ہماری صحافت سے مقصدیت ختم ہوتی جا رہی ہے منو بھائی
انگریزوں کے غلام رہنے کی وجہ سے عربی اور فارسی ادب کے فوائد سے محروم رہ گئے
پہلے کچھ بات منو بھائی کے شناختی کارڈ کی ہو جائے۔
منو بھائی کے منتخب کالموں کا مجموعہ ''جنگل اداس ہے'' 1984ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بیک فلیپ پر انہوں نے اپنا تعارف اس انداز میں کرایا: ''میں وزیر آباد میں میاں غلام حیدر کا پوتا اور بابو محمد عظیم قریشی کا بیٹا تھا۔ راولپنڈی ڈویژن کے مختلف ریلوے اسٹیشنوں پر میں سٹیشن ماسٹر کا بیٹا تھا۔ راولپنڈی میں اخباری رپورٹر اور ٹیلی ویژن کا ڈرامہ نگار تھا۔
کرشن نگر لاہور میں ملک شمس کا کرایہ دار تھا اور اب ریواز گارڈن لاہور میں 364 ہو کر رہ گیا ہوں کہ یہاں لوگ میرے مکان کا نمبر جانتے ہیں۔ مجھے، میرے والد اور میرے دادا کو نہیں جانتے۔ میاں غلام حیدر کی مسجد، بابو محمد عظیم قریشی کے پلیٹ فارم اور ٹیلی ویژن کے ڈرامے میں پیچھے چھوڑ آیا ہوں اور یہاں اپنا نیا شناختی کارڈ بنوانے کی کوشش میں مصروف ہوں۔''
کالم نویس، ڈرامہ نگار اور شاعر منو بھائی کے شناختی کارڈ کی بات کی جائے، تو ان سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ اس پر ''عام آدمی'' لکھا ہے۔ انہوں نے عام آدمی کی طرح غربت دیکھی، کچھ راتیں بھوکا بھی سونا پڑا۔ پھر جب انہوں نے قلم کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا تو عام آدمی کے مسائل کو ہی اپنا موضوع بنایا۔
انہوں نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی، جس کا نشانہ عام طور پر مجبور اور کمزور انسان بنتے ہیں۔ وہ عام سے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ انہیں بھی ان سب مسائل کا سامنا ہے، جن کا کسی عام آدمی کو سامنا ہو سکتا ہے۔ ماضی کے حکمرانوں سے تعلق کے باوجود انہوں نے کبھی ذاتی فوائد نہیں لیے اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو کسی خصوصی سلوک کا مستحق سمجھتے ہیں۔
اس بارے میں وہ کہتے ہیں، ''مجھے صرف وہی چیز چاہیے جو میرے جیسے دوسرے لوگوں کا حق بنتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سب بچوں کو سکول جانے کا حق ملنا چاہیے، صرف میرے بچوں کو یا ایک خاص طبقے کے بچوں کو نہیں۔ میں اپنے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں چاہتا۔ میں پانچ مرلے کے گھر میں زندگی گزار سکتا ہوں اور چند ہزار روپے ماہوار میں بھی زندگی بسر کر سکتا ہوں۔ میں نے اگر پچاس روپے ماہوار میں نوکری کی ہے تو آج تین لاکھ روپے ماہوار میں بھی میرے وہی دوست ہیں، جو پچاس روپے ماہوار میں میرے دوست تھے۔'' تو یہ رہا منو بھائی کا شناختی کارڈ، اب ان کے سفر زیست کی طرف بڑھتے ہیں۔
منیر احمد قریشی نے چھ فروری 1933ء کو وزیر آباد میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا میاں غلام حیدر قریشی امام مسجد تھے، کتابوں کی جلد سازی اور کتابت ان کا ذریعہ معاش تھا۔ وہ شاعری بھی کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے دادا کی گود میں بیٹھ کر ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال، مرزا صاحباں اور یوسف زلیخا کے قصے اور الف لیلیٰ کی کہانیاں سنیں، جس نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔
ان کے والد محمد عظیم قریشی ریلوے میں ملازم تھے، جو بعد میں سٹیشن ماسٹر بنے۔ وہ ابھی تین چار سال کے ہی تھے جب ان کے سخت مزاج والد نے ان کی والدہ کو تھپٹر مارا، جس سے ان کو اتنا صدمہ پہنچا کہ ان کی قوت گویائی چھن گئی اور انہوں نے عام بچوں کی نسبت بڑی عمر میں بولنا شروع کیا۔ پھر جب بولنا شروع کیا تو بولتے ہوئے لکنت ہوتی تھی جو اب تک ساتھ چلی آ رہی ہے۔
محلے کے لڑکے ان کی اس کمزوری کی وجہ سے ان کا مذاق اڑاتے، نقلیں اتارتے اور ''منیرا تھتھا'' کہہ کر بلاتے۔ یہ سوچتے تھے کہ اگر انہیں بولتے ہوئے لکنت ہوتی ہے تو اس میں ان کا کیا قصور ہے، اور دوسرے لڑکوں کو لکنت نہیں ہوتی تو اس میں ان کا کیا کمال ہے۔ اس وجہ سے یہ لڑکوں کے بجائے اپنی ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے لگے جو ان کا مذاق نہیں اڑاتی تھیں، بلکہ ان کی خاطر دوسرے لڑکوں سے لڑ بھی پڑتی تھیں۔ منو بھائی بتاتے ہیں، ''مجھے بولتے ہوئے جو تکلیف ہوتی تھی، وہ سوچتے ہوئے اور کہانیاں گھڑتے ہوئے نہیں ہوتی تھی۔ اس میں میرا دماغ چلتا تھا، چنانچہ میں خیالوں کی دنیا میں رہنے لگا۔''
انہوں نے ساتویں جماعت میں اپنا پہلا شعر اپنی ہم جماعت، کلورکوٹ کے سٹیشن ماسٹر پنڈت وشنوداس شرما کی بیٹی، کوشلیا کو سنایا، جس نے خوش ہو کے ان کا گال چوم لیا اور مزید اشعار سنانے کی فرمائش کی۔ منوبھائی کہتے ہیں، ''بعد میں جب بھی کچھ لکھا اس واقعے کا سنسنی خیز احساس تازہ ہو گیا'جس سے مجھے اندازہ ہوتا کہ میں نے کچھ اچھا لکھا۔'' وزیرآباد سے 1947ء میں میٹرک کرنے کے بعد وہ گورنمنٹ کالج کیمبل پور (اٹک) آ گئے جہاں شفقت تنویر مرزا، منظور عارف اور عنایت الہی سے ان کی دوستی ہوئی۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق، پروفیسر عثمان اور مختار صدیقی جیسے اساتذہ سے انہیں پڑھنے کا موقع ملا۔ منو بھائی بتاتے ہیں، ''ایسے اساتذہ جو اچھے تھے لیکن حکومت کی بات نہیں مانتے تھے، ان کا تبادلہ حکومت سزا کے طور پر کیمبل پور، اٹک کر دیتی تھی جو پنجاب کا آخری ضلع تھا۔ میری خوش قسمتی کہ مجھے ان اساتذہ سے پڑھنے کا موقع ملا۔'' کیمبل پور کالج میں تعلیم کے دوران ہی انہوں نے یوم آزادی کے ایک جلسے میں پنجابی نظم پڑھی، جو انہیں شفقت تنویر مرزا نے لکھ کر دی تھی۔ اس نظم پر ملنے والی داد سے اتنے خوش ہوئے کہ بعد میں خود بھی پنجابی شاعری کرنے لگے اور آگے چل کر اس میں اپنی منفرد پہچان بنائی۔
پنجابی کے معروف شاعر شریف کنجاہی ان کے ماموں تھے۔ منو بھائی کے بقول، ''ہمارے خاندان میں ہر دوسری نسل میں کوئی نہ کوئی شاعر ہوتا تھا۔ شریف کنجاہی میرے ماموں تھے۔ اس وقت مجھے ان کی شاعری سمجھ تو نہیں آتی تھی لیکن ان کا شاعر ہونا مجھے اچھا لگتا تھا۔ ان کی وجہ سے میرا احمد ندیم قاسمی اور دوسرے لوگوں سے تعلق بن گیا اور اس طرح میں شاعروں کی دنیا میں داخل ہو گیا۔''
منیر احمد قریشی کو منو بھائی کا نام بھی احمد ندیم قاسمی نے دیا۔ اس بارے میں بتاتے ہیں ''سکول میں میری ہم جماعت کوشلیا کو سب منی کہہ کر بلاتے تھے اور وہ مجھے منو کہا کرتی تھی۔ اس بات کا میرے دوست عنایت الٰہی کو علم تھا جس نے آگے یہ بات قاسمی صاحب کو بھی بتا دی تھی۔
میں نے امروز کے ادبی ایڈیشن کے لیے نظم بھجوائی تو قاسمی صاحب نے میرا نام کاٹ کر وہاں منو بھائی لکھ دیا۔ پھر میں نے سوچا کیوں کہ قاسمی صاحب نے یہ نام دیا ہے، اب اسی نام کو ساتھ لے کر چلنا ہے اور اسے بدنام بھی نہیں کرنا۔'' ان کے والد انہیں ریلوے میں ملازم بھرتی کرانا چاہتے تھے، بلکہ اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک سفارش کا بندوبست بھی کر لیا تھا، لیکن یہ ریلوے میں رشوت کے چلن کی وجہ سے وہاں نہیں جانا چاہتے تھے۔ چناں چہ یہ راولپنڈی چلے گئے اور روزنامہ تعمیر میں ملازمت کی درخواست دی، جس میں مترجم کی آسامی کا اشتہار انہوں نے اخبار میں دیکھا تھا۔
ایڈیٹر محمد فاضل نے ان کا انٹرویو لے کر انہیں پچاس روپے ماہوار پر نوکری دی اور یوں ان کے صحافت کے سفر کا آغاز ہوا۔ یہ پچاس کی دہائی کے آخر کی بات ہے۔ روزنامہ تعمیر، راولپنڈی سے ہی انہوں نے ''اوٹ پٹانگ'' کے عنوان سے کالم نویسی کا آغاز کیا۔ ''تعمیر'' سے قاسمی صاحب انہیں ''امروز'' میں لے آئے۔ یہاں انہوں نے دوسری صحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ ''گریبان'' کے عنوان سے کالم لکھنے شروع کیے۔
اس عنوان کی معنویت کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ''گریبان کسی دوسرے کا بھی پکڑا جا سکتا ہے اور اپنے گریبان میں بھی جھانکا جا سکتا ہے۔ پھر یہ مصرع بھی ذہن میں تھا: یا دامن یزداں چاک یا اپنا گریباں چاک۔'' حکومت سے صحافیوں کے معاوضے کے جھگڑے پر ان کا تبادلہ سزا کے طور پر ملتان ''امروز'' میں کر دیا گیا، جہاں سے ذوالفقار علی بھٹو انہیں ''مساوات'' میں لے آئے۔
7 جولائی 1970ء کو مساوات میں ان کا پہلا کالم چھپا۔ ''مساوات'' سے ''جنگ'' لاہور میں آ گئے۔ کچھ عرصہ دوسرے اخبارات میں بھی کام کیا۔ غربت، عدم مساوات، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری، خواتین کا استحصال اور عام آدمی کے مسائل منو بھائی کے کالموں کے موضوعات ہیں۔ خاص طور پر انہوں نے اپنے دوستوں کے انتقال پر جو کالم لکھے، ان کے پردرد اسلوب کی وجہ سے ان کالموں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس سے پہلے عطیہ فیضی کے انتقال پر لکھے ہوئے کالم پر بھی ان کو پذیرائی ملی تھی اور اس کالم کا انگریزی میں ترجمہ بھی ہوا۔
اپنے دوستوں پر لکھے ہوئے کالموں سے متعلق ان کا کہنا ہے، ''اصل میں ان کالموں میں صرف یہ نہیں ہے کہ ان کے انتقال پر افسوس کیا گیا ہو۔ بلکہ میں نے لوگوں کو یہ بھی بتانے کی کوشش کی کہ ان کے انتقال سے معاشرے کو کیا نقصان ہوا ہے اور وہ کون سی خوبیاں تھیں جن سے ہم محروم ہو گئے ہیں۔''
ڈرامہ نگاری بھی منو بھائی کی شخصیت کا ایک معتبر حوالہ ہے۔ انہوں نے پی ٹی وی کے لیے سونا چاندی، جھوک سیال، دشت اور عجائب گھر جیسے ڈرامے تحریر کیے۔ کالم نویسی کی طرح اپنے ڈراموں میں بھی انہوں نے ورکنگ کلاس کے لوگوں کی زندگی اور مسائل پیش کیے۔ ٹی وی کے لیے ڈرامہ نویسی کی طرف انہیں اسلم اظہر لائے، جن کے کہنے پر انہوں نے 65ء کی جنگ کے موضوع پر ''پل شیر خان'' ڈرامہ لکھا۔
ڈرامہ سونا چاندی کو ملنے والی لازوال مقبولیت کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ''دراصل کسی بھی ڈرامے کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں معمول سے ہٹ کر کوئی چیز دکھائی جائے۔ عام طور پر شہر والے، گاؤں والوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور انہیں پینڈو کہتے ہیں۔ لیکن اس ڈرامے میں گاؤں سے تعلق رکھنے والے دو کردار شہر والوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ پھر اس میں یہ تھا کہ خاتون کو مرد پر dominant دکھایا گیا، یہ بھی خلاف معمول بات تھی۔ اس لیے خاص طور پر خواتین نے اس ڈرامے کو بہت پسند کیا۔''
منو بھائی کی شاعری پُراثر ہے، جس میں انہوں نے محبت، اور مزاحمت کے ساتھ دوسرے فکر انگیز مضامین بیان کیے ہیں جو لوگوں کو سوچنے سمجھنے پر مجبور کرتے ہیں اور معاشرے میں آگے بڑھنے کا راستہ دکھاتے ہیں۔فیض صاحب نے منو بھائی کی پنجابی شاعری کی خاص طور پر حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ شاعری اس زبان میں کرنی چاہیے جس میں آدمی خواب دیکھتا ہے، سوچتا ہے، لوری سنتا ہے اور بین کرتا ہے۔ شاعری اچھی ہونی چاہیے، زبان کی حیثیت ثانوی ہے۔
منو بھائی کی فیض صاحب، احمد ندیم قاسمی، قدرت اللہ شہاب ، پطرس بخاری اور صوفی تبسم جیسے لوگوں کے ساتھ عقیدت، ابن انشا اور احمد فراز کے ساتھ دوستی رہی۔ ادب اور صحافت میں فرق بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ''صحافت میں جو دکھائی دے رہا ہے وہ بیان کرتے ہیں۔ لیکن ہر حقیقت کے پیچھے کوئی وجہ ہوتی ہے، اس وجہ تک پہنچنا ادب ہے۔ مثلاً اگر کوئی غریب ہے، وہ کیسے غریب ہوا، کن حالات کی وجہ سے اسے غربت ملی، ان تک پہنچنا ادب کہلائے گا۔'' منو بھائی کے نزدیک ہماری آج کی صحافت میں مقصدیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ کالم تعداد میں بڑھ گئے ہیں لیکن صحت مند ابلاغ کی کمی ہے۔
منو بھائی کی تصانیف میں ''اجے قیامت نئیں آئی'' (پنجابی شاعری کا مجموعہ) ، ''جنگل اداس ہے'' (منتخب کالم) ، ''فلسطین فلسطین''، ''محبت کی ایک سو ایک نظمیں'' اور ''انسانی منظر نامہ'' (تراجم) شامل ہیں۔ منو بھائی کہتے ہیں، ''ہم کیوں کہ انگریزوں کے غلام تھے، ہم نے انگریزی تو پڑھی لیکن عربی اور فارسی اور جو علاقائی زبانیں ہیں، ان کے ادب سے بہت کم فائدہ اٹھایا۔ حالانکہ یہ ہمارے مزاج کے زیادہ قریب تھے۔ ہمارے مسائل مشترک ہیں۔ اگر ہم ان کو پڑھ لیتے تو ہماری سوچ اور ادب میں اور زیادہ گہرائی اور وسعت پیدا ہوتی۔'' منو بھائی کے ان تراجم کو پڑھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر ان کا اردو میں ترجمہ نہ کیا جاتا تو یہ ہمارے لیے کتنی بڑی محرومی ہوتی۔ منو بھائی کہتے ہیں، ''مجھے اپنی ماں سے عشق تھا۔ جب میری ماں فوت ہو گئی تو میرے اندر جو بچہ تھا وہ بھی مر گیا۔
پھر میں بیٹا نہیں رہا بلکہ ایک بیٹی اور بیٹے کا باپ بن گیا۔''منو بھائی ماضی کی طرح آج بھی اپنی ساری تنخواہ اپنی بیگم اعجاز منیر کے حوالے کرتے ہیں جو گھر کے سارے خرچ کا انتظام کرتی ہیں۔ منو بھائی کو عام آدمی سے محبت ہے، انسانیت سے محبت ہے۔ کہتے ہیں زندگی کا مقصد انسانیت کی خدمت کرنا ہے، آپ لوگوں کی جو بھی خدمت کر سکتے ہیں، کرنی چاہیے۔ منو بھائی کہتے ہیں، ''اپنی زندگی سے خوش ہوں۔ میں نے دولت نہیں کمائی لیکن پھر بھی مطمئن ہوں۔ جیسے زندگی گزری ہے اس پہ نازاں ہوں، نادم نہیں ہوں۔''
سوال جواب
کیہہ ہوئیا اے؟
کجھ نئیں ہوئیا!
کیہہ ہووے گا؟
کجھ نئیں ہونا!
کیہہ ہو سکدا اے؟
کجھ نہ کجھ ہوندا ای رہندا اے
جو تُوں چاہنا ایں اوہ نئیں ہوناں
ہو نئیں سکدا
کرناں پیندا اے
حق دی خاطر لڑنا پیندا اے
جیون دے لئی مرنا پیندااے
(منوبھائی)
''اعزازی عورت'' کا خطاب
منو بھائی بچپن میں لڑکوں کے بجائے لڑکیوں کے ساتھ کھیلے۔ کیوں کہ لڑکے لکنت کی وجہ سے ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ والد سے وہ ڈرتے تھے جبکہ ماں کے ساتھ ان کو والہانہ محبت اور دلی لگائو تھا۔ اسی طرح انہوں نے اپنے کالموں میں بھی خواتین سے امتیازی سلوک اور ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی۔ منو بھائی بتاتے ہیں، ''اس وجہ سے طاہرہ مظہر علی نے، جو ''پاکستان ٹائمز'' کے ایڈیٹر مظہر علی کی بیوی تھیں، مجھے ''اعزازی عورت'' کا خطاب دیا تھا، جو میں نے شکریے کے ساتھ قبول کیا۔ لیکن میں نے انہیں کہا تھا کہ میں عورتوں کی طرح بچے نہیں جن سکتا۔ جس پر انہوں نے کہا کہ اعزازی ڈاکٹر سے علاج نہیں کرایا جاتا، یہ بس اعزاز کی بات ہوتی ہے۔'' منو بھائی خواتین کے حقوق کے پرزور حامی ہیں۔ کہتے ہیں، ''ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت کے ساتھ برا سلوک ہوتا ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک اور معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی آئی تو اس میں خواتین کا کردار اہم ہو گا۔ خواتین نے ہر شعبہ زندگی میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے۔ مرد کو چاہیے کہ عورت کے ساتھ ہر سطح پر تعاون کرے، نہ کہ اس کا راستہ روکے۔ اسی میں خود مردوں اور اس معاشرے کی بھلائی ہے۔''
واقعہ۔۔۔۔ جس نے کالم نویس بنایا
سچ تو یہ ہے کہ مجھے کالم نویس بھی ایک عورت نے بنایا۔ میں جب اخبار میں کام کرتا تھا تو ایک عورت میرے پاس آئی جس کا بچہ گم ہو گیا تھا۔میں نے اس سے بچے کا نام اور عمر پوچھنے کے بعد سوال کیا کہ اس نے کپڑے کس رنگ کے پہنے ہوئے تھے۔ کہنے لگی، ''اس نے پہنے تو سفید کپڑے ہوئے تھے، لیکن اب تو میلے ہو گئے ہوں گے۔'' اس جملے کا بہت اثر ہوا میرے دل پر۔ یہ جملہ کوئی ماں ہی کہہ سکتی تھی۔ ماں جو روز اپنے بیٹے کو دھلے ہوئے صاف کپڑے پہناتی تھی اس نے سوچا ہو گا کہ سات دنوں بعد ان کا کیا حال ہو گیا ہو گا۔ بچے کا والد خبر لکھوانے آتا تو وہ کپڑوں کا رنگ سفید ہی بتاتا۔ تو یہ ماں ہی سوچ سکتی ہے اور کہہ سکتی ہے۔
لوگ بینظیر کو بتانے آئے تھے
منو بھائی کا ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو دونوں سے اچھا تعلق رہا۔ کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب دوہری شخصیت کے مالک تھے۔ ان پر اپنے جاگیردار والد سرشاہنواز خان اور غریب ماں ، دونوں کا اثر تھا۔ اس لیے کبھی وہ اپنے والد کی طرح جاگیردار بن جاتے تھے اور کبھی اپنی ماں کی طرح غریبوں کے ہمدرد۔ لیکن آخری عمر میں ماں ان کے کام آئی، جب ان کا انتقال ہوا وہ اپنی ماں کی گود میں تھے۔ بینظیر صاحبہ تک پیپلز پارٹی کا دور اچھا تھا، لیکن اب وہ والی پیپلز پارٹی نہیں رہی۔ 2007ء میں بینظیر کے استقبال میں آنے والے جو لوگ دھماکے میں شہید ہوئے انہوں نے ٹوٹی ہوئی ہوائی چپلیں پہن رکھی تھیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا تعلق غریب طبقے سے تھا۔ وہ لوگ بینظیر کو دیکھنے نہیں آئے تھے بلکہ اس کو یہ دکھانے اور بتانے آئے تھے کہ وہ آج بھی غریب ہیں اور انہیں آج بھی روٹی، کپڑا اور مکان کی ضرورت ہے۔ تو غریب اور مزدور طبقے کو بہت توقعات تھیں بینظیر صاحبہ سے۔
سندس فائونڈیشن سے وابستگی
منو بھائی گزشتہ دس سال سے خیراتی ادارے سندس فائونڈیشن سے وابستہ ہیں اور یہاں بلامعاوضہ کام کرتے ہیں۔یہ ادارہ خون کی جان لیوا بیماریوں میں مبتلا بچوں کا مفت علاج کرتا ہے۔ منو بھائی بتاتے ہیں، ''اس بیماری میں مبتلا چالیس فیصد بچوں کی مائوں کو ان کے خاوند چھوڑ چکے ہیں، یہ بھی وجہ ہے جس کی وجہ سے میں نے اس ادارے کی مدد کا فیصلہ کیا اور اس ادارے کو خود اپنی خدمات کی پیشکش کی۔'' اس ادارے میں اب چھ ہزار بچے رجسٹرڈ ہیں جن کو مسلسل انتقال خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ بصورت دیگر ان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ کزن میرج بھی اس بیماری کا ایک سبب ہے۔ اس بیماری سے بچنے کا حل یہ ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کے خون کے ٹیسٹ کرا کے اس بات کی تسلی کر لی جائے کہ بچوں کو ایسی کوئی بیماری لاحق ہونے کا امکان نہیں۔ منو بھائی کہتے ہیں، ''دوسرے صحافیوں اور لوگوں کو بھی ان فلاحی سرگرمیوں کی طرف آنا چاہیے اور جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں ان سے تعاون کرنا چاہیے۔ یہ حقیقی خدمت ہے۔''
منو بھائی کے منتخب کالموں کا مجموعہ ''جنگل اداس ہے'' 1984ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بیک فلیپ پر انہوں نے اپنا تعارف اس انداز میں کرایا: ''میں وزیر آباد میں میاں غلام حیدر کا پوتا اور بابو محمد عظیم قریشی کا بیٹا تھا۔ راولپنڈی ڈویژن کے مختلف ریلوے اسٹیشنوں پر میں سٹیشن ماسٹر کا بیٹا تھا۔ راولپنڈی میں اخباری رپورٹر اور ٹیلی ویژن کا ڈرامہ نگار تھا۔
کرشن نگر لاہور میں ملک شمس کا کرایہ دار تھا اور اب ریواز گارڈن لاہور میں 364 ہو کر رہ گیا ہوں کہ یہاں لوگ میرے مکان کا نمبر جانتے ہیں۔ مجھے، میرے والد اور میرے دادا کو نہیں جانتے۔ میاں غلام حیدر کی مسجد، بابو محمد عظیم قریشی کے پلیٹ فارم اور ٹیلی ویژن کے ڈرامے میں پیچھے چھوڑ آیا ہوں اور یہاں اپنا نیا شناختی کارڈ بنوانے کی کوشش میں مصروف ہوں۔''
کالم نویس، ڈرامہ نگار اور شاعر منو بھائی کے شناختی کارڈ کی بات کی جائے، تو ان سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ اس پر ''عام آدمی'' لکھا ہے۔ انہوں نے عام آدمی کی طرح غربت دیکھی، کچھ راتیں بھوکا بھی سونا پڑا۔ پھر جب انہوں نے قلم کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا تو عام آدمی کے مسائل کو ہی اپنا موضوع بنایا۔
انہوں نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی، جس کا نشانہ عام طور پر مجبور اور کمزور انسان بنتے ہیں۔ وہ عام سے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ انہیں بھی ان سب مسائل کا سامنا ہے، جن کا کسی عام آدمی کو سامنا ہو سکتا ہے۔ ماضی کے حکمرانوں سے تعلق کے باوجود انہوں نے کبھی ذاتی فوائد نہیں لیے اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو کسی خصوصی سلوک کا مستحق سمجھتے ہیں۔
اس بارے میں وہ کہتے ہیں، ''مجھے صرف وہی چیز چاہیے جو میرے جیسے دوسرے لوگوں کا حق بنتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سب بچوں کو سکول جانے کا حق ملنا چاہیے، صرف میرے بچوں کو یا ایک خاص طبقے کے بچوں کو نہیں۔ میں اپنے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں چاہتا۔ میں پانچ مرلے کے گھر میں زندگی گزار سکتا ہوں اور چند ہزار روپے ماہوار میں بھی زندگی بسر کر سکتا ہوں۔ میں نے اگر پچاس روپے ماہوار میں نوکری کی ہے تو آج تین لاکھ روپے ماہوار میں بھی میرے وہی دوست ہیں، جو پچاس روپے ماہوار میں میرے دوست تھے۔'' تو یہ رہا منو بھائی کا شناختی کارڈ، اب ان کے سفر زیست کی طرف بڑھتے ہیں۔
منیر احمد قریشی نے چھ فروری 1933ء کو وزیر آباد میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا میاں غلام حیدر قریشی امام مسجد تھے، کتابوں کی جلد سازی اور کتابت ان کا ذریعہ معاش تھا۔ وہ شاعری بھی کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے دادا کی گود میں بیٹھ کر ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال، مرزا صاحباں اور یوسف زلیخا کے قصے اور الف لیلیٰ کی کہانیاں سنیں، جس نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔
ان کے والد محمد عظیم قریشی ریلوے میں ملازم تھے، جو بعد میں سٹیشن ماسٹر بنے۔ وہ ابھی تین چار سال کے ہی تھے جب ان کے سخت مزاج والد نے ان کی والدہ کو تھپٹر مارا، جس سے ان کو اتنا صدمہ پہنچا کہ ان کی قوت گویائی چھن گئی اور انہوں نے عام بچوں کی نسبت بڑی عمر میں بولنا شروع کیا۔ پھر جب بولنا شروع کیا تو بولتے ہوئے لکنت ہوتی تھی جو اب تک ساتھ چلی آ رہی ہے۔
محلے کے لڑکے ان کی اس کمزوری کی وجہ سے ان کا مذاق اڑاتے، نقلیں اتارتے اور ''منیرا تھتھا'' کہہ کر بلاتے۔ یہ سوچتے تھے کہ اگر انہیں بولتے ہوئے لکنت ہوتی ہے تو اس میں ان کا کیا قصور ہے، اور دوسرے لڑکوں کو لکنت نہیں ہوتی تو اس میں ان کا کیا کمال ہے۔ اس وجہ سے یہ لڑکوں کے بجائے اپنی ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے لگے جو ان کا مذاق نہیں اڑاتی تھیں، بلکہ ان کی خاطر دوسرے لڑکوں سے لڑ بھی پڑتی تھیں۔ منو بھائی بتاتے ہیں، ''مجھے بولتے ہوئے جو تکلیف ہوتی تھی، وہ سوچتے ہوئے اور کہانیاں گھڑتے ہوئے نہیں ہوتی تھی۔ اس میں میرا دماغ چلتا تھا، چنانچہ میں خیالوں کی دنیا میں رہنے لگا۔''
انہوں نے ساتویں جماعت میں اپنا پہلا شعر اپنی ہم جماعت، کلورکوٹ کے سٹیشن ماسٹر پنڈت وشنوداس شرما کی بیٹی، کوشلیا کو سنایا، جس نے خوش ہو کے ان کا گال چوم لیا اور مزید اشعار سنانے کی فرمائش کی۔ منوبھائی کہتے ہیں، ''بعد میں جب بھی کچھ لکھا اس واقعے کا سنسنی خیز احساس تازہ ہو گیا'جس سے مجھے اندازہ ہوتا کہ میں نے کچھ اچھا لکھا۔'' وزیرآباد سے 1947ء میں میٹرک کرنے کے بعد وہ گورنمنٹ کالج کیمبل پور (اٹک) آ گئے جہاں شفقت تنویر مرزا، منظور عارف اور عنایت الہی سے ان کی دوستی ہوئی۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق، پروفیسر عثمان اور مختار صدیقی جیسے اساتذہ سے انہیں پڑھنے کا موقع ملا۔ منو بھائی بتاتے ہیں، ''ایسے اساتذہ جو اچھے تھے لیکن حکومت کی بات نہیں مانتے تھے، ان کا تبادلہ حکومت سزا کے طور پر کیمبل پور، اٹک کر دیتی تھی جو پنجاب کا آخری ضلع تھا۔ میری خوش قسمتی کہ مجھے ان اساتذہ سے پڑھنے کا موقع ملا۔'' کیمبل پور کالج میں تعلیم کے دوران ہی انہوں نے یوم آزادی کے ایک جلسے میں پنجابی نظم پڑھی، جو انہیں شفقت تنویر مرزا نے لکھ کر دی تھی۔ اس نظم پر ملنے والی داد سے اتنے خوش ہوئے کہ بعد میں خود بھی پنجابی شاعری کرنے لگے اور آگے چل کر اس میں اپنی منفرد پہچان بنائی۔
پنجابی کے معروف شاعر شریف کنجاہی ان کے ماموں تھے۔ منو بھائی کے بقول، ''ہمارے خاندان میں ہر دوسری نسل میں کوئی نہ کوئی شاعر ہوتا تھا۔ شریف کنجاہی میرے ماموں تھے۔ اس وقت مجھے ان کی شاعری سمجھ تو نہیں آتی تھی لیکن ان کا شاعر ہونا مجھے اچھا لگتا تھا۔ ان کی وجہ سے میرا احمد ندیم قاسمی اور دوسرے لوگوں سے تعلق بن گیا اور اس طرح میں شاعروں کی دنیا میں داخل ہو گیا۔''
منیر احمد قریشی کو منو بھائی کا نام بھی احمد ندیم قاسمی نے دیا۔ اس بارے میں بتاتے ہیں ''سکول میں میری ہم جماعت کوشلیا کو سب منی کہہ کر بلاتے تھے اور وہ مجھے منو کہا کرتی تھی۔ اس بات کا میرے دوست عنایت الٰہی کو علم تھا جس نے آگے یہ بات قاسمی صاحب کو بھی بتا دی تھی۔
میں نے امروز کے ادبی ایڈیشن کے لیے نظم بھجوائی تو قاسمی صاحب نے میرا نام کاٹ کر وہاں منو بھائی لکھ دیا۔ پھر میں نے سوچا کیوں کہ قاسمی صاحب نے یہ نام دیا ہے، اب اسی نام کو ساتھ لے کر چلنا ہے اور اسے بدنام بھی نہیں کرنا۔'' ان کے والد انہیں ریلوے میں ملازم بھرتی کرانا چاہتے تھے، بلکہ اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک سفارش کا بندوبست بھی کر لیا تھا، لیکن یہ ریلوے میں رشوت کے چلن کی وجہ سے وہاں نہیں جانا چاہتے تھے۔ چناں چہ یہ راولپنڈی چلے گئے اور روزنامہ تعمیر میں ملازمت کی درخواست دی، جس میں مترجم کی آسامی کا اشتہار انہوں نے اخبار میں دیکھا تھا۔
ایڈیٹر محمد فاضل نے ان کا انٹرویو لے کر انہیں پچاس روپے ماہوار پر نوکری دی اور یوں ان کے صحافت کے سفر کا آغاز ہوا۔ یہ پچاس کی دہائی کے آخر کی بات ہے۔ روزنامہ تعمیر، راولپنڈی سے ہی انہوں نے ''اوٹ پٹانگ'' کے عنوان سے کالم نویسی کا آغاز کیا۔ ''تعمیر'' سے قاسمی صاحب انہیں ''امروز'' میں لے آئے۔ یہاں انہوں نے دوسری صحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ ''گریبان'' کے عنوان سے کالم لکھنے شروع کیے۔
اس عنوان کی معنویت کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ''گریبان کسی دوسرے کا بھی پکڑا جا سکتا ہے اور اپنے گریبان میں بھی جھانکا جا سکتا ہے۔ پھر یہ مصرع بھی ذہن میں تھا: یا دامن یزداں چاک یا اپنا گریباں چاک۔'' حکومت سے صحافیوں کے معاوضے کے جھگڑے پر ان کا تبادلہ سزا کے طور پر ملتان ''امروز'' میں کر دیا گیا، جہاں سے ذوالفقار علی بھٹو انہیں ''مساوات'' میں لے آئے۔
7 جولائی 1970ء کو مساوات میں ان کا پہلا کالم چھپا۔ ''مساوات'' سے ''جنگ'' لاہور میں آ گئے۔ کچھ عرصہ دوسرے اخبارات میں بھی کام کیا۔ غربت، عدم مساوات، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری، خواتین کا استحصال اور عام آدمی کے مسائل منو بھائی کے کالموں کے موضوعات ہیں۔ خاص طور پر انہوں نے اپنے دوستوں کے انتقال پر جو کالم لکھے، ان کے پردرد اسلوب کی وجہ سے ان کالموں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس سے پہلے عطیہ فیضی کے انتقال پر لکھے ہوئے کالم پر بھی ان کو پذیرائی ملی تھی اور اس کالم کا انگریزی میں ترجمہ بھی ہوا۔
اپنے دوستوں پر لکھے ہوئے کالموں سے متعلق ان کا کہنا ہے، ''اصل میں ان کالموں میں صرف یہ نہیں ہے کہ ان کے انتقال پر افسوس کیا گیا ہو۔ بلکہ میں نے لوگوں کو یہ بھی بتانے کی کوشش کی کہ ان کے انتقال سے معاشرے کو کیا نقصان ہوا ہے اور وہ کون سی خوبیاں تھیں جن سے ہم محروم ہو گئے ہیں۔''
ڈرامہ نگاری بھی منو بھائی کی شخصیت کا ایک معتبر حوالہ ہے۔ انہوں نے پی ٹی وی کے لیے سونا چاندی، جھوک سیال، دشت اور عجائب گھر جیسے ڈرامے تحریر کیے۔ کالم نویسی کی طرح اپنے ڈراموں میں بھی انہوں نے ورکنگ کلاس کے لوگوں کی زندگی اور مسائل پیش کیے۔ ٹی وی کے لیے ڈرامہ نویسی کی طرف انہیں اسلم اظہر لائے، جن کے کہنے پر انہوں نے 65ء کی جنگ کے موضوع پر ''پل شیر خان'' ڈرامہ لکھا۔
ڈرامہ سونا چاندی کو ملنے والی لازوال مقبولیت کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ''دراصل کسی بھی ڈرامے کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں معمول سے ہٹ کر کوئی چیز دکھائی جائے۔ عام طور پر شہر والے، گاؤں والوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور انہیں پینڈو کہتے ہیں۔ لیکن اس ڈرامے میں گاؤں سے تعلق رکھنے والے دو کردار شہر والوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ پھر اس میں یہ تھا کہ خاتون کو مرد پر dominant دکھایا گیا، یہ بھی خلاف معمول بات تھی۔ اس لیے خاص طور پر خواتین نے اس ڈرامے کو بہت پسند کیا۔''
منو بھائی کی شاعری پُراثر ہے، جس میں انہوں نے محبت، اور مزاحمت کے ساتھ دوسرے فکر انگیز مضامین بیان کیے ہیں جو لوگوں کو سوچنے سمجھنے پر مجبور کرتے ہیں اور معاشرے میں آگے بڑھنے کا راستہ دکھاتے ہیں۔فیض صاحب نے منو بھائی کی پنجابی شاعری کی خاص طور پر حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ شاعری اس زبان میں کرنی چاہیے جس میں آدمی خواب دیکھتا ہے، سوچتا ہے، لوری سنتا ہے اور بین کرتا ہے۔ شاعری اچھی ہونی چاہیے، زبان کی حیثیت ثانوی ہے۔
منو بھائی کی فیض صاحب، احمد ندیم قاسمی، قدرت اللہ شہاب ، پطرس بخاری اور صوفی تبسم جیسے لوگوں کے ساتھ عقیدت، ابن انشا اور احمد فراز کے ساتھ دوستی رہی۔ ادب اور صحافت میں فرق بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ''صحافت میں جو دکھائی دے رہا ہے وہ بیان کرتے ہیں۔ لیکن ہر حقیقت کے پیچھے کوئی وجہ ہوتی ہے، اس وجہ تک پہنچنا ادب ہے۔ مثلاً اگر کوئی غریب ہے، وہ کیسے غریب ہوا، کن حالات کی وجہ سے اسے غربت ملی، ان تک پہنچنا ادب کہلائے گا۔'' منو بھائی کے نزدیک ہماری آج کی صحافت میں مقصدیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ کالم تعداد میں بڑھ گئے ہیں لیکن صحت مند ابلاغ کی کمی ہے۔
منو بھائی کی تصانیف میں ''اجے قیامت نئیں آئی'' (پنجابی شاعری کا مجموعہ) ، ''جنگل اداس ہے'' (منتخب کالم) ، ''فلسطین فلسطین''، ''محبت کی ایک سو ایک نظمیں'' اور ''انسانی منظر نامہ'' (تراجم) شامل ہیں۔ منو بھائی کہتے ہیں، ''ہم کیوں کہ انگریزوں کے غلام تھے، ہم نے انگریزی تو پڑھی لیکن عربی اور فارسی اور جو علاقائی زبانیں ہیں، ان کے ادب سے بہت کم فائدہ اٹھایا۔ حالانکہ یہ ہمارے مزاج کے زیادہ قریب تھے۔ ہمارے مسائل مشترک ہیں۔ اگر ہم ان کو پڑھ لیتے تو ہماری سوچ اور ادب میں اور زیادہ گہرائی اور وسعت پیدا ہوتی۔'' منو بھائی کے ان تراجم کو پڑھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر ان کا اردو میں ترجمہ نہ کیا جاتا تو یہ ہمارے لیے کتنی بڑی محرومی ہوتی۔ منو بھائی کہتے ہیں، ''مجھے اپنی ماں سے عشق تھا۔ جب میری ماں فوت ہو گئی تو میرے اندر جو بچہ تھا وہ بھی مر گیا۔
پھر میں بیٹا نہیں رہا بلکہ ایک بیٹی اور بیٹے کا باپ بن گیا۔''منو بھائی ماضی کی طرح آج بھی اپنی ساری تنخواہ اپنی بیگم اعجاز منیر کے حوالے کرتے ہیں جو گھر کے سارے خرچ کا انتظام کرتی ہیں۔ منو بھائی کو عام آدمی سے محبت ہے، انسانیت سے محبت ہے۔ کہتے ہیں زندگی کا مقصد انسانیت کی خدمت کرنا ہے، آپ لوگوں کی جو بھی خدمت کر سکتے ہیں، کرنی چاہیے۔ منو بھائی کہتے ہیں، ''اپنی زندگی سے خوش ہوں۔ میں نے دولت نہیں کمائی لیکن پھر بھی مطمئن ہوں۔ جیسے زندگی گزری ہے اس پہ نازاں ہوں، نادم نہیں ہوں۔''
سوال جواب
کیہہ ہوئیا اے؟
کجھ نئیں ہوئیا!
کیہہ ہووے گا؟
کجھ نئیں ہونا!
کیہہ ہو سکدا اے؟
کجھ نہ کجھ ہوندا ای رہندا اے
جو تُوں چاہنا ایں اوہ نئیں ہوناں
ہو نئیں سکدا
کرناں پیندا اے
حق دی خاطر لڑنا پیندا اے
جیون دے لئی مرنا پیندااے
(منوبھائی)
''اعزازی عورت'' کا خطاب
منو بھائی بچپن میں لڑکوں کے بجائے لڑکیوں کے ساتھ کھیلے۔ کیوں کہ لڑکے لکنت کی وجہ سے ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ والد سے وہ ڈرتے تھے جبکہ ماں کے ساتھ ان کو والہانہ محبت اور دلی لگائو تھا۔ اسی طرح انہوں نے اپنے کالموں میں بھی خواتین سے امتیازی سلوک اور ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی۔ منو بھائی بتاتے ہیں، ''اس وجہ سے طاہرہ مظہر علی نے، جو ''پاکستان ٹائمز'' کے ایڈیٹر مظہر علی کی بیوی تھیں، مجھے ''اعزازی عورت'' کا خطاب دیا تھا، جو میں نے شکریے کے ساتھ قبول کیا۔ لیکن میں نے انہیں کہا تھا کہ میں عورتوں کی طرح بچے نہیں جن سکتا۔ جس پر انہوں نے کہا کہ اعزازی ڈاکٹر سے علاج نہیں کرایا جاتا، یہ بس اعزاز کی بات ہوتی ہے۔'' منو بھائی خواتین کے حقوق کے پرزور حامی ہیں۔ کہتے ہیں، ''ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت کے ساتھ برا سلوک ہوتا ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک اور معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی آئی تو اس میں خواتین کا کردار اہم ہو گا۔ خواتین نے ہر شعبہ زندگی میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے۔ مرد کو چاہیے کہ عورت کے ساتھ ہر سطح پر تعاون کرے، نہ کہ اس کا راستہ روکے۔ اسی میں خود مردوں اور اس معاشرے کی بھلائی ہے۔''
واقعہ۔۔۔۔ جس نے کالم نویس بنایا
سچ تو یہ ہے کہ مجھے کالم نویس بھی ایک عورت نے بنایا۔ میں جب اخبار میں کام کرتا تھا تو ایک عورت میرے پاس آئی جس کا بچہ گم ہو گیا تھا۔میں نے اس سے بچے کا نام اور عمر پوچھنے کے بعد سوال کیا کہ اس نے کپڑے کس رنگ کے پہنے ہوئے تھے۔ کہنے لگی، ''اس نے پہنے تو سفید کپڑے ہوئے تھے، لیکن اب تو میلے ہو گئے ہوں گے۔'' اس جملے کا بہت اثر ہوا میرے دل پر۔ یہ جملہ کوئی ماں ہی کہہ سکتی تھی۔ ماں جو روز اپنے بیٹے کو دھلے ہوئے صاف کپڑے پہناتی تھی اس نے سوچا ہو گا کہ سات دنوں بعد ان کا کیا حال ہو گیا ہو گا۔ بچے کا والد خبر لکھوانے آتا تو وہ کپڑوں کا رنگ سفید ہی بتاتا۔ تو یہ ماں ہی سوچ سکتی ہے اور کہہ سکتی ہے۔
لوگ بینظیر کو بتانے آئے تھے
منو بھائی کا ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو دونوں سے اچھا تعلق رہا۔ کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب دوہری شخصیت کے مالک تھے۔ ان پر اپنے جاگیردار والد سرشاہنواز خان اور غریب ماں ، دونوں کا اثر تھا۔ اس لیے کبھی وہ اپنے والد کی طرح جاگیردار بن جاتے تھے اور کبھی اپنی ماں کی طرح غریبوں کے ہمدرد۔ لیکن آخری عمر میں ماں ان کے کام آئی، جب ان کا انتقال ہوا وہ اپنی ماں کی گود میں تھے۔ بینظیر صاحبہ تک پیپلز پارٹی کا دور اچھا تھا، لیکن اب وہ والی پیپلز پارٹی نہیں رہی۔ 2007ء میں بینظیر کے استقبال میں آنے والے جو لوگ دھماکے میں شہید ہوئے انہوں نے ٹوٹی ہوئی ہوائی چپلیں پہن رکھی تھیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا تعلق غریب طبقے سے تھا۔ وہ لوگ بینظیر کو دیکھنے نہیں آئے تھے بلکہ اس کو یہ دکھانے اور بتانے آئے تھے کہ وہ آج بھی غریب ہیں اور انہیں آج بھی روٹی، کپڑا اور مکان کی ضرورت ہے۔ تو غریب اور مزدور طبقے کو بہت توقعات تھیں بینظیر صاحبہ سے۔
سندس فائونڈیشن سے وابستگی
منو بھائی گزشتہ دس سال سے خیراتی ادارے سندس فائونڈیشن سے وابستہ ہیں اور یہاں بلامعاوضہ کام کرتے ہیں۔یہ ادارہ خون کی جان لیوا بیماریوں میں مبتلا بچوں کا مفت علاج کرتا ہے۔ منو بھائی بتاتے ہیں، ''اس بیماری میں مبتلا چالیس فیصد بچوں کی مائوں کو ان کے خاوند چھوڑ چکے ہیں، یہ بھی وجہ ہے جس کی وجہ سے میں نے اس ادارے کی مدد کا فیصلہ کیا اور اس ادارے کو خود اپنی خدمات کی پیشکش کی۔'' اس ادارے میں اب چھ ہزار بچے رجسٹرڈ ہیں جن کو مسلسل انتقال خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ بصورت دیگر ان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ کزن میرج بھی اس بیماری کا ایک سبب ہے۔ اس بیماری سے بچنے کا حل یہ ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کے خون کے ٹیسٹ کرا کے اس بات کی تسلی کر لی جائے کہ بچوں کو ایسی کوئی بیماری لاحق ہونے کا امکان نہیں۔ منو بھائی کہتے ہیں، ''دوسرے صحافیوں اور لوگوں کو بھی ان فلاحی سرگرمیوں کی طرف آنا چاہیے اور جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں ان سے تعاون کرنا چاہیے۔ یہ حقیقی خدمت ہے۔''