مہنگائی کے اسباب اور حکومتی ذمے داریاں
ہمارے ملک میں گرین کارڈ کے حامل سابق وزیر اعظم شوکت عزیز بھی بڑے شان والے تھے
ہمارے ملک کے بڑے لوگوں کی باتیں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ گزشتہ دنوں غریب ملک (پاکستان) کے وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے اسلام آباد میں منعقدہ ''ساڑھے چار سالہ دور حکومت میں مفاہمت، اصلاحات اور بحالی'' کے موضوع پر وزارت اطلاعات و نشریات کی طرف سے تیار کردہ کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے حکومتی کامیابیوں کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''مہنگائی کا رونا نئی بات نہیں، جب ایک آنے کے چار انڈے آتے تھے تب بھی میری دادی کہتی تھیں بہت مہنگائی ہوگئی، ہمارے دور میں لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوا ہے۔''
گئے زمانے کی مہنگائی، اس زمانے کے روزگار کے ذرایع، آبادی، زرعی پیداوار، معاشی صورت حال، امن و امان کے حالات و واقعات، ایمانداری، کرپشن سے پاک ماحول اور دیگر اسباب کا موازنہ موجودہ دور سے کرنا ایک تحقیق طلب مرحلہ ہے جس کے بعد ہی اصل صورت حال سامنے آئے گی کہ آخر وہ کون سے عوامل تھے کہ اس زمانے میں مہنگائی ہونے کے باوجود لوگ خودکشیاں نہیں کرتے تھے اور غربت کے سبب اپنے لخت جگر فروخت نہیں کرتے تھے؟ وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے ملک میں گرین کارڈ کے حامل سابق وزیر اعظم شوکت عزیز بھی بڑے شان والے تھے وہ بھی اکثر و بیشتر ملک سے غربت کے خاتمے کی باتیں کیا کرتے تھے، ایک دفعہ انھوں نے غریبوں سے کہا تھا کہ ''تمہاری غریبی کی قسمت کا فیصلہ مسئلہ کشمیر کے حل میں پوشیدہ ہے'' ان کے وزیر اعظم بن جانے سے غریبوں کو توقع تھی کہ ملک میں امریکی ڈالروں کی بارش ہوگی لیکن ان حضرت وزیر اعظم نے غریبوں کی غریبی کو دور کرنے کے لیے انھیں ''مسئلہ کشمیر'' کے حل تک صبروجمیل کا ''طلسماتی قصہ'' سنا کر غیر محسوس طور پر خوف زدہ کرکے دیرپا خواب دکھا گئے۔
اور ایک دوسرے موقع پر سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے یہ بھی کہا تھا کہ ''صارف کا ایک نیا طبقہ پیدا ہوا ہے، لوگوں کے پاس بہت پیسہ آگیا ہے، ان کی قوت خرید بڑھ جانے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، کراچی ملک کے 17 شہروں میں سب سے سستا شہر ہے، جہاں تین ہزار روپے آمدنی والے لوگ باآسانی جی سکتے ہیں، ہر آدمی کے پاس موبائل فون آگیا ہے، ہر سو ترقی ہی ترقی کے آثار ہیں، خوش حالی کا دور دورہ ہے۔'' جنرل پرویز مشرف بھی اپنے دور صدارت میں کہہ چکے ہیں کہ ''اگر ٹماٹر مہنگا ہے تو لوگ اس کا کھانا چھوڑ دیں۔''
حکمرانوں کے مذکورہ دعوؤں کے برعکس وطن عزیز میں غربت اور عوام کی مفلسی کا رونا دھونا ہے۔ بقول موجودہ جمہوری وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کے یہ رونا دھونا پرانی بات ہے جو پرانے زمانے سے چلا آرہا ہے۔ شوکت عزیز اور پرویز مشرف نے غریبی کی بہتری کے لیے قوم کے ساتھ جو مذاق کیا وہ سمجھنے والی بات ہے کہ وہ غیر جمہوری حکمران تھے لیکن موجودہ وزیراعظم راجا پرویز اشرف نہ صرف جمہوری وزیر اعظم ہیں بلکہ ان کی پارٹی کا سلوگن عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرنا ہے، اس لحاظ سے ان کی بات مناسب نہیں ہے اور خود ان کا تعلق شروع دنوں میں غربت سے تھا۔
ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق عوام کی منتخب کردہ جمہوری حکومت کے ساڑھے 4 سالہ دور اقتدار کے دوران پٹرولیم کی قیمتوں میں 196، آٹا، چینی کی قیمتوں میں 192 اور بجلی فی یونٹ 340 فیصد مہنگی ہوئی، عوامی حکومت کے اقتدار میں آنے سے قبل اور اکتوبر 2012 تک کی ان اشیاء کی قیمتوں کا جائزہ اس طرح ہے۔ مئی 2008 میں پٹرول کی قیمت 56 روپے تھی جوکہ مارچ 2012 میں 106 روپے فی لیٹر تھا اس طرح پٹرول کی قیمت میں 89 فیصد اضافہ ہوا۔
ڈیزل کی قیمت اس عرصے کے دوران 39 روپے فی لیٹر سے 109 روپے، آٹا 192 فیصد اضافے کے ساتھ 34 روپے فی کلو (لاہور میں چالیس روپے تک جا پہنچا ہے)، چینی 185 فیصد اضافے کے ساتھ 60 روپے کلو، دودھ 45 روپے فی کلو سے بڑھ کر 70 روپے فی کلو ہوا، کوکنگ آئل کی قیمت میں اس عرصے کے دوران 111 فیصد اضافہ ہوا ہے، جب کہ بجلی کا فی یونٹ 2.13 پیسے سے بڑھ کر 9.38 پیسے ہوا ہے اس طرح بجلی کی قیمتوں میں 340 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ نومبر تا دسمبر 2012 تک کی مہنگائی سے ہم سب غریب نبرد آزما ہیں کہ کس طرح سفید پوشی کا بھرم رکھنا دن بدن مشکل ہوتا جارہا ہے۔
ہمارے ملک میں مہنگائی کے اتنی زیادہ تیز رفتاری سے بڑھنے کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً ملک کا صنعت کار، تاجر اور کاروباری طبقہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کا متمنی رہا ہے۔ چنانچہ یہ اپنی تیار کردہ ترسیل، ترسیل کردہ اور فروخت کردہ اشیاء کی من مانی قیمت لگاتے اور وصول کرتے ہیں۔ دوسرا سبب ذخیرہ اندوزوں کی سرگرمیاں ہیں جو اپنی دولت کے بل پر بڑی مقدار میں مخصوص اشیاء خرید کر ذخیرہ کرلیتے ہیں اور پھر مارکیٹ میں ان اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کرکے من مانے نرخ لگاتے اور وصول کرتے ہیں۔ تیسرا سبب یہ ہے کہ عوام کو معیاری اور سستی اشیائے صرف کی فراہمی یقینی بنانے کے ذمے دار سرکاری ادارے اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے پوری نہیں کرتے جس کی وجہ سے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ اس صورت حال سے خوب خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے صارفین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔
مہنگائی اور افراط زر میں تیزی سے اضافے کا ایک سبب ملکی کرنسی کی قدر میں کمی بھی ہے۔ حکومتوں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اخراجات بھی ملکی معیشت پر بوجھ بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں۔ اگرچہ ہر حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے اخراجات کم کر رہی ہے لیکن حقیقت میں سب کچھ اس کے بالکل الٹ ہورہا ہوتا ہے۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ حکومتیں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے غیر ملکی کے علاوہ ملکی قرضے بھی حاصل کرتی ہے یا پھر نئے نوٹ چھاپ کر گزارا کیا جاتا ہے۔
جب کہ یہ اقدامات افراط زر میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ ہمارے ہاں پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں آئے روز کا اضافہ بھی مہنگائی بڑھانے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کیونکہ توانائی کے ان ذرایع کے نرخ بڑھنے سے ان تمام اشیاء کی پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے جن کی تیاری کے کسی بھی مرحلے میں ان ذرایع کا استعمال ہوتا ہے۔ حال ہی میں حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ہفتہ وار رد و بدل کا جو سلسلہ جاری ہے اس نے صورت حال کو مزید گمبھیر کیا ہوا ہے اس ردو بدل کے نتیجے میں زیادہ تر ان مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہی کیا جاتا ہے، نتیجتاً اب مہنگائی میں اضافے کی رفتار پہلے کی نسبت زیادہ تیز ہوگئی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت مہنگائی بڑھانے کا باعث بننے والے تمام عوامل کنٹرول کرنے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرے تاکہ اس گرانی کی وجہ سے عام آدمی کی مشکلات میں جو اضافہ ہوچکا ہے اور ہورہا ہے اس کو محدود رکھا جاسکے۔
گئے زمانے کی مہنگائی، اس زمانے کے روزگار کے ذرایع، آبادی، زرعی پیداوار، معاشی صورت حال، امن و امان کے حالات و واقعات، ایمانداری، کرپشن سے پاک ماحول اور دیگر اسباب کا موازنہ موجودہ دور سے کرنا ایک تحقیق طلب مرحلہ ہے جس کے بعد ہی اصل صورت حال سامنے آئے گی کہ آخر وہ کون سے عوامل تھے کہ اس زمانے میں مہنگائی ہونے کے باوجود لوگ خودکشیاں نہیں کرتے تھے اور غربت کے سبب اپنے لخت جگر فروخت نہیں کرتے تھے؟ وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے ملک میں گرین کارڈ کے حامل سابق وزیر اعظم شوکت عزیز بھی بڑے شان والے تھے وہ بھی اکثر و بیشتر ملک سے غربت کے خاتمے کی باتیں کیا کرتے تھے، ایک دفعہ انھوں نے غریبوں سے کہا تھا کہ ''تمہاری غریبی کی قسمت کا فیصلہ مسئلہ کشمیر کے حل میں پوشیدہ ہے'' ان کے وزیر اعظم بن جانے سے غریبوں کو توقع تھی کہ ملک میں امریکی ڈالروں کی بارش ہوگی لیکن ان حضرت وزیر اعظم نے غریبوں کی غریبی کو دور کرنے کے لیے انھیں ''مسئلہ کشمیر'' کے حل تک صبروجمیل کا ''طلسماتی قصہ'' سنا کر غیر محسوس طور پر خوف زدہ کرکے دیرپا خواب دکھا گئے۔
اور ایک دوسرے موقع پر سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے یہ بھی کہا تھا کہ ''صارف کا ایک نیا طبقہ پیدا ہوا ہے، لوگوں کے پاس بہت پیسہ آگیا ہے، ان کی قوت خرید بڑھ جانے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، کراچی ملک کے 17 شہروں میں سب سے سستا شہر ہے، جہاں تین ہزار روپے آمدنی والے لوگ باآسانی جی سکتے ہیں، ہر آدمی کے پاس موبائل فون آگیا ہے، ہر سو ترقی ہی ترقی کے آثار ہیں، خوش حالی کا دور دورہ ہے۔'' جنرل پرویز مشرف بھی اپنے دور صدارت میں کہہ چکے ہیں کہ ''اگر ٹماٹر مہنگا ہے تو لوگ اس کا کھانا چھوڑ دیں۔''
حکمرانوں کے مذکورہ دعوؤں کے برعکس وطن عزیز میں غربت اور عوام کی مفلسی کا رونا دھونا ہے۔ بقول موجودہ جمہوری وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کے یہ رونا دھونا پرانی بات ہے جو پرانے زمانے سے چلا آرہا ہے۔ شوکت عزیز اور پرویز مشرف نے غریبی کی بہتری کے لیے قوم کے ساتھ جو مذاق کیا وہ سمجھنے والی بات ہے کہ وہ غیر جمہوری حکمران تھے لیکن موجودہ وزیراعظم راجا پرویز اشرف نہ صرف جمہوری وزیر اعظم ہیں بلکہ ان کی پارٹی کا سلوگن عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرنا ہے، اس لحاظ سے ان کی بات مناسب نہیں ہے اور خود ان کا تعلق شروع دنوں میں غربت سے تھا۔
ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق عوام کی منتخب کردہ جمہوری حکومت کے ساڑھے 4 سالہ دور اقتدار کے دوران پٹرولیم کی قیمتوں میں 196، آٹا، چینی کی قیمتوں میں 192 اور بجلی فی یونٹ 340 فیصد مہنگی ہوئی، عوامی حکومت کے اقتدار میں آنے سے قبل اور اکتوبر 2012 تک کی ان اشیاء کی قیمتوں کا جائزہ اس طرح ہے۔ مئی 2008 میں پٹرول کی قیمت 56 روپے تھی جوکہ مارچ 2012 میں 106 روپے فی لیٹر تھا اس طرح پٹرول کی قیمت میں 89 فیصد اضافہ ہوا۔
ڈیزل کی قیمت اس عرصے کے دوران 39 روپے فی لیٹر سے 109 روپے، آٹا 192 فیصد اضافے کے ساتھ 34 روپے فی کلو (لاہور میں چالیس روپے تک جا پہنچا ہے)، چینی 185 فیصد اضافے کے ساتھ 60 روپے کلو، دودھ 45 روپے فی کلو سے بڑھ کر 70 روپے فی کلو ہوا، کوکنگ آئل کی قیمت میں اس عرصے کے دوران 111 فیصد اضافہ ہوا ہے، جب کہ بجلی کا فی یونٹ 2.13 پیسے سے بڑھ کر 9.38 پیسے ہوا ہے اس طرح بجلی کی قیمتوں میں 340 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ نومبر تا دسمبر 2012 تک کی مہنگائی سے ہم سب غریب نبرد آزما ہیں کہ کس طرح سفید پوشی کا بھرم رکھنا دن بدن مشکل ہوتا جارہا ہے۔
ہمارے ملک میں مہنگائی کے اتنی زیادہ تیز رفتاری سے بڑھنے کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً ملک کا صنعت کار، تاجر اور کاروباری طبقہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کا متمنی رہا ہے۔ چنانچہ یہ اپنی تیار کردہ ترسیل، ترسیل کردہ اور فروخت کردہ اشیاء کی من مانی قیمت لگاتے اور وصول کرتے ہیں۔ دوسرا سبب ذخیرہ اندوزوں کی سرگرمیاں ہیں جو اپنی دولت کے بل پر بڑی مقدار میں مخصوص اشیاء خرید کر ذخیرہ کرلیتے ہیں اور پھر مارکیٹ میں ان اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کرکے من مانے نرخ لگاتے اور وصول کرتے ہیں۔ تیسرا سبب یہ ہے کہ عوام کو معیاری اور سستی اشیائے صرف کی فراہمی یقینی بنانے کے ذمے دار سرکاری ادارے اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے پوری نہیں کرتے جس کی وجہ سے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ اس صورت حال سے خوب خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے صارفین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔
مہنگائی اور افراط زر میں تیزی سے اضافے کا ایک سبب ملکی کرنسی کی قدر میں کمی بھی ہے۔ حکومتوں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اخراجات بھی ملکی معیشت پر بوجھ بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں۔ اگرچہ ہر حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے اخراجات کم کر رہی ہے لیکن حقیقت میں سب کچھ اس کے بالکل الٹ ہورہا ہوتا ہے۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ حکومتیں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے غیر ملکی کے علاوہ ملکی قرضے بھی حاصل کرتی ہے یا پھر نئے نوٹ چھاپ کر گزارا کیا جاتا ہے۔
جب کہ یہ اقدامات افراط زر میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ ہمارے ہاں پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں آئے روز کا اضافہ بھی مہنگائی بڑھانے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کیونکہ توانائی کے ان ذرایع کے نرخ بڑھنے سے ان تمام اشیاء کی پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے جن کی تیاری کے کسی بھی مرحلے میں ان ذرایع کا استعمال ہوتا ہے۔ حال ہی میں حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ہفتہ وار رد و بدل کا جو سلسلہ جاری ہے اس نے صورت حال کو مزید گمبھیر کیا ہوا ہے اس ردو بدل کے نتیجے میں زیادہ تر ان مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہی کیا جاتا ہے، نتیجتاً اب مہنگائی میں اضافے کی رفتار پہلے کی نسبت زیادہ تیز ہوگئی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت مہنگائی بڑھانے کا باعث بننے والے تمام عوامل کنٹرول کرنے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرے تاکہ اس گرانی کی وجہ سے عام آدمی کی مشکلات میں جو اضافہ ہوچکا ہے اور ہورہا ہے اس کو محدود رکھا جاسکے۔