اندھیرے میں کالی بلی کی تلاش
تمام سائنسز کی شاید کوئی نا کوئی وجہ سمجھ آجاتی ہو لیکن ’’مذہبی سائنسز‘‘ کی کوئی وجہ سمجھ آنا بہت مشکل ہے
SIALKOT:
موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہے، تما م تر زندگی کا دارومدار اسی پر ہے جس کی وجہ سے اب زندگی کے تمام معاملات کی تعریف اور تشریح سائنسی حوالوں سے ہی ہوتی ہے۔ سائنس کا معجزہ یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو ہر اس ''دائرے'' میں بھی منوالیا ہے جو اس کا تھا بھی نہیں۔ اور ان سائنسی کرشموں کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج ہر شے کی ''سائنسز'' ہوتی ہے، معاشرہ ہو یا سماج، کھیل کا میدان ہو یا سیاست کا، تعلیم کے ادارے ہوں یا انسانی جسم کے معاملات، یہاں تک کہ اب مذہب بھی وہ معتبر ہے جو سائنس کو سمجھ آجائے۔
تمام سائنسز کی شاید کوئی نا کوئی وجہ سمجھ آجاتی ہو لیکن ''مذہبی سائنسز'' کی کوئی وجہ سمجھ آنا بہت مشکل ہے، اور سب سے زیادہ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب مذہب کی تما م عبادات، اخلاقیات اور اعمال کی سائنس سے تشریح کی جاتی ہے اور یہ بہت ہی مشہور الفاظ ادا کیے جاتے ہیں ''ماشاء اﷲ اسلام نے تو یہ بات 14 سو سال پہلے بتا دی تھی'' اور سائنس نے اب تحقیق سے یہ بات ثابت کردی ہے، مثلاً وضو کے فوائد، نماز کے جسمانی فوائد، فجر میں اٹھنے کے طبی فائدے اور نا جانے کیا کیا۔ اور پھر مغرب کے کسی غیر معروف ادارے کے تحت کی جانے والی ریسرچ جو ''کسی خیال'' کے تحت کی گئی ہوتی ہے، اس پر ہمارے افراد کا ردِعمل ماشاء اﷲ، سبحان اﷲ جیسے مذہبی کلمات سے کسی ''دہریے'' کا شکریہ ادا کرنا ہوتا ہے۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا واقعی یہ تحقیقات مذہب کو سمجھنے اور اس کو درست ثابت کرنے کے لیے ہوتی ہیں یا اس کے پیچھے کوئی اور ذہن کارفرما ہو تا ہے؟؟ اس سوال کے جواب کے لیے کسی مذہبی حوالے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے لیے سائنس خود ہی ہماری رہنمائی بھی کرتی ہے اور اس بات کا جواب بھی دیتی ہے کہ سائنس کی مذہب کے معاملے میں کیا سوچ ہے اور وہ ان نظریات، عبادات، اخلاقیات اور اعمال کے با رے میں کیا رائے دیتی ہے، اس کی مثال کے لیے مغرب میں ایک Analogy story ہے جو اس بات کو سمجھنے میں بہت معاون اور مددگار ہے۔
فلسفہ یہ ہے کے آپ ایک اندھیرے کمرے میں ہیں اور کالی بلی کو تلاش کر رہے ہیں،(Metaphysics) مابعد الطبعیات یہ ہے کہ اندھیرے کمرے میں کالی بلی کو تلاش کیا جائے جو کہ وہاں ''موجود'' ہی نہیں ہے، (Theology) الہیات یہ ہے کہ آپ اندھیرے کمرے میں ہیں اور کالی بلی کی تلاش کر رہے ہیں جو کہ وہاں موجود ہی نہیں ہے پھر بھی آپ چلائیں گے مجھے ''نظر'' آگئی ہے، جبکہ اس سب کے مقابلے میں سائنس یہ ہے کہ اندھیرے کمرے میں بلی کو تلاش کیا جائے ایک بڑی سے فلیش لائٹ کے ذریعے۔
اس مثال کے ذریعے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی دماغ کسی نا کسی حد تک فلسفہ اور سائنس کو تو تسلیم کررہا ہے لیکن مذہب اور مابعدالطبعیات کو کسی صورت میں قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ کیونکہ سائنس کی بنیاد ہی ہر اس چیز پر رکھی گئی ہے جو تجربے سے ثابت کی جائے اور جو چیزیں ثابت نہ کی جاسکیں ایسا نہیں کہ وہ موجود ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کو کوئی تصور ہی نہیں، یعنی اگر آپ ایک کالی بلی کی تلاش شروع کرتے ہیں ایک مفروضے کی بنیاد پر کہ شاید یہاں بلی موجود ہے اس کے لیے آپ طرح طرح کے خیالات جنم دے سکتے ہیں جیسے ہوسکتا ہے۔
بلی جو یہاں موجود ہے وہ ہوا سے ہلکی ہو، ہوسکتا ہے وہ پانی جیسی ہو، ہوسکتا ہے بلی کوئی چیز ہی نہ ہو، ہو سکتا ہے دیوار میں کوئی اینٹ ہو اس کا نام بلی ہو، یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میں خود ہی بلی ہوں۔ اب ان تمام نظریات میں سے کوئی بھی درست ہوسکتا ہے اور ممکن ہے تمام غلط ہوں لیکن یہ سب ایک مفروضے کی بنیاد پر قائم ہونے والے خیالات ہیں اس لیے ان کو سوچنے پر کوئی پابندی نہیں ہے اور ممکن ہے یہ آج سمجھ نہ آرہے ہوں یا درست نہ لگ رہے ہوں لیکن ممکن ہے کبھی نا کبھی درست ثابت ہو جائیں، اس لیے تلاش جاری رکھی جائے اور کسی بھی چیز کو خیالات کی سطح پر درست یا غلط نہ کہا جائے یہ فلسفہ ہے۔
لیکن اس کے برعکس مابعدالطبعیات یہ ہے کہ آپ ایک کالی بلی کو کمرے میں تلاش کررہے ہیں جو کہ وہاں موجود ہی نہیں ہے، یعنی آپ کا جو مفروضہ ہے بنیادی طور پر وہ ہی غلط ہے کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کمرے میں بلی ہو بھی اور وہ آپ کو نہ ملے (جب کے فلسفے نے جو بلی تلاش کی ہے اس کی حقیقت بھی دیکھ چکے ہیں) مطلب یہ ہوا جو کچھ طبعی طور پر ثابت کیا جاسکے وہ ہی حقیقت ہے، دنیا تو حقیقت ہوسکتی ہے لیکن دنیا کے بعد کسی زندگی کا سوال، جنت دوزخ کا کوئی مادی وجود ہونا یہ سب بیکار کی بات ہے، اس کی کوئی صداقت نہیں۔
اس کے بعد الہیات کا سوال ہے اور وہ یہ کہ آپ نے بلی کی تلاش شروع کی اور وہ آپ کو نظر بھی نہیں آرہی ہے پھر بھی یہ دعویٰ کردیا جائے کہ مجھے بلی نظر آگئی ہے، یعنی آپ نے کوئی نظریہ قائم کیے بغیر یہ بات تسلیم کرلی کہ بلی موجود ہے، جیسے ہم مسلمان ہونے کے ناتے جب خدا کی تلاش کرتے ہیں کچھ ذرائع کے ساتھ، تو ہم اس بات پر ایمان لے آتے ہیں کہ ہاں خدا کی ذات ہے۔ جبکہ مغرب کا ماننا یہ ہے کہ یہ بالکل غلط رویہ ہے، کیونکہ ہم نے کوئی بھی طریقہ کار (خیالی یا تجرباتی ذریعہ) استعمال نہیں کیا ۔
بلکہ ہم نے 'اس' مفروضے کو جس کے ذریعے ہمیں اس بلی کو تلاش کرنا تھا، کسی کی بتائی ہوئی بات پر یقین کرلیا ہے اور ہم نے اس کو کسی بھی حوالے سے جانچنے کی کوشش تک نہیں ہے۔ اور ان طریقہ کاروں کے بعد سب سے بہتر یہ ہے کہ آپ ایک لائٹ کا استعمال کریں اور بلی کو تلاش کرلیں یعنی آپ جس چیز یا مفروضے کی تلاش میں ہیں اس کو سب سے آسانی سے کسی ''چیز'' ہی مدد سے ڈھونڈا جاسکتا ہے، مطلب حقیقت صرف وہ ہی ہے جو کسی مادی تجربے کی بنیاد پر ہو اور اس کو تجربے میں بھی لیا جاسکتا ہو، جو عقل اور حواس خمسہ میں آسکے وہ خدا ہے۔
اس بلی کی کہانی کو اگر چند جملوں میں سمیٹا جائے تو لب لباب یہ بنتا ہے کہ ہم اور آپ جس خدا کی تلاش میں ہیں وہ صرف اور صرف تجربے کی بنیاد پر ہی ہوسکتا ہے، اس کے علاوہ کوئی اور نظریہ، طریقہ کار درست نہیں ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری پوری زندگی ''مسلمان'' ہونے کے ناتے مابعدالطبعیاتی اور الہیاتی اصول کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی۔ مغرب میں سائنس کے ذریعے جو بھی تحقیقات ہوتی ہیں اس کا قطعاً مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ مذہب کی صداقت کے لیے جستجو کررہے ہیں بلکہ ان کا واضح موقف ہوتا ہے کہ وہ اس کو ایک مفروضہ سمجھ کر قبول کرتے ہیں اور پھر اپنے تجربے شروع کردیتے ہیں، اِس دوران اگر کچھ چیزیں ان کو مل جاتی ہیں تو وہ ریسرچ کی صورت میں شائع کردیتے ہیں۔ وہ ہرگز اس بات کا اعلان نہیں کرتے کہ ہماری تحقیقات مکمل ہوگئی ہیں، اب اس حوالے سے کوئی نئی چیز سامنے نہیں آئے گی۔
بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مذہب تو کیا اِن کی سائنس کے حوالے سے ہونے والی تحقیقات بھی کچھ عرصے بعد رد ہوجاتی ہیں اور اس کو کوئی اور نہیں تو وہ ادارے ہی رد کرتے ہیں جنہوں نے اس پر پہلے تحقیق کی تھی۔ یقیناً وہ کچھ غلط بھی نہیں کرتے کیونکہ سائنس تو آغاز ہی مفروضہ سے کررہی ہے۔ سائنسی تجربات کے رزلٹ کو دین سے جوڑنے والے حضرات اور پھر ایس ایم ایس ٹیکنالوجی کے ذریعے اس کا پرچار کرنے والوں کو چاہیے کے ہر چیز کی سائنسی تعریف سے پہلے کم سے کم سائنس سے اجازت تو حاصل کریں کہ وہ آپ کے مذہب کو قبول کرتی بھی ہے یا نہیں۔
موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہے، تما م تر زندگی کا دارومدار اسی پر ہے جس کی وجہ سے اب زندگی کے تمام معاملات کی تعریف اور تشریح سائنسی حوالوں سے ہی ہوتی ہے۔ سائنس کا معجزہ یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو ہر اس ''دائرے'' میں بھی منوالیا ہے جو اس کا تھا بھی نہیں۔ اور ان سائنسی کرشموں کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج ہر شے کی ''سائنسز'' ہوتی ہے، معاشرہ ہو یا سماج، کھیل کا میدان ہو یا سیاست کا، تعلیم کے ادارے ہوں یا انسانی جسم کے معاملات، یہاں تک کہ اب مذہب بھی وہ معتبر ہے جو سائنس کو سمجھ آجائے۔
تمام سائنسز کی شاید کوئی نا کوئی وجہ سمجھ آجاتی ہو لیکن ''مذہبی سائنسز'' کی کوئی وجہ سمجھ آنا بہت مشکل ہے، اور سب سے زیادہ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب مذہب کی تما م عبادات، اخلاقیات اور اعمال کی سائنس سے تشریح کی جاتی ہے اور یہ بہت ہی مشہور الفاظ ادا کیے جاتے ہیں ''ماشاء اﷲ اسلام نے تو یہ بات 14 سو سال پہلے بتا دی تھی'' اور سائنس نے اب تحقیق سے یہ بات ثابت کردی ہے، مثلاً وضو کے فوائد، نماز کے جسمانی فوائد، فجر میں اٹھنے کے طبی فائدے اور نا جانے کیا کیا۔ اور پھر مغرب کے کسی غیر معروف ادارے کے تحت کی جانے والی ریسرچ جو ''کسی خیال'' کے تحت کی گئی ہوتی ہے، اس پر ہمارے افراد کا ردِعمل ماشاء اﷲ، سبحان اﷲ جیسے مذہبی کلمات سے کسی ''دہریے'' کا شکریہ ادا کرنا ہوتا ہے۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا واقعی یہ تحقیقات مذہب کو سمجھنے اور اس کو درست ثابت کرنے کے لیے ہوتی ہیں یا اس کے پیچھے کوئی اور ذہن کارفرما ہو تا ہے؟؟ اس سوال کے جواب کے لیے کسی مذہبی حوالے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے لیے سائنس خود ہی ہماری رہنمائی بھی کرتی ہے اور اس بات کا جواب بھی دیتی ہے کہ سائنس کی مذہب کے معاملے میں کیا سوچ ہے اور وہ ان نظریات، عبادات، اخلاقیات اور اعمال کے با رے میں کیا رائے دیتی ہے، اس کی مثال کے لیے مغرب میں ایک Analogy story ہے جو اس بات کو سمجھنے میں بہت معاون اور مددگار ہے۔
فلسفہ یہ ہے کے آپ ایک اندھیرے کمرے میں ہیں اور کالی بلی کو تلاش کر رہے ہیں،(Metaphysics) مابعد الطبعیات یہ ہے کہ اندھیرے کمرے میں کالی بلی کو تلاش کیا جائے جو کہ وہاں ''موجود'' ہی نہیں ہے، (Theology) الہیات یہ ہے کہ آپ اندھیرے کمرے میں ہیں اور کالی بلی کی تلاش کر رہے ہیں جو کہ وہاں موجود ہی نہیں ہے پھر بھی آپ چلائیں گے مجھے ''نظر'' آگئی ہے، جبکہ اس سب کے مقابلے میں سائنس یہ ہے کہ اندھیرے کمرے میں بلی کو تلاش کیا جائے ایک بڑی سے فلیش لائٹ کے ذریعے۔
اس مثال کے ذریعے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی دماغ کسی نا کسی حد تک فلسفہ اور سائنس کو تو تسلیم کررہا ہے لیکن مذہب اور مابعدالطبعیات کو کسی صورت میں قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ کیونکہ سائنس کی بنیاد ہی ہر اس چیز پر رکھی گئی ہے جو تجربے سے ثابت کی جائے اور جو چیزیں ثابت نہ کی جاسکیں ایسا نہیں کہ وہ موجود ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کو کوئی تصور ہی نہیں، یعنی اگر آپ ایک کالی بلی کی تلاش شروع کرتے ہیں ایک مفروضے کی بنیاد پر کہ شاید یہاں بلی موجود ہے اس کے لیے آپ طرح طرح کے خیالات جنم دے سکتے ہیں جیسے ہوسکتا ہے۔
بلی جو یہاں موجود ہے وہ ہوا سے ہلکی ہو، ہوسکتا ہے وہ پانی جیسی ہو، ہوسکتا ہے بلی کوئی چیز ہی نہ ہو، ہو سکتا ہے دیوار میں کوئی اینٹ ہو اس کا نام بلی ہو، یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میں خود ہی بلی ہوں۔ اب ان تمام نظریات میں سے کوئی بھی درست ہوسکتا ہے اور ممکن ہے تمام غلط ہوں لیکن یہ سب ایک مفروضے کی بنیاد پر قائم ہونے والے خیالات ہیں اس لیے ان کو سوچنے پر کوئی پابندی نہیں ہے اور ممکن ہے یہ آج سمجھ نہ آرہے ہوں یا درست نہ لگ رہے ہوں لیکن ممکن ہے کبھی نا کبھی درست ثابت ہو جائیں، اس لیے تلاش جاری رکھی جائے اور کسی بھی چیز کو خیالات کی سطح پر درست یا غلط نہ کہا جائے یہ فلسفہ ہے۔
لیکن اس کے برعکس مابعدالطبعیات یہ ہے کہ آپ ایک کالی بلی کو کمرے میں تلاش کررہے ہیں جو کہ وہاں موجود ہی نہیں ہے، یعنی آپ کا جو مفروضہ ہے بنیادی طور پر وہ ہی غلط ہے کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کمرے میں بلی ہو بھی اور وہ آپ کو نہ ملے (جب کے فلسفے نے جو بلی تلاش کی ہے اس کی حقیقت بھی دیکھ چکے ہیں) مطلب یہ ہوا جو کچھ طبعی طور پر ثابت کیا جاسکے وہ ہی حقیقت ہے، دنیا تو حقیقت ہوسکتی ہے لیکن دنیا کے بعد کسی زندگی کا سوال، جنت دوزخ کا کوئی مادی وجود ہونا یہ سب بیکار کی بات ہے، اس کی کوئی صداقت نہیں۔
اس کے بعد الہیات کا سوال ہے اور وہ یہ کہ آپ نے بلی کی تلاش شروع کی اور وہ آپ کو نظر بھی نہیں آرہی ہے پھر بھی یہ دعویٰ کردیا جائے کہ مجھے بلی نظر آگئی ہے، یعنی آپ نے کوئی نظریہ قائم کیے بغیر یہ بات تسلیم کرلی کہ بلی موجود ہے، جیسے ہم مسلمان ہونے کے ناتے جب خدا کی تلاش کرتے ہیں کچھ ذرائع کے ساتھ، تو ہم اس بات پر ایمان لے آتے ہیں کہ ہاں خدا کی ذات ہے۔ جبکہ مغرب کا ماننا یہ ہے کہ یہ بالکل غلط رویہ ہے، کیونکہ ہم نے کوئی بھی طریقہ کار (خیالی یا تجرباتی ذریعہ) استعمال نہیں کیا ۔
بلکہ ہم نے 'اس' مفروضے کو جس کے ذریعے ہمیں اس بلی کو تلاش کرنا تھا، کسی کی بتائی ہوئی بات پر یقین کرلیا ہے اور ہم نے اس کو کسی بھی حوالے سے جانچنے کی کوشش تک نہیں ہے۔ اور ان طریقہ کاروں کے بعد سب سے بہتر یہ ہے کہ آپ ایک لائٹ کا استعمال کریں اور بلی کو تلاش کرلیں یعنی آپ جس چیز یا مفروضے کی تلاش میں ہیں اس کو سب سے آسانی سے کسی ''چیز'' ہی مدد سے ڈھونڈا جاسکتا ہے، مطلب حقیقت صرف وہ ہی ہے جو کسی مادی تجربے کی بنیاد پر ہو اور اس کو تجربے میں بھی لیا جاسکتا ہو، جو عقل اور حواس خمسہ میں آسکے وہ خدا ہے۔
اس بلی کی کہانی کو اگر چند جملوں میں سمیٹا جائے تو لب لباب یہ بنتا ہے کہ ہم اور آپ جس خدا کی تلاش میں ہیں وہ صرف اور صرف تجربے کی بنیاد پر ہی ہوسکتا ہے، اس کے علاوہ کوئی اور نظریہ، طریقہ کار درست نہیں ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری پوری زندگی ''مسلمان'' ہونے کے ناتے مابعدالطبعیاتی اور الہیاتی اصول کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی۔ مغرب میں سائنس کے ذریعے جو بھی تحقیقات ہوتی ہیں اس کا قطعاً مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ مذہب کی صداقت کے لیے جستجو کررہے ہیں بلکہ ان کا واضح موقف ہوتا ہے کہ وہ اس کو ایک مفروضہ سمجھ کر قبول کرتے ہیں اور پھر اپنے تجربے شروع کردیتے ہیں، اِس دوران اگر کچھ چیزیں ان کو مل جاتی ہیں تو وہ ریسرچ کی صورت میں شائع کردیتے ہیں۔ وہ ہرگز اس بات کا اعلان نہیں کرتے کہ ہماری تحقیقات مکمل ہوگئی ہیں، اب اس حوالے سے کوئی نئی چیز سامنے نہیں آئے گی۔
بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مذہب تو کیا اِن کی سائنس کے حوالے سے ہونے والی تحقیقات بھی کچھ عرصے بعد رد ہوجاتی ہیں اور اس کو کوئی اور نہیں تو وہ ادارے ہی رد کرتے ہیں جنہوں نے اس پر پہلے تحقیق کی تھی۔ یقیناً وہ کچھ غلط بھی نہیں کرتے کیونکہ سائنس تو آغاز ہی مفروضہ سے کررہی ہے۔ سائنسی تجربات کے رزلٹ کو دین سے جوڑنے والے حضرات اور پھر ایس ایم ایس ٹیکنالوجی کے ذریعے اس کا پرچار کرنے والوں کو چاہیے کے ہر چیز کی سائنسی تعریف سے پہلے کم سے کم سائنس سے اجازت تو حاصل کریں کہ وہ آپ کے مذہب کو قبول کرتی بھی ہے یا نہیں۔