بھٹو کا طرز حکمرانی

ایوب خان نے انتخابات کروائے تو وہ بنیادی ڈیموکریسی کی بنیاد پر کروائے

mohsin014@hotmail.com

ہمارا وطن 1947 میں بطور ایک مسلم ریاست کے وجود میں آیا۔ 1947 سے لے کر 1958 تک یہ سول حکمرانی کے طور پر چلتا رہا، اس میں آئین بھی بنا مگر جمہوریت قائم نہ رہی۔ اکتوبر 1958 کو اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل محمدایوب خان نے ٹھیک گیارہ سال کے بعد مارشل لاء لگادیا اور ایبڈو کے ذریعے سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگادی۔ پورے ملک کو ون یونٹ کے طور پر چلایا اور پانچ سال کے بعد 1962 کا آئین بنایا اور نئے انتخابات کرائے، جس میں جنرل محمد ایوب خان بھی بطور صدر امیدوار بنے اور ان کے مقابلے پر کراچی سے قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے انتخاب لڑا، انھیں بھرپور حمایت مشرقی اور مغربی پاکستان میں ملی مگر شاید یہ انتخابات صرف دنیا کو دکھانے کے لیے کیے گئے اور انتخابی نتائج کے اعلان ریڈیو پر اتنی جلدی جاری ہوئے کہ ابھی پولنگ اسٹیشنوں میں گنتی بھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔

اس وقت محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے پر یہ فتوے دلائے کہ اسلامی ریاست میں کوئی عورت حکمراں نہیں ہوسکتی۔ الغرض اس غیرشفاف انتخابات کو پاکستان کے عوا م نے قبول نہ کیا مگر طاقت اور اختیار کے بل بوتے پر فیلڈ مارشل ایوب خان نے 1962 کے صدارتی آئین کے تحت حکمرانی کی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ راشن بندی ہوا کرتی تھی، ہر ایک کو آٹا، چاول، شکر ایک مخصوص کوٹے کے تحت لینا پڑتا تھا۔ راشن کی دکانوں پر لمبی لائنیں لگی ہوتی تھیں یا پھر لوگ یہ اناج بلیک سے خریدتے تھے۔ کراچی جیسے شہر میں سوائے چند بستیوں کے ہر بستی بجلی، پانی سے محروم تھی۔ نہ سڑکوں کا جال بچھا تھا، نہ ہی بہت تفریح گاہیں تھیں۔ مگر اس شہر میں ٹرانسپورٹ بھی تھی اور سرکلر ریلوے بھی چلتی تھی۔ ان جنرلوں کے زمانے میں کورنگی، نیوکراچی آباد ہوا۔ پورے ملک میں گڈگورننس ضرور تھی، امن وآشتی تھی لیکن سب سے زیادہ معاشی اور اقتصادی دباؤ اس ملک کے درمیانے طبقے پر تھا اور آج بھی وہ دباؤ برقرار ہے۔ جب مہنگائی میں اضافہ ہوا تو حکومت کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔

اس طرح جب ایوب خان کے خلاف بھرپور احتجاج ہوا، جس کا کریڈٹ ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے، جنھوں نے وزیرخارجہ کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا اور تاشقند معاہدے پر تنقید کرکے حزب اقتدار سے حزب مخالف میں آگئے۔ ایوب خان نے انتخابات کروائے تو وہ بنیادی ڈیموکریسی کی بنیاد پر کروائے، یعنی پورے ملک میں بی ڈی ممبرز منتخب ہوئے۔ پھر ان بی ڈی ممبرز کے ذریعے جنرل ایوب خان صدر بنے۔ لیکن جب ذوالفقارعلی بھٹو نے ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی تو اس وقت مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان کے قوم پرستوں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ آخر وہ وقت آیا جب ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔انھوں نے ایک خطرناک قدم یہ اٹھایا کہ اقتدار اپنے بنائے ہوئے 1962 آئین کے مطابق اسپیکر اسمبلی کو دینے کے بجائے اس وقت کے فوج کے کمانڈر انچیف جنرل آغا محمد یحییٰ کو دے دیا، جس کے نتیجے میں ملک میں دوسرا مارشل لاء لگا، پھر ہندوستان نے ایک طے شدہ سازش کے تحت پاکستان پر جنگ مسلط کی۔


اس کا مقصد یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کردیا جائے اور اس میں مشرقی پاکستان کے قوم پرست مجیب الرحمن مولانا بھاشانی جیسے سیاسی رہنماؤں نے ہندوستان کی مدد سے مشرقی پاکستان کو دسمبر 1971 میں بنگلہ دیش بنادیا۔ اسی سازشی جنگ کے نتیجے میں مغربی پاکستان کے بعض علاقوں پر ہندوستانی فوج قابض ہوگئی اور ہمارے 90 ہزار فوجی اس کی قید میں چلے گئے۔ پورا ملک ایک گومگو کی کیفیت میں تھا، مگر اس وقت کی قیادت اقتدار کو طول نہیں دینا چاہتی تھی اور خاص طور پر جنرل آغا محمد یحییٰ کو اقتدار سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اس لیے پاکستان کا سب سے بڑا شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخاب 1970 کا انتخاب تھا اور اس وقت کے جنرلز نے بڑی عقلمندی سے کام لیا اور اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی پی پی پی کو منتقل کردیا، کیونکہ پی پی پی ہی پاکستان کی سیاسی پارٹی تھی، جس نے پاکستان میں تمام صوبوں میں سیٹیں حاصل کیں، خاص طور پر سندھ اور پنجاب کا یہ احسان بھلایا نہیں جاسکتا کہ انھوں نے اپنا ووٹ قوم پرستی کی بنیاد پر نہیں بلکہ وفاق پرستی کی بنیاد پر ایک سندھی لیڈر ذوالفقارعلی بھٹو کو دیا، جو بہت قابل اور ذہین ہونے کے ساتھ عوامی مقبولیت کا ریکارڈ توڑ چکے تھے۔

وہ ایک کرشماتی شخصیت تھے۔ اس کا اندازہ پوری قوم کو جب ہوا جب انھوں نے ہندوستان میں اندرا گاندھی سے مذاکرات کیے اور اتنے کامیاب مذاکرات کیے کہ دنیا حیران رہ گئی۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں مقبوضہ علاقے بھی خالی ہوئے اور 90 ہزار فوجی رہا ہوئے اور 20 سالہ شملہ معاہدہ ہوا، لیکن پاکستان کوکچھ بھی نہ دینا پڑا۔ حالانکہ ذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف ہمیشہ غلط پروپیگنڈہ کیا گیا۔ اس وقت جب شملہ معاہدہ ہوا، جس میں 20 سال تک جنگ نہ کرنے اور اپنے معاملات میں کسی تیسری قوت کی مداخلت کو برداشت نہ کرنے کا معاہدہ تھا، لیکن بھٹو مخالفین یہ کہتے تھے کہ بھٹو نے کشمیر کا سودا کردیا ہے۔ اگر یہ الزام سچ ہوتا تو اندرا گاندھی نے ضیاالحق سے کئی بار اس شملہ معاہدے کو معطل کرنے کا کہا مگر ضیاالحق نے بھی معطل نہ کیا۔ اسی معاہدے نے پاکستان کو موقع دیا کہ وہ ایک جوہری قوت بن جائیں۔ہماری یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ وطن میں ذہین، تعلیم یافتہ اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے رہنماؤں کی کمی رہی، خاص طور پر ایسے رہنما کہیں نظر نہیں آتے جو پاکستان پرست ہوں۔ جو بھی نظرآتا ہے وہ قوم پرست ہے، جب کہ نظریہ پاکستان کا تقاضا ہے کہ اس وطن میں پاکستان پرست سیاست ہونی چاہیے۔

آج پاکستان میں ایک بھی پاکستان پرست سیاستدان نہیں ہے اور اگر کسی میں یہ صلاحیت ہے بھی تو اس کے پیچھے نہ پارٹی ہے، نہ عوام۔ پاکستان میں ذوالفقارعلی بھٹو جیسی قیادت دوبارہ پیدا نہیں ہوئی۔ صرف ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو نے یقیناً ذوالفقارعلی بھٹو کے سیاسی افکار کو آگے بڑھایا، مگر بدقسمتی سے انھیں فری ہینڈ والی حکومت نہ ملی۔ انھوں نے پاکستان میں عوام کے لیے بہت کچھ کرنا چاہا مگر کر نہ سکی۔ تاریخ گواہ ہے جتنا عوامی کام ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنے پہلے دورمیں کردیا، عشرعشیر بھی کسی نے نہ کیا۔ پاکستان کو آئین دیا، پاکستان میں شناختی کارڈ کا اجرا ایشیا میں پہلی دفعہ ذوالفقار علی بھٹو نے کیا۔ پاسپورٹ کا حصول ہو یا ڈومیسائل، سب میں اتنی آسانیاں پیدا کردیں کہ ہر کس و ناکس مستفیض ہوا۔

تعلیمی اداروں کو قومیانے سے غریب بھی علم حاصل کرنے لگا۔ ان کی پالیسی یہ تھی عام لوگوں کو سہولتیں دی جائیں، جب کہ اب حال یہ ہے کہ عام لوگوں کو تو کیا ایک متوسط طبقے کو بھی کوئی سہولت حاصل نہیں ہے۔ اب جو بھی حکمران آتا ہے، وہ اپنے اہل وعیال کا، اپنے عزیزوں کا اور اپنی پارٹی ورکروں کا خیال کرتا ہے، عوام کا کوئی خیال نہیں۔ ہمارے لیے یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں بھی ہر شعبہ ہائے زندگی میں ترقی نظر آتی ہے، مگر ہائے بدقسمتی ہمارے وطن میں ترقی کے بجائے تنزلی نظر آتی ہے۔ پورا ملک 13000 ارب روپے کا مقروض ہے، یعنی فی پاکستانی ایک لاکھ پندرہ ہزار کا مقروض ہے۔ مگر شہروں کا حال یہ ہے کہ خستہ حال سڑکیں ہیں، سیوریج لائن خراب ہیں، ٹرانسپورٹ غائب ہے، بے ہنگم ٹریفک چل رہا ہے، تمام فٹ پاتھ پر اتنی تجاوزات ہیں کہ پیدل چلنا دشوار ہے۔ گڈگورننس نام کی شے نہیں۔ اگر آپ ذوالفقارعلی بھٹو کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو ان کے طرز حکمرانی کو اختیار کیجیے۔
Load Next Story