سے کھیلنے والوں کا مقصد فرقہ واریت ہے۔مینگورہ کا سانحہ بھی یہی پہلو لیے ہوئے ہے۔ ہم پہلے بھی انھی سطور میں یہ رائے دے چکے ہیں کہ پاکستان میں ایک نہیں متعدد دہشت گرد گروہ کام کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں اگر تحریک طالبان سرگرم عمل ہے تو بلوچستان میں قوم پرستی کے نام پر مسلح گروہ موجود ہیں۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے خلاف دہشت گردی کی جو وارداتیں ہوتی ہیں، ان میں کالعدم فرقہ پرست تنظیمیں ملوث ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح کراچی میں لسانی گروپ موجود ہیں۔ پنجاب میں بھی فرقہ پرست تنظیمیں موجود ہیں۔ ان تنظیموں کے مقاصد مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ان کا ہدف ایک ہے۔
یہ ہدف حکومت پاکستان کو مفلوج کرنا ہے۔ حکومت مفلوج ہوتی ہے تو پھر اس کا اثر ریاست کے وجود پر پڑنے کا خطرہ ہے۔ دہشت گرد گروہ ایک جانب فوج' ایف سی اور پولیس پر حملہ آور ہیں تو دوسری طرف فرقہ وارانہ، نسلی اور لسانی اختلافات کو ہوا دینے کے لیے قتل و غارت گری کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ اب اس میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ پاکستان کو اس وقت سب سے زیادہ خطرہ ملک کے اندر سرگرم عمل دہشت گرد گروہوں سے ہے، جب تک ان کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، ملک میں امن و امان کا قیام ممکن نہیں ہے۔ یہ مسلمہ اصول ہے کہ اگر کسی ریاست میں امن نہیں ہو گا تو وہ زیادہ دیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔ لہٰذا کسی مصلحت کے بغیر دہشت گردی کی ہر شکل کا خاتمہ ملک کی بقا کے لیے ضروری ہو چکا ہے۔
اس کے بعد علمدار روڈ کوئٹہ پر یکے بعد دیگر دو دھماکے ہوئے جن میں ایس پی قائد آباد طارق مسعود، ڈی ایس پی مجاہد حسین، ایس ایچ او ظفر علی،پانچ پولیس اہلکار، ایک نجی ٹی وی کے کیمرہ مین، مقامی رپورٹر، ایدھی کے چار رضاکاروں سمیت 71 افراد جاں بحق ہوئے اور دو سو کے قریب زخمی ہوئے۔مینگورہ کے نواحی علاقے تختہ بند میں مسجد میں نماز مغرب کے بعد خود کش حملے میں 22 افراد جاں بحق ہوئے ۔
دہشت گردی کے عفریت نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بم دھماکے اور فائرنگ کے واقعات روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں' کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ملک میں دہشت گردی کی کوئی نہ کوئی واردات نہ ہوتی ہو۔ صوبہ خیبر پختونخوا' بلوچستان اور کراچی دہشت گردوں کے خاص نشانے پر ہیں۔ دہشت گرد اس قدر تربیت یافتہ اور منظم ہیں کہ وہ بے باکی سے سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنا رہےہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گرد اپنی ان امن دشمن کارروائیوں سے شاید یہ عندیہ دینا چاہتے ہیں کہ وہ حکومتی اداروں سے زیادہ مضبوط اور متحرک ہیں اور وہ جب چاہیں عوام کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی اہلکاروں کو بھی اپنا نشانہ بنا سکتے ہیں۔
دوسرا ان کا مقصد عوام میں خوف و ہراس اور مایوسی پھیلانا ہو سکتا ہے تاکہ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ جب سیکیورٹی ادارے اور اہلکار ہی محفوظ نہیں تو عوام جو نہتے ہیں اور اپنی سیکیورٹی کے لیے انھی اہلکاروں پر بھروسہ کرتے ہیں' کی حفاظت کون کرے گا۔ اس طرح پورے معاشرے میں خوف و ہراس کی فضا چھا جائے گی اور شہریوں میں حکومت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو گا۔ ملک بدامنی، انتشار اور خلفشار کا شکار ہو کر کمزور ہو جائے گا۔ اپنے ان گھنائونے مقاصد کے حصول کے لیے دہشت گرد پورے ملک میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔علاوہ ازیں فرقہ واریت نے بھی دہشت گردی کو بڑھاوا دیاہے۔
کوئٹہ میں علمدار روڈ پر جو دو بم دھماکے ہوئے ہیں ان کی ذمے داری لشکر جھنگوی نے قبول کر لی ہے۔ دھماکوں کے بعد کوئٹہ میں سوگ کی فضا قائم ہے۔ جمعے کو شہر میں ہڑتال کے باعث ٹریفک نہ ہونے کے برابر رہی۔ہفتے کو بھی کوئٹہ شہر میں صورتحال خراب رہی۔ دوسری جانب مینگورہ کے نواحی علاقے تختہ بند میں تبلیغی جماعت کی مکی مسجد میں خود کش دھماکے بھی کئی پہلو لیے ہوئے ہے۔ دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ ہے جس میں تبلیغی جماعت کی مسجد کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس سے قبل اس کے تمام مراکز کو محفوظ تصور کیا جاتا تھا۔ اب تبلیغی جماعت کے ذمے داروں کو بھی اپنے مراکز میں حفاظتی انتظامات کا جدید نظام قائم کرنا ہو گا کیونکہ تبلیغی مراکز میں ہر وقت سیکڑوں افراد موجود ہوتے ہیں، اس لیے دہشت گردوں کے لیے ان مراکز کو نشانہ بنانا قدرے آسان ہے۔
کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکوں کے بارے میں گورنر بلوچستان کا کہنا ہے کہ صوبے کے حالات خراب کرنے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔ ملک میں جس بڑے پیمانے پر دہشت گردی کی کارروائیاں ہو رہی ہیں، اس میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ذمے دار حکام کئی بار اس امر کی جانب اشارہ کر چکے ہیں کہ بیرونی ہاتھ دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ جب بیرونی قوتیں دہشت گردی میں ملوث ہو چکی ہیں تو ہمارے ارباب اختیار کواس مسئلے سے نمٹنے کے لیے روایتی پالیسی اور طریقہ کار میں تبدیلی لانا ہو گی۔ پولیس' خاصہ دار فورس' ایف سی اور دیگر مسلح اداروں کے اہلکاروں کو جدید تربیت اور ہتھیاروں سے لیس کرنا ہو گا۔ روایتی تربیت یافتہ فورس دہشت گردی پر قابو نہیں پا سکتی۔ شہروں میں جدید کیمرے نصب کیے جائیں تاکہ شہر کے تمام معاملات پر کڑی نظر رکھی جا سکے۔
اس کی واضح مثال لندن میں ہونے والے ہنگامے ہیں۔وہاں سیکیورٹی اداروں نے نہ صرف ہنگاموں پر قابو پایا بلکہ بازاروں میں نصب سیکیورٹی کیمروں کی مدد سے شرپسندوں کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی طویل سرحد کافی مشکل علاقہ ہے، دہشت گرد خفیہ سرحدی علاقوں سے داخل ہو کر اپنی مذموم کارروائیاں کرتے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے داخلے کو روکنے کے لیے جدید آلات کی مدد سے سرحدی نگرانی کا نظام موثر بنایا جائے۔ بعض حلقے یہ رائے بھی دیتے ہیں کہ سرحد کے ساتھ ساتھ خاردارتار لگائی جائے تاکہ دہشت گردوں کے داخلہ کو نا ممکن بنایا جا سکے۔
بہرحال پاکستان میں دہشت گرد مختلف روپ اور بہروپ میں کارروائیاں کررہے ہیں۔کوئٹہ میں ایف سی چیک پوسٹ کو نشانہ بنانے والے گروپ کے مقاصد اور ہیں جب کہ علمدار روڈ پر بے گناہوں کی زندگی سے کھیلنے والوں کا مقصد فرقہ واریت ہے۔مینگورہ کا سانحہ بھی یہی پہلو لیے ہوئے ہے۔ ہم پہلے بھی انھی سطور میں یہ رائے دے چکے ہیں کہ پاکستان میں ایک نہیں متعدد دہشت گرد گروہ کام کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں اگر تحریک طالبان سرگرم عمل ہے تو بلوچستان میں قوم پرستی کے نام پر مسلح گروہ موجود ہیں۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے خلاف دہشت گردی کی جو وارداتیں ہوتی ہیں، ان میں کالعدم فرقہ پرست تنظیمیں ملوث ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح کراچی میں لسانی گروپ موجود ہیں۔ پنجاب میں بھی فرقہ پرست تنظیمیں موجود ہیں۔ ان تنظیموں کے مقاصد مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ان کا ہدف ایک ہے۔
یہ ہدف حکومت پاکستان کو مفلوج کرنا ہے۔ حکومت مفلوج ہوتی ہے تو پھر اس کا اثر ریاست کے وجود پر پڑنے کا خطرہ ہے۔ دہشت گرد گروہ ایک جانب فوج' ایف سی اور پولیس پر حملہ آور ہیں تو دوسری طرف فرقہ وارانہ، نسلی اور لسانی اختلافات کو ہوا دینے کے لیے قتل و غارت گری کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ اب اس میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ پاکستان کو اس وقت سب سے زیادہ خطرہ ملک کے اندر سرگرم عمل دہشت گرد گروہوں سے ہے، جب تک ان کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، ملک میں امن و امان کا قیام ممکن نہیں ہے۔ یہ مسلمہ اصول ہے کہ اگر کسی ریاست میں امن نہیں ہو گا تو وہ زیادہ دیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔ لہٰذا کسی مصلحت کے بغیر دہشت گردی کی ہر شکل کا خاتمہ ملک کی بقا کے لیے ضروری ہو چکا ہے۔