غلط معاشی اعدادوشمار اورحکومتی ساکھ……
حکومت اداروں کی ساکھ پر توجہ نہیں دے گی تو غلط اعدادوشمار سے...
کسی بھی شخص یا ادارے کی ساکھ معاشرے میں بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے، یہ ساکھ ہی ہے کہ آج اعلیٰ عدلیہ پرملک کا ہر شخص یقین کرنے کو تیار ہے، ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایک آواز پر لاکھوں لوگ چیف جسٹس کے لیے سڑکوں پر نکل آئے، یہ ساکھ ہی ہے کہ عبدالستارایدھی جب اپیل کرتے ہیں تو لوگ عطیات دینے کیلیے گھروں سے نکل پڑتے ہیں، ملک میں جب بھی کوئی آفت آ پڑتی ہے تو فوج کو کیوں طلب کیاجاتا ہے کیونکہ لوگ اور اعلیٰ حکام فوج کی صلاحیتوں پر اعتبار کرتے ہیں، کوئی بھی شخص ہو یا ادارہ اگر اس میں سے ساکھ نکال دی جائے تو پھراس کی باتیں یا اقدامات بے وقعت ہو جاتے ہیں۔
پولیس کو دیکھ لیجیے لوگوں پر طرح طرح کی مشکلات آ پڑتی ہیں مگر لوگ ان محافظوں کے پاس نہیں جاتے جنھیں صرف اسی مقصد کیلیے تنخواہ دی جاتی ہے، ساکھ بہت ہی اہم ہوتی ہے، اس پر کسی شخص یا ادارے کو سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے اور ایسے کسی بھی عمل یا اقدام سے گریز کرنا چاہیے جس سے اس کی ساکھ متاثر ہو ورنہ وہ معاشرے پر بوجھ بن جائے گا، ہمارے ملک میں ایسے اداروں کی کمی نہیں جن کی ساکھ بہت خراب ہے اور وہ معاشرے میں اپنا بھرم قائم نہ کرسکنے کے باعث زیرعتاب ہیں۔
اداروں میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں مگر خراب ساکھ ہی کی وجہ سے گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس رہا ہے، بعض ادارے تو ایسے ہیں کہ ان کی خراب ساکھ کی وجہ سے حکومت کو بڑی شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جیسے فیڈرل بورڈ آف ریونیو۔یہ وہ ادارہ ہے جس نے مالی سال 2010-11میں اپنی غلط بیانی سے بڑا مسئلہ کھڑا کردیا تھا، پہلے ایف بی آر نے دعویٰ کیاکہ ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرلیاگیا ہے پھر کہا ہدف حاصل نہیں ہوا، اس پر حکومت کو شرمندگی اٹھانا پڑی، اگر ایف بی آرجیسا اہم ادارہ بھی ٹھیک ڈیٹا جمع نہیں کرسکتا اور وہ بھی اصل معلومات چھپاتا ہے یا اس کے اعدادوشمار میںبھی غلطیاں بلکہ حماقتیں ہوں تو پھر بجٹ کیسے تیار ہوگا، اس کی بنیاد کون سا ڈیٹا بنے گا۔
ابھی اسی جمعہ کی بات ہے کہ حکومت کے ایک اور اہم ادارے پاکستان بیورو شماریات نے ہفتہ وار مہنگائی کے حوالے سے ڈیٹا جاری کیا جس کو دیکھ کر ہنسی نکل گئی، بیورو شماریات کے ڈیٹا کے مطابق رمضان المبارک کے پہلے ہفتے میں مہنگائی کی شرح میں کمی ہوئی اور وہ بھی معمولی نہیں بلکہ 0.79 فیصد کمی ہوئی، پورے ملک میں مہنگائی سے عوام بلبلا رہے ہیں، جس چیز کو ہاتھ لگائو اس کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے، سبزیاں پھل کپڑے پٹرولیم مصنوعات گوشت وغیرہ کی قیمتیں متوسط طبقے کی قوت خرید سے باہر نکلتی جا رہی ہیں مگر بیوروشماریات کہتا ہے کہ مہنگائی کی شرح میں کمی ہوئی، یہ بات ماننے والی نہیں، کوئی نہیں مانے گا، شاید بیوروشماریات افراط زر یا مہنگائی کی شرح کا اندازہ مختلف شہروں میں انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ پرائس لسٹوں کی بنیاد پر ڈیٹا مرتب کرتا ہے۔
ان پرائس لسٹوں پر جن پر کبھی عملدرآمد ہی نہیں ہوتا، کہیں توگڑ بڑ ضرور ہے، چلیے اس کو بھی جانے دیجیئے، ایک اور ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2008 سے 2011کے دوران غربت کی شرح میں 4.8 فیصد کمی ہوئی ہے اور لاکھوں افراد غربت سے نکل آئے، یہ وہ رپورٹ ہے جو بجائے خود ایک مذاق ہے، 2008 سے 2011 کا دور پاکستانی تاریخ کا بدترین معاشی دور ہے جب معاشی ترقی کی رفتار انتہائی کم ترین سطح پرآگئی، جب صنعتی شعبہ سکڑگیا، جب توانائی کا شعبہ بدترین بحران کی زد میں آگیا، کئی ادارے بیساکھیوں پر کھڑے ہیں، صنعتیں بیرون ملک منتقل ہو رہی ہیں، اہم شہروں میں مارکیٹس آئے روز بند ہو جاتی ہیں، کاروبار تباہ ہو رہا ہے، شاید ہی معیشت کا کوئی شعبہ ہو جو ترقی کر رہا ہو پھر غربت میں کمی کیسے ہوئی، معاشی سرگرمیوں میں توسیع کے بغیر ایسا ناممکن ہے۔
پاکستان میں کتنے خاندان ہیں جن کا انحصار بیرون ملک سے ترسیلات زر کی شکل میں آنے والی آمدنی پر ہے مگر یہ گھرانے بھی ایسے نہیں جن کا کمانے والا جب باہر گیا تب وہ غربت میں گھرے ہوئے ہوں، یہ ایسے گھرانے ہیں جنھوں نے باہر جانے والے کے اخراجات برداشت کیے اور یہ اخراجات اچھے خاصے ہوتے ہیں اس لیے انھیں غریب توہرگز نہیں کہا جاسکتا، ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ غربت سے نجات کیلیے کسی بھی طرح رقم کا بندوبست کرکے باہر جانے کی کوشش کرتے ہوں مگر غریب آدمی جب باہر کمانے کیلیے جاتا ہے تو اسمگلروں کے ہاتھ چڑھ جاتا ہے اور سرحدوں پر قتل کردیا جاتا ہے یا پھر سمندر میں ڈبودیاجاتا ہے۔
اس کی بنیادی وجہ غربت سے کسی بھی قیمت پر چھٹکارے کی سوچ ہی ہوتی ہے لیکن اس کا نتیجہ نہایت بھیانک، نہ جانے کتنے لوگ اس بدقسمتی کا شکار ہوچکے خیریہ ایک الگ مسئلہ ہے مگر صرف ترسیلات زر کی آمد میں اضافے سے ملک میں غربت کم نہیں ہوسکتی، ملک میں غربت صرف اس وقت کم ہوسکتی ہے جب صنعتیں ترقی کریں، مارکیٹس میں کاروبار چلے اور معاشی نمو کو فروغ ملے اور جب ایسا کہیں نظر نہیں آرہا تو نہ جانے وہ کون سا فارمولہ ہے جس نے غربت کم کردی، یہ طریقہ کوئی بھی ہو مگر اس سے بھی ساکھ تو حکومت کی خراب ہوگی، اگر حکومت اداروں کی ساکھ پر توجہ نہیں دے گی تو غلط اعدادوشمار سے حقائق تو تبدیل نہیں ہونگے مگر پالیسی سازی پر ضرور اثرپڑے گا، غلط پالیسیاں کب تک حکومت کو چلاسکیں گی، شاید اس وقت تک جب تک عوام اجتماعی طور پر کوئی بہتر فیصلہ نہ کرلیں۔
پولیس کو دیکھ لیجیے لوگوں پر طرح طرح کی مشکلات آ پڑتی ہیں مگر لوگ ان محافظوں کے پاس نہیں جاتے جنھیں صرف اسی مقصد کیلیے تنخواہ دی جاتی ہے، ساکھ بہت ہی اہم ہوتی ہے، اس پر کسی شخص یا ادارے کو سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے اور ایسے کسی بھی عمل یا اقدام سے گریز کرنا چاہیے جس سے اس کی ساکھ متاثر ہو ورنہ وہ معاشرے پر بوجھ بن جائے گا، ہمارے ملک میں ایسے اداروں کی کمی نہیں جن کی ساکھ بہت خراب ہے اور وہ معاشرے میں اپنا بھرم قائم نہ کرسکنے کے باعث زیرعتاب ہیں۔
اداروں میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں مگر خراب ساکھ ہی کی وجہ سے گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس رہا ہے، بعض ادارے تو ایسے ہیں کہ ان کی خراب ساکھ کی وجہ سے حکومت کو بڑی شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جیسے فیڈرل بورڈ آف ریونیو۔یہ وہ ادارہ ہے جس نے مالی سال 2010-11میں اپنی غلط بیانی سے بڑا مسئلہ کھڑا کردیا تھا، پہلے ایف بی آر نے دعویٰ کیاکہ ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرلیاگیا ہے پھر کہا ہدف حاصل نہیں ہوا، اس پر حکومت کو شرمندگی اٹھانا پڑی، اگر ایف بی آرجیسا اہم ادارہ بھی ٹھیک ڈیٹا جمع نہیں کرسکتا اور وہ بھی اصل معلومات چھپاتا ہے یا اس کے اعدادوشمار میںبھی غلطیاں بلکہ حماقتیں ہوں تو پھر بجٹ کیسے تیار ہوگا، اس کی بنیاد کون سا ڈیٹا بنے گا۔
ابھی اسی جمعہ کی بات ہے کہ حکومت کے ایک اور اہم ادارے پاکستان بیورو شماریات نے ہفتہ وار مہنگائی کے حوالے سے ڈیٹا جاری کیا جس کو دیکھ کر ہنسی نکل گئی، بیورو شماریات کے ڈیٹا کے مطابق رمضان المبارک کے پہلے ہفتے میں مہنگائی کی شرح میں کمی ہوئی اور وہ بھی معمولی نہیں بلکہ 0.79 فیصد کمی ہوئی، پورے ملک میں مہنگائی سے عوام بلبلا رہے ہیں، جس چیز کو ہاتھ لگائو اس کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے، سبزیاں پھل کپڑے پٹرولیم مصنوعات گوشت وغیرہ کی قیمتیں متوسط طبقے کی قوت خرید سے باہر نکلتی جا رہی ہیں مگر بیوروشماریات کہتا ہے کہ مہنگائی کی شرح میں کمی ہوئی، یہ بات ماننے والی نہیں، کوئی نہیں مانے گا، شاید بیوروشماریات افراط زر یا مہنگائی کی شرح کا اندازہ مختلف شہروں میں انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ پرائس لسٹوں کی بنیاد پر ڈیٹا مرتب کرتا ہے۔
ان پرائس لسٹوں پر جن پر کبھی عملدرآمد ہی نہیں ہوتا، کہیں توگڑ بڑ ضرور ہے، چلیے اس کو بھی جانے دیجیئے، ایک اور ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2008 سے 2011کے دوران غربت کی شرح میں 4.8 فیصد کمی ہوئی ہے اور لاکھوں افراد غربت سے نکل آئے، یہ وہ رپورٹ ہے جو بجائے خود ایک مذاق ہے، 2008 سے 2011 کا دور پاکستانی تاریخ کا بدترین معاشی دور ہے جب معاشی ترقی کی رفتار انتہائی کم ترین سطح پرآگئی، جب صنعتی شعبہ سکڑگیا، جب توانائی کا شعبہ بدترین بحران کی زد میں آگیا، کئی ادارے بیساکھیوں پر کھڑے ہیں، صنعتیں بیرون ملک منتقل ہو رہی ہیں، اہم شہروں میں مارکیٹس آئے روز بند ہو جاتی ہیں، کاروبار تباہ ہو رہا ہے، شاید ہی معیشت کا کوئی شعبہ ہو جو ترقی کر رہا ہو پھر غربت میں کمی کیسے ہوئی، معاشی سرگرمیوں میں توسیع کے بغیر ایسا ناممکن ہے۔
پاکستان میں کتنے خاندان ہیں جن کا انحصار بیرون ملک سے ترسیلات زر کی شکل میں آنے والی آمدنی پر ہے مگر یہ گھرانے بھی ایسے نہیں جن کا کمانے والا جب باہر گیا تب وہ غربت میں گھرے ہوئے ہوں، یہ ایسے گھرانے ہیں جنھوں نے باہر جانے والے کے اخراجات برداشت کیے اور یہ اخراجات اچھے خاصے ہوتے ہیں اس لیے انھیں غریب توہرگز نہیں کہا جاسکتا، ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ غربت سے نجات کیلیے کسی بھی طرح رقم کا بندوبست کرکے باہر جانے کی کوشش کرتے ہوں مگر غریب آدمی جب باہر کمانے کیلیے جاتا ہے تو اسمگلروں کے ہاتھ چڑھ جاتا ہے اور سرحدوں پر قتل کردیا جاتا ہے یا پھر سمندر میں ڈبودیاجاتا ہے۔
اس کی بنیادی وجہ غربت سے کسی بھی قیمت پر چھٹکارے کی سوچ ہی ہوتی ہے لیکن اس کا نتیجہ نہایت بھیانک، نہ جانے کتنے لوگ اس بدقسمتی کا شکار ہوچکے خیریہ ایک الگ مسئلہ ہے مگر صرف ترسیلات زر کی آمد میں اضافے سے ملک میں غربت کم نہیں ہوسکتی، ملک میں غربت صرف اس وقت کم ہوسکتی ہے جب صنعتیں ترقی کریں، مارکیٹس میں کاروبار چلے اور معاشی نمو کو فروغ ملے اور جب ایسا کہیں نظر نہیں آرہا تو نہ جانے وہ کون سا فارمولہ ہے جس نے غربت کم کردی، یہ طریقہ کوئی بھی ہو مگر اس سے بھی ساکھ تو حکومت کی خراب ہوگی، اگر حکومت اداروں کی ساکھ پر توجہ نہیں دے گی تو غلط اعدادوشمار سے حقائق تو تبدیل نہیں ہونگے مگر پالیسی سازی پر ضرور اثرپڑے گا، غلط پالیسیاں کب تک حکومت کو چلاسکیں گی، شاید اس وقت تک جب تک عوام اجتماعی طور پر کوئی بہتر فیصلہ نہ کرلیں۔