شہریوں کے بنیادی حقوق و فرائض
اسلامی ریاست کے ہر شہری کا یہ اہم حق ہے کہ اس کی عزت و آبرو کا تحفظ کیا جائے کسی کی عزت پر حملہ نہیں کیا جاسکتا
اسلامی ریاست میں شہریوں کو جن بنیادی حقوق کی ضمانت دی جاتی ہے ان کو تین عنوانات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ (1)تمام شہریوں کے مشترکہ حقوق۔ (2)مسلمانوں کے خصوصی حقوق۔ (3) غیر مسلموں کے خصوصی حقوق۔
اسلام نے انسان کو مکرم، معظم اوراشرف قرار دیا ہے۔انسانی جان کو مقدس امانت اورانتہائی محترم قرار دے کر اور ایک انسان کے قتل ناحق کو تمام انسانوں کا قتل ٹھہراکر تحفظ جان کی اہمیت پر جس طرح زور دیا ہے، اس کی نظیر دنیا کے کسی مذہبی اخلاقی یا قانونی لٹریچر میں نہیں ملتی۔
اسلامی ریاست میں ایسی تمام نجی املاک جو جائز ذرایع سے حاصل شدہ ہو جن سے شریعت کے مقرر کردہ حقوق و واجبات اور حکومت کے عائد کردہ مستقل اور عارضی نوعیت کے ٹیکس ادا کیے جاچکے ہوں نیز جنھیں حرام اور ناجائز مشاغل وکاروبار میں صرف نہ کیا جارہا ہو حکومت کی مداخلت سے قطعی محفوظ ہوںگی۔ حکومت کی ذاتی ملکیت کو اجتماعی مفاد کے تحت مالک کی مرضی سے یا جبراً بھی معروف معاوضہ ادا کرکے حاصل کرسکتی ہے۔ تحفظ ملکیت کے حق کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے ''جو شخص اپنا مال بچانے میں مارا جائے وہ شہید ہے''
اسلامی ریاست کے ہر شہری کا یہ اہم حق ہے کہ اس کی عزت و آبرو کا تحفظ کیا جائے کسی کی عزت پر حملہ نہیں کیا جاسکتا۔ کسی کی تذلیل و توہین نہیں کی جاسکتی۔ زنا اور تہمت زنا قانونی جرم ہیں، اگر کوئی اپنی عزت و عصمت بچانے کی خاطر دست درازی کرنے والے کو قتل بھی کردے تو قاتل کوکوئی سزا نہیں۔
اسلامی ریاست میں شہریوں کی نجی زندگی کو مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اور گھروں کی چار دیواری کو ایک محفوظ قلعے کی حیثیت حاصل ہوتی ہے جس میں مداخلت کا کسی کوحق نہیں پہنچتا۔ اسلامی ریاست کسی بنیاد پر جاسوسی کا جال پھیلانے،کسی شہری کے پیچھے مخبر لگانے، لوگوں کے گھروں اور دفاتر میں آلات جاسوسی نصب کرنے، ٹیلی فون ٹیپ کرنے اور خطوط سنسر کرنے کا حق نہیں رکھتی۔
اسلامی ریاست معقول عدالتی کارروائی کے بغیر نہ کسی شہری کو کوئی سزا دے سکتی ہے نہ اسے قید کرکے آزادی سے محروم کرسکتی ہے۔ سنگین سے سنگین جرم کو بھی کھلی عدالت میں سماعت اور ملزم کو صفائی کا موقع دیے جانے کے بغیر اس کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ شک کا فائدہ ملزم کو ملے گا۔ مجردالزام پر کسی کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔
اسلامی ریاست میں شہری کو یہ حق حاصل ہوگا کہ اسے دوسروں کے قصور میں نہیں پکڑا جاسکتا۔ ملزم کی بجائے اس کے باپ، بیٹوں، ماں، بہنوں یا دوسرے عزیز و اقارب کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن نے اس سلسلے میں قطعی ضابطہ مقرر کردیا ہے۔ ''کوئی دوسرے کا وزن نہیں اٹھائے گا'' (انعام)
اسلامی ریاست میں بسنے والے تمام انسان قانون کی نظر میں برابر ہوںگے۔ حضرت عمرؓ نے ابو موسیٰ اشعریؓ، عمروؓ بن العاص، ان کے بیٹے عبداﷲ اور خود اپنے بیٹے عبدالرحمن پر حد جاری کرکے قانونی مساوات کی ایسی مثالیں قائم کیں جن کی نظیر تاریخ میں شاذ و نادر ہی ملتی ہے۔ حضرت زیدؓ بن ثابت کی عدالت میں حضرت عمر فاروقؓ کا مدعا علیہ کی حیثیت سے حاضر ہونا اور حضرت علیؓ کا مدعی کی حیثیت سے قاضی شریحؓ کی عدالت میں پیش ہونا اسلامی ریاست میں قانونی اور عدالتی مساوات کی روشن مثالیں ہیں۔
اسلامی ریاست کا مقصد وجود ہی قیام عدل ہے، اسلامی ریاست میں ہر شخص عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔ بٹن دباتے ہی انصاف کے دروازے اس کے لیے آسانی سے کھل جاتے ہیں۔ انصاف ہر شہری کو ہوا کی طرح مفت ملتا ہے۔ اس میں نہ کورٹ فیس ہوتی ہے اور نہ وکیل کی خوشامد اور معاوضہ۔ سعودی عرب میں آج بھی انصاف امیر و غریب سب کے لیے یکساں، سہل اور بلا قیمت ہے۔ اسلام روئے زمین پر واحد نظریہ ہے جس نے انصاف کو ناقابل فروخت اور ناقابل تجارت قرار دیا۔
اسلامی ریاست میں کوئی شہری روٹی، کپڑا، مکان، علاج، تعلیم اور دوسری بنیادی ضروریات زندگی سے محروم نہیں رہ سکتا۔ معاشی انصاف حکومت کا فرض ہے حکومت ہر شہری کی سرپرست اور ولی ہے۔ بقول عمرؓ فاروق ''اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مرجائے تو اس کی ذمے داری عمرؓ (سربراہ مملکت) پر عائد ہوتی ہے''
اسلامی ریاست میں شہری حقوق (Civil Rights) کی حد تک تمام شہری برابر ہوتے ہیں۔ لیکن سیاسی حقوق (Political Rights) کے معاملے میں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان امتیاز ہوتا ہے۔ اسلامی ریاست ایک اصولی اور نظریاتی ریاست ہوتی ہے، کوئی اصولی ریاست پالیسی تشکیل کرنے والے اہم عہدے ان افراد کو نہیں دے سکتی جو ان اصولوں پر ایمان نہیں رکھتے۔ غیر مسلم اپنے آپ کو خدا کا خلیفہ نہیں سمجھتا اور نہ ہی اسلامی اصولوں کے عملی نفاذ کے لیے خدا کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہے اور نہ ہی اسلام کے اصولوں اور قوانین سے وفاداری کا حلف اٹھاتا ہے۔ اسلامی ریاست میں مسلمانوں کو جو خصوصی حقوق حاصل ہوتے ہیں وہ یہ ہیں (1) صدر مملکت اور وزیراعظم لازماً مسلمان ہوںگے (2)ان کا انتخاب مسلمانوں کے ووٹ سے ہوگا (3)تمام اہم عہدے جو پالیسی کی تشکیل سے تعلق رکھتے ہیں مسلمانوں کے لیے مخصوص ہوںگے (پارلیمنٹ یا اسمبلی کے ممبران مسلمان ہی ہوںگے۔ ان حقوق کے سوا اور کوئی حق ایسا نہیں ہے جس میں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان امتیاز قائم کیا جائے۔
٭...اسلامی ریاست میں حسب ذیل خصوصی حقوق غیر مسلموں (ذمیوں) کو حاصل ہوںگے۔ (1)اسلامی ریاست وقت کے تقاضوں اور مفاد عامہ کے تحت مسلمانوں پر اضافی ٹیکس لگاسکتی ہے، ان کی املاک جبراً بھی حاصل کرسکتی ہے لیکن وہ غیر مسلموں پر شرائط معاہدہ کے بعد کوئی اضافی ٹیکس نہیں لگاسکتی نہ املاک جبراً لے سکتی ہے۔(2)اسلامی ریاست جنگ کی صورت مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت نہ کرسکے تو وہ مسلمانوں سے وصول کردہ ٹیکس واپس کرنے کی ذمے دار نہیں لیکن غیر مسلموں سے وصول کردہ ٹیکس (جزیہ) واپس کرنے کی ذمے دار ہے۔
(3)ذمیوں کی عبادت گاہوں جیسی ہیں ویسی رہنے دیا جائے گا جہاں ہیں وہاں رہنے دیا جائے گا۔(4)زنا، شراب اور سور کے معاملے میں ان پر اسلامی قانون کا اطلاق نہ ہوگا۔ (5)اہل ذمہ (غیر مسلموں) سے صلح نامہ کی شرائط کی پابندی لازمی ہوگی۔ کیسے ہی سنگین نوعیت کا جرم کرنے، جزیہ بند کرنے، مسلمانوں کو قتل کرنے، نبیؐ کی شان میں گستاخی کرنے پر بھی معاہدہ برقرار رہے گا۔ معاہدہ دشمن سے جا ملنے اور کھلم کھلا اعلان بغاوت کی صرف دو صورتوں میں ساقط ہوگا۔(6)ان کے شخصی معاملات ان کے اپنے شخصی قانون (Personal Law)کیمطابق طے کیے جائیںگے۔(7)ان کو اپنے عقیدے کیمطابق زندگی بسر کرنے اور مذہبی مراسم ادا کرنے کی مکمل آزادی ہوگی۔ (8)غیر مسلموں کو اپنے بچوں کے لیے مذہبی تعلیم کے لیے اسکول قائم کرنے اور اپنے درمیان مذہب کی تبلیغ و اشاعت کرنے، اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے کی مکمل آزادی ہوگی۔ البتہ انھیں اسلام پر تعصبانہ حملوں کی اجازت نہیں ہوگی۔
فرد اور ریاست پورے خلوص اور لگن کے ساتھ اپنے اپنے فرائض یہ ہیں (1)نیکی اور تعمیری کاموں میں حکومت سے بھرپور تعاون کیا جائے، اس کی تعریف اور حوصلہ افزائی کی جائے، حکومت سے بدی اور زیادتی کے کاموں میں ذرا برابر تعاون نہ کیا جائے۔ (2) حکومت سے تعاون اور عدم تعاون، دوستی اور دشمنی صرف خدا کی خاطر ہو۔ غیر حق میں حکومت کی حمایت نہ کی جائے۔ (3)بلا جواز شرعی حکومت سے بد گمانی، اس کے خلاف دوسروں کو اکسانا، اس کے خلاف بغض، حسد اور نفرت کی آگ بھڑکانا، اس کی کاٹ میں نہ پڑا جائے۔(4)حکومت پر کڑی نگاہ رکھی جائے اور اس کو خدا کے راستے سے ہٹنے نہ دیا جائے۔ عدل شرط امارت ہے۔
اسلام نے انسان کو مکرم، معظم اوراشرف قرار دیا ہے۔انسانی جان کو مقدس امانت اورانتہائی محترم قرار دے کر اور ایک انسان کے قتل ناحق کو تمام انسانوں کا قتل ٹھہراکر تحفظ جان کی اہمیت پر جس طرح زور دیا ہے، اس کی نظیر دنیا کے کسی مذہبی اخلاقی یا قانونی لٹریچر میں نہیں ملتی۔
اسلامی ریاست میں ایسی تمام نجی املاک جو جائز ذرایع سے حاصل شدہ ہو جن سے شریعت کے مقرر کردہ حقوق و واجبات اور حکومت کے عائد کردہ مستقل اور عارضی نوعیت کے ٹیکس ادا کیے جاچکے ہوں نیز جنھیں حرام اور ناجائز مشاغل وکاروبار میں صرف نہ کیا جارہا ہو حکومت کی مداخلت سے قطعی محفوظ ہوںگی۔ حکومت کی ذاتی ملکیت کو اجتماعی مفاد کے تحت مالک کی مرضی سے یا جبراً بھی معروف معاوضہ ادا کرکے حاصل کرسکتی ہے۔ تحفظ ملکیت کے حق کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے ''جو شخص اپنا مال بچانے میں مارا جائے وہ شہید ہے''
اسلامی ریاست کے ہر شہری کا یہ اہم حق ہے کہ اس کی عزت و آبرو کا تحفظ کیا جائے کسی کی عزت پر حملہ نہیں کیا جاسکتا۔ کسی کی تذلیل و توہین نہیں کی جاسکتی۔ زنا اور تہمت زنا قانونی جرم ہیں، اگر کوئی اپنی عزت و عصمت بچانے کی خاطر دست درازی کرنے والے کو قتل بھی کردے تو قاتل کوکوئی سزا نہیں۔
اسلامی ریاست میں شہریوں کی نجی زندگی کو مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اور گھروں کی چار دیواری کو ایک محفوظ قلعے کی حیثیت حاصل ہوتی ہے جس میں مداخلت کا کسی کوحق نہیں پہنچتا۔ اسلامی ریاست کسی بنیاد پر جاسوسی کا جال پھیلانے،کسی شہری کے پیچھے مخبر لگانے، لوگوں کے گھروں اور دفاتر میں آلات جاسوسی نصب کرنے، ٹیلی فون ٹیپ کرنے اور خطوط سنسر کرنے کا حق نہیں رکھتی۔
اسلامی ریاست معقول عدالتی کارروائی کے بغیر نہ کسی شہری کو کوئی سزا دے سکتی ہے نہ اسے قید کرکے آزادی سے محروم کرسکتی ہے۔ سنگین سے سنگین جرم کو بھی کھلی عدالت میں سماعت اور ملزم کو صفائی کا موقع دیے جانے کے بغیر اس کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ شک کا فائدہ ملزم کو ملے گا۔ مجردالزام پر کسی کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔
اسلامی ریاست میں شہری کو یہ حق حاصل ہوگا کہ اسے دوسروں کے قصور میں نہیں پکڑا جاسکتا۔ ملزم کی بجائے اس کے باپ، بیٹوں، ماں، بہنوں یا دوسرے عزیز و اقارب کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن نے اس سلسلے میں قطعی ضابطہ مقرر کردیا ہے۔ ''کوئی دوسرے کا وزن نہیں اٹھائے گا'' (انعام)
اسلامی ریاست میں بسنے والے تمام انسان قانون کی نظر میں برابر ہوںگے۔ حضرت عمرؓ نے ابو موسیٰ اشعریؓ، عمروؓ بن العاص، ان کے بیٹے عبداﷲ اور خود اپنے بیٹے عبدالرحمن پر حد جاری کرکے قانونی مساوات کی ایسی مثالیں قائم کیں جن کی نظیر تاریخ میں شاذ و نادر ہی ملتی ہے۔ حضرت زیدؓ بن ثابت کی عدالت میں حضرت عمر فاروقؓ کا مدعا علیہ کی حیثیت سے حاضر ہونا اور حضرت علیؓ کا مدعی کی حیثیت سے قاضی شریحؓ کی عدالت میں پیش ہونا اسلامی ریاست میں قانونی اور عدالتی مساوات کی روشن مثالیں ہیں۔
اسلامی ریاست کا مقصد وجود ہی قیام عدل ہے، اسلامی ریاست میں ہر شخص عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔ بٹن دباتے ہی انصاف کے دروازے اس کے لیے آسانی سے کھل جاتے ہیں۔ انصاف ہر شہری کو ہوا کی طرح مفت ملتا ہے۔ اس میں نہ کورٹ فیس ہوتی ہے اور نہ وکیل کی خوشامد اور معاوضہ۔ سعودی عرب میں آج بھی انصاف امیر و غریب سب کے لیے یکساں، سہل اور بلا قیمت ہے۔ اسلام روئے زمین پر واحد نظریہ ہے جس نے انصاف کو ناقابل فروخت اور ناقابل تجارت قرار دیا۔
اسلامی ریاست میں کوئی شہری روٹی، کپڑا، مکان، علاج، تعلیم اور دوسری بنیادی ضروریات زندگی سے محروم نہیں رہ سکتا۔ معاشی انصاف حکومت کا فرض ہے حکومت ہر شہری کی سرپرست اور ولی ہے۔ بقول عمرؓ فاروق ''اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مرجائے تو اس کی ذمے داری عمرؓ (سربراہ مملکت) پر عائد ہوتی ہے''
اسلامی ریاست میں شہری حقوق (Civil Rights) کی حد تک تمام شہری برابر ہوتے ہیں۔ لیکن سیاسی حقوق (Political Rights) کے معاملے میں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان امتیاز ہوتا ہے۔ اسلامی ریاست ایک اصولی اور نظریاتی ریاست ہوتی ہے، کوئی اصولی ریاست پالیسی تشکیل کرنے والے اہم عہدے ان افراد کو نہیں دے سکتی جو ان اصولوں پر ایمان نہیں رکھتے۔ غیر مسلم اپنے آپ کو خدا کا خلیفہ نہیں سمجھتا اور نہ ہی اسلامی اصولوں کے عملی نفاذ کے لیے خدا کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہے اور نہ ہی اسلام کے اصولوں اور قوانین سے وفاداری کا حلف اٹھاتا ہے۔ اسلامی ریاست میں مسلمانوں کو جو خصوصی حقوق حاصل ہوتے ہیں وہ یہ ہیں (1) صدر مملکت اور وزیراعظم لازماً مسلمان ہوںگے (2)ان کا انتخاب مسلمانوں کے ووٹ سے ہوگا (3)تمام اہم عہدے جو پالیسی کی تشکیل سے تعلق رکھتے ہیں مسلمانوں کے لیے مخصوص ہوںگے (پارلیمنٹ یا اسمبلی کے ممبران مسلمان ہی ہوںگے۔ ان حقوق کے سوا اور کوئی حق ایسا نہیں ہے جس میں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان امتیاز قائم کیا جائے۔
٭...اسلامی ریاست میں حسب ذیل خصوصی حقوق غیر مسلموں (ذمیوں) کو حاصل ہوںگے۔ (1)اسلامی ریاست وقت کے تقاضوں اور مفاد عامہ کے تحت مسلمانوں پر اضافی ٹیکس لگاسکتی ہے، ان کی املاک جبراً بھی حاصل کرسکتی ہے لیکن وہ غیر مسلموں پر شرائط معاہدہ کے بعد کوئی اضافی ٹیکس نہیں لگاسکتی نہ املاک جبراً لے سکتی ہے۔(2)اسلامی ریاست جنگ کی صورت مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت نہ کرسکے تو وہ مسلمانوں سے وصول کردہ ٹیکس واپس کرنے کی ذمے دار نہیں لیکن غیر مسلموں سے وصول کردہ ٹیکس (جزیہ) واپس کرنے کی ذمے دار ہے۔
(3)ذمیوں کی عبادت گاہوں جیسی ہیں ویسی رہنے دیا جائے گا جہاں ہیں وہاں رہنے دیا جائے گا۔(4)زنا، شراب اور سور کے معاملے میں ان پر اسلامی قانون کا اطلاق نہ ہوگا۔ (5)اہل ذمہ (غیر مسلموں) سے صلح نامہ کی شرائط کی پابندی لازمی ہوگی۔ کیسے ہی سنگین نوعیت کا جرم کرنے، جزیہ بند کرنے، مسلمانوں کو قتل کرنے، نبیؐ کی شان میں گستاخی کرنے پر بھی معاہدہ برقرار رہے گا۔ معاہدہ دشمن سے جا ملنے اور کھلم کھلا اعلان بغاوت کی صرف دو صورتوں میں ساقط ہوگا۔(6)ان کے شخصی معاملات ان کے اپنے شخصی قانون (Personal Law)کیمطابق طے کیے جائیںگے۔(7)ان کو اپنے عقیدے کیمطابق زندگی بسر کرنے اور مذہبی مراسم ادا کرنے کی مکمل آزادی ہوگی۔ (8)غیر مسلموں کو اپنے بچوں کے لیے مذہبی تعلیم کے لیے اسکول قائم کرنے اور اپنے درمیان مذہب کی تبلیغ و اشاعت کرنے، اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے کی مکمل آزادی ہوگی۔ البتہ انھیں اسلام پر تعصبانہ حملوں کی اجازت نہیں ہوگی۔
فرد اور ریاست پورے خلوص اور لگن کے ساتھ اپنے اپنے فرائض یہ ہیں (1)نیکی اور تعمیری کاموں میں حکومت سے بھرپور تعاون کیا جائے، اس کی تعریف اور حوصلہ افزائی کی جائے، حکومت سے بدی اور زیادتی کے کاموں میں ذرا برابر تعاون نہ کیا جائے۔ (2) حکومت سے تعاون اور عدم تعاون، دوستی اور دشمنی صرف خدا کی خاطر ہو۔ غیر حق میں حکومت کی حمایت نہ کی جائے۔ (3)بلا جواز شرعی حکومت سے بد گمانی، اس کے خلاف دوسروں کو اکسانا، اس کے خلاف بغض، حسد اور نفرت کی آگ بھڑکانا، اس کی کاٹ میں نہ پڑا جائے۔(4)حکومت پر کڑی نگاہ رکھی جائے اور اس کو خدا کے راستے سے ہٹنے نہ دیا جائے۔ عدل شرط امارت ہے۔