شعر میں شاعر کی منشا

بعض اشیا اورافکار لوگوں کی نظروں کے سامنے طویل عرصہ تک موجود رہتے ہیں

ibhinder@yahoo.co.uk

بعض اشیا اورافکار لوگوں کی نظروں کے سامنے طویل عرصہ تک موجود رہتے ہیں، لیکن لوگ کبھی ان کی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، بلکہ ان کا اس بات پر پختہ یقین ہوتا ہے کہ پہلی ہی سطح پر جو مفہوم ان کے شعورمیں رچ بس چکا ہے وہ درست ہے۔تاہم جونہی ان کا تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ جوکچھ دکھائی دے رہا تھا وہ درست نہیں تھا۔ یہ مظہر اوراس کی حقیقت یعنی اس کی ماہیت کا فرق ہے کہ جس کے تحت مظہر اپنی ہی ماہیت میں خود سے مختلف دکھائی دیتا ہے۔یعنی جوہر بیک وقت مظہرسے مختلف اور متماثل ہوتا ہے۔

شعری متن کے جوہر تک پہنچنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے ظاہری معنی سے اس کی ان سطحوں تک پہنچا جائے جو اس کی ماہیت کا انکشاف کرتی ہیں۔ یہ بات ضروری ہے کہ شعری متن کا پس منظر اس سے باہر نہیں، بلکہ اس کے اندرموجود ہوتا ہے۔ متن کی تشکیل کے دوران داخل اورخارج کی مابعدالطبیعاتی،جامد، یکطرفہ تفریق ختم ہوجاتی ہے۔ خارج کو متن سے باہر اس سے الگ دریافت کرنے کی کوشش بری قرأت کا نتیجہ ہوتی ہے۔متن خود اپنا حوالہ ہے، جو موضوعیت اورمعروضیت کی جدلیات پر تشکیل پاتا ہے۔ معانی کی سطحوں کو شعری متن کے اندر سے ہی بآسانی شاعرکی منشا کے برعکس دکھایا جاسکتا ہے۔ ایسا ہی ایک شعر میں یہاں پیش کرنے جارہا ہوں۔ یہ شعر ہمیشہ پڑھتے اورسنتے آئے ہیں لیکن کبھی اس کی ماہیت پر غور نہیں کیا تھا۔ جب غورکرنا شروع کیا تو شاعرکی منشا کے برعکس اس کے متن کے اندر شگاف اور تضاد منکشف ہونا شروع ہو گیا۔ شعرکچھ یوں ہے کہ

خودی کوکر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

اس شعر کو پڑھنے کے بعد پہلا خیال یہ ذہن میں آتا ہے کہ انسان اپنی خودی کو اس درجہ تک بلند کر لے کہ خدا کو بندے کی رضا کو تسلیم کرنا پڑے، تاہم جونہی اس شعر کا منطقی تجزیہ شروع کیا جاتا ہے کہ جس سے اس کی مختلف سطحوں میں مضمرمعانی کو منکشف کیا جاسکے تو جوہری سطح پر ایک ایسی صورتحال سامنے آتی ہے جوشعرکے ظاہری مفاہیم سے بالکل مختلف ہے۔


پہلے مصرعے سے ایک مفہوم یہ نکلتا ہے کہ خودی کی بلندی تقدیرکی تشکیل کی شرط ہے۔سوال بہرحال یہاں پر یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا خودی کی تشکیل تک تقدیرکا مسئلہ التوا کا شکار رہے گا یا کردار واخلاق کی بلندی پہلے سے طے شدہ تقدیر میں ترمیم کا باعث بن سکتی ہے؟ شعرکی روشنی میں اس کا جواب یہی ہے کہ تقدیرکا مسئلہ اس کردار و اخلاق کی بلندی سے جڑا ہوتا ہے جس کی کسی بھی وقت تشکیل پہلے موجود تقدیرکے قضیے کو التوا میں لے جاسکتی ہے۔ لہذا یہاں پہلے سے طے شدہ معاملات کی لازمی ڈی کنسٹرکشن عمل میں آتی ہے اورجو چیز سب سے اہم قرار پاتی ہے وہ انسان کا کردار اوراخلاق ہے جن کا محرک، بہرحال خودی کا تصور ہے۔

خودی کی بلندی کا عمل ہی تقدیرکی تشکیل کا عمل بھی ہے۔ پہلے مصرعے میں تقدیر سے مراد اعلیٰ تقدیر سے ہے، یعنی خودی کی بلندی انسان کو اس سطح تک لے جائے کہ جہاں کوئی اور نہیں بلکہ وہ خود اپنا مقدر لکھ سکے، وہ اس مثالی زندگی کا از خود تعین کرنے کی حیثیت رکھتا ہوکہ جو اس کے تخیل میں موجود ہے۔ایک ایسی زندگی کہ جس میں ہر طرح کی احتیاج اس کے اپنے اختیارکے تابع ہوجائے۔اگرچہ دوسرا مصرعہ پہلے مصرعے کی تکمیل توکرتا ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ شعرمیں موجود اس تضاد کو بھی نمایاں کرتا ہے جو شعرلکھتے وقت شاعرکے ذہن کے کسی گوشے میں بھی موجود نہیں تھا۔ پہلے مصرعے میں انسان کوخود اپنے مقدرکا خالق بتایا گیا ہے۔ اس میں ماورائیت کی نفی کا تصور واضح طور پر موجود ہے۔

دوسرے مصرعے میں خدا نے ایک بار پھرخودکو ابھارا ہے۔ یعنی ''خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے'' مقدرکی تشکیل کا مسئلہ خدا کی مرضی کے برعکس بندے کی 'رضا' کے تابع ہے، کیونکہ خودی کی تشکیل کے بعد انسان اپنے مقدر پر اس لیے غالب آجاتا ہے کہ خدا کی مرضی انسان کی رضا کے تابع ہوتی ہے۔اس شعرکی تفہیم سے طلحہ عبدالسلام نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ''خودی کو بلندکرنے کا تصوردے کر علامہ اقبال نے تقدیرکی بحث بھی سمیٹ دی، خودی بلند کرلیں تواپنی تقدیر خود لکھی جاسکتی ہے'' لیکن جیسا کہ میں نے اوپرکہا ہے کہ پہلے مصرعے میں اپنی ہی خواہش کو ڈی کنسٹرکٹ کرنے کے بعد دوسرے ہی مصرعے میں ایک بار پھر اختیارخدا کی طرف سونپ دیا گیا ہے۔اس میں خدا اور بندے کی پیکار نہیں ہے، بلکہ شاعرکے ذہن میں متضاد خیالات کی کشمکش ہے کہ واضح معنی سے ایک بار پھر انحراف کیا گیا ہے۔

یعنی انسان خودی کو بلند توکر لے لیکن اس کی تقدیراس سے پوچھ کر خدا نے ہی لکھنی ہے۔اب بیک وقت یہ دونوں باتیں درست نہیں ہوسکتیں، اگر انسان کی خودی بلند ہوگئی اور وہ اس سطح پرچلا گیا کہ جہاں پہلے سے طے شدہ تقدیرکے تصورسے ماورا ہوگیا توکیا وہ اس بلند شدہ خودی کے ساتھ پھرکسی بھی طرح کی محتاجی کو قبول کر سکے گا؟ اس کا جواب نفی میں ہی دینا ہوگا۔ حبہ چوہدری نے اس شعرکے اندر سے ایک اوراہم نکتے اوربنیادی تضاد کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا ہے کہ ''اگر بندہ خودی ہی کو بلندکر گیا توکیا اس کے بعد بھی گنجائش بچتی ہے کہ رضا پوچھی جائے یا بندے کی خودی اجازت دے گی کہ وہ رضا بتائے؟''بندے کی خودی کبھی اس چیزکی اجازت نہیں دے گی کہ وہ خود جھک جائے، کیونکہ بندے کی خودی اس لامتناہی خودی کا حصہ بن چکی ہوتی ہے۔ ایسے میں متناہی کو جھکانا بیک وقت لامتناہی کوجھکانے کے مترادف ہوگا۔

جونہی تقدیرکی تشکیل خودی کے تابع ہوگئی تو ماورائیت کی نفی تو اسی وقت ہوجاتی ہے۔ یہ انسان کا اپنا عمل ہے جو اسے اس سطح تک پہنچاتا ہے کہ اس کے اور''مطلق خودی'' کے مابین تضاد ختم ہوجاتا ہے۔ جب انسان ''مطلق خودی'' میں انضمام کی سطح تک پہنچ جاتا ہے تو پھر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کی تقدیرکی تشکیل کا عمل کہیں 'الگ' سے تشکیل پاتا ہے۔ خودی کی تشکیل کے عمل کا آغاز ہی اس کے بااختیار ہونے کا آغاز بھی ہے۔خودی کی تشکیل کے مختلف درجات اس کے بااختیار بننے کے مختلف درجات بھی ہیں۔ شعر سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ پہلے خودی بلند ہوجائے گی پھرخدا بلند ہوئی خودی کے حامل بندے سے پوچھے گا کہ بتا تجھے کیا چاہیے! بلند ہوئی خودی میں خدا خود شامل ہوچکا ہوتا ہے، کیونکہ خودی کی بلندی کا عمل متناہی کی لامتناہی تک رسائی کا عمل ہے، جس کے مختلف درجات ہیں، ہر درجہ متناہی کو بااختیار بنانے کا درجہ بھی ہے۔یہ ایسا تصورہے جس کی اس شعر میں تفہیم نہیں ملتی۔ یہاں دونوں کو الگ کرکے دکھایا گیا ہے۔

ذہن نشین یہ رہے کہ اس شعر میں خدا کا اختیار بندے کی رضا کا تابع ہے، یہاں مرکزیت انسان کی قائم ہوتے دکھائی گئی ہے۔ محض اختیار ہی انسان کی رضا کا تابع نہیں ہے، فلسفیانہ مفہوم میں لامتناہی اپنے اختیارکو متناہی کا تابع کرکے خودکو متناہی میں ظاہرکرنا چاہتا ہے۔ بندے کا اپنی مرضی کی تقدیرکی تشکیل کا تقاضا بھی اس کو خدا کے تابع نہیں کرتا۔ شاعرکی منشا اسی ایک نکتے پرخود سے انحراف کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ بلاوجہ ایک بار پھرخدا کو اختیار دینے کی خواہش شاعرکی اپنی ہے، یہ شعرکی داخلی منطق کا تقاضا نہیں تھا، بلکہ شاعرکی موضوعیت اور خود سے پیکارکا نتیجہ ہے۔جب کہ خودی کی بلندی کا تقاضا یہ ہے کہ متناہی خودی کسی بھی صورت لامتناہی میں انضمام کے بعد خودکو اس سے الگ تصور کرکے اس کے سامنے اپنی کوئی بھی التجا نہ رکھے۔ متناہی کا لامتناہی میں انضمام متناہی کو بااختیار تسلیم کرنا ہے۔ جب متناہی میں لامتناہی شامل ہوجائے تو پھراس کومتناہی کی سطح پر دیکھتے ہوئے دونوں کو ایک دوسرے سے الگ دکھانا مابعدالطبیعاتی تضادکے علاوہ اورکچھ نہیں ہے۔
Load Next Story