گمشدہ براعظم موریشیا جو کبھی ماریشس کے نیچے پایا جاتا تھا

کسی زمانے میں براعظم Mauritia کا حصہ رہا ہوگا، تحقیق

کسی زمانے میں انڈیا اور مڈغاسکر کے درمیان زمین کی ایک بہت بڑی اور عظیم الجثہ پٹی ہوا کرتی تھی، ماہرین۔ فوٹو : فائل

حال ہی میں کیے جانے والے ایک نئے مطالعے کے بعد ارضیاتی ماہرین اور سائنس دانوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ آج ہمیں جو ماریشس دکھائی دے رہا ہے، یہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ ہمارا موجودہ ماریشس دنیا کا ایک ایسا جزیرہ نما ملک ہے جو اپنے خوب صورت اور پتھریلے ساحلوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس کے ساحلوں پر شفاف نیلا سمندر اور سفید چمک دار ریت آپس میں گلے ملتی دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن یہ مقام ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ لگ بھگ تین ارب سال پہلے یہاں ایک ایسا براعظم تھا جو پورے سمندر پر چھایا ہوا تھا اور اب اس مقام پر مشرقی افریقی جزیرہ موجود ہے۔

اس حوالے سے ماہرین نے ایسے ٹھوس شواہد تلاش کیے ہیں جو ہمیں یہ بتارہے ہیں کہ اس مقام پر نیچے سمندر میں ایک براعظم چھپا ہوا تھا اور یہ براعظم کس طرح بنا تھا، اس کے بارے میں ماہرین نے یہ انکشاف کیا ہے کہ یہ براعظم آتش فشانوں کے ذریعے لے جائے گئے لاوے کی شفاف قلموں سے تیار ہوا تھا جو قدرتی عمل کے نتیجے میں خود ہی تشکیل پاگیا تھا۔

اس حوالے سے جوہانس برگ کی وٹس یونی ورسٹی میں پروفیسر لوئی ایشول اور ان کے ساتھیوں نے ایک تحقیقی مطالعہ کیا ہے۔ انہیں ماریشس کی سرزمین پر zirconian کرسٹلز ملے تھے۔ ان کی تحقیق کے مطابق یہ شفاف قلمیں ڈھائی سے تین ارب سال پرانی ہیں۔ ان ماہرین کا یہ خیال ہے کہ یہ شفاف قلمیں سطح پر ایک آتش فشاں کے پھٹنے سے وجود میں آئی تھیں اور یہ لاوے کے ذریعے وہاں تک پہنچی تھیں۔

تحقیقی ماہرین نے ان شفاف قلموں کی عمر کا اندازہ لگانے کے لیے ایک امیجنگ تیکنیک استعمال کی جسے سائنس داں اپنی زبان میں mass spectrometry کہتے ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے اپنے مطالعے اور تحقیق کے بعد یہ اندازہ لگایا کہ اب ان کے پاس ماریشس کے نیچے ایک براعظمی قشر ارض کا ٹھوس ثبوت آچکا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ دریافت بتاتی ہے کہ مذکورہ قشر ارض کسی زمانے میں براعظم Mauritia کا حصہ رہا ہوگا اور اس نے مڈغاسکر اور انڈیا کے درمیان ایک قدیم نیوکلس یا مرکزہ تشکیل دیا ہوگا۔

پروفیسر ایشول نے ''نیچر کمیونی کیشنز'' نامی میگزین میں اپنی تحقیق کے حوالے سے لکھا ہے:''ہمارے نتائج اس مقام پر کسی قدیم براعظمی قشر ارض کی موجودگی کی شہادت دے رہے ہیں جو ماریشس کے نیچے پایا جاتا تھا۔''

ماہرین کا کہنا ہے کہ ماریشس اور براعظم Mauritia کے دوسرے ملحقہ حصے جو اس قشر ارض کے ساتھ ساتھ موجود ہیں، ان سب نے ملاکر ہی اصل میں انڈیا اور مڈغاسکر کا قدیم مرکز تشکیل دیا تھا۔ لیکن ساتھ ہی ماہرین ارضیات نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ عجیب و غریب براعظم دور قدیم میں ایک نہایت خطرناک مقام ہوگا جہاں ہر طرف آتش فشانوں کا ڈھیر ہوگا اور اسی لیے اس پورے خطے کو پابندی سے آنے والے زلزلوں کے خطرات لاحق ہوں گے اور یہ جگہ کسی بھی حوالے سے پرسکون نہ رہی ہوگی۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ براعظم Mauritia مغربی انڈین سب کونٹیننت اور مشرقی مڈغاسکر کے درمیان ایک بفرزون کا کام کرتا ہوگا۔

ماہرین یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ اس پورے خطے میں ہلچل اور بھونچال کی وجہ سے ہمہ وقت ہی زلزلے اپنے جلوے دکھاتے رہے ہوں گے اور یہ سب کام چونے کے ابتدائی دور میں ہوا تھا۔

ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ براعظم Mauritia باقی پورے براعظم سے لگ بھگ 60 ملین سال پہلے الگ ہوا تھا، ورنہ اس سے پہلے یہ سب ایک تھا۔ ماہرین اور محققین کا خیال ہے کہ یہ اس خطے کا اکیلا اور واحد کیس نہیں ہے، جو اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ یہاں کسی زمانے میں کوئی اور ایسا قدیم براعظم بھی ہوتا تھا جو اصل میں آتش فشاں پھٹنے کی وجہ سے بہنے والے لاوے سے وجود میں آیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے نہ جانے کتنے ہی مقام سمندر کے اندر ابھی تک ماہرین کی نظروں سے پوشیدہ ہوں گے اور مستقبل میں ماہرین کی جدوجہد اور تحقیق کے بعد کبھی نہ کبھی وہ بھی منظر عام پر لائے جاسکتے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ہماری تحقیق کے نتائج ہمیں بتارہے ہیں کہ ایسی ہی متعدد ارضیاتی قشر اس سمندر کی پنہائیوں میں موجود ہیں جن کی کیمیاوی ماہیئت الگ الگ ہوسکتی ہے، لیکن یہ طے ہے کہ ایسے متعدد جزائر ابھی تک انسانی آنکھ سے پوشیدہ ہیں اور انہیں سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ پروفیسر ایشول نے مزید بتایا کہ ہماری نظر میں یہ نتیجہ اور انکشاف بہت اہم ہے جو ہمیں یہ موقع دیتا ہے کہ ہم ہر اس کیمیاوی عمل اور ردعمل کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ جس کے نتیجے میں قشری پرت میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے براعظم ٹوٹ کر ایک دوسرے سے الگ ہوئے یا ان کے ٹکڑے ہوئے۔ ماہرین انہیں اچھی طرح سمجھ کر ان کا تحقیقی مطالعہ بھی کرتے ہیں جس کے بعد ہمیں گزرے وقتوں کے بارے میں پوری معلومات حاصل ہوجاتی ہیں۔

اس نئے براعظم کے حوالے سے امریکی جریدے ٹائم میں ایک تازہ رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ ہم اس کے کچھ اقتباس یہاں پیش کررہے ہیں:سائنس دانوں نے ایک اور براعظم دریافت کرلیا، مگر ابھی تک وہ اس کے حوالے سے الجھن میں ہیں۔ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ سمندر کے اندر نہ جانے کب سے آرام کرنے والے اس براعظم کی اصلیت کیا ہے، یہ کہاں سے آگیا ہے؟


اس حوالے سے مسلسل تحقیق بھی ہورہی ہے اور ماہرین پرانی اور تحقیقی کتابیں بھی کھنگال رہے ہیں، وہ اس نودریافت شدہ براعظم کے بارے میں بہت کچھ جاننا چاہتے ہیں اور ٹھوس اور مصدقہ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ براعظم بالکل نیا ہے، کیا واقعی یہ نیا ہے یا یہ ماضی بعید سے موجود ہے، لیکن ہمارے ماہرین اور ہمارے سائنس دانوں کی نظریں اس تک اب پہنچی ہیں اور انہیں اس نئے براعظم کے بارے میں بالکل ابھی معلوم ہوا ہے۔

پہلی اور سب سے زیادہ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ کیا ہم اتنے عرصے سے اس براعظم کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تھے، ہمیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ ہماری زمین میں ایک براعظم ایسا بھی ہے جو ابھی تک ہماری نظروں سے اوجھل رہا ہے اور حال ہی میں اتفاقیہ طور پر ہمارے ماہرین کی نظروں میں آگیا ہے۔ بہرحال یہ سچ ہے اور اس سچائی کو اب ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا جس کے نتیجے میں ہمارے براعظموں کی تعداد بڑھ کر اب سات کی جگہ آٹھ ہوجائے گی۔ پھر سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہوچکا ہے کہ یہ نیا اور نودریافت شدہ براعظم کہاں واقع ہے اور اس کا حدود اربعہ کیا ہے۔ اس ساری معلومات کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق کے بعد ہمیں جلد ہی اس نئے براعظم کے بارے میں سب کچھ معلوم ہوجائے گا کہ یہ اتنے عرصے تک کہاں رہا اور ہم سے کیسے چھپا رہا۔

امریکی میگزین ''ٹائم'' کے مطابق یہ نیا براعظم بحرہند کے پانیوں کی تہہ میں موجود ہے، بل کہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ اصل میں ایک چھوٹی سی سمندری قوم ماریشس کے نیچے چھپا ہوا ہے اور یہ جزیرہ یعنی ماریشس کچھ زیادہ لمبا چوڑا یا بڑا نہیں ہے، بل کہ یہ تو صرف 790مربع میل پر مشتمل ہے۔

ہمارے ماہرین اور سائنس دانوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ جزیرہ یعنی ماریشس ہمیشہ ہی سے ماہرین ارضیات کے لیے ایک ریڈار کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی وجہ اس جزیرے کی زمین میں قدرتی طور پر موجود کشش ثقل کا دھکا ہے۔ اور چوں کہ یہ اس کشش ثقل کے اس حصے میں واقع ہے جہاں اس کی ٹیکنوٹکس پلیٹ کی کشش بہت زیادہ قوت والی ہے، اسی لیے یہاں بہت سی ارضیاتی تبدیلیاں بھی ہوئی ہوں گی اور اب تک ہورہی ہیں۔ لیکن اس حوالے سے سچ یا حقیقت کیا ہے، اس بارے میں سائنس داں اور ماہرین ابھی تک کچھ بھی کہنے سے قاصر ہیں۔ لیکن اتنا وہ ضرور کہہ رہے ہیں کہ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہاں کسی زمانے میں ارضیاتی ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے اور اسی وجہ سے اس جزیرے میں اتنی زیادہ ارضیاتی کشش یا کشش ثقل موجود ہے جس کی وجہ سے ہی ماضی میں کبھی یہاں موجود رہنے والے براعظم میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہوگی اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر سمندر کے پانیوں میں بکھر گیا ہوگا اور ماضی میں کسی وقت نظروں سے اوجھل ہوگیا ہوگا۔ پھر اس کے بعد اسی ارضیاتی تبدیلی کی وجہ سے ماریشس سمندر سے کسی قیمتی موتی کی طرح سطح پر ابھرا ہوگا۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہماری کھوج اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے نتائج اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ ماریشس کے نیچے ہی اس براعظم کی تہہ یا پرت واقع ہے۔ ماہرین نے اس جزیرے پر ملنے والے زرقون نامی دھات کے ٹکڑے جمع کرنے کے بعد ایک خاص تیکنیک سے اس کی عمر معلوم کی ہے، جس کے مطابق ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ٹکڑے کم از کم تین ارب سال پرانے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ جزیرہ ماریشس درحقیقت صرف آٹھ ملین سال پرانا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ زرقون کے ٹکڑے ماریشس کے ساتھ نہیں بنے بل کہ یہ اس سے بھی بہت پہلے سے وہاں موجود تھے، جنہیں زیرآب آتش فشاں پھٹنے کے بعد لاوا اپنے ساتھ بہا لایا تھا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ کسی زمانے میں انڈیا اور مڈغاسکر کے درمیان زمین کی ایک بہت بڑی اور عظیم الجثہ پٹی ہوا کرتی تھی، جو ایک براعظم کا حصہ تھی، یہ براعظم Gondwanaland کہلاتی تھی۔

پھر 200ملین سال قبل Gondwanaland ٹوٹ کر متعدد ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا اور پھر یہ سب ٹکڑے پانی میں ڈوب گئے، بعد میں اسی ڈوبی ہوئی زمین کے ٹکڑوں نے ایک "mascons" تخلیق کیا، یہ کیا ہے؟ یہ اب آتش فشانوں کا مجموعہ ہے جس نے بعد میں ماریشس پیدا کیا اور آتش فشانوں کے پھٹنے کے بعد اس کے لاوے کے ذریعے زرقون کے ٹکڑے بہتے ہوئے ماریشس تک پہنچے۔

گُم شدہ براعظمMAURITIA
٭ خیال ہے کہ ماریشس کے نیچے موجود قشر ارض کسی زمانے میں براعظم MAURITIA کا حصہ رہا ہوگا۔
٭یہ براعظم یقینی طور پر ایک خطرناک جگہ ہوگی جو آتش فشاں پہاڑوں سے ڈھکا ہوگا اور اسی لیے یہ ہمہ وقت مسلسل زلزلوں کی زد میں بھی رہا ہوگا۔


٭براعظمMAURITIA مغربی ہندوستان کے ذیلی حصے اور مشرقی مڈغاسکر کے درمیان این بفرزون کا کام کرتا تھا۔ یہ اس کی مخصوص اور متعدد بناوٹ یا ساخت کی وجہ سے یہاں آتش فشاں کے پھٹنے کے واقعات اکثر و بیش تر پیش آتے رہتے تھے۔ واقعات کا یہ سلسلہ چونے کے دور کے اوائل سے ہی پیش آتا رہا تھا۔
٭ ماہرین کا خیال ہے کہ براعظم MAURITIA باقی پورے براعظم سے لگ بھگ 60ملین سال پہلے الگ ہوا تھا۔
Load Next Story