بڑے بڑے فیصلے اور منصوبے
ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ سی پیک کا منصوبہ جب شروع کیا گیا
ایسالگتا ہے کہ یہ بات اب اِس قوم کی تقدیر میں لکھ دی گئی ہے کہ یہاں ملکی وقومی مفاد میں کوئی بھی بڑا فیصلہ اُس وقت تک قابلِ عمل نہیں بنایا جاسکتا جب تک اُس کے پیچھے مقتدر اورنادیدہ قوتوں کا خوف اور پریشر موجود نہ ہو۔
ہمارے سیاسی زعماء اوررہنماء اُس وقت تک ہم خیال وہم سخن نہیں ہوپاتے جب تک کہ اُنہیں کوئی تیسری قوت اِس کام کے لیے مجبورنہ کردے۔ معاملہ سی پیک منصوبے کا ہو یا پھردہشتگردی کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا اور یا پھر مردم شماری کروانے کا ہم ہربڑا کام باہم رضامندی اورخوش دلی سے کبھی نہیں کیا کرتے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ سی پیک کا منصوبہ جب شروع کیا گیا تو اُس کے بارے میں بھی کس کس طرح کے شکوک وشبہات،خدشات اوراعتراضات سامنے لائے گئے کہ اگراِس کی پشت پر ہماری آرمی کا ہاتھ نہ ہوتا توشاید یہ منصوبہ بھی کالاباغ ڈیم کی طرح صرف کاغذوں پرہی لکھ کر معدوم کردیا جاتا اور چند سال بعد اِسے قصہ پارینہ سمجھ کر بھلادیا جاتا۔یہاںکوئی یہ کہتا ہوا دکھائی دیتاکہ اگریہ بنایاگیا تو ملک کی وحدانیت وسالمیت خطرے میں پڑجائے گی اورکوئی اِس طرح دھمکا رہا ہوتا کہ اگر یہ بنایاگیا تو صرف ہماری لاشوں سے گزرکر ہی بنایا جاسکتا ہے، مگر الحمدللہ یہ منصوبہ تمام اختلافات کے باوجود بخیروخوبی اپنے ابتدائی مراحل سے گزرکر تکمیل کی جانب تیزی سے بڑھ رہاہے۔
اِس میں ہمار ے دیرینہ دوست ملک چین کے ساتھ ساتھ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ذاتی کوششوں اوردلچسپیوں کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے۔ وہ اگر اِس منصوبے میں اتنی گرم جوشی اورمستعدی نہ دکھاتے توہوسکتا تھا کہ یہ منصوبہ بھی ہماری باہمی چپقلش اورصوبائی عصبیت کی بھینٹ چڑھ چکا ہوتا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیرِاعلیٰ بلوچستان سرداراخترمینگل کاحالیہ اخباری بیان ہی اِس معاملے کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے بہت کافی ہے جس میں اُنہوں نے اِس منصوبے اور ملک میں ہونے والی مردم شماری کو بلوچستان کے لیے کالاباغ ڈیم سے زیادہ خطرناک اورنقصان دہ قرار دیدیا ہے۔ایسا ہی کچھ حال ہم نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے قومی حکمتِ عملی ترتیب دیتے ہوئے بھی دیکھاتھا۔
16دسمبر2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد جس نیشنل ایکشن پروگرام کا اعلان کیا گیا وہ کس کی ایماء اور مطالبے پر کیا گیا یہ سب ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ سیاستدانوں نے اپنی جانب سے اِس بے مثال اتحادویگانت کا مظاہرہ ازخود نہیں کیا تھا۔اُنہیں اِس پر کسی نے مجبورکیا تھا کہ وہ راتوں رات ایک میز پر بیٹھ کر اِس بات کا فیصلہ کریں کہ اِس ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ اب ہر حال میں کرنا ہے۔ دہشتگردوں کے کسی گروہ سے اب کسی طور مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔ یہاں اب کوئی ''گڈ طالبان یا بیڈ طالبان'' نہیں ہوگا۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جائے گا۔ ہمارے جوسیاستدان اِس سے پہلے اُن سے مذاکرات کے حامی تھے وہ بھی چاروناچار اِس ایکشن پروگرام پر رضامند دکھائی دیے۔
فوجی عدالتیں بنانے کی تجویز پرجن جمہوریت پسندوں کو اعتراض تھا وہ بھی بادل نخواستہ اپنے کچھ قیمتی آنسو بہاکر اِن عدالتوں کی تشکیل پر بہرحال رضامند ہوہی گئے۔ ہمارے سیاستدانوں کی اِن خصلتوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا کچھ بعید ازقیاس بھی نہیں ہے کہ یہ کام قطعاً اتنا آسان اورسہل نہ تھاکی صرف چند روزکی بیٹھک بلاکر اتنا بڑا اور اہم فیصلہ ممکن اورقابلِ عمل بنادیا جائے۔
یہ سب اُن نادیدہ ہاتھوں کی طلسماتی قوت اورخوبی کا کرشمہ تھا کہ ملک کے تمام سیاسی جماعتیں پل بھر میںیک ذہن اوریک زبان ہوکر دہشتگردی کے عفریت سے نمٹنے پر تیارہوگئیں۔ورنہ یہاں اگرکسی صوبے کا نام تبدیل کرنا ہو یا فاٹا کو صوبہ خیبر پختون خوا کا حصہ بنانا ہو توتمام جماعتوں کا CONSENSUS حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوا کرتا۔ہم نے ماضی میں یہی کچھ ہوتے دیکھا ہے۔ قوم تو بے چاری ہر فیصلے پر ہنسی خوشی راضی ہوجاتی ہے مگر اُس کے رہنما بمشکل راضی ہوتے ہیں۔اِس کااندازہ ہم صرف اِسی ایک بات سے بخوبی لگاسکتے ہیں کہ گزشتہ ایک ماہ سے فوجی عدالتوں کے قیام میںتوسیع کا معاملہ صرف اِس ایک وجہ سے مسلسل التواکاشکار ہوتا رہا ہے کہ ہمارے سیاسی زعماء بنا کسی پریشرکے اِس فیصلے پر رضامند ہی نہیں ہو رہے تھے۔
ملک کے اندر طویل عرصے کے بعد ہونے والی مردم شماری کو بھی اب متنازع بنایا جارہا ہے۔ سیاسی مخاصمت اور پارٹی مفادات کے تابع سوچ نے ہمارے سیاستدانوں اورصوبوں کے بیچ بغض، نفرت، عداوت اوربداعتمادی کے ایسی فضا قائم کردی ہے کہ قومی مفاد میں کیا جانے والا ہرکام بھی شکوک وشبہات اوروسوسوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں اِس وقت تقریباً 36 صوبے ہیںلیکن وہاں ہم نے کبھی مردم شماری جیسے ایشوکو متنازع بنتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ سب کچھ صرف ہمارے یہاں ہی ہوا کرتا ہے۔ حریفانِ جمہوریت کی خود غرضانہ سیاست اورمتعصبانہ سوچ نے ہمارے درمیان لسانی شناخت کی لکیریں اس قدرگہری کردی ہیںکہ بین الصوبائی چپقلش اورمنافرت توکجا شہری اوردیہی آبادی کو بھی باہم حریف اورمتصادم بنادیا ہے۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آجانے کے بعد یہ خیال کیا جاتا تھا کہ باقی ماندہ پاکستان کے لوگ اب یہاں آپس میں مل جل کر رہیں گے۔
اُن کے درمیان کوئی نفرت اور بغض و عناد پرورش نہیں پاسکے گا۔وہ ایک ملت اور ایک قوم کے طور پر ترقی و خوشحالی کی منازل طے کررہے ہوں گے۔مگر دیکھا یہ گیا کہ یہاں کچھ لوگوں نے صوبائی تعصب اور علیحدگی پسند رجحانات کی خوب تخم ریزی اورآبیاری کی اور قوم کو تقسیم درتقسیم کرکے اُنہیں تباہ وبرباد کردینے کی غیر ملکی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو مزید مہمیزکرنے میں بڑا فعال کردار ادا کیا جس کے سبب آج یہ حال ہے کہ ہم اپنی خوشحالی کے کسی بڑے منصوبے یافیصلے پر متفق اور رضامند ہوتے دکھائی ہی نہیں دیتے۔ہر بڑا منصوبہ ہمارے لیے سرخروئی اور سربلندی کی بجائے شکست وہزیمت کا باعث بن جاتا ہے۔ دشمن تو ہمیں کبھی کامیاب وکامران دیکھنا نہیں چاہتا مگر ہمارے اپنے لوگ ہماری ترقی وخوشحالی کی راہ میں روڑے اٹکانے سے باز نہیں آتے۔ جس طرح یہاں صاف اورشفاف مردم شماری کروانا ایک انتہائی مشکل کام ہے اُسی طرح یہاں آزادانہ اور غیرجانبدارانہ الیکشن کروانا بھی ایک بہت ہی دشوار اورکٹھن کام بن چکا ہے۔
ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کا الزام لگانا ہارنے والے فریق کی سیاسی عادت اورمجبوری بن چکا ہے۔ وہ اگر ایسا نہ کرے تو اپنے حامیوں کوکیسے مطمئن کرپائے گا۔اِس ملک میں اب تک ہونے والے ہر انتخابات کی شفافیت اور غیرجابنداری پر ہمیشہ سوالات اُٹھائے جاتے رہے ہیں۔ صر ف 1970ء کے عام انتخابات کی شفافیت پرکوئی اعتراض نہیں اُٹھایا گیا لیکن یہ وہی انتخابات تھے جن کا خمیازہ اِس قوم کو اپنے وطنِ عزیزکے دولخت ہوجانے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
یہ اِس دنیا کا شاید واحد ملک ہے جہاں جب بھی عام انتخابات منعقد ہوتے ہیں ملک کی سا لمیت اور وحدانیت کو خطرات لاحق ہونے لگتے ہیں۔ہمارے آئین ودستور میں صوبوں کے درمیان مختلف تنازعات کے حل کے لیے مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس کی تجویزواضح طور پردرج ہے لیکن اول تو اُس کا اجلاس باقاعدہ طور پر بلایا ہی نہیں جاتا اوراگر بلایا جائے تو وہاں بھی تمام صوبے باہم دست وگریباں ہی دکھائی دیتے ہیں۔ہمیں قومی امورکے تمام اہم اور بڑے کاموں پر اتفاق رائے پیداکرنے کے لیے بس کسی غیبی قوت کا پریشر درکار ہوتا ہے۔ اُس کے بناء ہم کوئی کام خود اپنی مرضی سے نہیں کرتے۔
ہمارے سیاسی زعماء اوررہنماء اُس وقت تک ہم خیال وہم سخن نہیں ہوپاتے جب تک کہ اُنہیں کوئی تیسری قوت اِس کام کے لیے مجبورنہ کردے۔ معاملہ سی پیک منصوبے کا ہو یا پھردہشتگردی کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا اور یا پھر مردم شماری کروانے کا ہم ہربڑا کام باہم رضامندی اورخوش دلی سے کبھی نہیں کیا کرتے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ سی پیک کا منصوبہ جب شروع کیا گیا تو اُس کے بارے میں بھی کس کس طرح کے شکوک وشبہات،خدشات اوراعتراضات سامنے لائے گئے کہ اگراِس کی پشت پر ہماری آرمی کا ہاتھ نہ ہوتا توشاید یہ منصوبہ بھی کالاباغ ڈیم کی طرح صرف کاغذوں پرہی لکھ کر معدوم کردیا جاتا اور چند سال بعد اِسے قصہ پارینہ سمجھ کر بھلادیا جاتا۔یہاںکوئی یہ کہتا ہوا دکھائی دیتاکہ اگریہ بنایاگیا تو ملک کی وحدانیت وسالمیت خطرے میں پڑجائے گی اورکوئی اِس طرح دھمکا رہا ہوتا کہ اگر یہ بنایاگیا تو صرف ہماری لاشوں سے گزرکر ہی بنایا جاسکتا ہے، مگر الحمدللہ یہ منصوبہ تمام اختلافات کے باوجود بخیروخوبی اپنے ابتدائی مراحل سے گزرکر تکمیل کی جانب تیزی سے بڑھ رہاہے۔
اِس میں ہمار ے دیرینہ دوست ملک چین کے ساتھ ساتھ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ذاتی کوششوں اوردلچسپیوں کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے۔ وہ اگر اِس منصوبے میں اتنی گرم جوشی اورمستعدی نہ دکھاتے توہوسکتا تھا کہ یہ منصوبہ بھی ہماری باہمی چپقلش اورصوبائی عصبیت کی بھینٹ چڑھ چکا ہوتا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیرِاعلیٰ بلوچستان سرداراخترمینگل کاحالیہ اخباری بیان ہی اِس معاملے کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے بہت کافی ہے جس میں اُنہوں نے اِس منصوبے اور ملک میں ہونے والی مردم شماری کو بلوچستان کے لیے کالاباغ ڈیم سے زیادہ خطرناک اورنقصان دہ قرار دیدیا ہے۔ایسا ہی کچھ حال ہم نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے قومی حکمتِ عملی ترتیب دیتے ہوئے بھی دیکھاتھا۔
16دسمبر2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد جس نیشنل ایکشن پروگرام کا اعلان کیا گیا وہ کس کی ایماء اور مطالبے پر کیا گیا یہ سب ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ سیاستدانوں نے اپنی جانب سے اِس بے مثال اتحادویگانت کا مظاہرہ ازخود نہیں کیا تھا۔اُنہیں اِس پر کسی نے مجبورکیا تھا کہ وہ راتوں رات ایک میز پر بیٹھ کر اِس بات کا فیصلہ کریں کہ اِس ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ اب ہر حال میں کرنا ہے۔ دہشتگردوں کے کسی گروہ سے اب کسی طور مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔ یہاں اب کوئی ''گڈ طالبان یا بیڈ طالبان'' نہیں ہوگا۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جائے گا۔ ہمارے جوسیاستدان اِس سے پہلے اُن سے مذاکرات کے حامی تھے وہ بھی چاروناچار اِس ایکشن پروگرام پر رضامند دکھائی دیے۔
فوجی عدالتیں بنانے کی تجویز پرجن جمہوریت پسندوں کو اعتراض تھا وہ بھی بادل نخواستہ اپنے کچھ قیمتی آنسو بہاکر اِن عدالتوں کی تشکیل پر بہرحال رضامند ہوہی گئے۔ ہمارے سیاستدانوں کی اِن خصلتوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا کچھ بعید ازقیاس بھی نہیں ہے کہ یہ کام قطعاً اتنا آسان اورسہل نہ تھاکی صرف چند روزکی بیٹھک بلاکر اتنا بڑا اور اہم فیصلہ ممکن اورقابلِ عمل بنادیا جائے۔
یہ سب اُن نادیدہ ہاتھوں کی طلسماتی قوت اورخوبی کا کرشمہ تھا کہ ملک کے تمام سیاسی جماعتیں پل بھر میںیک ذہن اوریک زبان ہوکر دہشتگردی کے عفریت سے نمٹنے پر تیارہوگئیں۔ورنہ یہاں اگرکسی صوبے کا نام تبدیل کرنا ہو یا فاٹا کو صوبہ خیبر پختون خوا کا حصہ بنانا ہو توتمام جماعتوں کا CONSENSUS حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوا کرتا۔ہم نے ماضی میں یہی کچھ ہوتے دیکھا ہے۔ قوم تو بے چاری ہر فیصلے پر ہنسی خوشی راضی ہوجاتی ہے مگر اُس کے رہنما بمشکل راضی ہوتے ہیں۔اِس کااندازہ ہم صرف اِسی ایک بات سے بخوبی لگاسکتے ہیں کہ گزشتہ ایک ماہ سے فوجی عدالتوں کے قیام میںتوسیع کا معاملہ صرف اِس ایک وجہ سے مسلسل التواکاشکار ہوتا رہا ہے کہ ہمارے سیاسی زعماء بنا کسی پریشرکے اِس فیصلے پر رضامند ہی نہیں ہو رہے تھے۔
ملک کے اندر طویل عرصے کے بعد ہونے والی مردم شماری کو بھی اب متنازع بنایا جارہا ہے۔ سیاسی مخاصمت اور پارٹی مفادات کے تابع سوچ نے ہمارے سیاستدانوں اورصوبوں کے بیچ بغض، نفرت، عداوت اوربداعتمادی کے ایسی فضا قائم کردی ہے کہ قومی مفاد میں کیا جانے والا ہرکام بھی شکوک وشبہات اوروسوسوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں اِس وقت تقریباً 36 صوبے ہیںلیکن وہاں ہم نے کبھی مردم شماری جیسے ایشوکو متنازع بنتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ سب کچھ صرف ہمارے یہاں ہی ہوا کرتا ہے۔ حریفانِ جمہوریت کی خود غرضانہ سیاست اورمتعصبانہ سوچ نے ہمارے درمیان لسانی شناخت کی لکیریں اس قدرگہری کردی ہیںکہ بین الصوبائی چپقلش اورمنافرت توکجا شہری اوردیہی آبادی کو بھی باہم حریف اورمتصادم بنادیا ہے۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آجانے کے بعد یہ خیال کیا جاتا تھا کہ باقی ماندہ پاکستان کے لوگ اب یہاں آپس میں مل جل کر رہیں گے۔
اُن کے درمیان کوئی نفرت اور بغض و عناد پرورش نہیں پاسکے گا۔وہ ایک ملت اور ایک قوم کے طور پر ترقی و خوشحالی کی منازل طے کررہے ہوں گے۔مگر دیکھا یہ گیا کہ یہاں کچھ لوگوں نے صوبائی تعصب اور علیحدگی پسند رجحانات کی خوب تخم ریزی اورآبیاری کی اور قوم کو تقسیم درتقسیم کرکے اُنہیں تباہ وبرباد کردینے کی غیر ملکی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو مزید مہمیزکرنے میں بڑا فعال کردار ادا کیا جس کے سبب آج یہ حال ہے کہ ہم اپنی خوشحالی کے کسی بڑے منصوبے یافیصلے پر متفق اور رضامند ہوتے دکھائی ہی نہیں دیتے۔ہر بڑا منصوبہ ہمارے لیے سرخروئی اور سربلندی کی بجائے شکست وہزیمت کا باعث بن جاتا ہے۔ دشمن تو ہمیں کبھی کامیاب وکامران دیکھنا نہیں چاہتا مگر ہمارے اپنے لوگ ہماری ترقی وخوشحالی کی راہ میں روڑے اٹکانے سے باز نہیں آتے۔ جس طرح یہاں صاف اورشفاف مردم شماری کروانا ایک انتہائی مشکل کام ہے اُسی طرح یہاں آزادانہ اور غیرجانبدارانہ الیکشن کروانا بھی ایک بہت ہی دشوار اورکٹھن کام بن چکا ہے۔
ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کا الزام لگانا ہارنے والے فریق کی سیاسی عادت اورمجبوری بن چکا ہے۔ وہ اگر ایسا نہ کرے تو اپنے حامیوں کوکیسے مطمئن کرپائے گا۔اِس ملک میں اب تک ہونے والے ہر انتخابات کی شفافیت اور غیرجابنداری پر ہمیشہ سوالات اُٹھائے جاتے رہے ہیں۔ صر ف 1970ء کے عام انتخابات کی شفافیت پرکوئی اعتراض نہیں اُٹھایا گیا لیکن یہ وہی انتخابات تھے جن کا خمیازہ اِس قوم کو اپنے وطنِ عزیزکے دولخت ہوجانے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
یہ اِس دنیا کا شاید واحد ملک ہے جہاں جب بھی عام انتخابات منعقد ہوتے ہیں ملک کی سا لمیت اور وحدانیت کو خطرات لاحق ہونے لگتے ہیں۔ہمارے آئین ودستور میں صوبوں کے درمیان مختلف تنازعات کے حل کے لیے مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس کی تجویزواضح طور پردرج ہے لیکن اول تو اُس کا اجلاس باقاعدہ طور پر بلایا ہی نہیں جاتا اوراگر بلایا جائے تو وہاں بھی تمام صوبے باہم دست وگریباں ہی دکھائی دیتے ہیں۔ہمیں قومی امورکے تمام اہم اور بڑے کاموں پر اتفاق رائے پیداکرنے کے لیے بس کسی غیبی قوت کا پریشر درکار ہوتا ہے۔ اُس کے بناء ہم کوئی کام خود اپنی مرضی سے نہیں کرتے۔