پاک بھارت تعلقات

پاکستان اب تک بھارت کو تجارت میں پسندیدہ ملک قرار دینے کا فیصلہ نہیں کرپایا۔

tauceeph@gmail.com

دل کھل جائیں تو سرحدوں کی کوئی حیثیت نہیں، سارک ممالک میں تجارت کا فروغ چاہتے ہیں، تنگ نظری کا مظاہرہ کیا تو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔ وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے سائوتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے سیفما کے اجلاس میںکہا کہ پاک بھارت بہتر تعلقات سے خطے میں استحکام حاصل ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ دوبارہ وزیر اعظم بننے پر وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں گے۔

سندھ کے عوام کو بھارتی ویزا کراچی سے ملے، داخلہ امور کے وفاقی وزیر رحمن ملک نے اس خواہش کا اظہار کراچی میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے ملاقات کے بعد کیا۔ پاکستان اور بھارتی کرکٹرز پولیو کے خلاف جنگ میں متحدہ ہوگئے۔ ان رہنمائوں کے ان خیالات سے پاک بھارت تعلقات کو خوشگوار بنانے والوں کے جذبات کو تقویت ملی۔ ساتھ ہی کنٹرول لائن پر فائرنگ کی خبریں آنے لگی ہیں ۔ پاکستانی اور بھارتی قیادت مختلف مواقعے پر اس طرح کے خیالات کا اظہار کرتی ہے مگر دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل پھر بھی سست رفتاری کا شکار ہے۔

پاکستان اب تک بھارت کو تجارت میں پسندیدہ ملک قرار دینے کا فیصلہ نہیں کرپایا۔ بھارت 90 کی دہائی میں یہ فیصلہ کرچکا ہے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے پر کابینہ میں اتفاق رائے ہوگیا تھا مگر پھر یہ معاملہ التوا میں ڈال دیا گیا۔گزشتہ دنوں ذرایع ابلاغ میں زینت بننے والی ایک خبر میں کہا گیا ہے کہ کشمیر کمیٹی نے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے سے روک دیا ہے۔

اخبارات میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پارلیمنٹ کی خصوصی کشمیر کمیٹی نے ابتدائی اجلاس میں وزارت تجارت، خارجہ، داخلہ اور دفاع کے نمایندوں کو پاک بھارت تجارت کے تمام پہلوئوں کا جائزہ اور بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے مجوزہ فیصلے پر اپنا موقف دینے کے لیے بلایا۔ مولانا فضل الرحمن کی زیر قیادت کشمیر کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار نہ دیا جائے بلکہ اس حوالے سے پارلیمنٹ کے تحفظات دورکیے جائیں۔

پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی تاریخ خاصی پرانی ہے، اس تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر برسر اقتدار حکومت نے خواہ وہ سویلین ہو یا فوجی بھارت سے خوشگوار تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے مگر عملی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے دبائوکی بنا پر تعلقات معمول پر نہیں آسکے۔ قیام پاکستان کے بعد اگر چہ کشمیر کا تنازعہ پیدا ہوا، وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اپنا مکا دکھا کر بھارت کو سخت جواب دیا مگر ان کے دور میں بھارت سے اقلیتوں کے تحفظ اور دونوں ممالک کے درمیان سفر کی سہولتوں کو باقاعدہ بنانے کا معاہدہ ہوا۔

جنرل ایوب خان کے دور میں سندھ طاس معاہدے کے ذریعے پانی کے تنازعے کو حل کیا گیا، اگر چہ ان کے دور میں ستمبر 1965 میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہوئی مگر پھر تاشقند معاہدہ ہوا۔ ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے دور میں بھارت سے ہزار سال جنگ کا نعرہ تو لگایا تھا مگر انھوں نے 1972 میں بھارت سے شملہ معاہدہ کرکے تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو شروع کیا، ان کے دور کے آخری سال بھارت سے تجارت شروع ہوئی تھی۔ بھارتی اخبارات دوسرے دن کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں دستیاب ہونے لگے۔


جنرل ضیاء الحق کے دور میں دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر رہے۔ کراچی میں بھارتی قونصل خانہ قائم ہوا، دونوں ممالک کے شہریوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے پانچ شہروں کو ویزا ملنے لگا، ان کے دور میںسیاچن کا معاملہ بھی منظر عام پر آیا مگربھارت اور پاکستان کے تعلقات معمول پر رہے۔ جنرل ضیاء الحق نے کرکٹ ڈپلومیسی کو بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے استعمال کیا۔ پیپلزپارٹی کی دوسری حکومت میں وزیراعظم راجیو گاندھی اسلام آباد آئے، اگر چہ اس دور میں بھارتی کشمیر میں مجاہدین کی یلغار شروع ہوئی اور یہ سلسلہ وزیراعظم نواز شریف کے دور تک جاری رہا مگر میاں نواز شریف نے پنجاب کے تاجروں اور صنعتکاروں کے لیے بھارتی سرحد کھول دی۔

بے نظیر بھٹو جب دوسری دفعہ وزیراعظم بنیں تو انھوں نے دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کو ششیں تو کیں مگر نادیدہ قوتوں کے دبائو پر کراچی میں بھارتی قونصل خانے کی بندش کا فیصلہ ہوا۔ اگر چہ میاں نواز شریف نے دوستی بس کے وزیراعظم کو مینار پاکستان پر بلایا مگر جنرل پرویز مشرف کے کارگل ایڈونچر نے امن تحریک کو شدید نقصان پہنچایا۔ جنرل پرویز مشرف اقتدار پر قابض ہونے کے بعد بھارت سے دوستی پر قائل ہوگئے۔ انھوں نے کشمیر کی روایتی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے 6 متبادل تجاویز پیش کیں۔

پیپلزپارٹی کے شریک چیئر پرسن آصف زرداری نے صدر کا عہدہ سنبھالا تو انھوں نے دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں صنعتی زون قائم کرنے کی تجویز پیش کی۔ اگرچہ غیر ریاستی کرداروں (Non state actors) نے ممبئی میں دہشت گردی کرتے ہوئے دونوں ممالک کے تعلقات کو جنگ کی نفسیاتی سطح تک پہنچادیا۔

ناقدین کہتے ہیں کہ بھارت میں بھی اسٹبلشمنٹ پاکستان سے تعلقات کو معمول پر لانے کے حق میں نہیں ہیں۔ سیاچن گلیشئیر کو غیر فوجی زون قرار دینے کا معاملہ بھارتی عسکری اسٹبلشمنٹ کی بنا پر التوا کا شکار ہوا۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں دنیا میں بڑی اہم تبدیلیاں رونماہوئیں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ سرد جنگ ختم ہوگئی، امریکا کے تمام ممالک سے تعلقات استوار ہونے لگے۔ جنرل پرویز مشرف کے کارگل مہم جوئی کے بعد بھارت اور امریکا کے درمیان خوشگوار تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوا، دونوں ممالک نے سول ایٹمی معاہدے پر دستخط کیے، اس طرح سے چین کے بھارت سے قریبی تجارتی تعلقات استوار ہوئے۔

امریکا کی پیروی کرتے ہوئے یورپی ممالک نے بھارت سے قریبی روابط کو مستحکم کیا، اس کے ساتھ سعودی عرب کی بھی بھارت سے نئے تعلقات کی ابتدا ہوئی، سعودی عرب نے بھارت کی درخواست پر ایک مسلمان کو جس پر ممبئی دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام ہے اور جو پاکستانی پاسپورٹ پر سعودی عرب میں روپوش تھا بھارت کے حوالے کردیا۔ نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد خطے میں انتہا پسندی کو روکنے کے لیے امریکا، روس، چین اور یورپی ممالک نے بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو معمول پر لانے کی ضرورت پر زور دیا۔

اس بات پر ماہرین میں اتفاق ہے کہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان روابط سے ترقی اور خوشحالی کا ایک ایسا ماحول پیدا ہوگا جس سے پرانے تنازعات حل ہوجائیں گے اور طاقت سے نہ ماضی میں کشمیر سمیت کوئی مسئلہ حل ہوگا نہ مستقبل میں ممکن ہوگا۔ اگر چہ 15 جنوری سے دونوں ممالک ویزوں کے آزادانہ اجرا کی پالیسی پر عملدرآمد شروع کریں گے مگر اس پالیسی میں صحافی، سیاسی کارکن اور سرکاری ملازمین شامل نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم پرویز اشرف نے صحافیوں کو ویزے سے مستثنیٰ قرار دینے کی تجویز پیش کی ہے۔

پیپلزپارٹی، مسلم لیگ، عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے حق میں ہیں مگر چند لوگ نادیدہ قوتوں کی ایما پر اس معاملے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا یہ موقف ان کے اکابرین جمعیت علمائے ہند کے علما کے موقف سے متصادم ہے۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور امن کی اہمیت کو تسلیم کرنے والی دوسری جماعتوں کو اس بارے میں موقف اختیار کرکے جنگجو ذہن کے حامل افراد کے عزائم کو ناکام بنانا چاہیے۔ بھارت اور پاکستانی کی سیاسی قیادت کو کنٹرول لائن پر کشیدگی کے خاتمے پر فوری توجہ دینی چاہیے۔ دونوں ممالک کی سیاسی قیادت کی بصیرت ہی اس خطے کو امن کا گہوارہ بناسکتی ہے۔
Load Next Story