افغانستان سے امریکی انخلاکی تیاریاں
مسٹر پنیٹا کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگلا سال افغانستان کے لیے بطور خاص بہت اہمیت کا حامل ہے۔
امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے کہا ہے کہ بہت لمبی اور بے حد مہنگی افغان جنگ اب اپنے آخری باب میں داخل ہو گئی ہے۔ پنیٹا نے اس خیال کا اظہار افغان صدر حامد کرزئی کا پینٹا گان میں خیر مقدم کرتے ہوئے کیا۔امریکا افغانستان کی دلدل سے آیندہ سال یعنی2014ء تک فوجی انخلاء کی تاریخ دے چکا ہے۔ ادھر پینٹا گان میں امریکی وزیر دفاع کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں افغان صدر حامد کرزئی کا دعویٰ تھا کہ افغانستان بہت جلد اپنے طور پر اپنے دفاع کے قابل ہو جائے گا۔
لیون پنیٹا نے صدر کرزئی کے ہمراہ رپورٹروں سے بھی بات چیت کی اور صدر کرزئی کی اس امید کی توثیق کی کہ واقعی افغانستان اپنے دفاع کے قابل صلاحیت کا حامل بن جائے گا۔ مسٹر پنیٹا کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگلا سال افغانستان کے لیے بطور خاص بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کے بعد افغانستان کو اپنی سلامتی کی ذمے داریاں از خود نبھانی ہوں گی۔ البتہ انھوں نے افغانستان اور افغان عوام کی آیندہ بھی ہر قسم کی امداد کی یقین دہانی بھی کرائی۔ صدر کرزئی نے کہا کہ امریکا اور وہ 2013ء کے وسط تک اختیارات کی تحویل کے ابتدائی انتظامات مکمل کر لیں گے۔
کرزئی نے یہ بھی کہا کہ افغانستان امریکی انخلاء کے بعد بھی امریکی مفادات کا تحفظ کرتا رہے گا۔ صدر کرزئی کے ساتھ امریکا جانے والے دیگر افسروں نے افغان خبر رساں ایجنسی' پی اے این کو بتایا کہ امریکا 2014ء تک افغانستان سے اپنی تمام افواج واپس بلا لے گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ افغانستان میں صرف امریکی فوج ہی نہیں بلکہ نیٹواور ''ایساف'' فوجیں بھی ہیں، ان کے انخلا کا طریقہ کار بھی طے کیا جا رہا ہے۔ امریکی فوجی انخلا کا یہ مطلب نہیں کہ امریکا اپنی تمام فوج واپس بلا لے گا بلکہ امریکا اپنی زیادہ سے زیادہ فوج بدستور افغانستان میں رکھنے کی کوشش کرے گا اور اس حوالے سے کرزئی حکومت کے ساتھ اس کے مذاکرات جاری ہیں۔
امریکا یہ بھی چاہتا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجیوںکو ہر قسم کے مواخذے سے مبرا رکھا جائے۔ امریکا میں صدر کرزئی کی سی آئی اے کے قائم مقام سربراہ میکائیل موریل سے بھی ملاقات ہوئی نیز امریکی سینیٹروں کے ایک وفد نے بھی افغان صدر کے ساتھ ملاقات کی اور مستقبل کے امکانات پر تبادلۂ خیال کیا۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کا مرحلہ جیسے جیسے قریب آرہا ہے، اس خطے میں امریکا کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان کو بھی اس صورتحال کا بغور جائزہ لینا چاہیے۔
پاکستان افغانستان کے حالات سے براہ راست متاثر ہورہا ہے۔پاکستان کے لیے افغانستان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔اس لیے پاکستان کو اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔امریکا اور مغربی طاقتوں کی منصوبہ بندی یہ لگتی ہے کہ ان کی فوجیں افغانستان میں اپنے اڈوں میں موجود رہیں۔ افغان آرمی طالبان یا دیگر عسکری گروپوں سے مقابلہ کریں 'جب افغان آرمی کو ضرورت پڑے تو نیٹو یا ایساف آرمی ان کی مدد کے لیے حرکت میں آئے۔ یوں دیکھا جائے تو افغانستان مستقبل میں امریکا اور یورپ کا اہم اتحادی بنتا نظر آ رہا ہے۔پاکستان کو اس پہلو پر لازمی غور کرنا چاہیے۔
لیون پنیٹا نے صدر کرزئی کے ہمراہ رپورٹروں سے بھی بات چیت کی اور صدر کرزئی کی اس امید کی توثیق کی کہ واقعی افغانستان اپنے دفاع کے قابل صلاحیت کا حامل بن جائے گا۔ مسٹر پنیٹا کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگلا سال افغانستان کے لیے بطور خاص بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کے بعد افغانستان کو اپنی سلامتی کی ذمے داریاں از خود نبھانی ہوں گی۔ البتہ انھوں نے افغانستان اور افغان عوام کی آیندہ بھی ہر قسم کی امداد کی یقین دہانی بھی کرائی۔ صدر کرزئی نے کہا کہ امریکا اور وہ 2013ء کے وسط تک اختیارات کی تحویل کے ابتدائی انتظامات مکمل کر لیں گے۔
کرزئی نے یہ بھی کہا کہ افغانستان امریکی انخلاء کے بعد بھی امریکی مفادات کا تحفظ کرتا رہے گا۔ صدر کرزئی کے ساتھ امریکا جانے والے دیگر افسروں نے افغان خبر رساں ایجنسی' پی اے این کو بتایا کہ امریکا 2014ء تک افغانستان سے اپنی تمام افواج واپس بلا لے گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ افغانستان میں صرف امریکی فوج ہی نہیں بلکہ نیٹواور ''ایساف'' فوجیں بھی ہیں، ان کے انخلا کا طریقہ کار بھی طے کیا جا رہا ہے۔ امریکی فوجی انخلا کا یہ مطلب نہیں کہ امریکا اپنی تمام فوج واپس بلا لے گا بلکہ امریکا اپنی زیادہ سے زیادہ فوج بدستور افغانستان میں رکھنے کی کوشش کرے گا اور اس حوالے سے کرزئی حکومت کے ساتھ اس کے مذاکرات جاری ہیں۔
امریکا یہ بھی چاہتا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجیوںکو ہر قسم کے مواخذے سے مبرا رکھا جائے۔ امریکا میں صدر کرزئی کی سی آئی اے کے قائم مقام سربراہ میکائیل موریل سے بھی ملاقات ہوئی نیز امریکی سینیٹروں کے ایک وفد نے بھی افغان صدر کے ساتھ ملاقات کی اور مستقبل کے امکانات پر تبادلۂ خیال کیا۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کا مرحلہ جیسے جیسے قریب آرہا ہے، اس خطے میں امریکا کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان کو بھی اس صورتحال کا بغور جائزہ لینا چاہیے۔
پاکستان افغانستان کے حالات سے براہ راست متاثر ہورہا ہے۔پاکستان کے لیے افغانستان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔اس لیے پاکستان کو اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔امریکا اور مغربی طاقتوں کی منصوبہ بندی یہ لگتی ہے کہ ان کی فوجیں افغانستان میں اپنے اڈوں میں موجود رہیں۔ افغان آرمی طالبان یا دیگر عسکری گروپوں سے مقابلہ کریں 'جب افغان آرمی کو ضرورت پڑے تو نیٹو یا ایساف آرمی ان کی مدد کے لیے حرکت میں آئے۔ یوں دیکھا جائے تو افغانستان مستقبل میں امریکا اور یورپ کا اہم اتحادی بنتا نظر آ رہا ہے۔پاکستان کو اس پہلو پر لازمی غور کرنا چاہیے۔